Express News:
2025-11-03@03:24:22 GMT

فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ دوم)

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

آج امریکا اور برطانیہ سمیت اکثر مغربی ممالک اسرائیل کے مامے بنے ہوئے ہیں۔جرمنی تو خیر اپنے وجود کا اخلاقی و آئینی جواز ہی اسرائیل کے وجود کو قرار دیتا ہے۔مگر اب سے نوے برس پہلے ان میں سے ہر کوئی یہودیوں کو بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا تھا۔

گزشتہ مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح تیس جنوری انیس سو تینتیس کو ہٹلر کے چانسلر بننے کے بعد یہودیوں سمیت جرمن اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کا گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا۔شہری حقوق بتدریج ضبط ہوتے چلے گئے۔ایک ہی راستہ کھلا رکھا گیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔انیس سو تینتیس تا یکم ستمبر انیس سو انتالیس ( دوسری عالمی جنگ کا پہلا دن ) ساڑھے پانچ لاکھ جرمن یہودیوں میں سے نصف ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک یا امریکا تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔لیکن انیس سو اڑتیس میں آسٹریا اور پھر چیکوسلوواکیہ پر نازی قبضے کے بعد اتنے ہی اور یہودی ہٹلر کی گرفت میں آ چکے تھے۔

انیس سو انتیس میں امریکا سے شروع ہونے والی صنعتی کساد بازاری نے رفتہ رفتہ پوری دنیا بالخصوص سرمایہ دار ممالک کو بری طرح لپیٹ میں لے لیا۔ ہزاروں صنعتیں اور کاروبار سڑک پر آ گئے۔کروڑوں بے روزگار ہو گئے۔ایسے ماحول میں کوئی بھی ملک نئے پناہ گزین لینے پر آمادہ نہیں تھا۔ تراسی فیصد امریکی شہری امیگریشن کو محدود کرنے کے حق میں تھے حالانکہ وہ سب بھی مہاجر یا مہاجروں کی اولاد تھے۔

عظیم کساد بازاری سے پانچ برس پہلے ہی انیس سو چوبیس میں امریکا نے نئے پناہ گزینوں کے لیے کوٹہ سسٹم لاگو کر دیا تھا۔یعنی اب ہر ہما شما منہ اٹھائے نیویارک یا سان فرانسسکو کے ساحل پر نہیں اتر سکتا تھا۔

اور پھر جرمنی میں نازی اور اٹلی میں فاشسٹ برسرِ اقتدار آ گئے۔سوویت یونین کی سرحدیں پہلے ہی ہر طرح کے پناہ گزینوں کے لیے بند تھیں۔ایشیا اور افریقہ کے بیشتر علاقے مغرب کی نوآبادیاتی غلامی میں تھے۔

اس پس منظر میں چھ تا پندرہ جولائی انیس سو اڑتیس فرانسیسی قصبے ایویان میں بتیس ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نسل پرست حکومتوں کی امتیازی پالیسیوں کے نتیجے میں پناہ گزینوں کے نئے بحران سے نمٹنے کے لیے عملی تجاویز مرتب کرنا تھا۔اس کانفرنس میں چوبیس رضاکار تنظیمیں بھی بطور مبصر شریک تھیں۔انھی میں فلسطینی یہودی آبادکاروں کی نمایندہ گولڈا مائر بھی تھیں۔

توقع تھی کہ امریکی وزیرِ خارجہ کانفرنس میں شریک ہوں گے۔مگر صدر روزویلٹ نے اپنے ایک کاروباری دوست مائرون ٹیلر اور سفارت کار جیمز میکڈونلڈ کو بطور نمایندہ بھیجا۔نو روز تک ہر مندوب پناہ گزینوں سے یکجہتی اور نسل پرست حکومتوں کے رویے پر اظہارِ افسوس کرتا رہا مگر کوئی ٹھوس پالیسی اعلامیہ جاری نہ ہو سکا۔

امریکا نے عذر پیش کیا کہ وہ انیس سو چوبیس کے امیگریشن ایکٹ کے ہاتھوں مجبور ہے اور فی الحال جرمنی اور آسٹریا سے سالانہ صرف تیس ہزار پناہ گزینوں کو قبول کر سکتا ہے۔برطانیہ نے بھی کم و بیش اتنی ہی تعداد میں سالانہ کوٹے پر اتفاق کیا۔جب کہ مقامی عرب اکثریت کی پرتشدد مزاحمت کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں یورپی یہودیوں کی بے مہار منتقلی روک کر پندرہ ہزار نفوس فی سال کا کوٹہ مقرر کر دیا۔

ایویان کانفرنس میں شریک آسٹریلیا کے پاس اگرچہ کروڑوں ایکڑ خالی زمین پڑی تھی مگر اس نے بھی پانچ ہزار پناہ گزین سالانہ کھپانے کی پیش کش کی۔ آسٹریلوی مندوب ٹی ڈبلیو وائٹ نے تاویل دی کہ پناہ گزینوں کی غیر معمولی تعداد آسٹریلوی سماج کو بے چین کر سکتی ہے۔جنوبی افریقہ نے کہا کہ وہ انھی پناہ گزینوں کو قبول کرے گا جن کے عزیز رشتے دار پہلے سے جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔کینیڈا نے کہا کہ وہ سوچ کر بتائے گا۔جرمنی کے ہمسائے اور کانفرنس کے میزبان فرانس نے کہا کہ وہ پہلے ہی گنجائش سے زائد پناہ گزین قبول کر چکا ہے اور مزید کی سکت نہیں۔

صرف ڈومنیکن ریپبلک کے آمر ٹروجیلو نے پیش کش کی کہ وہ ایک لاکھ تک یہودی پناہ گزین قبول کر سکتا ہے۔ان کے لیے چھبیس ہزار ایکڑ زرعی زمین بھی مختص کی گئی۔ عملاً آٹھ سو یہودی ہی وہاں پہنچے اور وہ بھی رفتہ رفتہ امریکا منتقل ہو گئے۔ٹروجیلو بھی دودھ کا دھلا نہیں تھا۔اس سفید فام آمر کی ’’انسان دوستی ’’ کے پیچھے یہ نئیت تھی کہ وہ ملک کی سیاہ فام اکثریت کے مقابلے میں یورپی سفید فاموں کی مزید آبادکاری چاہتا تھا۔ یورپی یہودی آبادی کا آنا ٹروجیلو کے نسلی ایجنڈے کے لیے فائدہ مند تھا۔

کہا جاتا ہے کہ صدر روزویلٹ کو یورپ سے جو تشویش ناک اطلاعات مل رہی تھیں ان کے سبب وہ امیگریشن کوٹہ سسٹم میں عارضی نرمی لانے کے حق میں تھے۔مگر ایک تو امریکی ووٹر کساد بازاری کے ہاتھوں بڑھتی غربت سے تنگ تھا۔چنانچہ خود روز ویلٹ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکانِ کانگریس کا رویہ بھی ہمدردانہ نہیں تھا۔روزویلٹ تیسری بار صدارتی امیدوار بننے میں بھی سنجیدہ تھے۔

متعدد امریکی صیہونی رہنما اور لابی گروپ بھی شدید معاشی بحران کے سبب نئے یہودی پناہ گزینوں کی آمد کے بارے میں سمجھتے تھے کہ یہ عمل امریکا میں یہود مخالف لہر اٹھا سکتا ہے۔امیگریشن کے مخالفوں میں امریکن جیوش کمیٹی کے سیکریٹری مورس والڈمین، صدارتی تقریر نویس اور روزویلٹ کی ’’نیوڈیل معاشی پالیسی ’’ کے معمار سیموئل روزنمین اور سینیر مذہبی عالم جوناتھن وائز کے علاوہ پانچ سرکردہ یہودی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ جوناتھن وائیز نے امریکی امیگریشن کوٹے میں نرمی کے مطالبے کے بجائے الٹا برطانیہ پر کڑی تنقید کی کہ وہ یورپ میں بقائی خطرے سے دوچار یہودیوں کی فلسطین منتقلی میں روڑے اٹکا کر سنگدلی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

بے نتیجہ ایویان کانفرنس کے دو ماہ بعد ستمبر انیس سو اڑتیس میں برطانیہ اور فرانس نے چیکوسلوواکیہ کے صوبے سوڈیٹنز لینڈ پر جرمن قبضے کو خاموشی سے تسلیم کر لیا۔

ہٹلر نے ایویان کانفرنس کی ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’ مجھے امید تھی کہ وہ لوگ جنھیں ان مجرموں ( یہودی ) کے ساتھ گہری ہمدردی ہے وہ اس ہمدردی کو عملی اقدامات کی شکل دیں گے۔حالانکہ ہم ان مجرموں کو ان کے ہمدرد ممالک میں آرام دہ جہازوں میں بھر کے بھیجنے کو بھی تیار ہیں ‘‘۔

جولائی انیس سو اناسی میں امریکی نائب صدر والٹر مونڈیل نے کہا کہ ’’ ایویان کانفرنس عالمی ضمیر اور تہذیب کی آزمائش تھی۔اگر ہر ملک سترہ سترہ ہزار یہودی لے لیتا تو ہٹلر کے ہاتھوں ان کی نسل کشی نہ ہوتی۔مگر اس وقت انسانی اقدار ہار گئیں ‘‘۔

جب نازیوں کو یقین ہو گیا کہ باقی دنیا کسی عملی قدم کے بجائے زبانی جمع خرچ پر ہی گذارہ کرے گی تو انھوں نے ’’ یہودی مسئلے ‘‘ کے حل کے لیے دیگر طریقوں پر غور کرنا شروع کیا۔اس بابت تفصیل اگلی قسط میں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پناہ گزینوں پناہ گزین نے کہا کہ قبول کر کے لیے

پڑھیں:

پاکستان میں نفسیاتی صحت سے متعلق تشویشناک اعداد و شمار جاری

دماغی صحت سے متعلق ایک حالیہ کانفرنس میں پاکستان میں نفسیاتی صحت کی حالت کے بارے میں تشویشناک اعداد و شمار سامنے آئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق پاکستان کی تقریباً 34 فیصد آبادی کسی نہ کسی قسم کی ذہنی بیماری سے متاثر ہے، جب کہ ملک میں گزشتہ سال تقریباً 1000 خودکشیاں ذہنی پریشانی سے منسلک تھیں۔

یہ نتائج کراچی میں منعقدہ 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے دماغی بیماری کے دوران شیئر کیے گئے، جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح معاشی جدوجہد، سماجی دباؤ اور بار بار آنے والی آفات نے دماغی صحت کے منظر نامے کو خراب کیا ہے۔

کانفرنس میں پیش کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر تین میں سے ایک پاکستانی اور عالمی سطح پر پانچ میں سے ایک، ذہنی صحت کے مسئلے کا شکار ہے۔ ڈپریشن، بے چینی، اور منشیات کی لت سب سے عام عوارض میں سے ہیں۔

پاکستان میں خواتین گھریلو جھگڑوں اور معاشرے میں اپنی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہو رہی ہیں۔ ماہرین نے نوٹ کیا کہ خواتین کو محدود بااختیار بنانے اور سماجی دباؤ کے نتیجے میں اضطراب اور جذباتی تناؤ کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • میرپورخاص ،سرکاری زمین کی غیرقانونی الاٹمنٹ میں بندر بانٹ
  • مقبوضہ فلسطین کا علاقہ نقب صیہونی مافیا گروہوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکا ہے، عبری ذرائع
  • پاکستان میں نفسیاتی صحت سے متعلق تشویشناک اعداد و شمار جاری
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا سلسلہ جاری، اب تک کتنے پناہ گزین واپس جا چکے؟
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی ساختہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہے
  • اے آئی کا خوف بڑھنے لگا: ٹیکنالوجی کمپنیوں کی زیرزمین پناہ گاہوں پر سرمایہ کاری
  • چوروں کی طرح داخل ہونے والے پناہ گزین نہیں دہشت گرد ہیں، خواجہ آصف کا افغان وفد کے بیان پر رد عمل
  • اسرائیل کے فلسطین پر حملے نسل کشی کی واضح مثال ہیں، طیب اردوان