عمر رواں، ایک عہد کی داستان
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
’’ عمرِ رواں‘‘ یہ ایک عہدکی داستان ہے۔ ایسی داستان کہ جس میں دل ہے ، خرد ہے، روح رواں ہے، شعور ہے۔ داستانِ حیات، آٹو بائیو گرافی،آپ بیتی، یہ ایسے مشہور شخصیات کی ہوتی ہیں، جن سے ایک زمانہ وابستہ رہا ہو۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ایک ہیں جنھوں نے ’’عمرِ رواں‘‘ کی صورت میں حالات و زندگی پر ایک خوبصورت کتاب تحریر کی ہے۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک درویش منش اور سفید پوش انسان ہیں جنھوں نے ساری زندگی مخلوقِ خدا کی خدمت اور فلاح انسانیت کو اپنی زندگی کا مشن سمجھا۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کے صاحبزادے اور جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ہیں۔ وہ زمانہ طالب علمی میں اسلامی تحریک سے وابستہ ہوئے اور پھر تمام عمر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ ان کا سفرِ زندگی روشن ستارے کے مانند،کامیابیوں کی راہوں میں ساری زندگی چراغ جلاتے منزلوں کو پانے کی جستجو میں مگن رہے۔
ان کی دلکش گفتگو، انتھک محنت، موثر دعوت و تبلیغی اسلوب اور اعلیٰ سیرت و کردار نے ان کی شخصیت کو اس قدر اعتبار بخشا کہ آج وہ عوام الناس کے ہر دلعزیز رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ’’ فرید احمد کو میں نے گفتار سے زیادہ کردار کا غازی پایا مگر مائیک سامنے ہو تو گل افشانی گفتار بھی دیدنی اور شنیدنی ہوتی ہے۔
ان کی ایک قابلِ رشک صلاحیت ماضی کی یادوں اور مستقبل کے ارادوں سے کٹ کر لمحہ موجود کو ڈھنگ سے بسرکرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ میدانِ عمل کے آدمی ہیں لیکن زندگی کی ریل پیل یا بسا اوقات جیل میں جہاں چند لمحوں کی فرصت میسر آئی وہ کمال یکسوئی سے کتاب، قلم یا مُوقلم سے رشتہ جوڑ لینے میں کامیاب رہے۔‘‘
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کی ہر صلاحیت ایک سے بڑھ کر ایک ہے، جس میں سے ’’ عمرِ رواں‘‘ بھی ان کی صلاحیت کا ایک بھرپور عکس ہے جس میں انھوں نے خود کو بڑی دیانتداری سے اپنے ناقدین کے سامنے پیش کیا ہے۔
ان کی یہ کتاب بہت جاندار اور اس کی جانداری میں ان کی پختہ نثر کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی زندگی میں جہاں کامیابیاں حصے آئی وہیں ناکامیاں بھی راہ کا پتھر بنیں۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اپنی رائے میں لکھتے ہیں کہ’’ ان کی کتاب ’’ عمرِ رواں‘‘ نہایت عمدہ انداز و اسلوب اور خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے جس سے ہماری قومی و ملی تاریخ کے نہ صرف نمایاں بلکہ بعض خفیہ گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔
تحریکی یاد داشتوں کا یہ ایک دلکش اور عمدہ مجموعہ ہے جو اپنے قاری کو مطالعہ مکمل کیے بغیر کتاب رکھنے نہیں دیتا۔‘‘ اس کتاب میں بہت سی علمی، ادبی، سیاسی اور مذہبی شخصیات کا ذکر بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ جن میں میراں شاہ، مولانا مودودی، کوثر نیازی، ڈاکٹر اسعد گیلانی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر انوار احمد اور ڈاکٹر خورشید رضوی ودیگر اہم چہروں کی کہکشاں موجود ہے۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی باتیں اور یادیں محض قصے کہانیاں نہیں بلکہ دعوت فکر دینے والی اور سبق آموز باتیں ہیں۔ ان کی سوانح عمری سدا بہار موسم کی طرح ہے جو انسان کو مطالعہ کے دوران اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب کی انفرادیت کے حوالے سے اپنے ابتدائیہ میں رقم طراز ہے کہ’’ کتاب میں بعض واقعات کو اتنا ہی کھول کر بیان کیا ہے جتنی ضرورت اور اجازت تھی، واقعات میں تاریخی تسلسل پوری طرح مدنظر نہیں رکھا جا سکا۔‘‘
’’عمرِ رواں‘‘ یہ ایک خود دار اور بااصول انسان کی داستان ہے جس نے افلاس اور تنگدستی کا استقلال اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور محض ذاتی کوشش و جانفشانی سے کامیابی کی منزل تک پہنچا۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران کئی دہائیوں کی یادیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگتی ہیں، جن میں الفاظ یادِ ماضی اور عصرِ حاضرکی جدت طرازی کے چٹکے ہوئے پھول بھی اپنی نکہتیں لٹاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ بقول شاعر
کیسے گزری زندگانی لکھ رہا ہوں
میں محبت کی کہانی لکھ رہا ہوں
ایک دن تجھ کو بڑھاپا دیکھنا ہے
یہ جوانی آنی جانی لکھ رہا ہوں
اس کتاب کا انتساب انھوں نے سید مودودیؒ ، اپنے ابا جی گلزار احمد مظاہریؒ اور اپنی اماں جی مرحومہ ودیگر عزیزو اقارب، احباب و رفقا کے نام کیا ہے۔ 400 صفحات پر مبنی یہ ضخیم کتاب ان کی 71 سال کے شب ور وز اور ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔اس سے قبل بھی ان کی ایک کتاب ’’میرے رہنما میرے ہم نوا‘‘ کے نام سے شایع ہوچکی ہے، جب کہ ’’عمرِ رواں‘‘ دلکش نقوش اور دلی تاثرات پر مشتمل ہونے کے باعث ایک تاریخی داستان بن گئی ہے ۔
اس کتاب کو لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’ قلم فاؤنڈیشن‘‘ نے شایع کیا ہے۔ جس کے روحِ رواں علامہ عبدالستار عاصم ہے جو خود بھی بہت خوبصورت نثر لکھنے کے باوصف ایک کتاب دوست شخصیت کے مالک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے بھی اپنے حرفِ آغاز میں انھیں ایک کرشماتی شخصیت کے لقب سے نوازا ہے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ :
یہ نصف صدی کا قصہ ہے
دو چار برس کی بات نہیں
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
خیبرپختونخوا میں پولیو کے 2 نئے کیسز رپورٹ، رواں برس تعداد 26 تک پہنچ گئی
خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پولیو کے 2 نئے کیسز سامنے آگئے ہیں، جس کے بعد ملک بھر میں اس سال رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 26 تک پہنچ گئی ہے۔
یہ اعداد و شمار نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) نے جاری کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں پولیو کا نیا کیس رپورٹ، مجموعی تعداد 24 ہوگئی
پاکستان اور افغانستان دنیا کے وہ دو آخری ممالک ہیں جہاں پولیو تاحال وبائی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔
این آئی ایچ کے مطابق ایک کیس شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی میں 19 ماہ کے بچے میں سامنے آیا، جبکہ دوسرا کیس لکی مروت کی تحصیل سلیمان خیل میں 11 ماہ کے بچے میں رپورٹ ہوا۔
اس طرح خیبرپختونخوا میں رواں سال پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 18 ہوگئی ہے، جو ملک بھر کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
ملک بھر میں کیسز کی تفصیل کے مطابق سندھ سے 6، خیبرپختونخوا سے 18، جبکہ پنجاب اور گلگت بلتستان سے ایک، ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔
اگست کے ماحولیاتی سیمپلنگ کے نتائج بتاتے ہیں کہ ملک کے 87 اضلاع سے حاصل کردہ 126 نمونوں میں سے 75 منفی جبکہ 51 مثبت پائے گئے۔ بلوچستان کے 23 نمونوں میں سے صرف ایک، کے پی کے 34 میں سے 10، پنجاب کے 31 میں سے 14، جبکہ سندھ کے 29 میں سے 24 مثبت نکلے۔
ان میں سے 12 صرف کراچی کے تھے۔ گلگت بلتستان اور اسلام آباد سے بھی ایک، ایک نمونہ مثبت آیا۔
رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں صورتحال میں واضح بہتری دیکھنے کو ملی جہاں جنوری میں 19 مثبت سائٹس تھیں جو جولائی اور اگست میں گھٹ کر صرف ایک رہ گئیں۔
اسی طرح خیبرپختونخوا میں بھی اپریل میں 13 مثبت سائٹس تھیں جو اگست میں کم ہوکر 10 رہ گئیں، اور ان میں سے 7 جنوبی اضلاع میں رپورٹ ہوئیں، جبکہ پشاور کے تمام نمونے منفی نکلے۔
اسلام آباد میں بھی مثبت سائٹس کی تعداد جولائی میں 3 سے گھٹ کر اگست میں صرف ایک رہ گئی۔
این آئی ایچ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ جنوبی خیبرپختونخوا میں مسلسل کیسز سامنے آنا تشویشناک ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں تک رسائی مشکل ہے یا کمیونٹی میں ویکسین کے حوالے سے ہچکچاہٹ پائی جاتی ہے۔
اس تناظر میں جنوبی خیبرپختونخوا میں 3 روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوگیا ہے جو 18 ستمبر تک جاری رہے گی۔ اس حوالے سے ایک خصوصی ایکشن پلان تشکیل دیا گیا ہے جس پر چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا کی نگرانی میں عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔
اس پلان میں مانیٹرنگ بہتر بنانے، رسائی کے مسائل حل کرنے اور کمیونٹی کو شامل کرنے پر توجہ دی جارہی ہے تاکہ ہر بچے تک ویکسین پہنچ سکے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں انسدادِ پولیو مہم کا آغاز، 57 لاکھ سے زائد بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف
چیف سیکریٹری شاہب علی شاہ نے ہدایت دی ہے کہ کسی بھی بچے کو ویکسین سے محروم نہ رہنے دیا جائے۔ اس سے قبل یکم سے 7 ستمبر تک قومی سطح پر سب نیشنل پولیو مہم کے دوران ملک کے 81 اضلاع میں پانچ سال سے کم عمر 1 کروڑ 98 لاکھ بچوں کو ویکسین پلائی گئی تھی۔
این آئی ایچ نے والدین اور سرپرستوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ہر مہم کے دوران لازمی ویکسین پلائیں کیونکہ پولیو ایک خطرناک اور ناقابل علاج بیماری ہے جو عمر بھر کی معذوری کا سبب بن سکتی ہے، اور اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ بروقت اور بار بار ویکسینیشن ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews پولیو کیسز جنوبی اضلاع خیبرپختونخوا محکمہ صحت وبائی صورت حال وی نیوز ویکسینیشن