Express News:
2025-10-10@08:49:41 GMT

بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

بلوچستان کے حوالے سے ہمارے پاس تین آپشن ہیں۔اول، بغیر کسی سمجھوتے کے حالات کی درستگی کے لیے مکمل طاقت کا استعمال کیا جائے، جو لوگ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں، ان کو سختی سے کچلا جائے اور کوئی نرمی نہ کی جائے۔دوئم، بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں بلوچستان میں جو بھی سیاسی یا غیر سیاسی فریقین ہیں ان کو اعتماد میں لے کر ایک بڑا سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

اس طبقہ کے بقول طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں بلکہ بگاڑ پیدا کرے گا۔سوئم، ہمیں طاقت کا استعمال اور سیاسی حکمت عملی کو ساتھ ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا ، جہاں طاقت ضروری ہو وہیں اس کا استعمال کیا جائے لیکن مستقل حکمت عملی سیاسی بنیادوں پر تلاش کرنا ہی ریاست کے مفاد میں ہوگا۔ ماضی میں ہم نے بلوچستان میں کئی آپریشن کیے ہیں۔لیکن کوئی مستقل حل نہیں نکلا بلکہ حالات زیادہ بگاڑ کا شکار ہو گئے ہیں۔

سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی اور جمہوری لوگ بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں موجود سیاسی قیادت یا حکومت کے درمیان بد اعتمادی کا یہ ماحول حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے۔وفاقی حکومت یا بلوچستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش یا عملی اقدام ابھی تک نظر نہیں آیا جس میں انھوں نے بلوچستان کی تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ہو ۔

بظاہر ایسے لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ایک جانب کھڑی ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کی حکومت مخالف سیاسی قیادت ہے جو حکومت سے مختلف سوچ رکھتی ہے۔حالانکہ حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہی ہونی چاہیے تھی کہ بلوچستان میں موجود تمام علاقائی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاتا۔ حالانکہ سردار اختر مینگل،محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ماضی میں مختلف سیاسی ادوار میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا باقاعدہ حصہ رہے ہیں۔ لیکن اب حکومت اور بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتوں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔

ہمیں بلوچستان کے مسئلے کے حل میں وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کا کوئی بڑا سیاسی کردار دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ایسے لگتا ہے کہ وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔اسی طرح ایک اور غلطی یہ کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کے حل کو محض ایک صوبائی مسئلہ سمجھ کر حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔حالانکہ یہ محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق قومی سیاست یا ملک کے سیاسی ، سیکیورٹی اور معاشی عدم استحکام سے جڑاہوا ہے۔

بلوچستان کے حالات کی بہتری میں محض طاقت کے استعمال کی حکمت عملی کسی صورت کارگر ثابت نہیں ہوگی بلکہ اس کا نتیجہ مزید سیاسی انتشار اور بگاڑ کی صورت میں پیدا ہوگا۔بالخصوص جب ہمارا موقف یہ ہے کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں بھارت کی مداخلت سر فہرست ہے اور جو لوگ بلوچستان میں بیٹھ کر پاکستان کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں ان کو کسی نہ کسی شکل میں بھارت کی معاونت اور سہولت کاری حاصل ہے تو ایسے میں ہمیں سیاسی محاذ پر اور زیادہ ذمے داری کے ساتھ صوبے کے حالات کو درست کرنے کی طرف حکمت کو اختیار کرنا ہوگا۔

بھارت کی مداخلت اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے داخلی معاملات سے جڑے مسائل اور خرابیاں بھی ہمارے حالات کو خراب کرنے کے ذمے دار ہیں۔پچھلے دنوں آرمی چیف نے بجا کہا تھا کہ ہمارے حالات کی خرابی میں جہاں داخلی سطح کے معاملات ہیں وہیں گورننس سے جڑے مسائل بھی ہمارے لیے حالات کو خراب کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ گورننس کے حالات محض صوبہ بلوچستان میں خراب نہیں بلکہ ملک کی مجموعی صورتحال ہی ایسی ہے۔اس لیے ہمیں داخلی معاملات کا تجزیہ کرنا ہوگا اور یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ حالات کی خرابی میں ہمارے داخلی معاملات کا ہاتھ بیرونی مداخلتوں سے زیادہ ہے ۔

بلوچستان میں جہاں گورننس سے جڑے مسائل اہمیت رکھتے ہیں وہیں سیاسی مسائل بھی حالات کی خرابی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا لوگوں کے بنیادی شہری یا انسانی حقوق ہو یا قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہو یا لوگوں میں بڑھتا ہوا سیاسی اور معاشی محرومی کا پہلو ہو یہ سب وہ نکات ہیں جس پر بلوچستان کے لوگوں میں سخت تحفظات پائے جاتے ہیں۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست اور حکومت کے ادارے ان کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کا علاج ریاستی اور حکومتی اداروں کو ہر سطح پر تلاش کرنا چاہیے۔

کیونکہ اگر ہم نے بلوچستان کے حالات کو درست کرنا ہے تو یہ بلوچستان کے لوگوں کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔ مرکزی اور بلوچستان میں موجود سیاسی قیادت کے درمیان اتفاق رائے کا پیدا ہونا اور ایک دوسرے کے معاملات یا فہم کو سمجھنا اور ایک مشترکہ حکمت عملی بنانا اہم ہے۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہی ممکن ہوگا جب ہم طاقت کی حکمت عملی سے باہر نکل کر سیاسی حکمت عملی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل میں وفاقی حکومت فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرے اور اس اجلاس میں بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں بڑا فریم ورک سامنے لانا ہوگا۔

بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں اس تاثر کی ہر سطح پر نفی ہونی چاہیے کہ وہاں پر جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں اس میں سیاسی جماعتوں یا سیاسی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باہمی حکومت ہے۔ لیکن ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی صوبے کے حالات کی بہتری میں ابھی تک کوئی اہم کام نہیں کیا۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت کی کمزوری نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔

وفاقی حکومت یا بلوچستان کی صوبائی حکومت ابھی تک ہمیں ان کی جانب سے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش یا اہم عملی اقدام نظر نہیں آیا جس میں انھوں نے بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ہو یا ان کی مدد سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ریاست کے ادارے وفاقی اور صوبائی حکومت ایک جانب کھڑے ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کی سیاسی قیادت ہے جو معاملات کی بہتری میں ریاست اور حکومت سے مختلف سوچ یا نقطہ نظر رکھتی ہے۔

حالانکہ ریاست اور حکومت کی پہلی ترجیح یا حکمت عملی یہ ہی ہونی چاہیے تھی کہ آگے بڑھنے کے لیے سب سے پہلے بلوچستان میں موجود تمام علاقائی جماعتوں یا ان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جاتا۔ ایک طرف بلوچستان کے پہاڑوں پر بیٹھ کر ریاست یا حکومت کو مسلح مزاحمت یا اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف بلوچستان کی عملا سیاسی قیادت کی جانب سے سیاسی مزاحمت بھی ایک بڑے خطرہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔

بلوچستان میں موجود لوگوں کے جو مسائل ہیں ان کو محض جذباتیت کی بنیاد پر دیکھنے کی بجائے یا الزام تراشیوں کا سہارا لینے کی بجائے یہ سمجھا جائے کہ ان مسائل کی حقیقت کیا ہے اور وفاقی یا صوبائی حکومت اس کی بہتری میں کیا کردار اداکر سکتی ہے۔سردار اخترمینگل، محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تجربہ کار سیاستدان ہیں اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ سیاسی راستہ تلاش کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بلوچستان کی صوبائی حکومت بلوچستان میں موجود حالات کی خرابی میں بلوچستان کے حالات کو اعتماد میں لیا کے حالات کو درست ہے کہ بلوچستان سیاسی جماعتوں اور بلوچستان کی بہتری میں نے بلوچستان سیاسی قیادت کے حالات کی کا استعمال حکمت عملی تلاش کرنا اور حکومت وفاقی اور کرنا ہوگا حکومت کی رہے ہیں

پڑھیں:

احتجاج کی سیاست،مزاحمت اور حکومت کا طرز عمل

پاکستان میں ایک عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اگر آپ نے اپنے سیاسی ،سماجی ،معاشی اور قانونی مطالبات کی منظوری میں سخت گیر طرز کی مزاحمت حکومت کے نظام کے خلاف اختیار نہ کی تو آپ کے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے؟کیونکہ ہمارا حکمرانی کا نظام اسی صورت میں لوگوں کی باتوں کو سنتا ہے جب آپ حالات کو بند گلی میں لے جاتے ہیں یا حالات کو اس نہج پر پہنچا دیتے ہیں جہاں حکمران طبقہ کے پاس آپ سے بات چیت یا مطالبات کی منظوری کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں ہوتا۔کیونکہ حکمرانی کا نظام ابتدا ہی میں مخالفین کو ساتھ ملا کر بات چیت کرنا،مسائل کے حل میں سیاسی اور جمہوری راستہ تلاش کرنا،طاقت کے استعمال سے گریز کی پالیسی کو اختیار کرنا ہمارے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ لوگ یا سیاسی جماعتیں یا دیگر قوتیں اپنے مطالبات کے حق میں وہ راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جو اصولی طور پر نہیں ہونا چاہیے ۔کیونکہ اس طرز میں پرتشدد راستے سامنے آتے ہیں جو بظاہر ریاست اور حکمرانی کے نظام میں کوئی اچھے سیاسی آپشن نہیں ہیں۔

اسی طرح ہمارا ایک مزاج یہ بھی بن گیا ہے کہ ہم اس طرز کی سیاسی اور سماجی مزاحمت میں داخلی اور خارجی سازشی پہلوتلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں حکمران طبقہ پیش پیش ہوتا ہے ۔کیونکہ حکمرانی کے نظام پر تنقید کرنے کو ہم سیاسی دشمنی کے پہلو میں دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عام لوگ بھی اپنے سیاسی ،سماجی ،معاشی اور قانونی حقوق کی بات لے کر سیاسی میدان میں کودتے ہیں وہ کسی سازشی کھیل کا حصہ ہیں یا ان کو نظام کے خلاف بغاوت کے طور پر لیا جاتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں سیاسی احتجاج کی صورت میں دو طرز کے بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اول یہ قوتیں ریاست اور حکمرانی کے نظام کے خلاف کسی سازش کے کھیل کا حصہ ہیں اوردوئم ہم احتجاج کی بنیاد پر اپنے حقوق کی جنگ کو لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے حکومت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔یہ ہی وہ دو متضاد سوچ ہے جو نظام کے اندر جہاں ٹکراؤ کو پیدا کرتی ہے وہیں ان میں ایک دوسرے کے خلاف سیاسی بغاوتیں جنم لیتی ہیں۔

حالیہ آزاد کشمیر میں ہونے والی احتجاجی تحریک میں بھی ہمیں یہ پہلو دیکھنے کو ملے۔پھر اسی احتجاجی تحریک کی کمیٹی کے ساتھ ہی حکومت کا بیٹھنا،بات چیت کرنا ،مطالبات کو تحریری طور پر تسلیم کرنا اور تحریک کا خاتمہ مختلف وعدوں کی بنیاد پر ختم ہوناجیسا عمل حکمران طبقات کی جانب سے ابتدا ہی میں کیونکر اختیار نہیں کیا گیا اور کیوں اس تحریک کو ضرورت سے زیادہ پھیلنے کا موقع دیا گیا۔اس پر بہت زیادہ سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

بنیادی طور پر سیاسی اور دیگر مسائل کا حل ہمیں پرامن اور جمہوری تناظر میں ہی تلاش کرنا چاہیے اور یہ ہی حکومت سمیت احتجاج کرنے والی قوتوں کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔کیونکہ اگر لوگ سیاسی اور قانونی سطح کے دائرہ کار میں رہ کر اپنی پرامن مزاحمت کرتے ہیں تو حکومتی نظام کو ان کا یہ سیاسی حق تسلیم کرنا چاہیے۔اسی طرح احتجاج کرنے والے فریقین کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ حالات کو اس نہج پر نہ لے جائیں جہاں تشدد جنم لے ۔یہ ذمے داری کسی ایک فریق کی نہیں بلکہ اس میںتمام فریقین ذمے دار ہیں اور حالات کی خرابی میں دونوں کو ہی ذمے داری لینی بھی چاہیے۔

حکومت کا طرز عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ جب وہ دیکھتے ہیں کہ سیاسی احتجاج کا راستہ شدت اختیار کرگیا ہے تو پھر حکومت بچاؤ کے لیے پہلے مذاکرات کا راستہ اختیار کرتی ہے اوراحتجاج کے خاتمہ کے لیے ان سے زبانی یا تحریری معاہدے بھی کرتی ہے مگر جیسے ہی حالات بدلتے ہیں تو کیے گئے وعدوں سے انحراف کرکے حکمران طبقہ مستقبل کے لیے اپنے لیے مزید مسائل پیدا کرتا ہے اور لوگ پھر حکومتی وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ احتجاج کی سیاست کے دوران ہی مطالبات کی منظور ی کی بات کی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے جو چیز آج منظور ہوگئی وہی سچ ہے مگر سب جھوٹے دعوے ہیں۔

 حکومت کو ایک بات سمجھنی چاہیے کہ لوگ ملک میں حکمرانی کے نظام سے نالاں ہیں اور ان کے تمام تر مسائل بالخصوص جو معاشی مسائل ہیں ان میں کافی شدت نظر آتی ہے ۔لوگ نالاں ہیں کہ حکمرانی کا نظام ان کے مسائل اور جو تحفظات ہیں ان پر کسی بھی قسم کی سنجیدگی دکھانے کے لیے تیار نہیں جو لوگوں میں جہاں غصہ کو پیدا کرتا ہے وہیں ان میں حکمرانی کے خلاف انتہا پسندانہ رجحانات دیکھنے کو بھی ملتے ہیں جو درست عمل نہیں ۔

خاص طور ملک کے وہ علاقے جو پس ماندہ ہیں یا سیاسی اور معاشی سمیت انتظامی محرومیوں کا شکار ہیں جہاں کمزور طبقات کے مسائل کو حل نہیں کیا جاتا تو وہاں ہمیں ردعمل کی سیاست زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے ۔یہ سوال بھی حکمرانی کے نظام میں اہم ہونا چاہیے کہ لوگ کیونکر اپنے مقامی مسائل کی بنیاد پر سڑکوں پر آتے ہیں یا احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب حکمرانی کا نظام لوگوں کے لیے اپنے دروازے بند کردیتا ہے اور جو لوگ بھی احتجاج کے لیے باہر نکلتے ہیں ان کے خلاف طاقت کے استعمال کو بنیاد بنا کر ہم سمجھتے ہیں ہمیں حالات کو کنٹرول کرنا آتا ہے ۔

ملک میں احساس محرومی کی سیاست بڑھ رہی ہے ۔بلکہ اب یہ معاملات محض چھوٹے یا پس ماندہ علاقوں یا دیہات تک محدود نہیں رہے بلکہ اب تو پاکستان کے بڑے شہروں کے مسائل یا گورننس کا نظام اس حد تک بگڑ گیا ہے کہ حالات کی درستگی کا کوئی بڑا واضح اور شفاف روڈ میپ ہی نظر نہیں آتا۔

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ آزاد کشمیر میں حکومت اورجوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کامیاب تحریری مذاکرات کے بعد ان تمام معاملات پر حکومت سنجیدگی سے عملدرآمد کرسکے گی یا محض یہ عمل بھی ماضی کی حکمت عملیوں کی بنیاد پر سیاسی ٹال مٹول کا ذریعہ بنے گا۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ مستقبل میں اس طرز کے پرتشدد رجحانات پر مبنی پالیسیوں سے گریز کریں اور حالات کو اس نہج پر نہ لے کر جائیں جہاں سوائے تشدد اور طاقت کے استعال کے کچھ اور نہ بچے۔

آج کی جدید ریاستیں اورحکمرانی کا بہتر اور شفاف نظام ہی ریاستوں کی سیاسی اور معاشی بقا سے جڑا ہوا ہے ۔لیکن ہم اپنی خامیوں اور ناکامیوں کو قبول کرنے کی بجائے بڑی سیاسی ڈھٹائی کے ساتھ اسی نظام کو بنیاد بنا کر ہی آگے بڑھنا چاہتے ہیں جو ہمیں مزید ناکامیوں کی طرف دھکیل رہا ہے ۔لیکن کیا ہم اپنی آج کی حکمرانی میں موجود حکمت عملیوں سے باہر نکلنے کے لیے تیار ہیں ، اس پر غور ہونا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • ازبک کمپنیوں کو افغانستان میں تیل اور گیس تلاش کرنے اور نکالنے کی باضابطہ اجازت
  • بزنس کمیونٹی مشکل حالات کے باوجودکام کر رہی ہے
  • احتجاج کی سیاست،مزاحمت اور حکومت کا طرز عمل
  • کور کمانڈرز کانفرنس اور عظیم سپوتوں کی قربانیاں
  • کے پی میں بدامنی، کرپشن انتہا پر، صوبائی حکومت کی کوئی رٹ نہیں، فضل الرحمان
  • خیبرپختونخوا کی نئی قیادت: سہیل آفریدی کے سیاسی سفر پر ایک نظر
  • جب تک آئین میں مزید ترمیم نہیں ہوتی، موجودہ آئین پر ہی عمل کرنا ہوگا، سپریم کورٹ
  • حکومت کا صوبوں پر آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کرنے پر زور
  • چینی بحران، حکومت نے شوگر ملز کو کلین چٹ اور ذمہ داری موسم پر ڈال دی
  • غلطیاں حکومت نے کی ہیں، نوجوان ریاست سے ناراض نہ ہو، سرفراز بگٹی