Express News:
2025-06-10@22:14:28 GMT

فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ دوم)

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

آج امریکا اور برطانیہ سمیت اکثر مغربی ممالک اسرائیل کے مامے بنے ہوئے ہیں۔جرمنی تو خیر اپنے وجود کا اخلاقی و آئینی جواز ہی اسرائیل کے وجود کو قرار دیتا ہے۔مگر اب سے نوے برس پہلے ان میں سے ہر کوئی یہودیوں کو بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا تھا۔

گزشتہ مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح تیس جنوری انیس سو تینتیس کو ہٹلر کے چانسلر بننے کے بعد یہودیوں سمیت جرمن اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کا گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا۔شہری حقوق بتدریج ضبط ہوتے چلے گئے۔ایک ہی راستہ کھلا رکھا گیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔انیس سو تینتیس تا یکم ستمبر انیس سو انتالیس ( دوسری عالمی جنگ کا پہلا دن ) ساڑھے پانچ لاکھ جرمن یہودیوں میں سے نصف ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک یا امریکا تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔لیکن انیس سو اڑتیس میں آسٹریا اور پھر چیکوسلوواکیہ پر نازی قبضے کے بعد اتنے ہی اور یہودی ہٹلر کی گرفت میں آ چکے تھے۔

انیس سو انتیس میں امریکا سے شروع ہونے والی صنعتی کساد بازاری نے رفتہ رفتہ پوری دنیا بالخصوص سرمایہ دار ممالک کو بری طرح لپیٹ میں لے لیا۔ ہزاروں صنعتیں اور کاروبار سڑک پر آ گئے۔کروڑوں بے روزگار ہو گئے۔ایسے ماحول میں کوئی بھی ملک نئے پناہ گزین لینے پر آمادہ نہیں تھا۔ تراسی فیصد امریکی شہری امیگریشن کو محدود کرنے کے حق میں تھے حالانکہ وہ سب بھی مہاجر یا مہاجروں کی اولاد تھے۔

عظیم کساد بازاری سے پانچ برس پہلے ہی انیس سو چوبیس میں امریکا نے نئے پناہ گزینوں کے لیے کوٹہ سسٹم لاگو کر دیا تھا۔یعنی اب ہر ہما شما منہ اٹھائے نیویارک یا سان فرانسسکو کے ساحل پر نہیں اتر سکتا تھا۔

اور پھر جرمنی میں نازی اور اٹلی میں فاشسٹ برسرِ اقتدار آ گئے۔سوویت یونین کی سرحدیں پہلے ہی ہر طرح کے پناہ گزینوں کے لیے بند تھیں۔ایشیا اور افریقہ کے بیشتر علاقے مغرب کی نوآبادیاتی غلامی میں تھے۔

اس پس منظر میں چھ تا پندرہ جولائی انیس سو اڑتیس فرانسیسی قصبے ایویان میں بتیس ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نسل پرست حکومتوں کی امتیازی پالیسیوں کے نتیجے میں پناہ گزینوں کے نئے بحران سے نمٹنے کے لیے عملی تجاویز مرتب کرنا تھا۔اس کانفرنس میں چوبیس رضاکار تنظیمیں بھی بطور مبصر شریک تھیں۔انھی میں فلسطینی یہودی آبادکاروں کی نمایندہ گولڈا مائر بھی تھیں۔

توقع تھی کہ امریکی وزیرِ خارجہ کانفرنس میں شریک ہوں گے۔مگر صدر روزویلٹ نے اپنے ایک کاروباری دوست مائرون ٹیلر اور سفارت کار جیمز میکڈونلڈ کو بطور نمایندہ بھیجا۔نو روز تک ہر مندوب پناہ گزینوں سے یکجہتی اور نسل پرست حکومتوں کے رویے پر اظہارِ افسوس کرتا رہا مگر کوئی ٹھوس پالیسی اعلامیہ جاری نہ ہو سکا۔

امریکا نے عذر پیش کیا کہ وہ انیس سو چوبیس کے امیگریشن ایکٹ کے ہاتھوں مجبور ہے اور فی الحال جرمنی اور آسٹریا سے سالانہ صرف تیس ہزار پناہ گزینوں کو قبول کر سکتا ہے۔برطانیہ نے بھی کم و بیش اتنی ہی تعداد میں سالانہ کوٹے پر اتفاق کیا۔جب کہ مقامی عرب اکثریت کی پرتشدد مزاحمت کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں یورپی یہودیوں کی بے مہار منتقلی روک کر پندرہ ہزار نفوس فی سال کا کوٹہ مقرر کر دیا۔

ایویان کانفرنس میں شریک آسٹریلیا کے پاس اگرچہ کروڑوں ایکڑ خالی زمین پڑی تھی مگر اس نے بھی پانچ ہزار پناہ گزین سالانہ کھپانے کی پیش کش کی۔ آسٹریلوی مندوب ٹی ڈبلیو وائٹ نے تاویل دی کہ پناہ گزینوں کی غیر معمولی تعداد آسٹریلوی سماج کو بے چین کر سکتی ہے۔جنوبی افریقہ نے کہا کہ وہ انھی پناہ گزینوں کو قبول کرے گا جن کے عزیز رشتے دار پہلے سے جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔کینیڈا نے کہا کہ وہ سوچ کر بتائے گا۔جرمنی کے ہمسائے اور کانفرنس کے میزبان فرانس نے کہا کہ وہ پہلے ہی گنجائش سے زائد پناہ گزین قبول کر چکا ہے اور مزید کی سکت نہیں۔

صرف ڈومنیکن ریپبلک کے آمر ٹروجیلو نے پیش کش کی کہ وہ ایک لاکھ تک یہودی پناہ گزین قبول کر سکتا ہے۔ان کے لیے چھبیس ہزار ایکڑ زرعی زمین بھی مختص کی گئی۔ عملاً آٹھ سو یہودی ہی وہاں پہنچے اور وہ بھی رفتہ رفتہ امریکا منتقل ہو گئے۔ٹروجیلو بھی دودھ کا دھلا نہیں تھا۔اس سفید فام آمر کی ’’انسان دوستی ’’ کے پیچھے یہ نئیت تھی کہ وہ ملک کی سیاہ فام اکثریت کے مقابلے میں یورپی سفید فاموں کی مزید آبادکاری چاہتا تھا۔ یورپی یہودی آبادی کا آنا ٹروجیلو کے نسلی ایجنڈے کے لیے فائدہ مند تھا۔

کہا جاتا ہے کہ صدر روزویلٹ کو یورپ سے جو تشویش ناک اطلاعات مل رہی تھیں ان کے سبب وہ امیگریشن کوٹہ سسٹم میں عارضی نرمی لانے کے حق میں تھے۔مگر ایک تو امریکی ووٹر کساد بازاری کے ہاتھوں بڑھتی غربت سے تنگ تھا۔چنانچہ خود روز ویلٹ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکانِ کانگریس کا رویہ بھی ہمدردانہ نہیں تھا۔روزویلٹ تیسری بار صدارتی امیدوار بننے میں بھی سنجیدہ تھے۔

متعدد امریکی صیہونی رہنما اور لابی گروپ بھی شدید معاشی بحران کے سبب نئے یہودی پناہ گزینوں کی آمد کے بارے میں سمجھتے تھے کہ یہ عمل امریکا میں یہود مخالف لہر اٹھا سکتا ہے۔امیگریشن کے مخالفوں میں امریکن جیوش کمیٹی کے سیکریٹری مورس والڈمین، صدارتی تقریر نویس اور روزویلٹ کی ’’نیوڈیل معاشی پالیسی ’’ کے معمار سیموئل روزنمین اور سینیر مذہبی عالم جوناتھن وائز کے علاوہ پانچ سرکردہ یہودی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ جوناتھن وائیز نے امریکی امیگریشن کوٹے میں نرمی کے مطالبے کے بجائے الٹا برطانیہ پر کڑی تنقید کی کہ وہ یورپ میں بقائی خطرے سے دوچار یہودیوں کی فلسطین منتقلی میں روڑے اٹکا کر سنگدلی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

بے نتیجہ ایویان کانفرنس کے دو ماہ بعد ستمبر انیس سو اڑتیس میں برطانیہ اور فرانس نے چیکوسلوواکیہ کے صوبے سوڈیٹنز لینڈ پر جرمن قبضے کو خاموشی سے تسلیم کر لیا۔

ہٹلر نے ایویان کانفرنس کی ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’ مجھے امید تھی کہ وہ لوگ جنھیں ان مجرموں ( یہودی ) کے ساتھ گہری ہمدردی ہے وہ اس ہمدردی کو عملی اقدامات کی شکل دیں گے۔حالانکہ ہم ان مجرموں کو ان کے ہمدرد ممالک میں آرام دہ جہازوں میں بھر کے بھیجنے کو بھی تیار ہیں ‘‘۔

جولائی انیس سو اناسی میں امریکی نائب صدر والٹر مونڈیل نے کہا کہ ’’ ایویان کانفرنس عالمی ضمیر اور تہذیب کی آزمائش تھی۔اگر ہر ملک سترہ سترہ ہزار یہودی لے لیتا تو ہٹلر کے ہاتھوں ان کی نسل کشی نہ ہوتی۔مگر اس وقت انسانی اقدار ہار گئیں ‘‘۔

جب نازیوں کو یقین ہو گیا کہ باقی دنیا کسی عملی قدم کے بجائے زبانی جمع خرچ پر ہی گذارہ کرے گی تو انھوں نے ’’ یہودی مسئلے ‘‘ کے حل کے لیے دیگر طریقوں پر غور کرنا شروع کیا۔اس بابت تفصیل اگلی قسط میں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پناہ گزینوں پناہ گزین نے کہا کہ قبول کر کے لیے

پڑھیں:

سعودی ولی عہد کا فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت، عالمی برادری سے فوری کردار ادا کرنے کا مطالبہ

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر منیٰ کے شاہی محل میں معززین اور حکام سے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کی اور فلسطینی عوام کے مسلسل مصائب پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے فلسطینی بھائیوں کی تکالیف اسرائیلی جارحیت کے باعث مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ ہم عالمی برادری کے مؤثر کردار کی اہمیت کو دہراتے ہیں تاکہ اس جارحیت کے تباہ کن نتائج کا خاتمہ ہو، بے گناہ شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے اور فلسطین میں عالمی قراردادوں کی روشنی میں پائیدار امن کی بنیاد رکھی جا سکے۔”

شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی عرب کے اس مقدس فریضے کو بھی اجاگر کیا جس کے تحت وہ حرمین شریفین کی خدمت اور حجاج کرام و معتمرین کی میزبانی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو حرمین شریفین کی خدمت کا شرف بخشا ہے اور ہم اس عظیم ذمے داری کو اولین ترجیح دیتے ہیں تاکہ حجاج کرام اپنے مناسک آسانی اور اطمینان سے ادا کر سکیں۔

آخر میں انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ حجاج کا حج قبول فرمائے، انہیں بخیروخوبی ان کے گھروں کو واپس لے جائے، اور مملکت سمیت تمام مسلم دنیا اور عالم میں امن و استحکام قائم رکھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل جارحیت حج عالمی برادری فلسطین محمد بن سلمان ولی عہد

متعلقہ مضامین

  • قمبر علی خان ڈاکوئوں کی محفوظ پناہ گاہ بن گیا، پولیس بھی محفوظ نہیں
  • مصری ساحل پر پناہ گزینوں کی اموات پر آئی او ایم کا اظہار افسوس
  • دس لاکھ افراد قانونی طریقے سے پناہ لینے میں کامیاب، یو این ایچ سی آر
  • امریکہ غیرقانونی صیہونی قبضے کو مستحکم کرنا چاہتا ہے، جمیل مزھر
  • حکومت نے مشکل حالات میں جو کارکردگی دکھائی وہ کامیابی سے کم نہیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • معاشی ترقی جاری،اشرافیہ کو جواب دینا ہوگا اس نے کتنا ٹیکس دیا ہے ،وزیر اعظم
  • بھارت ظلم و تشدد کے ذریعے کشمیریوں کے جذبہ حریت کو کمزور نہیں کر سکتا، حریت کانفرنس
  • کل جماعتی حریت کانفرنس کا کشمیری قیادت کی مسلسل غیر قانونی نظربندی پر اظہار تشویش
  • فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت، سعودی ولی عہد کا عالمی برادری سے فوری کردار ادا کرنے کا مطالبہ
  • سعودی ولی عہد کا فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت، عالمی برادری سے فوری کردار ادا کرنے کا مطالبہ