اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) برطانیہ کی سپریم کورٹ نے اپنے ایک متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ ''عورت‘‘ کی قانونی تعریف پیدائش کے وقت کسی شخص کی جنس پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسا تاریخی عدالتی فیصلہ ہے، جس کےٹرانس جینڈرز کے حقوق سے متعلق جاری تلخ بحث پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

یہ فیصلہ اسکاٹ لینڈ کے صنف سے متعلق تنقیدی مہم چلانے والوں کے لیے ایک جیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو اس مقدمے کو سماعت کے لیے برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت تک لائے تھے۔

لندن میں قائم سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا، ''مساوات ایکٹ 2010 میں 'عورت‘ اور 'جنس‘ کی اصطلاحات سے مراد ایک حیاتیاتی عورت اور حیاتیاتی جنس ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

عدالت نے مزید کہا کہ یہ ایکٹ ٹرانس جینڈر افراد کو امتیازی سلوک کے خلاف بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس عدالتی حکم کا مطلب یہ ہے کہ ایک ٹرانس جینڈر شخص، جو ایک سرٹیفکیٹ کے سہارے خود کو ایک عورت تسلیم کرتا ہے، اسے صنفی مساوات کے تحت عورت نہیں سمجھا جانا چاہیے۔

لیکن عدالت نے مزید یہ بھی کہا کہ اس فیصلے کا مقصد ٹرانس جینڈر افرادکو تحفظ سے محروم کرنا نہیں ہے، کیونکہ وہ ''جنس کی تبدیلی کی بنیاد پر امتیاز کے خلاف تحفظ‘‘ رکھتے ہیں۔ یہ مقدمہ اسکاٹش پارلیمنٹ کے 2018ء میں منظور کردہ اس قانون سے جڑا ہوا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسکاٹ لینڈ کے سرکاری اداروں کے بورڈ میں خواتین کو 50 فیصد نمائندگی حاصل ہونی چاہیے۔

اس قانون میں خواتین کی تعریف میں ٹرانس جینڈر خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

خواتین کے حقوق کے ایک گروپ خواتین اسکاٹ لینڈ (FWS) نے یہ دلیل دیتے ہوئے اس قانون کو چیلنج کیا تھا کہ اس میں عورت کی نئی تعریف پارلیمنٹ کے اختیارات سے باہر ہے۔ لیکن اسکاٹش حکام نے اس کے بعد نئے رہنماخطوط جاری کیے، جس میں کہا گیا کہ عورت کی تعریف میں جنس کی شناخت کا سرٹیفکیٹ رکھنے والا شخص شامل ہے۔

لیکن ایف ڈبلیو ایس نے عدالت میں کامیابی کے ساتھ اپنےموقف کا دفاع کیا۔ اس گروپ کایہ بھی کہنا ہے کہ اس مقدمے کے نتیجہ کا اسکاٹ لینڈ، انگلینڈ اور ویلز میں صنفی حقوق کے ساتھ ساتھ جنس کی بنیاد پر سہولیات جیسے بیت الخلا، ہسپتال کے وارڈوں اور جیلوں پر بھی اثر انداز ہو سکتا تھا۔

ایف ڈبلیو ایس کی ڈائریکٹر ٹرینا بج کا کہنا تھا، ''جنس کی تعریف کو اس کے عام معنی سے نہ جوڑنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ عوامی بورڈز میں ممکنہ طور پر 50 فیصد مرد اور 50 فیصد ایسے مرد شامل ہوں، جن کے پاس خواتین ہونے کے سرٹیفکیٹ ہوں، اور اس طرح وہ قانونی طور پر خواتین کی نمائندگی کے اہل ہوں۔

‘‘

یہ چیلنج 2022 میں ایک عدالت نے مسترد کر دیا تھا، لیکن پچھلے سال اس گروپ کو سپریم کورٹ میں مقدمہ لے جانے کی اجازت مل گئی۔ ایف ڈبلیو ایس کے وکیل ایڈن او نیل نے سپریم کورٹ کے تین مرد اور دو خواتین ججوں پر مشتمل بینچ سے کہا کہ مساوات ایکٹ کے تحت ''جنس‘‘ سے مراد حیاتیاتی جنس ہونی چاہیے، جیسا کہ ''عام، روزمرہ کی زبان‘‘ میں سمجھا جاتا ہے۔

اس وکیل کا مزید کہنا تھا، ''ہماری رائے میں انسان کی جنس مرد، عورت، لڑکا یا لڑکی پیدائش سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں طے ہو جاتی ہے اور یہ اس جسمانی حقیقت کا حصہ ہے، جو کبھی نہیں بدلتی۔‘‘

خواتین کے حقوق کی اس تنظیم کی حامیوں میں مشہور برطانوی مصنفہ جے کے رولنگ بھی شامل ہیں، جنہوں نے اس کی مدد کے لیے بڑی رقم عطیہ کی۔

رولنگ کا کہنا ہے کہ ٹرانس خواتین کے حقوق، پیدائشی خواتین کے حقوق پر اثر انداز نہیں ہونے چاہییں۔

دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر تنظیموں نے اس مؤقف کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرانس افراد کو تحفظ نہ دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایمنسٹی نے عدالت میں بتایا کہ اسے برطانیہ اور دنیا بھر میںٹرانس جینڈر افراد کےحقوق پر پڑنے والے منفی اثرات پر تشویش ہے۔

تنظیم نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''ٹرانس خواتین کو خواتین کی مخصوص خدمات سے مکمل طور پر باہر نکال دینا کوئی مناسب یا جائز قدم نہیں ہے۔‘‘

شکور رحیم اے ایف پی، اے پی کے ساتھ

ادارات: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خواتین کے حقوق اسکاٹ لینڈ کی تعریف میں کہا جنس کی

پڑھیں:

جج کے چیمبر سے آلہ جاسوسی کی برآمدگی کی خبرورں پر سپریم کورٹ کا مؤقف

سپریم کورٹ نے جج کی جاسوسی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبر پر اپنا مؤقف جاری کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل: آرمی ایکٹ ایک بلیک ہول ہے، سلمان اکرم راجہ کا موقف

اپنے اعلامیے میں سپریم کورٹ نے جج کے چیمبر سے جاسوسی آلے کی برآمدگی کی خبر کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی خبروں کا مقصد عوم کو گمراہ کرنا ہے۔

سپریم کورٹ نے اعلامیے میں کہا کہ سپریم کورٹ جج کے چیمبر سے کسی بھی جاسوسی آلے کی برآمدگی کی خبر غلط ہے۔

مزید پڑھیے: اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کو موصول مشکوک خطوط میں آرسینک کی موجودگی کا انکشاف

اعلامیے میں کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبر من گھڑت اور بے بنیاد ہے اور اس کا مقصد عوام کو گمراہ کرنا اور عدلیہ کی ساکھ کو متاثر کرنا ہے۔

سپریم کورٹ کے اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ اسپریم کورٹ جج کے چیمبر میں کسی بھی قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور اس جھوٹی خبر کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جج اور جاسوسی کے آلات جج کی جاسوسی سپریم کورٹ سپریم کورٹ کی وضاحت

متعلقہ مضامین

  • مذہب کو بنیاد بنا کر خواتین کو پیچھے رکھنے والے اپنے رویے پر نظر ثانی کریں، شزہ فاطمہ
  • سپریم کورٹ بار کا بھارتی سفارتکاروں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ
  • سپریم کورٹ نے بیوہ خواتین کے حق میں بڑا فیصلہ جاری کردیا
  • بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، سپریم کورٹ
  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • دلہن کو اپنے جہیز، تحائف پر مالکانہ حقوق حاصل ہیں، سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کے جج کے چیمبر سے جاسوسی آلات برآمد ہونے کی خبر بے بنیاد قرار
  • جج کے چیمبر سے آلہ جاسوسی کی برآمدگی کی خبرورں پر سپریم کورٹ کا مؤقف
  • حکومت نے ججز تبادلوں سے متعلق تمام خط و کتابت سپریم کورٹ میں جمع کرا دی  
  • سپریم کورٹ ججز ٹرانسفر کیس میں رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے جواب جمع