Express News:
2025-07-27@05:52:53 GMT

فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ دوم)

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

آج امریکا اور برطانیہ سمیت اکثر مغربی ممالک اسرائیل کے مامے بنے ہوئے ہیں۔جرمنی تو خیر اپنے وجود کا اخلاقی و آئینی جواز ہی اسرائیل کے وجود کو قرار دیتا ہے۔مگر اب سے نوے برس پہلے ان میں سے ہر کوئی یہودیوں کو بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا تھا۔

گزشتہ مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح تیس جنوری انیس سو تینتیس کو ہٹلر کے چانسلر بننے کے بعد یہودیوں سمیت جرمن اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کا گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا۔شہری حقوق بتدریج ضبط ہوتے چلے گئے۔ایک ہی راستہ کھلا رکھا گیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔انیس سو تینتیس تا یکم ستمبر انیس سو انتالیس ( دوسری عالمی جنگ کا پہلا دن ) ساڑھے پانچ لاکھ جرمن یہودیوں میں سے نصف ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک یا امریکا تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔لیکن انیس سو اڑتیس میں آسٹریا اور پھر چیکوسلوواکیہ پر نازی قبضے کے بعد اتنے ہی اور یہودی ہٹلر کی گرفت میں آ چکے تھے۔

انیس سو انتیس میں امریکا سے شروع ہونے والی صنعتی کساد بازاری نے رفتہ رفتہ پوری دنیا بالخصوص سرمایہ دار ممالک کو بری طرح لپیٹ میں لے لیا۔ ہزاروں صنعتیں اور کاروبار سڑک پر آ گئے۔کروڑوں بے روزگار ہو گئے۔ایسے ماحول میں کوئی بھی ملک نئے پناہ گزین لینے پر آمادہ نہیں تھا۔ تراسی فیصد امریکی شہری امیگریشن کو محدود کرنے کے حق میں تھے حالانکہ وہ سب بھی مہاجر یا مہاجروں کی اولاد تھے۔

عظیم کساد بازاری سے پانچ برس پہلے ہی انیس سو چوبیس میں امریکا نے نئے پناہ گزینوں کے لیے کوٹہ سسٹم لاگو کر دیا تھا۔یعنی اب ہر ہما شما منہ اٹھائے نیویارک یا سان فرانسسکو کے ساحل پر نہیں اتر سکتا تھا۔

اور پھر جرمنی میں نازی اور اٹلی میں فاشسٹ برسرِ اقتدار آ گئے۔سوویت یونین کی سرحدیں پہلے ہی ہر طرح کے پناہ گزینوں کے لیے بند تھیں۔ایشیا اور افریقہ کے بیشتر علاقے مغرب کی نوآبادیاتی غلامی میں تھے۔

اس پس منظر میں چھ تا پندرہ جولائی انیس سو اڑتیس فرانسیسی قصبے ایویان میں بتیس ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نسل پرست حکومتوں کی امتیازی پالیسیوں کے نتیجے میں پناہ گزینوں کے نئے بحران سے نمٹنے کے لیے عملی تجاویز مرتب کرنا تھا۔اس کانفرنس میں چوبیس رضاکار تنظیمیں بھی بطور مبصر شریک تھیں۔انھی میں فلسطینی یہودی آبادکاروں کی نمایندہ گولڈا مائر بھی تھیں۔

توقع تھی کہ امریکی وزیرِ خارجہ کانفرنس میں شریک ہوں گے۔مگر صدر روزویلٹ نے اپنے ایک کاروباری دوست مائرون ٹیلر اور سفارت کار جیمز میکڈونلڈ کو بطور نمایندہ بھیجا۔نو روز تک ہر مندوب پناہ گزینوں سے یکجہتی اور نسل پرست حکومتوں کے رویے پر اظہارِ افسوس کرتا رہا مگر کوئی ٹھوس پالیسی اعلامیہ جاری نہ ہو سکا۔

امریکا نے عذر پیش کیا کہ وہ انیس سو چوبیس کے امیگریشن ایکٹ کے ہاتھوں مجبور ہے اور فی الحال جرمنی اور آسٹریا سے سالانہ صرف تیس ہزار پناہ گزینوں کو قبول کر سکتا ہے۔برطانیہ نے بھی کم و بیش اتنی ہی تعداد میں سالانہ کوٹے پر اتفاق کیا۔جب کہ مقامی عرب اکثریت کی پرتشدد مزاحمت کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں یورپی یہودیوں کی بے مہار منتقلی روک کر پندرہ ہزار نفوس فی سال کا کوٹہ مقرر کر دیا۔

ایویان کانفرنس میں شریک آسٹریلیا کے پاس اگرچہ کروڑوں ایکڑ خالی زمین پڑی تھی مگر اس نے بھی پانچ ہزار پناہ گزین سالانہ کھپانے کی پیش کش کی۔ آسٹریلوی مندوب ٹی ڈبلیو وائٹ نے تاویل دی کہ پناہ گزینوں کی غیر معمولی تعداد آسٹریلوی سماج کو بے چین کر سکتی ہے۔جنوبی افریقہ نے کہا کہ وہ انھی پناہ گزینوں کو قبول کرے گا جن کے عزیز رشتے دار پہلے سے جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔کینیڈا نے کہا کہ وہ سوچ کر بتائے گا۔جرمنی کے ہمسائے اور کانفرنس کے میزبان فرانس نے کہا کہ وہ پہلے ہی گنجائش سے زائد پناہ گزین قبول کر چکا ہے اور مزید کی سکت نہیں۔

صرف ڈومنیکن ریپبلک کے آمر ٹروجیلو نے پیش کش کی کہ وہ ایک لاکھ تک یہودی پناہ گزین قبول کر سکتا ہے۔ان کے لیے چھبیس ہزار ایکڑ زرعی زمین بھی مختص کی گئی۔ عملاً آٹھ سو یہودی ہی وہاں پہنچے اور وہ بھی رفتہ رفتہ امریکا منتقل ہو گئے۔ٹروجیلو بھی دودھ کا دھلا نہیں تھا۔اس سفید فام آمر کی ’’انسان دوستی ’’ کے پیچھے یہ نئیت تھی کہ وہ ملک کی سیاہ فام اکثریت کے مقابلے میں یورپی سفید فاموں کی مزید آبادکاری چاہتا تھا۔ یورپی یہودی آبادی کا آنا ٹروجیلو کے نسلی ایجنڈے کے لیے فائدہ مند تھا۔

کہا جاتا ہے کہ صدر روزویلٹ کو یورپ سے جو تشویش ناک اطلاعات مل رہی تھیں ان کے سبب وہ امیگریشن کوٹہ سسٹم میں عارضی نرمی لانے کے حق میں تھے۔مگر ایک تو امریکی ووٹر کساد بازاری کے ہاتھوں بڑھتی غربت سے تنگ تھا۔چنانچہ خود روز ویلٹ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکانِ کانگریس کا رویہ بھی ہمدردانہ نہیں تھا۔روزویلٹ تیسری بار صدارتی امیدوار بننے میں بھی سنجیدہ تھے۔

متعدد امریکی صیہونی رہنما اور لابی گروپ بھی شدید معاشی بحران کے سبب نئے یہودی پناہ گزینوں کی آمد کے بارے میں سمجھتے تھے کہ یہ عمل امریکا میں یہود مخالف لہر اٹھا سکتا ہے۔امیگریشن کے مخالفوں میں امریکن جیوش کمیٹی کے سیکریٹری مورس والڈمین، صدارتی تقریر نویس اور روزویلٹ کی ’’نیوڈیل معاشی پالیسی ’’ کے معمار سیموئل روزنمین اور سینیر مذہبی عالم جوناتھن وائز کے علاوہ پانچ سرکردہ یہودی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ جوناتھن وائیز نے امریکی امیگریشن کوٹے میں نرمی کے مطالبے کے بجائے الٹا برطانیہ پر کڑی تنقید کی کہ وہ یورپ میں بقائی خطرے سے دوچار یہودیوں کی فلسطین منتقلی میں روڑے اٹکا کر سنگدلی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

بے نتیجہ ایویان کانفرنس کے دو ماہ بعد ستمبر انیس سو اڑتیس میں برطانیہ اور فرانس نے چیکوسلوواکیہ کے صوبے سوڈیٹنز لینڈ پر جرمن قبضے کو خاموشی سے تسلیم کر لیا۔

ہٹلر نے ایویان کانفرنس کی ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’ مجھے امید تھی کہ وہ لوگ جنھیں ان مجرموں ( یہودی ) کے ساتھ گہری ہمدردی ہے وہ اس ہمدردی کو عملی اقدامات کی شکل دیں گے۔حالانکہ ہم ان مجرموں کو ان کے ہمدرد ممالک میں آرام دہ جہازوں میں بھر کے بھیجنے کو بھی تیار ہیں ‘‘۔

جولائی انیس سو اناسی میں امریکی نائب صدر والٹر مونڈیل نے کہا کہ ’’ ایویان کانفرنس عالمی ضمیر اور تہذیب کی آزمائش تھی۔اگر ہر ملک سترہ سترہ ہزار یہودی لے لیتا تو ہٹلر کے ہاتھوں ان کی نسل کشی نہ ہوتی۔مگر اس وقت انسانی اقدار ہار گئیں ‘‘۔

جب نازیوں کو یقین ہو گیا کہ باقی دنیا کسی عملی قدم کے بجائے زبانی جمع خرچ پر ہی گذارہ کرے گی تو انھوں نے ’’ یہودی مسئلے ‘‘ کے حل کے لیے دیگر طریقوں پر غور کرنا شروع کیا۔اس بابت تفصیل اگلی قسط میں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پناہ گزینوں پناہ گزین نے کہا کہ قبول کر کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ نے فرانسیسی صدر کے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بیان کو مسترد کر دیا

وائٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے گفتگو میں کہا کہ صدر میکرون جو کہتے ہیں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ انکا کہنا تھا کہ وہ (میکرون) بہت اچھے آدمی ہیں، لیکن انکے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بیان میں توازن نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فرانس کے صدر میکرون کے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بیان کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسترد کر دیا۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے اعلان کیا تھا کہ فرانس ستمبر میں فلسطین کو تسلیم کرلے گا۔ وہ جنرل اسمبلی میں فسلطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کریں گے۔ وائٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے گفتگو میں کہا کہ صدر میکرون جو کہتے ہیں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ (میکرون) بہت اچھے آدمی ہیں، لیکن ان کے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بیان میں توازن نہیں ہے۔ دوسری جانب برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ میں اس کے بارے میں واضح نہیں ہوں، لیکن یہ ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ ہونا چاہیئے، جس کا نتیجہ بالآخر دو ریاستی حل اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے دیرپا سلامتی کی صورت میں نکلنا چاہیئے۔

125 برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ نے بھی وزیرِاعظم سر کیئر اسٹارمر کو خط لکھ کر فلسطین کو بطورِ ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ خط لکھنے والے اراکین کی قیادت لیبر پارٹی کی رکنِ پارلیمنٹ سارہ چیمپئن کر رہی ہیں، جو بین الاقوامی ترقیاتی کمیٹی کی چیئرپرسن بھی ہیں۔ سر کیئر اسٹارمر پر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے، خط میں برطانوی حکومت سے فی الفور فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین کو دنیا سے نقشے سے مٹانے کے آرزو مند اسرائیل کے دیگر عزائم کیا ہیں؟
  • افغان گلوکاروں کے لیے پاکستان امن، محبت اور موسیقی کی پناہ گاہ
  • غزہ پر یہودی حملوں کی شدت چھپانے کیلئے میڈیا پر پابندی(134 مسلمان شہید)
  • غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
  • ٹرمپ نے فرانسیسی صدر کے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے بیان کو مسترد کر دیا
  • یہودی درندوں کے حملوں سے 79 مسلمان غزہ میں شہید
  • طالبان حکومت تسلیم کرنے کی خبریں قیاس آرائی پر مبنی ہیں( ترجمان دفتر خارجہ)
  • افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں پر ہمارے تحفظات پر مثبت ردعمل دکھایا ہے:پاکستان
  • دہشت گرد پناہ گاہوں پر تشویش، طالبان حکومت تسلیم کرنے کی خبریں قیاس آرائی: دفتر خارجہ
  • تنازعہ فلسطین اور امریکا