آئندہ بجٹ میں کون سے ٹیکس ختم ہونے جا رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
پاکستان کے مشکل معاشی حالات کے باعث حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں بڑا ٹیکس ہدف رکھا تھا جبکہ 1800 ارب روپے کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے تھے۔ ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے دیگر شعبوں کی طرح پراپرٹی اور تعمیراتی شعبے میں بھاری ٹیکس عائد کیے تھے۔ بھاری ٹیکسز میں کمی، ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری بڑھانے اور تعمیراتی شعبے کی ترقی کے لیے وزیراعظم شہباز شریف نے ٹاسک فورس تشکیل دی تھی جس نے ریئل اسٹیٹ اور تعمیراتی شعبے کے لیے مجوزہ پیکج تیار کیا ہے۔
تعمیراتی شعبے کے لیے ریلیف کی تجاویز وزارت ہاؤسنگ نے ایف بی آر کو بھیج دی تھیں جبکہ آئی ایم ایف وفد کے ساتھ بھی ان تجاویز پر مذاکرات جاری ہیں، آئی ایم ایف کی منظوری کے بعد ان ٹیکسز کو واپس لیا جائے گا، آئی ایم ایف کا وفد بجٹ کی تیاری کے سلسلے میں مذاکرات کے لیے پاکستان میں ہی موجود ہے۔
مزید پڑھیں: ’منی بجٹ‘: حکومت نے عوام پر 34 ارب روپے ماہانہ کا بوجھ ڈال دیا، مفتاح اسماعیل
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں حکومت کون سے ٹیکسز ختم کرنے جا رہی ہے۔
رواں مالی سال کے بجٹ میں ایف بی آر نے پراپرٹی کی فروخت پر ٹیکس فائلر کے لیے 3 فیصد اور نان فائلر کے لیے 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی تھی، ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے فیصلہ کیا ہے کہ اس ٹیکس کو ختم کیا جائے گا۔ وزیراعظم ٹاسک فورس نے آئی ایم ایف وفد سے بھی اس حوالے سے مذاکرات کیے ہیں۔ اس ٹیکس کے تحت 30 جون 2024 کے بعد سے کسی بھی فروخت ہونے والے گھر، پلاٹ، جائیداد اپارٹمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کر دی گئی تھی جس سے مارکیٹ میں ریئل اسٹیٹ مارکیٹ پر بڑا فرق پڑا تھا۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں 108 ارب روپے کا ٹیکس پراپرٹی اور جائیدادوں سے متعلقہ ٹرانزیکشن سے وصول کیا ہے جو گزشتہ سال کی نسبت 18 فیصد زیادہ ہے۔
مزید پڑھیں: بجٹ برائے مالی سال 26-2025: معاملات آئی ایم ایف ہی طے کرے گا
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ذرائع نے بتایا کہ آئندہ بجٹ میں سالانہ 6 لاکھ آمدن والوں کو بھی ٹیکس چھوٹ کی تجویز زیر غور ہے، رواں سال کے بجٹ میں اس طبقے پر بھی پہلی مرتبہ ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔ یہ تجاویز آئی ایم ایف کی منظوری سے مشروط ہوں گی۔ آئندہ بجٹ میں صرف 6 لاکھ سالانہ آمدن والے افراد کو ریلیف دینے کی تجویز زیر غور ہے البتہ ہو سکتا ہے کہ 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن والوں کو بھی معمولی ٹیکس ریلیف دیا جائے جبکہ زیادہ تنخواہ دار طبقے کے لیے فی الحال کسی بھی ریلیف کی تجویز زیر غور نہیں۔
ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زیادہ ماہانہ پینشن وصول کرنے والوں پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز زیر غور ہے اس کے علاوہ پیٹرول پر چلنے والی گاڑیوں پر پہلے سے عائد بھاری ٹیکس اور ڈیوٹی کو بھی مزید بڑھانے کا امکان ہے، البتہ الیکٹرک گاڑیوں پر مزید ٹیکس کم کرنے کی تجویز سامنے آرہی ہے جبکہ پیٹرول پر فی لیٹر 5 روپے کاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی ایم ایف ایف بی آر بجٹ ٹیکس ہدف فیڈرل بورڈ آف ریونیو.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف ایف بی ا ر ٹیکس ہدف فیڈرل بورڈ آف ریونیو مالی سال کے بجٹ میں کی تجویز زیر غور تعمیراتی شعبے آئی ایم ایف زیر غور ہے ٹیکس عائد عائد کی ایف بی کو بھی کے لیے
پڑھیں:
سیلاب متاثرین کی بحالی اور ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کا امکان
اسلام آباد/لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء)سیلاب متاثرین کی بحالی اور ٹیکس ہدف پورا کرنے کیلئے منی بجٹ لانے کا امکان ہے،مجوزہ منی بجٹ لگژری گاڑیوں، سگریٹس اور الیکٹرانک سامان پر اضافی ٹیکس کی تجویز ہے، درآمدی اشیا ء پر جون میں کم کی گئی ریگولیٹری ڈیوٹی کے برابر لیوی لگائی جاسکتی ہے۔(جاری ہے)
نجی ٹی وی کے مطابق حکام ایف بی آر کے مطابق الیکٹرانکس اشیا ء پر 5 فیصد لیوی زیرغور ہے،قیمت کی حد طے ہونا باقی ہے، منی بجٹ میں 1800 سی سی اور اس سے زائد انجن والی لگژری گاڑیوں پر لیوی کی تجویز تاہم اضافی ٹیکس لگانے کیلئے آئی ایم ایف سے اجازت درکار ہوگی۔
مجوزہ منی بجٹ سے کم از کم 50 ارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف ہے۔سگریٹ کے ہر پیکٹ پر 50 روپے لیوی عائد کرنے کی بھی تجویز ہے۔ لیوی صوبوں کے ساتھ شیئر نہیں ہوگی، آمدن براہ راست مرکز کو ملے گی۔ایف بی آر کے مطابق اگست میں ٹیکس وصولی میں 50 ارب روپے شارٹ فال ہوا، اگست میں 951 ارب ہدف کے مقابلے 901 ارب روپے ٹیکس جمع ہوا، جولائی تا اگست ٹیکس ریونیو میں قریبا 40 ارب روپے کمی آئی۔رواں سال ٹیکس وصولی کا مجموعی ہدف 14 ہزار 131 ارب روپے مقرر ہے تاہم سیلاب، بجلی و گیس کا کم استعمال اور کاروباری سرگرمیوں میں سستی کی وجہ سے ایف بی آر کو ٹیکس شارٹ فال کا سامنا ہے۔