امریکہ ٹیرف مذاکرات کے ذریعے چین کو تنہا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، وال سٹریٹ جرنل
اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT
امریکی حکومت ٹیرف سے متعلق مذاکرات کو اپنے تجارتی شراکت داروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ انہیں چین کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو محدود کرنے پر مجبور کیا جائے۔
امریکی اخبار ’’وال سٹریٹ جرنل‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ان مذاکرات کا مقصد مختلف ممالک سے یقینی دہانی لینا ہے کہ وہ ٹیرف میں کمی کے بدلے میں چین کو معاشی میدان میں تنہا کرنے پر امریکہ کا ساتھ دیں گے۔
امریکی حکام 70 سے زیادہ ممالک کے ساتھ ہونے والے ٹیرف مذاکرات کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان ممالک سے کہا جائے گا کہ وہ چینی مصنوعات کو اپنی سرحدوں سے گزرنے کی اجازت نہ دیں اور چین کے سستے صنعتی سامان کو اپنی مارکیٹ کا حصہ نہ بننے دیں۔
ان اقدامات کا مقصد چین کی پہلے سے ہی بدحال معیشت کو نقصان پہنچانا ہے اور صدرشی جن پنگ کو مذاکرات کی میز پر لانے پر مجبور کرنا ہے۔
ٹیرف سے متعلق مذاکرات کے دورن امریکہ کے ہر ملک سے مطالبات مختلف ہوں گے اور ان کا انحصار اس ملک کی مارکیٹ میں چینی مصنوعات کی موجودگی اور چین کے ساتھ معاشی تعلقات پر ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے بھی منگل کو ایک پروگرام میں اس حکمت عملی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چاہیں گے کہ دیگر ممالک امریکہ اور چین کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کریں۔
اس حکمت عملی کا مؤخذ وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ کو سمجھا رہا ہے جنہوں نے تجارتی مذاکرات میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے 6 اپریل کو فلوریڈا میں صدر ٹرمپ کے کلب مار-اے-لاگو میں ہونے والے اجلاس میں اپنا یہ خیال پیش کیا تھا جس ک مقصد چینی معیشت کو تنہا کرنا، چین کو امریکی معیشت سے الگ تھلگ کرنا اور ممکنہ طور پر امریکی سٹاک ایکسچینج سے چینی سٹاکس کو ہٹانا ہے۔
صدر ٹرمپ کے ٹیرف کے جواب میں چین نے امریکی اشیا پر 125 فیصد برآمدی ڈیوٹی عائد کر دی ہے جس کے بعد دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی جنگ شدت اختیار کر گئی تھی۔
تاہم گزشتہ امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے کئی الیکٹرانک آلات کو ٹیرف میں چھوٹ دینے کا اعلان کیا تھا جس سے سمارٹ فونز، لیپ ٹاپس، میموری چپس اور دوسرے آلات اس ٹیرف سے مستثنیٰ ہیں۔
صدر ٹرمپ کے ٹیرف میں استثنیٰ کے اعلان کے بعد چین نے امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے جوابی ٹیرف کو ’مکمل طور پر منسوخ‘ کر دے۔ تاہم اب بھی زیادہ تر چینی مصنوعات پر 145 فیصد ٹیرف لاگو ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کئی ایسے ممالک پر اضافی ٹیرف لگانے کا اعلان کیا تھا جن میں اس کے حریف بھی شامل تھے اور شراکت دار بھی جبکہ پسماندہ ممالک کو بھی اس فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
کینیڈا، یورپی یونین اور چین سمیت دوسرے ممالک نے اس کے جواب میں امریکی اشیا پر ٹیکس عائد کیے اور اس صورت حال کی وجہ سے عالمی طور پر معیشت بری طرح ہیجان کا شکار رہی اور معاشی تجزیہ کاروں نے کساد بازاری کے خدشات سے خبردار کیا۔
اچانک صدر ٹرمپ نے ٹیرف کو 90 دن کے لیے واپس لینے کا اعلان کیا تاہم اس فہرست میں چین شامل نہیں تھا بلکہ اس پر ٹیکس کو مزید بڑھا دیا گیا تھا جس پر چین نے جوابی ٹیرف لگایا تھا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اور چین میں چین کیا تھا چین کے
پڑھیں:
ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار
امریکی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کے ایک اہم حصے کو کالعدم قرار دے دیا۔
فیصلے کے مطابق شہریوں سے ووٹ ڈالنے سے قبل شہریت کا ثبوت طلب نہیں کیا جاسکے گا، امریکی وفاقی جج کا کہنا ہے کہ صدرِ کو وفاقی سطح پر ووٹنگ کے لیے ایسی شرط عائد کرنے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ مارچ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے لیے امریکی شہری ہونے کا ثبوت لازمی قرار دیا تھا۔ تاہم عدالت نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا، عدالت کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو ووٹنگ کے لیے وفاقی سطح پر ایسی شرط عائد کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عدالتی فیصلہ آئندہ صدارتی انتخابات سے قبل انتخابی قوانین پر جاری بحث کو مزید شدت دے سکتا ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق امریکا نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے تاہم حتمی فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کریں گے۔