شہری اربوں روپے مالیت کی گاڑیوں، موٹرسائیکلوں سے محروم
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
سی پی ایل سی نے سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران کراچی میں لوٹ مار کی تفصیل جاری کردی
کروڑوں مالیت کی 537گاڑیوں اور 12ہزار 182موٹر سائیکلوں سے شہریوں کو ہاتھ دھونا پڑا
شہر میں گزشتہ ماہ مارچ کے مہینے میں بھی لوٹ مار کی وارداتوں میں شہری بھاری مالیت کی 160 گاڑیوں اور 4179 موٹر سائیکلوں سے محروم کر دیے گئے جبکہ اس دوران شہریوں سے مجموعی طور پر 1312 موبائل فونز بھی چھین لیے گئے جبکہ رواں سال کے ابتدائی 3 ماہ جنوری ، فروری اور مارچ میں مجموعی طور پر کروڑوں روپے مالیت کی 537 گاڑیوں اور 12 ہزار 182 موٹر سائیکلوں سے شہریوں کو ہاتھ دھونا پڑا جبکہ اسی 3 ماہ کے دوران شہریوں سے مجموعی طور 4300 موبائل فون بھی چھین لیے گئے۔ پولیس افسران کے کرائم میں کمی کے دعوے اپنی جگہ لیکن شہریوں سے لوٹ مار کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ سی پی ایل سی کی جانب سے گزشتہ ماہ مارچ کے مہینے میں شہریوں سے لوٹ مار کی وارداتوں سے متعلق اعداد شمار جاری کیے گئے ہیں جس کے مطابق گزشتہ ماہ شہریوں کو مجموعی طور پر 160 گاڑیوں سے محروم ہونا پڑا جس میں 21 گاڑیاں شہر کی سڑکوں سے چھینی جبکہ 139 گاڑیوں کو چوری کرلیا گیا۔گزشتہ ماہ شہریوں سے مجموعی طور پر 4179 موٹر سائیکلیں چوری و چھینی گئیں جس میں 574 موٹر سائیکلیں چھینی جبکہ 3605 موٹر سائیکلیں چوری کی گئیں اس دوران شہریوں سے 1312 موبائل فونز بھی چھینے گئے۔گزشتہ ماہ اغوا برائے تاوان کی ایک واردات جبکہ بھتہ خوری کی 9 وارداتیں رپورٹ ہوئیں اس دوران شہر میں قتل و غارت گری کے دوران 42 شہریوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔نئے سال 2025 کے ابتدائی 3 ماہ جنوری ، فروری اور مارچ کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو 3 ماہ کے دوران مجموعی طور پر شہریوں کو کروڑوں روپے مالیت کی 537 گاڑیوں سے محروم ہونا پڑا جس میں 88 گاڑیاں چھینی اور 449 گاڑیاں چوری کی گئیں۔اسی طرح سے 3 ماہ کے دوران شہریوں سے مجموعی طور پر 12 ہزار 182 موٹر سائیکل سے محروم ہونا پڑا جس میں 1740 موٹر سائیکلیں چھینی جبکہ 10 ہزار 242 موٹر سائیکلوں کو چوری کرلیا گیا ، 3 ماہ کے دوران شہریوں سے مجموعی طور پر 4 ہزار 300 موبائل فونز چھین لیے گئے۔سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 3 ماہ کے دوران شہر میں قتل و غارت گری کی وارداتوں میں 132 افراد جاں بحق ، اغوا برائے تاوان کی 5 جبکہ بھتے کے مجموعی طور پر 24 واقعات رپورٹ ہوئے۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
اپریل میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہری واپس اپنے ملک چلے گئے: وزارت داخلہ
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز (اے سی سی) کے ملک چھوڑنے کی حکومتی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان چھوڑ چکے ہیں۔
ڈان نیوز نے غیر ملکی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے حوالے سے بتایا کہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں سینکڑوں افغان شہریوں کو اپنے سامان کے ساتھ طورخم اور چمن بارڈر عبور کرتے دیکھا گیا۔
حکومت پاکستان کی جانب سے 31 مارچ سے ان افغان شہریوں کی ملک بدری کی دوسری مہم کا آغاز کیا تھا جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھا (ایک شناختی دستاویز جو 2017 میں پاکستانی اور افغان حکومتوں نے مشترکہ طور پر جاری کی تھی)۔
دراصل یہ 2023 میں شروع کی گئی مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکیوں کی وطن واپسی تھا جس کے تحت پہلے مرحلے میں ان تمام افغان باشندوں کو ملک بدر کیا گیا جن کے پاس شناختی ثبوت موجود نہیں تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی جانب سے کی جانے والی یہ ملک بدریاں افغانستان میں طالبان حکومت پر دباو¿ ڈالنے کی کوشش ہے، جنہیں اسلام آباد کی جانب سے سرحد پار حملوں میں اضافے کا ذمہ دارٹھہرایا جاتا ہے۔
وزارت داخلہ کے مطابق ’اپریل 2025 کے دوران ایک لاکھ 529 افغان شہری پاکستان سے واپس اپنے ملک جاچکے ہیں۔27 سالہ اللہ رحمٰن نے طورخم بارڈر پر اے ایف پی کے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ’میں پاکستان میں پیدا ہوا اور کبھی افغانستان نہیں گیا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں پولیس مجھے اور میرے خاندان کو ذلیل نہ کرے اور اب ہم بے بسی کے عالم میں افغانستان واپس جا رہے ہیں‘۔افغانستان کے وزیر اعظم حسن اخوند نے پاکستان کے ’یک طرفہ اقدامات‘ کی سخت مذمت کی جب کہ اس سے ایک روز قبل وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے افغان شہریوں کی واپسی کے معاملے پر کابل کا دورہ کیا تھا۔
افغان شہریوں کی اکثریت رضاکارانہ طور پر واپس جارہی ہے تاکہ زبردستی ملک بدری سے بچ سکیں لیکن اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق صرف اپریل میں پاکستان میں 12 ہزار 948 گرفتاریاں کی گئیں جو گزشتہ پورے سال کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران لاکھوں افغان شہری اپنے ملک کی صورتحال سے فرار ہوکر پاکستان میں داخل ہوئے جبکہ 2021 میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری پاکستان آئے۔
افغان شہریوں کی ملک بدری کی اس مہم کو وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد افغان آبادی کی میزبانی سے اکتاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔
41 سالہ حجام تنویر احمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغانی یہاں پناہ لینے آئے تھے لیکن پھر نوکریاں کرنے لگے، انہوں نے کاروبار کھول لئے اور پاکستانیوں سے نوکریاں چھین لیں جو پہلے ہی جدوجہد کر رہے ہیں۔دوسری جانب یو این ایچ سی آر نے کا کہنا ہے کہ ملک بدر کئے جانے والے افغان شہریوں میں نصف سے زائد بچے ہیں جب کہ سرحد عبور کرنے والوں میں خواتین اور لڑکیاں بھی شامل ہیں جو ایک ایسے ملک میں داخل ہورہی ہیں جہاں انہیں سیکنڈری تعلیم کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں کئی شعبوں میں کام کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
2023 میں واپسی کے پہلے مرحلے کے دوران دستاویزات نہ رکھنے والے لاکھوں افغانوں کو زبردستی سرحد پار بھیج دیا گیا تھا۔مارچ میں اعلان کردہ دوسرے مرحلے میں حکومت پاکستان نے 8 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کے رہائشی پرمٹ منسوخ کر دیے اور ان ہزاروں افراد کو بھی خبردار کیا جو کسی تیسرے ملک میں منتقلی کے منتظر ہیں کہ وہ اپریل کے آخر تک ملک چھوڑ دیں۔
ایک دکاندار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان وہ کام کرتے ہیں جسے کرتے ہوئے پاکستانیوں کو شرمندگی محسوس ہوتی ہے، جیسے کچرا اٹھانا وغیرہ لیکن جب وہ چلے جائیں گے تو یہ کام کون کرے گا؟
عوام کو اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کی ضرورت ہے ، عمران خان
مزید :