اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 09 اپریل 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یورپ، چین اور بھارت سمیت دنیا کے دیگر ممالک پر جو اضافی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا تھا ان کا نفاذ بدھ کی نصف شب سے شروع ہو گیا ہے۔ اس سے چین، بھارت اور یورپی یونین سمیت امریکہ کے بہت سے تجارتی شراکت داروں کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔

نئے محصولات نے یورپی یونین اور جاپان جیسے اتحادیوں کی درآمدات کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس سے عالمی تجارتی جنگ کا خدشہ پیدا ہو گیا۔

ٹیرف واپس نہ لیے تو چین پر مزید محصولات، ٹرمپ

چین کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کا امکان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کی جانب سے 34 فیصد ٹیرف کے جواب میں مزید پچاس فیصد محصولات نافذ کرنے کی دھمکی دی تھی اور وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرولین لیویٹ نے تصدیق کر دی ہے کہ نصف شب کے فوری بعد سے چینی درآمدات پر 104 فیصد ٹیرف نافذ العمل ہو گیا۔

(جاری ہے)

امریکہ نے چین پر 54 فیصد محصولات پہلے ہی عائد کرنے کا اعلان کر رکھا تھا اور اس طرح اب بعض چینی مصنوعات پر مجموعی طور پر 104 فیصد کا اضافی ٹیرف نافذ ہو گیا ہے۔ بعض مخصوص اشیا کو البتہ اس اضافی ٹیرف سے استثنی بھی حاصل ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ کا مزید کہنا تھا، "اگر چین کوئی معاہدہ کرتا ہے، تو (صدر ڈونلڈ ٹرمپ) ناقابل یقین حد تک مہربان ہوں گے، تاہم وہ وہی کرنے جا رہے ہیں جو امریکی عوام کے لیے بہترین ہو۔

"

واضح رہے کہ چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں 34 فیصد امریکی اشیاء پر محصولات نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر امریکہ نے سخت ناراضی ظاہر کی اور ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر منگل تک چین نے انہیں واپس نہیں لیا تو بیجنگ کے خلاف پچاس فیصد مزید ٹیرف عائد کیے جائیں گے۔

امریکی محصولات: پاکستان میں عام آدمی پر اثرات کیا ہوں گے؟

چین نے ٹرمپ کی جانب سے 50 فیصد اضافی ٹیرف کی دھمکی کے جواب میں کہا تھا کہ وہ "اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے جوابی اقدامات" کرے گا۔

البتہ لیویٹ نے کہا کہ چین بھاری محصولات سے جواب دے کر "غلطی کر رہا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ نے منگل کی صبح اپنی ٹیم کے ساتھ ملاقات کی اور "انہوں نے انہیں ہدایت کی ہے کہ وہ ہر اس ملک کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق تجارتی معاہدے کریں جو اس انتظامیہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کی خواہش رکھتا ہو۔"

لیویٹ نے ان ممالک کے بارے میں، جو ممکنہ طور پر ٹرمپ کے ساتھ ٹیرف کی شرحوں پر بات چیت کر رہے ہیں، کہا، "ہمیں اپنی بہترین پیشکش لائیں اور وہ سنیں گے۔

"

سعودی سٹاک مارکیٹ پانچ سال کی نچلی ترین سطح پر، نصف ٹریلین ریال کا نقصان

چین کا موقف

چین کی جانب سے ابھی تک اس تازہ پیش رفت پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم گزشتہ روز بیجنگ نے کہا تھا کہ "چین کے خلاف ٹیرف میں اضافے کی امریکی دھمکی ایک غلطی پر دوسری غلطی ہے، جس نے پھر سے امریکہ کی بلیک میلنگ فطرت کو بے نقاب کر دیا ہے۔

اگر امریکہ اپنا یہی راستہ اختیار کرنے پر اصرار کرتا ہے تو چین بھی آخر تک لڑے گا۔"

ابھی تک چین نے بھی اس جنگ میں پیچھے ہٹنے پر کھل کر بہت کم آمادگی ظاہر کی ہے اور بیجنگ ٹرمپ کے ان اقدام کو "دھمکی" کے طور پر بیان کرتا ہے۔

بیجنگ کا کہنا ہے، "اگر امریکہ اپنی، چین اور باقی دنیا کے مفادات کی پرواہ نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اور ٹیرف اور تجارتی جنگ لڑنے کے لیے پرعزم ہے، تو پھر چین کی جانب سے بھی آخر تک اس پر ردعمل جاری رہے گا۔

"

ٹرمپ ٹیرف: دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کا رجحان

یورپی کمیشن کی سربراہ کی چینی وزیر اعظم سے بات چیت

یورپی یونین کو 20 فیصد اضافی امریکی محصولات کا سامنا ہے تاہم بلاک نے ابھی تک اس پر اپنے ردعمل کے بارے میں کھل کر کچھ بھی نہیں کہا ہے۔

اسی بڑھتے ہوئے تجارتی تناؤ کے درمیان یورپی کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈیر لائن نے منگل کے روز چینی وزیر اعظم لی کیانگ کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔

ان کے دفتر کے ایک بیان کے مطابق فان ڈیر لائن نے ’’مزید کشیدگی سے بچنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے موجودہ صورتحال کے لیے مذاکراتی حل کا مطالبہ کیا۔

یورپی یونین کی سربراہ نے "دنیا کی دو بڑی منڈیوں کے طور پر یورپ اور چین کی ذمہ داری پر زور دیا کہ وہ ایک ایسے مضبوط اصلاح شدہ تجارتی نظام کی حمایت کریں، جو آزاد، منصفانہ اور سب کے لیے براری کے مواقع کی بنیاد پر قائم ہو۔

"

انہوں نے امریکہ کے ساتھ کشیدگی کے نتیجے میں دونوں فریقوں کے درمیان پیدا ہونے والے تجارتی امور کے ممکنہ مسائل سے باخبر رہنے کے لیے ایک طریقہ کار کے قیام پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

ٹرمپ کا بڑے پیمانے پر عالمی ٹیرف کا اعلان، پاکستان بھی متاثر

اس سے قبل یورپی یونین کے وزرائے تجارت نے پیر کے روز لکسمبرگ میں ملاقات کی تھی، جو کہ طے شدہ وقت سے کچھ ہفتے پہلے ہوئی، تاکہ امریکہ کی طرف سے عائد کردہ محصولات کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے کوئی حل نکالا جا سکے۔

یہ ہنگامی اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یورپی یونین کی تقریباً تمام برآمدات پر 20 فیصد محصولات میں اضافے کے اعلان کے بعد ہوا۔

مارچ میں امریکہ نے یورپ سے آنے والے ایلومینیم اور اسٹیل پر ٹیرف کا اعلان کیا تھا، جس کے جواب میں بدھ کے روز امریکی اشیا پر 25.

7 بلین یورو کے مجوزہ ٹیرف پیکج پر ووٹنگ کی توقع ہے۔

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے بھی اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا ہے کہ وہ امریکہ کے تجارتی شراکت داروں پر محصولات عائد کرنے کے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔

ماکروں نے مصر کے سرکاری دورے کے دوران کہا، ’’مقصد ایسی صورتحال تک پہنچنا ہے، جہاں سے صدر ٹرمپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ، ’’اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ایک ایسے مرحلے سے گزرنا پڑے، جہاں ہمیں جواب دینے اور وضاحت کرنی پڑے، تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘

فرانسیسی رہنما نے کہا،’’فرانس اور یورپ کبھی بھی افراتفری نہیں چاہتے تھے۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے ٹیرف "ایک برا خیال اور تجارتی خسارے کے معاملے میں ایک برا ردعمل ہے۔" مہنگائی اور کساد بازاری کا خطرہ

اس تجارتی جنگ سے امریکہ میں اہم اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں زبردست اضافے کا خدشہ ہے، جس میں کپڑوں کی قیمتوں میں تقریبا 33 فیصد کا تخمینہ ہے۔ تجزیہ کار متنبہ کر رہے ہیں کہ اس سے امریکہ میں اشیا کی فروخت میں کمی اور تجارت سکڑنے سے بیرونی ملکوں کی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے ایک تازہ سروے سے پتہ چلا ہے کہ 73 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ امریکی تجارتی شراکت داروں پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بڑے پیمانے پر محصولات عائد کرنے کی وجہ سے اگلے چھ مہینوں میں روزمرہ استعمال آنے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔

گزشتہ ہفتے صدر کے اعلان سے عالمی اسٹاک مارکیٹوں میں زبردست جھٹکے محسوس کیے گئے اور بہت سے ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ ان اقدام سے قیمتیں بڑھیں گی اور عالمی کساد بازاری کا سبب بن سکتی ہے۔

سروے میں حصہ لینے والوں میں سے 57 فیصد نے کہا کہ وہ نئے ٹیرف کے خلاف ہیں۔ سروے کے جواب دہندگان میں سے ایک چوتھائی ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے حامی بھی شامل تھے۔

تاہم، تقریباً 40 فیصد نے ٹرمپ کے نقطہ نظر کی حمایت کی، جب کہ 52 فیصد نے وائٹ ہاؤس کے اس موقف کی حمایت کی کہ امریکہ کے عالمی تجارتی شراکت دار اس سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔

امریکہ: غیر ملکی کاروں پر 'مستقل' اضافی محصولات کا اعلان

بھارت پر بھی ٹیرف کا برا اثر

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر 26 فیصد ٹیرف کا اطلاق بدھ کے روز سے ہو گیا۔ گزشتہ ہفتے ٹرمپ کے باہمی ٹیرف کے اعلان کے بعد سے بھارتی بازار حصص میں زبردست اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا۔

مودی حکومت کی کابینہ آج اس مسئلے پر ایک اہم میٹنگ کر رہی ہے، جس میں اس کے اثرات کو کم کرنے کے طریقوں پر غور و خوض کیا جائے گا۔

بھارتی حکومت نے اس معاملے پر اب تک محتاط انداز اپنایا ہے نئی دہلی کی جانب سے امریکہ پر جوابی محصولات عائد کرنے کا امکان بہت کم ہے۔

بھارت پہلے ہی بہت سی امریکی اشیا پر ٹیرف کم کر چکا ہے اور ڈیجیٹل سروسز پر ٹیکس میں کمی کر دی ہے، جسے 'گوگل ٹیکس' کہا جاتا ہے۔

بعض بھارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے اعلان کردہ بڑے پیمانے کے محصولات سے بہت سے بھارت کے حریف برآمد کنندگان زیادہ متاثر ہوں گے اور اس طرح بھارت کو مزید مواقع فراہم ہو سکتے ہیں۔

ص ز/ ش ر (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ محصولات عائد کرنے تجارتی شراکت یورپی یونین کے جواب میں کی جانب سے امریکہ کے سے امریکہ انہوں نے متاثر ہو کا اعلان ٹیرف کا ٹرمپ کے کے ساتھ ٹرمپ کی رہے ہیں کرتا ہے کرنے کا ٹیرف کے چین نے نے کہا کے لیے کے روز چین کی ہو گیا تھا کہ

پڑھیں:

امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران

امریکہ کی مداخلت پسندانہ و فریبکارانہ پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایرانی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ انتہاء پسند امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے بلند و بالا تصورات پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں جبکہ کوئی بھی سمجھدار و محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کبھی یقین نہیں کرتا کہ جو ایران کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کیخلاف گھناؤنے جرائم کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہو! اسلام ٹائمز۔ ایرانی وزارت خارجہ نے ملک میں بڑھتی امریکی مداخلت کے خلاف جاری ہونے والے اپنے مذمتی بیان میں انسانی حقوق کی تذلیل کے حوالے سے امریکہ کے طویل سیاہ ریکارڈ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکومت کو انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات کے بارے تبصرہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے اپنے بیان میں تہران نے تاکید کی کہ ایرانی وزارت خارجہ، (16) ستمبر 2022ء کے "ہنگاموں" کی برسی کے بہانے جاری ہونے والے منافقت، فریبکاری اور بے حیائی پر مبنی امریکی بیان کو ایران کے اندرونی معاملات میں امریکہ کی جارحانہ و مجرمانہ مداخلت کی واضح مثال گردانتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ 

ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ کوئی بھی سمجھدار اور محب وطن ایرانی، ایسی کسی بھی حکومت کے "دوستی و ہمدردی" پر مبنی بے بنیاد دعووں پر کسی صورت یقین نہیں کر سکتا کہ جس کی پوری سیاہ تاریخ؛ ایرانی اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت اور ایرانی عوام کے خلاف؛ 19 اگست 1953 کی شرمناک بغاوت سے لے کر 1980 تا 1988 تک جاری رہنے والی صدام حسین کی جانب نسے مسلط کردہ جنگ.. و ایرانی سپوتوں کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال اور 1988 میں ایرانی مسافر بردار طیارے کو مار گرانے سے لے کر ایرانی عوام کے خلاف ظالمانہ پابندیاں عائد کرنے اور ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے میں غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ ملی بھگت.. نیز گذشتہ جون میں انجام پانے والے مجرمانہ حملوں کے دوران ایرانی سائنسدانوں، اعلی فوجی افسروں، نہتی ایرانی خواتین اور کمسن ایرانی بچوں کے قتل عام تک.. کے گھناؤنے جرائم سے بھری پڑی ہو!!

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ غیور ایرانی قوم، اپنے خلاف امریکہ کے کھلے جرائم اور سرعام مداخلتوں کو کبھی نہ بھولیں گے، ایرانی وزارت خارجہ نے کہا کہ امریکہ؛ نسل کشی کی مرتکب ہونے والی اُس غاصب صیہونی رژیم کا سب سے بڑا حامی ہونے کے ناطے کہ جس نے صرف 2 سال سے بھی کم عرصے میں 65 ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہریوں کو قتل عام کا نشانہ بنایا ہے کہ جن میں زیادہ تر خواتین و بچے شامل ہیں، اور ایک ایسی انتہاء پسند حکومت ہونے کے ناطے کہ جس کی نسل پرستی و نسلی امتیاز، حکمرانی و سیاسی ثقافت سے متعلق اس کی پوری تاریخ کا "اصلی جزو" رہے ہیں؛ انسانی حقوق کے اعلی و ارفع تصورات پر ذرہ برابر تبصرہ کرنے کا حق نہیں رکھتا!

تہران نے اپنے بیان میں مزید تاکید کی کہ ایران کے باخبر و با بصیرت عوام؛ انسانی حقوق پر مبنی امریکی سیاستدانوں کے بے بنیاد دعووں کو دنیا بھر کے کونے کونے بالخصوص مغربی ایشیائی خطے میں فریبکاری پر مبنی ان کے مجرمانہ اقدامات کی روشنی میں پرکھیں گے اور ملک عزیز کے خلاف جاری امریکی حکمراں ادارے کے وحشیانہ جرائم و غیر قانونی مداخلتوں کو کبھی فراموش یا معاف نہیں کریں گے!!

متعلقہ مضامین

  • اسٹاک ایکسچینج میں تیزی کا رجحان برقرار، انڈیکس میں 200 پوائنٹس سے زائد اضافہ
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • امریکہ ہر جگہ مسلمانوں کے قتل عام کی سرپرستی کر رہا ہے، حافظ نعیم
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  • ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی