نئی نہروں کا معاملہ سنجیدہ ہے، تحفظات سن کر فیصلہ کیا جائے، علامہ ساجد نقوی
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
ایس یو سی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ تکنیکی و آئینی امور کو مشترکہ مفادات کونسل جیسے اعلیٰ سطحی فورمز پر حل کیا جائے، تحفظات سمیت سیاسی و سماجی حلقوں کی پانی تقسیم بارے تشویش پر سنجیدہ نوٹس لیا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کہتے ہیں تکنیکی و آئینی امور کو اعلیٰ سطحی فورمز پر ہی حل ہونا چاہیے، اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے، دریائے سندھ پر نئی نہروں کے معاملے پر عجلت سے گریز کیا جائے، معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں فی الفور زیر غور لایا جائے، قومی اہمیت کے حامل ایشوز کو باہمی افہام و تفہیم سے ہی حل ہونا چاہیے، اس بارے تحفظات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے دریائے سندھ سے چولستان کے لئے نئی نہروں بارے اٹھنے والے تحفظات، وفاقی حکومت کی طرف سے وضاحتیں اور مختلف سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے معاملے پر اٹھنے والے تحفظات و تشویش پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا۔
علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ پانی کا براہ راست تعلق عام کاشت کار اور عوام سے ہے لہٰذا اس طرح کے قومی و عوامی اہمیت کے حامل منصوبوں پر سیر حاصل بحث، باہمی افہام و تفہیم اور تمام اکائیوں کا اتفاق رائے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اہم قومی امور پر اگر اتفاق رائے نہ ہو تو نہ صرف اس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے بلکہ مثبت اقدامات کے بھی منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر فی الفور مشترکہ مفادات کونسل کا فورم متحرک کیا جائے، صوبوں کے ذمہ داران کے ساتھ تکنیکی و عوامی تحفظات کا جائزہ لیا جائے اور ان تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے تاکہ اس معاملے پر عوامی بے چینی ختم ہو اور معاملہ پرامن طریقے سے حل کی جانب بڑھے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
36 ہزار مدارس میں سے 19300 رجسٹرڈ ہیں، ڈی جی وزارت مذہبی امور کی سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ
ڈی جی وزارت مذہبی امور کا کہنا ہے کہ ملک میں 36 ہزار مدارس میں سے 19 ہزار 300 رجسٹرڈ ہیں۔ یہ مدارس باہر کا سیکیورٹی گارڈ تک نہیں رکھنے دیتے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈی جی وزارت مذہبی امور نے کہا کہ پولیس کو مدارس کے دورے کرنے کی اجازت کا قانون بننا چاہیے۔
چیئر پرسن ثمینہ ممتاز زہری نے کہا مدارس میں بچوں پر ظلم کا کون ذمہ دار ہے؟ وفاق اور صوبوں نے کیا کیا؟ سینیٹر ولی نے کہا صرف تشدد والے نہیں ان مدرسوں کی بھی بات کی جائے جہاں دہشت گرد ہیں۔
ممبر کمیٹی سید مسرور نے سوال کیا جب جامعات اور کالجز بنانے کا طریقۂ کار موجود ہے تو مدارس کے لیے کیوں نہیں؟
ممبر کمیٹی عطاء الحق نے کہا سوال یہ ہے کہ کیا مار پیٹ صرف مدارس میں ہوتی ہے، اسکولوں میں نہیں ہوتی؟ تشدد ہر جگہ ہو رہا ہے، جوڈیشل انکوائری کرائی جائے۔