پشاور ہائیکورٹ نے علی امین گنڈاپور کو 40 روزہ حفاظتی ضمانت دیدی
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن) پشاور ہائیکورٹ نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو 40 روزہ حفاظتی ضمانت دیتے ہوئے کسی بھی درج مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم دے دیا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس صلاح الدین نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ کی میٹنگ تھی اس لئے وہ پیش نہیں ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ تمام کیسز کی رپورٹ آچکی ہے یا نہیں، جس پر وکیل نیب کا کہنا تھا کہ نیب کی صرف ایک انکوائری وزیر اعلیٰ کے خلاف چل رہی ہے۔
آئی سی سی کے بعد بھارت نے کرکٹ کے ایک اور اہم عہدے پر بھی ’قبضہ ‘کر لیا
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ 66 مختلف مقدمات وزیر اعلیٰ کے خلاف درج ہیں، عدالت نے کہا کہ جتنا وقت آپ مانگ رہے ہیں وہ ہم نہیں دے سکتے، بعدازاں عدالت نے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو 40 روز تک حفاظتی ضمانت دے دی۔عدالت نے علی امین گنڈاپور کو کسی بھی درج مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا حکم بھی دے دیا۔
ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: علی امین گنڈاپور کو حفاظتی ضمانت وزیر اعلی عدالت نے
پڑھیں:
عمران خان کی وڈیو لنک ٹرائل کیخلاف پٹیشن لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کی رجسٹری میں گم ہوگئی
راولپنڈی ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 ستمبر 2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف عمران خان کی وڈیو لنک ٹرائل کے خلاف پٹیشن لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کی رجسٹری میں گم ہوگئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اور عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے بتایا ہے کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ عمران خان کی جانب سے وڈیو لنک ٹرائل کے خلاف پٹیشن لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ کی رجسٹری میں گم ہوگئی ہے، میری معاونت کرنے والے عرفان نیازی ایڈووکیٹ کو رجسٹرار کے عملے نے بتایا ہے کہ فائل مل نہیں رہی لہذا مقدمہ سنوائی کیلئے نہیں لگ سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف عمران خان کی وڈیو لنک پر ٹرائل کے ڈھونگ کے خلاف پٹیشن 23 ستمبر کو راولپنڈی بینچ میں دائر ہوئی، ریجسٹرار کی خاموشی کی بناء پر آج ہائیکورٹ کے سینئر جج سے چیمبر میں لطیف کھوسہ اور میں ملے تو بتایا گیا کہ پٹیشن 29 ستمبر سے پہلے لگنے کا امکان نہیں ہے جب کہ 28 ستمبر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں تاریخ ہے۔(جاری ہے)
گزشتہ سماعت پر پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جی ایچ کیو حملہ کیس میں فوٹیج فراہمی و ٹرائل روکنے کی درخواستیں خارج کردی گئی تھیں، اس سلسلے میں راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت میں کیس کی سماعت جج امجد علی شاہ نے کی تھی جہاں بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل فیصل ملک اور سلمان اکرم راجہ عدالت پیش ہوئے، سپیشل پراسیکیوٹرز ظہیر شاہ اور اکرام امین منہاس بھی ٹیم کے ہمراہ موجود تھے، دوران سماعت وکلاء صفائی نے درخواست کی کہ 19 ستمبر کے عدالتی کارروائی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی فراہم کی جائے، دوسری درخواست کی کہ جیل ٹرائل منتقل کرنے سے متعلق ہائی کورٹ کے آرڈرز تک عدالتی کارروائی روکی جائے۔ اس حوالے سے وکیل فیصل ملک نے مؤقف اپنایا کہ کہ ’عمران خان سے مشاورت تک عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے‘، اس پر عدالت نے کہا کہ ’گزشتہ سماعت پر آپ کی بانی سے بات کرائی انہوں نے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا، آپ واٹس ایپ کمیونیکیشن کو ہائیکورٹ میں چیلنج کریں‘، عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ ’ہم نے واٹس ایپ کمیونیکیشن کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ہے، واٹس ایپ کال وڈیو لنک تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، ہمیں وقت دیا جائے ہم اس عدالت کے گزشتہ آرڈر کو چیلنج کریں‘، جس پر عدالت نے قرار دیا کہ ’آپ بے شک جاکر چیلنج کریں لیکن عدالتی کارروائی نہیں روکی جاسکتی‘۔ پراسیکیوٹر اکرام امین منہاس نے کہا کہ ’گزشتہ سماعت پر وکلاء صفائی نے عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کیا، آج کی سماعت میں عدالت وکلاء صفائی کے کسی سوال کا جواب دینے کی پابند نہیں، وکلاء صفائی ایک دن عدالت چھوڑ کر جاتے ہیں دوسرے دن کہتے ہیں ہمیں وقت دیا جائے، استغاثہ کے گواہ ریکارڈ ہونے ہیں ٹرائل نہیں روکا جاسکتا، وکلاء صفائی کا کنڈکٹ بتارہا ہے یہ ٹرائل کیلئے سنجیدہ نہیں، وکلاء صفائی صرف اور صرف عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں‘، اسی طرح پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے کہا کہ ’ٹرائل روکنے سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں، عدالت گزشتہ سماعت پر وکلاء صفائی کی درخواست پر آرڈر کرچکی ہے، عدالتی آرڈر پر سوالات اٹھانا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے‘۔ اس پر وکیل فیصل ملک نے کہا کہ ’ہم فیئر ٹرائل کا مطالبہ کررہے ہیں، ملزم اگر اپنے وکیل کو نہیں سن سکتا یا وکیل اپنے موکل کو نہیں سن سکتا تو یہ فیئر ٹرائل کیسے ہے؟‘، اس پر پراسیکیوٹر ظہیر شاہ نے کہا کہ ’عدالتی کاروائی کا بائیکاٹ کرکے دوبارہ درخواست دینا یوٹرن ہے، لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق کوئی فوٹیج، ٹرانسکرپٹ کسی کو فراہم نہیں کیا جاسکتا، وکلاء صفائی کو باہر جاکر میڈیا پر مظلوم بننے کا بہانہ چاہیئے، اسی عدالت سے چند روز قبل علیمہ خان کی ضمانت منظور ہوئی‘، اس موقع پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’عدالت حکومتی ہدایات پر نہیں آئین کے مطابق چلتی ہیں، یہ نہیں ہوسکتا عدالت کال کوٹھری میں بند شخص کو واٹس ایپ کال پر پیش کریں‘۔ عدالت نے وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ’آپ کا پورا حق ہے آپ اس عدالت کے آرڈر کو چیلنج کریں، جب تک ہائیکورٹ کوئی حکم جاری نہیں کرتی عدالتی کاروائی نہیں روکی جاسکتی‘، اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’ٹرائل کو تیز رفتاری سے چلانا ضروری نہیں، ہمیں عمران خان سے مشاورت کی اجازت دی جائے‘، عدالت نے جواب دیا کہ ’پچھلی بار آپ کے وکلاء کی بانی سے بات کرائی وہ تقریر کرنا شروع ہوگئے‘، سلمان اکرم راجہ نے معاملہ اٹھایا کہ’ ہمیں عمران خان سے ملنے نہیں دیا جارہا، وکیل اپنے مؤکل کی ہدایات پر چلتا ہے‘۔