امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدر منتخب ہوتے ہی غیر معمولی اقدامات کا آغاز کیا اور وہ آئے روز دنیا کو سرپرائز دیتے رہتے ہیں۔

حال ہی میں انہوں نے معاشی محاذ سنبھالا اور ٹیرف جنگ کا آغاز کر دیا جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔اس کے عالمی معیشت اور پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے،ا س کے بارے میں جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں نمائندہ بزنس کمیونٹی اور ماہرین اقتصادیات کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

محمد ندیم قریشی

(سابق ریجنل چیئرمین، ایف پی سی سی آئی)

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن دنیا کی بڑی طاقتوں نے بنایا تاکہ ٹیرف کم ہو اور ہمارا مال بھی ان کے ممالک میں پہنچ سکے، اس میں ان کا مفاد تھا جبکہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ دور ان کے سابق ادوار سے مختلف ہے۔ ٹرمپ ٹیرف کو چار دن بعد ہی 90 روز کیلئے موخر کر دیا گیا۔ یہ جنگ بڑی طاقتوں کی ہے جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

اب جنگ ٹینکوں اور طیاروں کی نہیں معیشت کی ہے ۔ امریکا اور چین کی معاشی جنگ کی بات کریں تو چین ایک مضبوط معیشت ہے، اس کو جھکانا امریکا کیلئے ناممکن ہے۔ امریکا کی اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ 5 برسوں میں بھی خود کو چین کا متبادل بنا سکے، چینی اشیاء کی قیمت میں اضافے سے امریکی صارف متاثر ہوگا۔

چین دنیا بھر سے تجارت کر رہا ہے اور دیگر ممالک میں اپنی انڈسٹری بھی لگا رہا ہے۔ اس نے کیمیکل، فارما سیوٹکلز ودیگر انڈسٹری ویتنام اور دیگر ممالک میں لگائی ہے، پاکستان میں بھی لگ سکتی ہے لیکن ا س میں ہماری حکومتوں کی کمزوریاں ہیں۔ حالیہ معاشی جنگ میں پاکستان کیلئے زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ ہم ساڑھے پانچ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر بڑا ہے۔ ہم پر خطے میں بھارت کے بعد کم ٹیرف لگا ہے۔ یہ ایک اہم موقع ہے۔ ہمیں جی ایس پی پلس سٹیٹس کے ختم ہونے کا خوف ہوتا ہے لہٰذا اب ہمیں امریکی مارکیٹ میں مزید جگہ بنانے میں مدد ملے گی اور امید ہیکہ ہماری بند انڈسٹری بھی بحال ہوگی۔

حکومت زراعت کے فروغ کیلئے کام کر رہی ہے۔ گزشتہ 75 برس میں اتنا کام نہیں ہوا جتنی توجہ موجودہ حکومت دے رہی ہے مگر اس کے باوجود شعبہ زراعت کیلئے بنیادی پالیسی نہیں بنائی جاسکی۔ سبسڈی سے کچھ سپورٹ تو ملتی ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کسانوں کی مدد اور کپاس کی پیداوار کے حوالے سے بھی اقدامات کر رہی ہیں لیکن میرے نزدیک اگر حکومت صحیح معنوں میں زرعی ترقی چاہتی ہے تو اسے جامع حکمت عملی بنانا ہوگی۔ ہمیں کسان کی پیداواری لاگت کم کرنا ہوگی۔ آٹا، چینی اور گندم حکومت کے کنٹرول میں ہے، اسے فری مارکیٹ کرنے سے قیمتیں مناسب ہو جائیں گی، دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں سے نقصان امریکا کو بھی ہوگا۔ چین کے پاس راستے بہت ہیں، اس نے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے پر پھیلا رکھے ہیں۔ اگر آج امریکا کے ساتھ تجارت بند ہوتی ہے تو چین کے پاس یہ آپشنز موجود ہیں کہ وہ امریکی ایکسپورٹ کا 50 فیصد دوسرے ممالک میں فوری بھیج دے گا۔

اس کے علاوہ اس کی اپنی آبادی زیادہ ہے، 25 فیصد اس کے اپنے ملک میں لگ جائے گا، باقی 25 فیصد کا بوجھ وہ با آسانی برداشت کر سکتا ہے جبکہ امریکا کے پاس یہ صلاحیت نہیں ہے۔ دنیا کیلئے بہتر یہی ہے کہ معاشی جنگ نہ ہو۔ اس سے دنیا کا معاشی سٹرکچر بدل جائے گا، معیشت کی عالمی جنگ ہوگی جس کا نقصان سب کو اٹھانا پڑے گا۔ جب چین اپنی پراڈکٹس دنیا کے دیگر ممالک کو بھیجے گا تو اس کا اثر ہم پر بھی پڑے گا کیونکہ اس کی پیداواری لاگت ہم سے بہت کم ہے۔ چین کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ ممالک کی مینوفیکچرنگ صلاحیت کو ختم کرکے انہیں صرف ٹریڈر بنا دے۔

ڈاکٹر قیس اسلم

(ماہر معاشیات)

تکنیکی طور پر یہ کمیونسٹ اور فری مارکیٹ ریاستوں کی لڑائی ہے ۔ ایک کا چہرہ چین ہے جبکہ دوسروں کا نمائندہ امریکا اور یورپی یونین ہیں، یہ سب ہی ٹاپ تھری معاشی طاقتیں ہیں۔ گزشتہ 50 سال پینڈولم فری مارکیٹ کی طرف تھا، چین بھی اس کی بات کرتا تھا۔ امریکا جو فری مارکیٹ کا لیڈر ہے، وہ پینڈولم کو کلوزڈ اکانومی کی طرف لے جا رہا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کپیٹل ازم کرائسس میں ہے جسے ٹرمپ بچانا چاہتا ہے۔ ایک طرف برکس ہے تودوسری طرف ٹرمپ کی پالیسیوں کے پیش نظر 40 برس سے زائد عرصہ اکٹھا نہ ہونے والے چین، جاپان اور جنوبی کوریا نے فری ٹریڈ زون بنا لیا ہے اور یہ ٹرمپ ٹیرف کے تیسرے روز ہوا۔ ٹرمپ نے ڈیوس میں کہا تھا کہ جسے ٹیرف نہیں چاہیے وہ اپنی پروڈکشن امریکالے آئے ، اس حوالے سے اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ نیسان نے اپنی پروڈکشن کا بڑا حصہ امریکا منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فری ٹریڈ اکانومی میں وہ اشیاء بنائی جاتی ہیں جو سستی تیار ہوتی ہیں اور جنہیں دنیا میں ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے لیکن کلوزڈ اکانومی میں تو آپ کو ہر چیز خود تیار کرنا ہوگی اور وہ اشیاء بھی بنانا ہونگی جن کی ڈیمانڈ کم ہے ۔ چین اور امریکا کے درمیان بہترین معاشی تعلق بن چکا تھا ، امریکا نے اپنی مینوفیکچرنگ چین میں منتقل کی وہاں بڑی سرمایہ کاری بھی امریکا کی ہے اور چین کی سب سے زیادہ ایکسپورٹ امریکا ہوتی ہے۔جب چین پر 125فیصد ٹیرف لگے گا تو اس کا نقصان امریکی صارفین کو ہوگا۔ ٹرمپ نے 90 دن کیلئے ٹیرف کو معطل کیا ہے لیکن یہ ریلیف چین، کنیڈا اور میکسیکو کیلئے نہیں ہے۔

ٹرمپ نے گزشہ دور حکومت میں میکسیو اور کینڈا کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدہ کیا اور اسے بہترین قرار دیا، اب ان پر ٹیرف لگا کر اپنے ہی معاہدے کے خلاف کام کیا ہے۔ پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف لگا ہے جو بھارت سے زیادہ ہے مگر بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک سے کم ہے۔ہمیں اب دو کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ کہ ہم جی ایس پی پلس سٹیٹس سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور نئی مارکیٹ تلاش کریں۔ اس کے علاوہ امریکا میں جو اشیاء مہنگی ہوئی ہیں، ان میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کریں۔

حال ہی میں ملک میں منرلز پر عالمی کانفرنس ہوئی ہے جس میں امریکیوں نے بھی شرکت کی۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ہم خام مال نہیں دیں گے بلکہ اس کی مینوفیکچرنگ کرکے ایکسپورٹ کریں گے۔ اس میں اہم یہ ہے کہ جس علاقے سے یہ منرلز نکلیں گی، اس کا پچاس فیصد وہاں کے لوگوں پر خرچ کیا جائے گا۔ ہمارے لیے افریقی مارکیٹ بھی موجود ہے جہاں ایکسپورٹ کی جاسکتی ہے۔ اس وقت اہم یہ ہے کہ مینوفیکچررز اورایکسپورٹرزکو یہ بتایا جائے کہ کہاں کہاں مواقع موجود ہیں اور کونسی مصنوعات تیار کرنی ہیں۔ حکومت کو اس پر بھی کام کرنا چاہیے کہ ممالک کی مصنوعات کا ٹیرف کے بعد جائزہ لے اور مینوفکچررز اور ایکسپورٹرز کو بتائے کہ انہیں کیا کام کرنا چاہیے۔ اگر یہ نہ کیا گیا تو حالیہ موقع بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔

میرے نزیک ٹرمپ دنیا کو ڈرا رہا ہے کہ بات چیت کریں۔ ٹرمپ غیر قانونی تارکین وطن کو نکال رہا ہے۔ امریکی حکومت کے رکن نے یہ بھی بیان دیا ہے کہ جس سٹوڈنٹ نے فیس بک پر فلسطین کی حمایت کی، اس کا ویزہ منسوخ کر دیا جائے گا، یہ افسوسناک ہے، اس پر سب کو متحد ہونا ہوگا۔ امریکا، یورپ کے بجائے چین اور روس سے دوستی کرنا چاہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ نیٹو نے اس کا نقصان کیا اور یورپی یونین امریکا کے خلاف بنی۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی سفید فام، مینوفیکچرز اور کسانوں کو سپورٹ کرنا چاہتا ہے لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے، چین سے انڈسٹری امریکا منتقل کرنے میں خاصا وقت درکار ہے۔

برکس میں چین اور بھارت کے درمیان مخالفت میں کمی آئے گی۔ ٹرمپ نے یہ بھی دھمکی دی کہ اگر برکس اپنی کرنسی بنائے گا تو سخت ردعمل آئے گا جس پر روسی صدر پیوٹن نے بھی کہا کہ ہم ابھی اپنی کرنسی بنانے کا نہیں سوچ رہے۔ بہرحال ورلڈ آرڈر میں تبدیلی آرہی ہے۔ پاکستان نے کمیشن بنایا ہے جس میں وزراء شامل ہیں ، کہ ہم نے زائد بجلی سے کرپٹو کرنسی بنانی ہے۔ کسی اور ملک نے اس طرح کی بات نہیں کی، سینٹرل بینک نے اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ ہماری اکنامک فارمولیشنزعوام یا مینوفیکچرنگ دوست نہیں ہیں، ہمیں اس پر سوچنا پڑے گا۔ آبادی کے لحاظ سے چین دنیا کا دوسرا اور امریکا تیسرا بڑا ملک ہے۔

یہ اگر اپنے اپنے ملک میں اشیاء بیچیں تو ان کا کام چل سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس وسائل ہیں، ان کی معیشت مستحکم ہے، ان کے پاس پانی، توانائی، ٹیکنالوجی، لیبر، عوام سب کچھ ہے۔ مسئلہ یورپ کو ہوگا، اگر باقی دنیا اپنی زراعت اور وسائل پر توجہ دے، کام کرے تو اس کا بھی کام چل جائے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ تیسری مرتبہ صدر بننا چاہتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو ان کا مقابلہ باراک اوبامہ سے ہوگا، اس وقت یہ مہنگائی اور پالیسیوں کا نقصان امریکا کو ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ چیزیں آگے چل کر بہتر ہونگی اور انہیں بیلنس کرنا پڑے گا۔ اصل پلیئر تو یورپ ہے جسے سمجھ نہیں آرہی کہ امریکا، چین یا روس، کس سے دوستی کرنی ہے۔ اس صورتحال میں فیصلہ کن کردار یورپ کا ہوگا۔

عابد رضا خان

 (اسسٹنٹ پروفیسر، سکول آف اکنامکس جامعہ پنجاب)

پچھلی صدی میں دو عالمی جنگیں ہوئیں، گریٹ ڈپریشن آیا جس کے بعد دنیا نے فیصلہ کیا کہ ’رول بیسڈ آرڈر‘ بنانا جس کے تحت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بنے اور بعدازاں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ اس آرڈر کی بنیاد پر دنیا نے اپنی تجارت اور نظام کو استوار کیا، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا ایک دوسرے سے منسلک ہے، بڑی کمپنیوں کی پراڈکٹس کے حصے ایک سے زائد ممالک میں تیار ہوتے ہیں۔ ٹرمپ ٹیرف اس رول بیسڈ آرڈر کے خلاف ہے۔

اس آرڈر کے تحت تو تجارت کا فروغ اورٹیرف میں کمی کرنا تھی لہٰذا ٹرمپ ٹیرف اس کا مخالف ہے۔ ماضی میں ’ڈبیلو ٹی او‘ نے پاکستان کو پاور سیکٹر کی نجکاری کا کہا۔ اسی اور نوے کی دہائی میں پاکستان، بھارت سمیت دنیا بھر میں پرائیویٹ مارکیٹ کو فروغ دیا گیا، تجارت پر پابندیاں لگائی گئیں اور دنیا میں فری ورلڈ ماڈل انفورس کیا گیا اور اس کا لیڈر آج بھی امریکا ہے لیکن اب امریکی صدر خود گلوبل اکنامک آرڈڑ کے مخالف کام کر رہے ہیں۔

1971 میں اس وقت کے صدر نکسن نے یکطرفہ فیصلے کرتے ہوئے ڈالر کو سونے سے الگ کر دیا۔ اس وقت اسی قسم کے حالات تھے، اس کا فائدہ امریکا کو ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو سنٹرل امریکا سے زیادہ ووٹ ملتے ہیں، یہ لوگ مینوفیکچرنگ اور زراعت سے منسلک ہیں، ٹرمپ کے فیصلوں سے ان کو فائدہ ہوگا، وہ خوش دکھائی دیتے ہیں۔

فری ٹریڈ کے خلاف بات ہو رہی ہے۔ یورپ نے گرین انڈسڑیلائزیشن پر کام کیا، کاربن بانڈڈ ایڈجسٹمنٹ میکنزم لا رہے ہیں جس سے وہ اپنی انڈسٹری کی حفاظت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ وہ جوابی ٹیرف لگائیں گے لیکن اس کا جو فارمولا سامنے آیا ہے،ا س میں ایسا نہیں ہے، وہ ٹریڈ سرپلس کے حوالے سے ہے۔ پاکستان سوا پانچ بلین ڈالر ایکسپورٹ کرتا ہے، 3.

7 بلین کا سرپلس بنتا ہے،یہ نمبر 60 کے قریب بنتا ہے، اسے 2 کے ساتھ تقسیم کیا ہے اور یہ ٹیرف لگ گیا۔ جرمنی نے امریکا پر1.75 ٹیرف لگایا ہے جبکہ امریکا نے 20 فیصد لگا یا ہے، اس پر بات ہو رہی ہے اور مذاق بھی بن رہا ہے۔ میرے نزدیک ٹرمپ ٹیرف کا مقصد گلوبل اکنامک آرڈر کو تبدیل کرنا ہے۔ پاکستان سوا پانچ بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے جن میں ٹیکسٹائل 70 فیصد ہے۔

امریکا میں اتنی پروڈکشن کپیسٹی نہیں ہے کہ وہ دنیا میں ٹیکسٹائل مہنگی ہونے کے بعد خود اس کی پروڈکشن کرے۔ اب دنیا کے ممالک میں یہ ریس لگے گی کہ کون معیاری اور سستی ٹیکسٹائل پراڈکٹس امریکا کو ایکسپورٹ کرے گا۔ اس خطے میں بھارت کے علاوہ سب سے کم ٹیرف پاکستان پر لگا ہے لہٰذا یہ ہمارے پاس بھی ایک بڑا موقع ہے، اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

ٹیکس کی وجہ سے جب قیمت بڑھتی ہے تو سارا بوجھ صارف پر نہیں ڈالا جاتا بلکہ مینوفیکچرر خود بھی بوجھ برداشت کرتا ہے لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ چین کتنا بوجھ خود اٹھائے گا تاکہ امریکی مارکیٹ میں اس کی مصنوعات کی قیمت زیادہ نہ بڑھے۔ اس وقت دنیا کی مارکیٹ اور خود امریکا میں بھی غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ سرمایہ کاروں کیلئے تو لانگ ٹرم پالیسی کی اہمیت ہوتی ہے۔

ٹرمپ نے تو آتے ہیں سب کچھ ہلا دیا اور ان کی پالیسیاں بھی اچانک ہی آتی ہیں۔ اب انہوں نے ٹیرف کا اعلان کیا اور پھر اسے معطل بھی کر دیا۔اس غیر یقینی کی وجہ سے مارکیٹ مسائل کا شکار ہے، لوگ اپنا پیسہ نکال رہے ہیں۔ ٹیرف کے اعلان کے بعد سب سے پہلے سونا مہنگا ہوا، یہ ایک محفوظ سرمایہ کاری ہوتی ہے لہٰذا لوگ سونا خرید لیتے ہیں۔ بانڈز مارکیٹ میں منفی رجحان کی وجہ سے ٹرمپ نے ٹیرف کا فیصلہ واپس لیا۔ تجارت کی دنیا میں سرپلس ملک جنگ نہیں جیت سکتا۔

چین کی تجارت کا حجم زیادہ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں وہ امریکا سے بہت کم خرید رہا ہے۔ اگر صرف تجارت کے حوالے سے دیکھیں تو چین کے جوابی ٹیرف سے اسے خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ ٹرمپ ٹیرف کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ ان ممالک سے ٹیبل ٹاک کے ذریعے معاملات طے کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ دنیا اور اپنے ووٹر کو دکھا سکے کہ میں نے چین کو بیٹھنے پر مجبور کر دیا اور اس کے ساتھ ڈیل کی ہے۔ چین کے سخت ردعمل کا مطلب یہ ہے کہ وہ ٹیبل پر بیٹھنے کو تیار نہیں ہے۔

چین دنیا کی بڑی معاشی طاقت ہے لیکن اس کے اور امریکی شہری کے درمیان لائف سٹائل کا موازنہ کریں تو امریکا کہیں آگے ہے لہٰذا اس ٹریڈ وار میں چین کو اپنی ڈومیسٹک ڈیمانڈ کو بڑھانا چاہیے اور جو مصنوعات وہ امریکا اور دیگر ممالک کو ایکسپورٹ کر رہا ہے، اس کو اپنے ملک میں بیچے تاکہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر اور امیر، غریب کی تفریق کم ہوسکے۔ چین امریکا کا سب سے بڑا سپلائر ہے، کئی ایسی پراڈکٹس ہیں جو کوئی اور ملک نہیں بناتا، امریکا یہ اشیاء چین سے ہی خریدے گا اور اس کا اثر امریکی صارفین پر پڑے گا۔ چین کہ پاس یہ بھی آپشن ہے کہ وہ امریکا کے بجائے دیگر ممالک پر توجہ دے۔ وہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو فروغ دے سکتا ہے۔ا سی طرح سی پیک منصوبے کی وجہ سے چین کی وسطی ایشیاء تک رسائی اور تجارت ہوگی۔

لانگ رن میں ٹیرف دنیا کے لیے بڑا مسئلہ نہیں ہوگا بلکہ ایک نیا ورلڈ آرڈر آئے گا مگر شارٹ ٹرم میں دنیا کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔زیادہ امکان تو یہ نظر آتا ہے کہ ٹیرف جیسی پالیسیاں رول بیک ہوجائیں گی مگر ٹرمپ نے ٹیرف کو پالیسی ٹول کے طور پر متعارف کرایا ہے۔ اسے معاشی اور سفارتی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ٹرمپ یورپی یونین کے بڑے سپورٹرنہیں ہیں۔ٹرمپ کی حالیہ پالیسی میں برطانیہ پر ٹیرف 10 جبکہ یورپی یونین پر 20 فیصد ہے۔ برطانیہ میں کاروباری طبقے کا ایک بڑا گروہ کہہ رہا تھا کہ بریگزٹ والی بڑی غلطی کر لی ہے، کوئی راستہ نکالا جائے۔ اب برطانیہ پر کم ٹیرف کی وجہ سے جرمنی کے مقابلے میں برطانوی بزنس کمیونٹی کیلئے امریکی مارکیٹ سازگار ہوگی۔ ٹرمپ اپنے پہلے دور میں تجارت کے حوالے پالیسی میں تبدیلی لائے،ڈیموکریٹس نے اس پر شدید تنقید کی لیکن جب جوبائیڈن صدر بنے تو اس کا تسلسل جاری رہا۔میرے نزدیک ٹیرف ٹول اب ممالک کی پالیسی میں واپس آگیا ہے، ٹرمپ رول بیک کر بھی دیں تو یہ ٹول استعمال ہوگا۔ 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یورپی یونین ایکسپورٹ کر ڈونلڈ ٹرمپ فری مارکیٹ دیگر ممالک کی پالیسی وہ امریکا کی مارکیٹ امریکا کو ٹرمپ ٹیرف ممالک میں امریکا کے کی وجہ سے چاہتا ہے فری ٹریڈ حوالے سے کے حوالے دنیا میں کا نقصان بھارت کے سے زیادہ ٹیرف لگا یہ ہے کہ تو اس کا ہے لہ ذا ہے کہ وہ نہیں ہے کے خلاف دنیا کے ہوتی ہے ملک میں جائے گا سکتا ہے ہے جبکہ کے ساتھ ٹیرف کے کیا اور رہے ہیں دنیا کی کیا گیا ہے لیکن ا ہے کہ چین کی اور اس کے پاس چین کے کیا ہے یہ بھی کام کر لیکن ا پاس یہ رہا ہے رہی ہے کے بعد ہے اور پڑے گا کر دیا

پڑھیں:

چارلی کرک کا قتل

رواں ستمبر کی 10 تاریخ کو امریکا میں ایک سیاسی قتل ہوا، چارلی کرک کا قتل۔ اس کیس میں ٹائلر رابنسن نام کا ایک 22 سالہ نوجوان پولیس کی تحویل میں ہے۔ اور قتل بظاہر سیاسی انتہا پسندی کا نتیجہ دکھتا ہے۔ ہم منتظر ہی رہ گئے کہ امریکا کے تعلیمی نصاب پر کب یہ کہہ کر حملہ کیا جائے گا؟

’انتہا پسندی تعلیمی نصاب کی وجہ سے فروغ پاتی ہے‘

مگر آہ! وہ فارمولہ صرف ہم پر مسلط کرنے کے لیے ہی گھڑا گیا تھا۔ امریکا میں وہ اس کے باوجود نظر انداز کردیا گیا کہ چارلی کا قتل ایک یونیورسٹی کے ہی سبزہ زار پر ہوا۔

سی این این پر ایک خاتون صحافی نے انتہا پسندی کی ذمہ داری ویڈیو گیمز کے سر تھوپنے کی کوشش کی مگر اسے بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ ویڈیو گیمز تو سب سے زیادہ جاپانی کھیلتے ہیں اور وہ انتہا پسند نہیں ہیں۔

ہم یہ سطور اس یقین کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ ذکر اسی امریکا کا چل رہا ہے جو ساری دنیا کو یہ باور کراتا تھا کہ ’اصلی والی جمہوریت‘ صرف ہماری دکان پر دستیاب ہے، اور آپ سب نے بس ہم سے ہی امپورٹ کرنی ہے۔ نہیں کریں گے تو ہم آپ کا جینا حرام کردیں گے۔

خود ہمارے ہاں بھی ان کے فرنچائزر دن رات یہ سودا بیچا کرتے کہ ہمیں مہذب اقوام سے سیکھنا چاہیے۔ صدشکر کہ ان لبرل دانشوروں کے انتقال پر ملال سے قبل ہی وہ گھڑیاں آگئیں جن میں امریکی اداروں کی سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ 2016 سے 2024 کے دوران امریکا میں انتہا پسندی 360 فیصد اضافہ پاچکی۔ اور یہ اضافہ اس کے باوجود ہوا کہ نائن الیون کے بعد والے 20 برسوں میں امریکا نے دنیا بھر میں جو ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ اس میں ایک اہم ہدف انتہا پسندی کا خاتمہ بھی تھا۔

سو سوال تو بنتا ہے کہ آخر اسی جنگ کے دوران خود امریکا کیسے اس کی لپیٹ میں آگیا؟ اگر آپ یاد کریں تو امریکا میں سیاہ فاموں کو حقوق بیسویں صدی کے آخری حصے میں آکر ہی حاصل ہوئے تھے۔

بظاہر یوں لگتا تھا کہ یہ مسئلہ حل ہوا، اور نسلی تعصب مٹ گیا۔ مگر ایسا تھا نہیں۔ ہوا فقط اتنا تھا کہ جب مارٹن لوتھر کنگ مالکم ایکس کے قتل بھی سیاہ فاموں کی حقوق کی جدوجہد نہ روک سکے تو سفید فاموں نے ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت جانی۔ مگر دلوں میں تعصب وسیع پیمانے پر موجود رہا۔ اور یہ وقتاً فوقتاً اپنا اظہار کرتا تھا۔ مثلا 90 کی دہائی والا اوکلوہاما سٹی کا ہولناک دھماکا۔

نسلی تعصب کو پوری طاقت کے ساتھ پھر سے سر اٹھانے کا موقع تب ملا جب 2008 کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے سیاہ فام باراک اوباما کو امیدوار نامزد کردیا۔

اوباما کی جیت میں اس چیز نے اہم کردار ادا کیا تھا کہ سیاہ فام اور ایشین ووٹ قریباً سارے ہی وہ لے اڑے تھے۔ اس معاملے میں سیاہ فام اتنے جذباتی تھے کہ بش دور کے سیاہ فام وزیر خارجہ جنرل کولن پاؤل، اوباما کی جیت پر اس کے باوجود فرط جذبات سے رو پڑے تھے کہ کولن پاؤل خود ریپبلکن تھے۔ کولن پاؤل نے اوباما کی جیت کو ناقابل یقین تاریخی لمحہ قرار دیا تھا۔

باراک اوباما نے اقتدار سنبھالا تو امریکی سینیٹ میں مشہور زمانہ سینیٹر جان مکین نے فلور پر کہا ’اب میرا ہر لمحہ اس صدر کو ناکام کرنے میں گزرے گا‘۔

اگر آپ بغور جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ اگلے 3 برس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک امریکا میں از سرنو نمایاں ہونا شروع ہوچکی تھی۔ مگر اس کا کوئی باضابطہ قائد نہ تھا۔ اس خلا کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یوں پر کرنا شروع کیا کہ ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً تعصب بھرے بیانات سامنے آنے لگے اور جب ماحول بنتا نظر آیا تو برتھ سرٹیفیکیٹ والا معاملہ اٹھا کر باراک اوباما کو باقاعدہ نشانے پر رکھ لیا۔

امریکی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحریکوں کی مضبوط اور مستحکم بنیادیں ڈلنے میں کئی سال لگتے ہیں۔ سو ٹرمپ اور وائٹ سپرمیسی کی تحریک نے کوئی جلد بازی نہیں دکھائی۔ انہوں نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں اوباما کو چیلنج نہیں کیا۔ ان کی توجہ اب بھی اپنی تحریک کو مضبوط کرنے پر رہی۔

یہ 2016 کا انتخاب تھا جس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ سامنے آئی۔ اگر آپ پرانے اخبارات نکال کر دیکھیں تو ٹرمپ کی نامزدگی کے ساتھ ہی ہمارے ہاں انہیں ایک انتہا پسند لیڈر کے طور پر رپورٹ کیا گیا تھا۔ اور اس لیڈر نے اپنی انتخابی مہم میں 2 کارڈ کھل کر استعمال کیے تھے۔ ایک مذہب کا کارڈ جس کا استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ وہ منتخب ہوا تو نعوذباللہ حرمین پر بمباری کروائے گا اور دوسرا ایمیگرنٹس کارڈ۔

اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس پر یقین نہیں رکھتے لیکن یہ ایمیگرنٹس والی اصطلاح ہے ایک طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس ہے۔ سیاہ فاموں کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ انہیں امریکا میں صدیاں بیت گئیں۔ سو نسلی تعصب کے اظہار کے لیے ایمیگرنٹس کی اصطلاح ہی واحد آپشن بچتی ہے۔

ایمیگرنٹس کون ہیں؟ یہ امریکا آنے والے غیر سفید فام لوگ ہی تو ہیں۔ جن میں مسلمان، لاطینی اور چائنیز بطور خاص ٹرمپ کا ہدف رہے ہیں۔ یاد ہے ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے داخلے پر بھی پابندی لگائی تھی؟ ان کے 2 مشیر سٹیو بینن اور سٹیون ملر تب بھی اور آج بھی بطور خاص مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔

سٹیو بینن کے تعصب کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اس نے پچھلے ہفتے ہی ایک پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنا زہر یوں اگلا ’بینجمن نیتن یاہو اسرائیل کو نقصان پہنچا رہا ہے، وہ اسرائیل کو یہودیوں کا پاکستان بنا رہا ہے‘۔

اس انتہا پسند سیاست کا ایک اہم موڑ وہ تھا جب 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ نے شکست ماننے سے انکار کردیا۔ وہ ماحول کو اس اسٹیج تک لے گئے جہاں کیپٹل ہل پر ہی حملہ ہوگیا۔

سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ جب ٹرمپ اپنے پہلے دور اقتدار کا حلف اٹھا رہے تھے تو عین اسی دن امریکا میں لبرلز نے بھی بہت پرتشدد ہنگامہ آرائی کی تھی۔ تب بھی صورتحال پر قابو پانے کے لیے نیشنل گارڈز کو طلب کرنا پڑ گیا تھا۔ یہ انتہا پسندی کا وہ جن تھا جو گویا ہر امریکی بوتل سے نکلا تھا۔

بات کیپٹل ہل والے حملے پر کہاں رکی۔ بائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹک پارٹی نے امریکی سیاسی روایات روندتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف اپنے سیاسی انتقام کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح عدالتوں کا استعمال شروع کردیا۔

ٹرمپ کے گھر پر چھاپا مار کر اس انداز سے تلاشی لی گئی کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق خاتون اول میلانیہ ٹرمپ کے زیر جامے بھی لہرا لہرا کر ان پر تبصرے کیے گئے۔ انتخابی جلسے میں قاتلانہ حملے کا تڑکا بھی لگ گیا۔

یوں گویا 2011 میں انتہا پسندی کا آغاز بیشک ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے کیا تھا مگر اس تالی کے لیے اب انہیں ڈیموکریٹس کا ہاتھ بھی میسر تھا۔

اس پورے پس منظر کے ساتھ آج کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری ٹرم کے پہلے سال میں ہیں۔ اپنے انتخابی وعدوں بلکہ دعوؤں پر انہیں بڑی سبکی کا سامنا ہے۔ جان ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ قتل کیسز کی رپورٹس وہ پبلک نہیں کرپائے۔ ایپسٹین فائلز کی وہ موجودگی سے ہی انکاری ہوچکے۔

جو 2 جنگیں انہوں نے 24 گھنٹوں میں بند کروانی تھیں وہ ان کے اقتدار کے 9ویں مہینے میں بھی گھن گرج کے ساتھ جاری ہیں۔ اور تو اور ان کا ٹیرف کارڈ کی بھی کسی راشن کارڈ جتنی وقعت باقی نہیں رہی لیکن وہ جنگ پورے زوروں پر ہے جسے لڑنے کے لیے انہوں نے ٰیوٹیوبرز کی پوری فوج تیار کر رکھی ہے۔ چارلی کرک ان کی اسی فوج کا ایک اہم ترین کمانڈر تھا۔

جواب میں لبرلز بھی اسی طرح کی فورس رکھتے ہیں۔ جانبین کی ان فورسز نے ہی تو انتہا پسندی کو پورے عروج تک پہنچایا ہے، اس کی شدت کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ چارلی کرک کے قتل کے لیے ’ڈسپلے اساسنیشن‘ کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔

گویا اسے محض قتل کرنا مقصود نہ تھا بلکہ اس کے کیمپ کے باقی یوٹیوبرز کے لیے ڈراؤنی مثال بنانا بھی پلان میں شامل تھا۔ ردعمل کیا آیا؟ امریکی سوشل میڈیا ان ویڈیوز سے بھر گیا جن میں لبرلز نوجوان اس قتل کی خوشی میں رقص کرتے نظر آئے۔

جواب میں سرکار نے دھمکی دی کہ ان لوگوں کے پاسپورٹ کینسل کیے جائیں گے۔ یہاں تک وارننگ جاری کی گئی کہ اگر کسی نے چارلی کرک کے طرز عمل پر تنقیدی گفتگو کی تو اس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کردیا جائے گا۔ اور ہزاروں کے اکاؤنٹس حکومت کے کہنے پر بند ہو بھی چکے۔

ٹرمپ کا کیمپ اقتدار میں ہوکر بھی طبل جنگ بجا رہا ہے۔ ایک عجیب ٹرینڈ یہ نظر آیا کہ ٹرمپ کے اہم وزیر اور مشیر ایک تواتر کے ساتھ کچھ اس طرح کے دعوؤں کے ساتھ سامنے آگئے ’اس نے موت سے قبل مجھے جو آخری میسج کیا تھا اس میں فلاں خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ہم اس کی یہ خواہش پوری کریں گے‘۔

قابل غور پہلو یہ ہے کہ ایک مردے کی جانب منسوب ہر خواہش لبرلز پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی ہی کوئی نہ کوئی اسکیم ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ اب ٹرمپ کو اپنے کسی بھی انتہا پسند اقدام کے لیے بطور جواز بس اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ یہ چارلی کرک کی آخری خواہش تھی۔

اس پورے معاملے کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب اس امریکا میں ہو رہا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ جو 36 کھرب ڈالرز کے قرضے تلے ڈوبتی سلطنت ہے، جس کا لگ بھگ ہر شہری مسلح ہے۔

سو اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ جب یہ سلطنت خانہ جنگی کا شکار ہوگی تو اس کے مناظر و نتائج کتنے تباہ کن ہوں گے۔ کیا اقبال کا یہ مصرع منظر ہونے کو ہے ؟ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

اوباما ٹائلر رابنسن ٹرمپ چارلی کرک

متعلقہ مضامین

  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • ٹرمپ کا دورۂ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • ٹرمپ کا دورہ لندن؛ برطانیہ اور امریکا کا کاروباری شعبوں میں تعاون جاری رکھنے پر اتفاق
  • چارلی کرک کا قتل
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • روس پر پابندیاں لگانے کیلیے تیار ہیں، امریکا کے قطر کیساتھ خاص تعلقات ‘ اسرائیل کو محتاط رہنا ہوگا‘ ٹرمپ
  • قطر امریکا کا بہترین اتحادی، اسرائیل کو محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا، ٹرمپ