Daily Ausaf:
2025-06-09@16:40:59 GMT

فلسفہ بیگانگی اور مزدور کا استحصال

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

دنیا سے غربت اور مفلسی کے خاتمے کے لیے روئے زمین پر وسائل، ذرائع یا دولت وغیرہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ قدرتی اور فطری طور پر زمین پر اتنی ہی مخلوقات کو پیدا کیا گیا ہے جتنی زمین پر ان کے ہمیشہ زندہ رہنے کی وافر مقدار میں خوراک موجود ہے۔ اگر آج امریکی ادارہ ناسا (NASA) دوسرےسیاروں پر زندگی کے آثارڈھونڈ رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ زمین پر ذرائع یا خوراک کی کمی نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد کائنات میں کسی جگہ انسانیت کے لیے ایسا محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈنا ہےجہاں وہ لمبی عمر پاسکےیا ہمیشہ کے لیے زندہ رہ سکے۔ کارل مارکس نےغربت کے بارے اس بات سے شدید اختلاف کیاتھا کہ آبادی بڑھنے سے غربت قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہے۔ سچ بھی یہی ہےکہ آبادی کےکم یازیادہ ہونے کا قدرتی وسائل سے کوئی ریاضیاتی موازنہ نہیں بنتا ہے۔ یہ بات سماجی محنت اور جدوجہد کے فلسفہ کے بھی خلاف ہے کہ قدرتی وسائل اتنے کم ہو سکتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری نہ کرسکیں۔ کارل مارکس کاکہنا ہےکہ بڑے پیمانے پرغربت سرمایہ داری نظام کےسماجی ساخت کالازمی نتیجہ ہے۔ سرمائے کی نہ ختم ہونے والی ہوس کی وجہ سے مزید سرمایہ پیدا کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اس کی بہترین مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ ایک گھر میں محنت کرنے والے دس افراد ہوں تو دوسرے گھر میں ایک محنت کرنے والا ہو تو ایک کے مقابلے میں دس محنت کرنے والوں کے پاس اصولی طور پر زیادہ وسائل اور دولت ہو گی۔
کارل مارکس کی نظر میں بھی غربت کی بنیادی وجہ بڑے پیمانے پردولت اور ذرائع کا استحصال ہے۔ مارکس کا اصرارتھاکہ دنیا میں موجود وسائل آبادی کے لئے کافی ہی نہیں بلکہ کافی سے زیادہ ہیں۔مارکس کے خیال میں المیہ یہ ہےکہ ایک مخصوص اقلیت ان وسائل کا استعمال اس طریقے سےکرتی ہے کہ دنیا کی آبادی کا غالب حصہ ان کے ثمرات سے محروم رہ جاتا ہے۔ آج 200 سال گزرنے کے بعد بھی مارکس کا یہ تجزیہ صحیح ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا کے جن سینکڑوں یا ہزاروں افراد کے پاس پیسہ زیادہ ہےان کےپاس مزید پیسے کی تعداد اور وسائل کی مقدار بڑھ رہی یے۔ اس وقت بھی ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک قدرتی وسائل کا استعمال غریب ملکوں کےمقابلے میں بہت زیادہ مقدارمیں کررہے ہیں۔ یہ ممالک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہی نہیں بلکہ دولت کوجمع کرنے اوراس کا ارتکاز کرنےکے لیے بھی غریب ملکوں کے وسائل لوٹ کر اپنےممالک میں لےجاتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام کا ایک یہی المیہ نہیں بلکہ دنیا میں جنگ و جدل کو فروغ دے کر اور اسلحہ بیچ کر کمزور ملکوں کو غلام بنانا اور ان سے زیادہ سے زیادہ دولت بٹورنا بھی ایک نہ ختم ہونے والا انسانیت سوز کاروبار ہے، جو اس وقت بھی دنیا کا سب سے بڑا اور منافع بخش کاروبار ہے۔
کارل مارکس نےسرمایہ داری نظام کے اس غیرانسانی اور غیراخلاقی پہلوکو اجاگر کیا کہ یہ نظام پیداواری عمل کےدوران انسان کوبھی ایک شے یاجنس(commodity) کےطور پر استعمال کرتا ہے۔ مارکس نے مالتھس کے نظریے کی یہ کمزوری بھی واضح کی کہ وہ غربت میں اضافےکی وجوہات میں سرمائے کےچند ہاتھوں میں ارتکازکونظر اندازکردیتا ہے اور صرف آبادی میں اضافےکواس کا سبب بتاتا ہے۔ مارکس نے کہا کہ سرمایہ داری کے بدترین استحصال کے نتیجےمیں جدیداقتصادی نظام آبادی کےایک بڑے حصے کو بیگانگی کا شکارکردیتا ہے جس سےسرمایہ دار اشرافیہ کے مقابلےمیں کمتر مزدور طبقہ پیدا ہوتا ہےجس سےیہ نچلا طبقہ احساس کمتری کاشکارہوجاتاہےاور اپنے اردگرد کے ماحول سے ایک خطرناک حد تک بیگانہ ہو جاتا ہے۔
اس فلسفے کو کارل مارکس “فلسفہ بیگانگی یا لاتعلقی (alienation)کا نام دیتے ہیں۔ یہ نظریہ محض مارکس کےذہن کی اختراع نہیں ہے بلکہ یہ نفسیات کی ایک پرانی اصطلاح ہے۔ اس سےمراد وہ ذہنی کیفیت ہے جس کے باعث انسان اپنے معاشرے، اپنی تہذیب اورحتی کہ اپنی ذات سے بھی کٹ کررہ جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک مزدور ہزاروں لاکھوں کی بستی میں بھی اپنے آپ کو تنہا اور بے یار ومدد گار محسوس کرتا ہے۔ اس کو اپنے گرد و پیش کی ہرچیز اجنبی اور غیرنظر آتی ہے اور وہ معاشرے کی تمام قدروں اور ساری سرگرمیوں کو بے معنی سمجھنے لگتا ہے۔ اس سے معاشرے میں خواہ مخواہ نہ صرف طبقاتی تقسیم پیدا ہوتی ہے، بلکہ یہ گھٹیا سوچ مزدور اور ان پڑھ افراد کے علاوہ تعلیم یافتہ طبقے میں بھی نفرت، حقارت، حسد اور منافقت کو جنم دیتی ہے۔اس ذہنی بیماری کی دوسری علامت لاچاری اور بےبسی کا شدید احساس ہے۔ ایسی کسی صورتحال میں انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ مجھ کو اپنی زندگی پر کوئی اختیارحاصل نہیں ہے۔ وہ مزدور یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے حالات کی اصلاح کر سکتا ہوں اور نہ ہی میرے عمل سے دنیا میں کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔ بےمقصدیت کایہ احساس اس کو سماجی قدروں سےدور لےجاتا ہےاور بےبسی کا احساس اسے اپنے کردار و عمل سے بھی بیگانہ بنا دیتا ہے۔ہمارے پاکستانی معاشرے میں عوام کی اپنے مسائل سے لاتعلقی زیادہ تر اسی سماجی تفاوت اور بیگانگی کانتیجہ ہےجس کے نتیجے میں ہمارےنوجوان سماجی برائیوں میں مبتلاہورہےہیں۔ یہاں تک کہ وہ جدوجہد کی بجائےجھوٹ اور فریب کو اپناتے ہیں اور زندگی میں دولت اکٹھی کرنے کے لئے شارٹ کٹس ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض صورتوں میں وہ “مافیا” اور “انڈر ورلڈ” کے ورغلانے سے خودکش حملے کو بھی اپنے اور معاشرے کے مسائل کا حل سمجھنے میں عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔
موجودہ دورمیں پاکستان تیسری دنیا کے ممالک میں سرمائے کے ارتکاز کی عملی “تجربہ گاہ” بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارےحکمران خود سرمایہ دار ہیں، وہ ملک سے پیسہ اکٹھا کرتے ہیں اور باہر کے ترقی یافتہ ممالک میں جائیدادیں بناتے ہیں۔ ہمارے حکمران اس بات پرفخر کرتے ہوئے نہیں تھکتےکہ ہمارے ملک میں سستی لیبر میسر ہے۔پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری لانےکا یہ ایک انتہائی گھٹیاہتھیار ہےکہ ہمارے ملک میں مزدور سستاہےحالانکہ کہ یہ ہمارےحکمران ہیں جن کی یہ سوچ ہے،کیونکہ وہ سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان لا کر انہیں ہمارے محنت کشوں کا استحصال کرنے کی کھلی چھٹی دیتےہیں جس کا مقصد کک بیکس کھانا ہوتا ہے اور منافع کے لالچ میں حکمران ان بیرونی کمپنیوں کو ہر قسم کی ناجائز مراعات بھی دینے کے لیئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سرمایہ داری کارل مارکس جاتا ہے کہ دنیا نہیں ہے کے لیے

پڑھیں:

علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل

معروف گلوکار، اداکار اور مصور علی ظفر نے اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے نام دل دہلا دینے والی ایک نظم تحریر کی ہے۔

سوشل میڈیا پر گلوکار علی ظفر نے اپنے جذباتی پیغام میں لکھا کہ ثنا یوسف کے بہیمانہ قتل سے میرے دل پر ایک ایسا بوجھ بن گیا ہے جو ہلکا ہونے کا نام نہیں لیتا۔

انھوں نے کہا کہ لیکن یہ غم نیا نہیں ہے۔ قندیل بلوچ سے نور مقدم تک بس نام بدلتے ہیں، زخم وہی رہتا ہے۔

علی ظفر نے مزید لکھا کہ یہ ذمہ داری ہماری ہے کہ ہم اپنے گھر میں مردوں کی تربیت کریں۔ جب تک ہم اپنے بیٹوں کو نرمی، ہمدردی، احترام اور عزت دینے کی تعلیم نہیں دیں گے، ہم اپنی بیٹیاں کھوتے رہیں گے۔

اپنے ویڈیو پیغام میں علی ظفر نے اس سانحہ پر اپنی لکھی ہوئی نظم ’’محبت‘‘ سنائی۔

محبت ملکیت نہیں، احساس ہے، یقین ہے
عورت کوئی شے نہیں — وہ مکمل ہے، مکمل ذات

مرد وہی ہے جو عورت کو بلند پرواز میں دیکھ کر مسکرائے
جس کی روح اُس کے آنسو سن کر بے قرار ہو جائے

عزت اُس کے لباس میں نہیں
بلکہ مرد کی نگاہ کی خاموش شائستگی میں ہوتی ہے

محبت فرمانبرداری کی بنیاد پر نہیں
بلکہ برابری، عزت اور باہمی رضامندی پر قائم ہوتی ہے

خوبصورتی کی فانی چمک پر فیصلہ نہ کرو
بلکہ اُس کے نام کی سچائی کو تلاش کرو

کیسا مرد ہے جو عورت کے انکار سے
اپنی انا زخمی محسوس کرے؟

حقیقی مرد دل جیتتا ہے، مانگ کر نہیں، حکم سے نہیں
بلکہ شائستگی کی طاقت اور آزادی دینے والے دل سے

یاد رہے کہ اسلام آباد میں ایک نوجوان نے دوستی سے انکار اور ملنے سے منع کرنے پر ٹک ٹاکر ثنا یوسف کو گھر میں گھس کر گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔

بعد ازاں ملزم فرار ہوگیا تھا جسے پولیس نے فیصل آباد سے حراست میں لے لیا۔ وہ بھی ٹک ٹاکر تھا اور ثنا کی مقبولیت سے حسد کرتا تھا۔

 

 

TagsShowbiz News Urdu

متعلقہ مضامین

  • چین کا عروج مغرب نہیں روک سکتا
  • پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر کے لیے اعلیٰ سطحی اجلاس
  • پوتا پوتی انور کہہ کر بلاتے ہیں، انور مقصود کا بچوں سے دوستی کا انوکھا فلسفہ
  • ملک میں ڈیمز کی تعمیر کیلئے اجلاس، منصوبہ بندی کیلئے سفارشات پیش
  • علی ظفر کی بے دردی سے قتل کی گئی ٹک ٹاکر ثنا کے نام جذباتی نظم وائرل
  • فلسفۂ قربانی
  • آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
  • اسرائیل غزہ کے حقائق کو دنیا بھر سے چھپا رہا ہے، اقوام متحدہ کا اعلان
  • پی ٹی آئی کی تحریک کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی، وفاق سے ڈائیلاگ کرے: شرجیل میمن
  • پی ٹی آئی جو تحریک شروع کرنے جارہی ہے ان کو اس سے کچھ نہیں ملےگا: رانا ثنا