مردان:

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے کہا ہے کہ ہم نے گزشتہ 13 ماہ میں ایک پیسہ بھی قرض نہیں لیا بلکہ 50 ارب روپے کا قرض اتارا ہے، ہمارے اقدامات کی بدولت  خیبرپختونخوا ملک کا امیر ترین صوبہ بن گیا ہے۔

دورہ مردان میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ عوام کو سہولیات گھر کی دہلیز پر فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، ہم اسپتال میں علاج، اسکول میں تعلیم اور دفتر میں سہولیات کی دستیابی کے وژن کے تحت کام کر رہے ہیں، اسپتال وہ ہوتا ہے جس میں علاج و معالجے کی سہولیات دستیاب ہوں، صرف عمارت اسپتال نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام پر ہی خرچ کر رہےہیں، سرکار کا پیسہ عوام کا پیسہ ہے عوام اسے اون کریں اور ترقیاتی منصوبوں کے معیار کو یقینی بنانے میں حکومت کی مدد کریں، جب ہم نے حکومت سنبھالی تو صحت کارڈ کے تحت علاج معطل اور  17 ارب روپے کے بقایاجات تھے، اسی دیگر محکموں میں اربوں روپے کے بقایاجات تھے جو ہم ادا کر رہے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے وژن کے مطابق ہم نے جو اقدامات کیے ان کی بدولت خیبر پختونخوا ملک کا امیر ترین صوبہ بن گیا ہے، ہم نے اصلاحات کیں اور وہ پیسہ خزانے میں جمع کر رہے ہیں جو پہلے سسٹم میں غائب ہوتا تھا، ہم نے گزشتہ 13 ماہ میں ایک پیسہ بھی قرض نہیں لیا بلکہ 50 ارب روپے کا قرض اتارا ہے۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہے قرضوں پر چلنے والی قومیں خودمختار اور خوددار نہیں ہوتیں، آئندہ سال کا بجٹ ہمارے وژن کے مطابق ہوگا، اس میں وہی منصوبے ہوں گے جن کا محور عوام کی فلاح ہوگی، کوشش ہوگی جو منصوبہ شروع کیا جائے اسے مقررہ ٹائم لائنز میں ہی مکمل کیا جائے، ہم ان ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کر رہے ہیں جو سالوں سے چل رہے تھے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ بڑی ترقیاتی اسکیمیں سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ہونگی جبکہ چھوٹے کاموں کے لیے نمائندوں کو 50 50 کروڑ روپے دیئے جائیں گے، آئندہ بجٹ میں ہر حلقے کو دو دو ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز ملیں گے، این ایف سی کی مد میں 256 ارب روپے اضافی  سالانہ ہمارا آئینی حق بنتا ہے جو نہیں دیا جا رہا۔

علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ہم اپنے حقوق کے حصول کے لیے ہر فورم پر اپنا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑ رہے ہیں، صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے ایک ہوکر بھرپور جدو جہد کی ضرورت ہے، ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کے بہت قریب ہیں اور پورا یقین ہے مل کر صوبے کو ہر لحاظ سے خود کفیل بنائیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کر رہے ہیں ارب روپے

پڑھیں:

سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251101-03-3

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

عالم ِ اسلام کی فکری و سیاسی تاریخ میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام ایک ایسے مفکر، مصلح اور مجاہد ِ قلم کے طور پر روشن ہے جس نے بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات کو نہ صرف فکری سمت عطا کی بلکہ مسلمانانِ برصغیر کے سیاسی شعور کو ایک منظم نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ مولانا مودودیؒ کے افکار صرف مذہبی تعلیمات تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک جامع اسلامی نظامِ حیات، ریاست، معیشت، عدل، اور سیاست کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی فکری جدوجہد کا آغاز ایسے زمانے میں کیا جب برصغیر سیاسی غلامی، فکری انتشار اور تہذیبی زوال کا شکار تھا۔ 1920ء کی دہائی میں مغربی فلسفہ، قومیت، جمہوریت، لادینیت، اور سرمایہ داری کے نظریات مسلمانوں کے ذہن و فکر پر چھا رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد سیاسی سامراجیت اور فکری الحاد کے ذریعے دنیا پر اپنی فکری بالادستی قائم کر لی تھی۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک جامع فکری نظام پیش کیا، جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی کہ: ’’اسلام صرف عبادت یا مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل تہذیبی و سیاسی نظامِ زندگی ہے‘‘۔

مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست کا تصور محض مذہبی حکومت کے طور پر نہیں بلکہ خلافت ِ الٰہیہ کے تصور کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے نزدیک حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اور ریاست کا کام محض اس حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ یہ تصور جدید جمہوریت سے مختلف ہے، کیونکہ جمہوریت میں اقتدار عوام کا ہوتا ہے، جب کہ مولانا کے نزدیک اقتدار شرعی اصولوں کے تابع ایک امانت ہے۔ ان کی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ اور ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں یہ تصور انتہائی وضاحت سے بیان ہوا کہ اسلام میں اقتدار ذاتی مفاد نہیں بلکہ اجتماعی امانت ہے۔ یہی نظریہ بعد میں مصر، ترکی، ایران، سوڈان اور دیگر مسلم ممالک کی اسلامی تحریکوں کی فکری اساس بنا۔

قیامِ پاکستان سے قبل مولانا مودودیؒ نے مسلم لیگ کی سیاست پر تنقیدی نظر رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ محض قومیت یا جغرافیہ کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ممکن نہیں۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے اس نوخیز ریاست کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھرپور فکری و سیاسی جدوجہد کی۔ 1941ء میں قائم ہونے والی جماعت ِ اسلامی ان کے نظریاتی وژن کی عملی تعبیر تھی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلا منظم نظریاتی سیاسی پلیٹ فارم ثابت ہوئی۔ 1953ء کی تحریک ِ ختم ِ نبوت اور 1974ء میں اس مسئلے کے آئینی حل تک جماعت ِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے فکری اثرات نمایاں رہے۔ انہوں نے آئین سازی کے عمل میں بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے مطابق ہو، اور بالآخر 1973ء کے آئین میں قرآن و سنت کو بالادست قانون تسلیم کرنے کی دفعات اسی فکری دباؤ کا نتیجہ تھیں۔

آج کے دور میں جب عالمی سیاست نیولبرل ازم، سرمایہ داری، اور عسکری بالادستی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے، مولانا مودودیؒ کے افکار ایک متبادل فکری ماڈل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام صرف مذہبی اخلاقیات کا نظام نہیں بلکہ عالمی عدل و امن کا ضامن سیاسی و معاشی نظام بھی ہے۔ مغربی دنیا کے کئی مفکرین مثلاً John Esposito, Wilfred Cantwell Smith اور Olivier Roy نے اپنے تجزیات میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مودودیؒ کے پیش کردہ ’’اسلامک آئیڈیالوجی‘‘ نے بیسویں صدی کے سیاسی فلسفے میں اسلامی انقلابی شعور کی نئی لہر پیدا کی۔

آج جب پاکستان میں سیاست مصلحت، کرپشن، اور ذاتی مفاد کے گرد گھوم رہی ہے، مولانا مودودیؒ کے نظریات اصول پسندی، عدل، احتساب، اور اسلامی طرزِ حکمرانی کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ دین ہے۔ یہی فلسفہ آج کے نوجوانوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے لیے راہِ عمل ہے۔ ان کی فکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عسکری طاقت پر انحصار کے بجائے فکری استحکام کو قوموں کی اصل قوت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ علم، اخلاق، تنظیم اور کردار کو امت ِ مسلمہ کی ترقی کا بنیادی ستون قرار دیتے رہے۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کو محض مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ زندگی کے ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کیا۔ ان کا فکری ماڈل آج بھی پاکستان اور امت ِ مسلمہ کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے بشرطیکہ ہم ان کے افکار کو محض کتابوں میں محفوظ رکھنے کے بجائے عملی سیاست، معیشت اور قانون سازی میں نافذ کریں۔ ’’اگر اسلام کو واقعی نظامِ حیات کے طور پر اپنایا جائے تو دنیا میں عدل، امن، مساوات اور انسانیت کا سنہری دور واپس آ سکتا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور ہر اس ذہن کو جھنجھوڑتا ہے جو سمجھتا ہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے الگ ہیں۔

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • مریم نواز سے ساہیوال ڈویژن کے ارکان اسمبلی کی ملاقات، ترقیاتی کاموں پر اظہار اطمینان
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے کابینہ ممبران کے محکموں کا اعلان کردیا
  • وزیر اعلی سہیل آفریدی کا ان ہائو س کمیٹی کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کا جرگہ بلانے کا فیصلہ
  • گورنر خیبرپختونخوا سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ملاقات،‘متحد ہو کر صوبے کو پرامن بنائیں گے’
  • سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
  • سہیل آفریدی کو وزیراعلی بننے پر مبارکباد، ملکر دہشت گردی کا مقابلہ کرینگے، وزیراعظم
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کے نام کا اعلان اسلام آباد سے نہیں بلکہ کشمیر سے ہوگا، بلاول بھٹو
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے حالیہ بیانات ملکی سلامتی کے منافی ہیں، خواجہ آصف