وی نیوز کی ٹوئٹر اسپیس ’بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق وزیر اطلاعات جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ غیر جذباتی طور پر بلوچستان میں کئی ایسے گروپس ہیں جو بندوں کے ذریعے اپنی سیاسی ڈیمانڈز منوانے چاہتے ہیں۔ اور یہ گروپس پہلی بار نہیں بلکہ 70 کی دہائی سے ہی فعال ہیں۔

ہمسایہ ممالک پاکستان کیخلاف فنڈنگ کرتے ہیں

جان اچکزئی کے مطابق جب بھی پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو ہمسایہ ممالک انڈیا، ایران اور افغانستان کی جانب سے ان گروپس کی فنڈنگ کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جب دشمن ایجنسیاں ان گروپس میں شامل ہو جاتی ہیں، تو ان گروپس کا مقصد بھی بدل جاتا ہے۔ اب بیانیہ ان کا ہمارے سامنے جو بھی ہے۔ لیکن مقصد ان کا وہی ہے۔ جو ان کے سپانسرز اور ہینڈلرز کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان گروپس کا اس وقت مقصد یہی ہے کہ بلوچستان کو غیر مستحکم رکھا جائے۔ یہ گروپ جنہوں نے بندوق اٹھائی ہے۔ یہ دہشتگرد گروپ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ کو خطرناک دہشتگردی سے بچا لیا گیا، سی ٹی ڈی بلوچستان

جان اچکزئی  کے مطابق نوجوانوں میں غربت، مرکزی حکومت سے علیحدگی یا نوجوانوں اور حکومت کے درمیان  فاصلے پر مایوسی ہو سکتی ہے۔ جو کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی ہو سکتی ہے۔ جس پر بحث کی جا سکتی ہے۔

گورننس کے مسائل آج بھی 20 سال پہلے جیسے ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جو لیڈر شپ رہی ہے۔ وہ 2 بڑے گروپس پر مشتمل ہے۔ ایک وہ لیڈر شپ رہی ہے جو بڑے سردار ہیں، جو بلوچستان کے مفاد کے لیے کھڑے رہے ہیں۔ دوسرے خود کو پرو فیڈریشن کہتے ہیں۔ جو بڑے الیکٹبلز ہیں اور ان کے پوتے اور پڑپوتے آج بھی اسی سیاسی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ ان کے اور عام عوام کے درمیان فاصلہ آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے تھا۔ یہاں گورننس کے مسائل آج بھی 20 سال پہلے جیسے ہیں۔ آج بھی بلوچستان میں معیشت، گورننس اور بیوروکریسی کے مسائل موجود ہیں۔ وسائل کی تقسیم متوازی نہیں ہے۔ اور کرپشن بہت زیادہ ہے۔

 محرومیوں کی وجہ سے لوگ غلط نظریہ رکھتے ہیں

جان اچکزئی نے یہ بھی کہا کہ عام آدمی یعنی مڈل کلاس افراد اور پاکستان کی حکومت کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے۔ اسکول، اسپتال اور دیگر وسائل جن کو بہت عام سمجھا جاتا ہے، وہ بلوچستان میں نہیں ہیں۔ اس طرح کی محرومیوں کی وجہ سے لوگ بہت سی چیزوں کو لے کر غلط نظریہ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف بلوچستان آکر کیا کریں گے، ان کے ہاتھ میں ہے کیا؟ سردار اختر مینگل

ڈائیلاگ کی ضرورت ہے

ان گروپس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ان کی فنڈنگ باہر سے ہوتی ہے۔ اور ہمیں ان گروپس کو الگ کرنا ہے۔ بلوچستان کو گورننس کی نظر سے دیکھنا ہے۔ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ نئے صوبے بننے چاہیے۔ انوسٹمنٹ کے لیے ایسا ماڈل چاہیے۔ تاکہ باقی انویسٹر آسکیں۔

نوازشریف سے شکوہ

جان اچکزئی کے مطابق بلوچستان کے حالات سیاسی نہیں ہیں۔ ان سیاستدانوں کے پاس بلوچستان کا نہ ویژن ہے اور نہ ہی ان کی کپیسیٹی ہے۔ مرکز میں موجود دونوں بڑی پارٹیوں کا ذکر کیا جائے تو نواز شریف کبھی بھی کوئٹہ میں ایک دن سے زیادہ نہیں رکے۔ وہ بلوچستان کو اربوں ڈالر کے لحاظ سے دیکھتے ہیں۔ لیپ ٹاپ اسکیم پوائنٹ آف ویو سے دیکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مالک بلوچ صاحب بھی نئے سی ایم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں پہلے بھی نواز شریف نے بنایا تھا، اب پھر جا کر پاؤں پکڑے ہیں۔ ہمیں بلوچستان کو ان کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھنا۔

آصف زرداری بھی بلوچستان کو سرداروں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں

جان اچکزئی کا کہنا تھا کہ یہی مسئلہ پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔ آصف زرداری بھی بلوچستان کو سرداروں کے نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ جس کا نوجوانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی غلطی

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سب سے بڑی غلطی بلوچستان کو سرداروں کے سپرد کرنا ہے۔ چاہے پھر وہ کوئی بھی تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کا خیال ہے کہ یہ بلوچستان کے مسائل کو بخوبی جانتے ہیں، مگر انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کیا۔

 بلوچستان میں بالکل دہشتگردی ہے

دوسری جانب ٹوئٹر اسپیس میں گفتگو کرتے ہوئے ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا کہ بلوچستان میں بالکل دہشتگردی ہے اور لبریشن آرمی کام کر رہی ہے۔ اس کی وجہ ڈیڑھ دہائی سے رہنے والی حکومتیں ہیں۔ کیونکہ انہوں نے وفاق کو کنفیوژن میں رکھا ہے۔ انہوں نے وفاق کو صحیح نہیں بتایا کہ بلوچستان میں کیا صورتحال ہے۔ اور اس سب کی وجہ لبریشن آرمی اور حکومت کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہونا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:بلوچستان: جمعیت علما اسلام نے ثالثی کی پیشکش کردی

بات چیت جاری ہے

ان کا کہنا تھا کہ اب بلوچستان میں جو حالات ٹھیک ہونے جا رہے ہیں، کیونکہ سرفراز بگٹی کی حکومت کی ان سے بات چیت جاری ہے۔ اور بھرپور کوشش کی جا رہی ہے کہ اسٹیک ہولڈرز کو مذاکرات پر راضی کریں۔ اور معاملہ حل کیا جائے۔

بلوچستان کی سب سے بڑی مجبوری

انہوں نے کہا کہ اس صوبے کی سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ 1970 سے لے کر اب تک اس صوبے میں کوئی ایک پارٹی حکومت میں نہیں آ سکی۔ جب بھی صوبے میں حکومت بنتی ہے۔ وہ اتحادی حکومت ہوتی ہے۔ جو پھر اپنے مطابق اس طرح کام نہیں کر پاتی۔

گریڈ 4 کی نوکری بھی بکتی تھی

نوجوانوں پر بات کرتے ہوئے شاہد رند نے کہا کہ نوجوان اس لیے مایوس ہیں کہ انہیں نوکریاں نہیں مل رہیں۔ اور وہاں گریڈ 4 کی نوکری بھی پیسوں میں بکتی تھی۔ مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے یہ چیزیں ختم کی ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں بلوچستان میں اس وقت حکومت کر رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے فیصلے کرنے میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں آسانی ہو رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف زرداری افغانستان انڈیا ایران بلوچستان جان اچکزئی دہشتگردی شاہد رند نوازشریف.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان انڈیا ایران بلوچستان جان اچکزئی دہشتگردی شاہد رند نوازشریف ان کا کہنا تھا کہ سے دیکھتے ہیں بلوچستان میں بلوچستان کو بلوچستان کے کہ بلوچستان کی سب سے بڑی جان اچکزئی کے درمیان نے کہا کہ کے مسائل شاہد رند ان گروپس انہوں نے یہ بھی رہی ہے کی وجہ

پڑھیں:

وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ

خصوصی گفتگو کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ کے لوگ اب ایک چیز پر راضی ہوں گے کہ اس منصوبے کو ختم کیا جائے، ہمیں اس نہج پر نہ لے کر جائیں کہ ایسا فیصلہ ہو جس سے سب کا نقصان ہو، سندھ حکومت اس پروجیکٹ کو رکوانے میں کامیاب ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے نہروں کے معاملے کو بہت خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وفاقی حکومت منصوبہ ختم کرنے کا اعلان کرے تاکہ بے چینی ختم ہو۔ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کینالز منصوبے کو رکوانے میں کامیاب ہے، کینالز کے معاملے پر بات آگے بڑھ رہی ہے، اس پروجیکٹ پر ابھی کام نہیں چل رہا، سندھ کے لوگ اب ایک چیز پر راضی ہوں گے کہ اس منصوبے کو ختم کیا جائے، ہمیں اس نہج پر نہ لے کر جائیں کہ ایسا فیصلہ ہو جس سے سب کا نقصان ہو، سندھ حکومت اس پروجیکٹ کو رکوانے میں کامیاب ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمارے پاس دلیل موجود ہے کہ یہ منصوبہ ملک کے لیے فائدہ مند نہیں، دھرنے کے باعث مسافر پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے کے باعث مویشی لانے والی گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں، احتجاج کریں لیکن سڑکیں بند نہ کریں۔

سید مراد علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ارسا کے سرٹیفکیٹ کو چیلنج کیا ہے، جون سے یہ کیس سی سی آئی میں پڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ارسا میں ان کی درخواست ہے 27 فیصد پانی سمندر میں جارہا ہے اس لیے کینالز کی اجازت دیں، درخواست میں یہ نہیں لکھا کہ پانی بچانے کے اقدامات کریں گے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ یہ نئی درخواست دیں کہ اتنا پانی بچائیں گے ان اقدامات سے اتنی بہتری ہے، پوچھتا ہوں کہ جولائی سے ستمبر تک کونسی گندم اگتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ وضاحت کریں ان نئے کینالز کے لیے پانی کہاں سے لائیں گے؟ بالائی علاقوں میں پانی کے پروجیکٹ پر زیریں علاقوں کی رضامندی لازمی ہے۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ پانی سے متعلق یہی مسئلہ پاکستان کا بھارت اور بھارت کا چین کے ساتھ ہے، سندھ میں کینالز کی لائننگ پر سرمایہ کاری کی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی فوجیوں کا مودی حکومت کے خلاف بغاوت آمیز بیان،بھارت آزاد نہیں،مودی ناکام ہو چکا،اب بھارت پر فوج حکومت کرے گی، بھارتی فوج پھٹ پڑی
  • کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گی؟ وفاق آج تک واضح نہ کر سکا: شاہد خاقان
  • وفاق و صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکیں، اپوزیشن کا کوئی باضابطہ اتحاد نہیں: فضل الرحمن
  • کینالز تنازع ،وفاق کا سندھ سے رابطہ، وزیراعظم ، وزیراعلیٰ کی ملاقات طے
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • کینالز کے معاملے کو وفاق اتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہا جتنا اس کو لینا چاہیئے، شرمیلا فاروقی
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • کینالز کے معاملے پر وفاق کا سندھ سے رابطہ، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کی ملاقات طے پاگئی
  • وزیراعظم کا دورہ ترکیہ, صدر اردوان سے اہم ملاقات متوقع