Daily Ausaf:
2025-04-25@01:42:05 GMT

امن کی راکھ، محاصرہ، ہجرت، اور قوموں کی تقدیر

اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT

امریکی صدرکادعویٰ ہے کہ اس نے عہدہ سنبھالنے کے بعدغزہ اوریوکرین میں امن قائم کرنے کی سفارتی کوششیں شروع کردی تھیں لیکن ایران اورروس کی علاقائی مداخلت اور حماس،حزب اللہ جیسے گروہوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ ناکام ہوچکی ہیں جبکہ روس، ایران اورحماس امریکی صدرکوعالمی صہیونی سازش کاایک مہرہ قرار دیتے ہوئے ان الزامات کی تردیدکررہے ہیں اورساری صورتحال کااسرائیل اوراس کے مربی امریکا اور مغربی ممالک کوقراردے رہے ہیں۔ان کا کہناہے کہ ٹرمپ نے عہد صدارت سنبھالنے کے بعدچند ماہ کے دوران ہی پہلے غزہ پراپنے قبضے کے پلان کا اعلان کیا،یورپ کوملامت کرتے ہوئے ڈنمارک سے گرین لینڈجزیرہ واپس لینے کی دھمکی دے ڈالی، نیٹو پر شدید تنقیدکرتے ہوئے یورپی یونین کوبرابھلاکہا،اپنے پڑوسی کینیڈاپرکھلم کھلا دھمکیوں کی برسات کرتے ہوئے اس پربھی قبضہ کرنے کاشوشہ چھوڑا،اسرائیل کوخوش کرنے کے لئے یمن پربمباری شروع کردی اوراس کے بعد ایک عالمی تجارتی جنگ چھیڑبیٹھے ہیں اوراب ان کی توجہ کامرکزایران ہے جس پروہ تاریخی بمباری کی دھمکی دے کراقوام عالم کوخوفزدہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ ان کے پہلے دورِ اقتدار میں نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ایران کی تباہی انہیں مقصودہے تاکہ خطے میں اپنے کرائے کے سپاہی اسرائیل جیسا خنجر خلیجی ممالک کے سینے میں گھونپ کراپنے مقاصد کی تکمیل کی جاسکے۔
اب مسئلہ وہی ہے جوٹرمپ کے پہلے دورِ اقتدارکے وقت تھا:کیاچیزہے جوایران کوجوہری ہتھیارحاصل کرنے سے روک سکتی ہے؟ایران اس بات کی تردیدکرتاہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش رکھتاہے لیکن دیگرممالک کاخیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کم ازکم جوہری وار ہیڈ بنانے کی صلاحیت حاصل کرناچاہتاہے جو ایک ایسی خواہش ہے جس سے مشرق وسطی میں اسلحے کی دوڑیا یہاں تک کہ مکمل جنگ شروع ہوسکتی ہے۔
2015ء میں ایران نے امریکا،برطانیہ، فرانس، جرمنی،روس اورچین کے ساتھ ایک معاہدے Joint Comprehensive Plan of Action’’جوائنٹ کمپریہینسو پلان آف ایکشن‘‘ پر اتفاق کیا۔اس کی شقوں کے تحت،ایران کواپنے جوہری عزائم محدودکرنے ہیں اوربین الاقوامی معائنہ کاروں کوملک میں داخلے اورمعائنے کی اجازت دینی تھی اوراگریہ ادارہ مطمئن ہوتواس کے عوض اس پرعائد اقتصادی پابندیاں اٹھائی جانی تھیں۔لیکن ٹرمپ نے 2018ء میں امریکاکواس معاہدے سے الگ کرلیا اور یہ دعویٰ کیاکہ اس سے ایران کی ملیشیازجیسے حماس اور حزب اللہ کومالی مددملی اوردہشت گردی بڑھی۔معاہدے سے نکلنے کے بعدامریکانے ایران پردوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔
اس کے ردعمل میں ایران نے بھی معاہدے کی کچھ پابندیوں کونظراندازکیااورزیادہ سے زیادہ یورینیئم جوہری ایندھن افزودہ کیا۔ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ایران کے پاس جلدہی جوہری وار ہیڈ بنانے کے لئے درکار یورینیم موجودہوسکتا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کااندازہ ہے کہ اگر ایران کے60 فیصدافزودہ یورینیئم کے ذخیرے کواگلی سطح تک افزودہ کیاگیاتووہ تقریباچھ بم بنا سکتاہے۔
اب ایک مرتبہ پھرصدارت سنبھالتے ہی ٹرمپ نے ایران پر ’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘کی اپنی سابقہ پالیسی کوبحال کردیاہے۔4فروری کوانہوں نے ایک یادداشت پردستخط کیے جس میں امریکی وزارت خزانہ کوایران پرمزیدپابندیاں عائدکرنے اورموجودہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک،خاص طورپرایرانی تیل خریدنے والے ممالک کو سزا دینے کاحکم دیاگیا۔اب وائٹ ہاؤس اس معاشی دباؤکے ساتھ ساتھ سفارتی دباؤڈالنے کی امیدبھی کررہاہے۔گزشتہ ماہ صدرٹرمپ نے ایران کے رہبرِاعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کوایک خط بھیجاجس میں مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی گئی اورچندماہ کے اندرمعاہدے کامطالبہ بھی سامنے آگیا۔اب عمان میں امریکی اورایرانی حکام کے درمیان براہ راست بات چیت کاآغازبھی ہوگیاہے جوکسی بھی اتفاق کے بغیرختم بھی ہوگیا ہے۔
ایران کے لئے امریکی دھمکی واضح ہے، معاہدے پرمتفق ہوں یافوجی کارروائی کا سامنا کریں۔ ٹرمپ نے کہاہے کہ اگرایران کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے ہیں تومجھے لگتا ہے کہ ایران کوبڑاخطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ایران میں کچھ پالیسی سازایسے معاہدے پر اتفاق کرنے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں جس سے پابندیاں ہٹائی جاسکیں۔ بڑھتاہواافراط زر اورقدرکھوتی ہوئی کرنسی کے ساتھ ایران کی معیشت شدید مشکلات کا شکار ہے لیکن اس طرح کے کسی بھی معاہدے میں ایسا سمجھوتہ شامل ہوسکتاہے جسے کچھ قبول کرناسخت گیر عناصر کے لئے مشکل ہو۔ایران کوحالیہ مہینوں میں بہت مشکلات کاسامناکرناپڑاہے۔ اس کی’’پراکسی ملیشیاز‘‘ اسرائیل کے خلاف جنگ کے دوران کمزورہوچکی ہیں اوراس کے علاقائی اتحادی شام کے صدر بشارالاسد اقتدارکھوچکے ہیں۔اس صورتحال میں تہران میں کچھ عناصریہ کہتے نظرآ رہے ہیں کہ شائد جوہری ڈیٹرنٹ تیارکرنے کاوقت آگیاہے۔ امریکااور ایران فی الوقت دوکناروں پردکھائی دیتے ہیں اوران کے مذاکراتی مؤقف واضح نہیں۔
لیکن امریکانے واضح کردیاہے کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کومکمل طورپرختم کرناچاہتا ہے،جس میں مزیدیورینیئم کی افزودگی کامکمل خاتمہ شامل ہو اورساتھ ہی ساتھ وہ چاہتاہے کہ ایران لبنان میں حزب اللہ اوریمن میں حوثیوں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے۔ ایران کے لئے یہ شرائط قبول کرناناممکن بھی ثابت ہو سکتا ہے۔کسی بھی جوہری افزودگی پرمکمل پابندی، یہاں تک کہ پرامن مقاصد کے لئے بھی،طویل عرصے سے ایران کے لئے ایک حتمی سرخ لکیرکے طورپردیکھی جاتی رہی ہے۔ایرانیوں کی تکنیکی مہارت بھی ایک مسئلہ ہے کیونکہ اس کے سائنسدان دس سال پہلے کے مقابلے میں جوہری ہتھیار بنانے کے بارے میں اب کہیں زیادہ جانتے ہیں۔
صدرٹرمپ کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کے بعدچندہی ماہ میں غزہ اوریوکرین میں امن قائم کرنے کی سفارتی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔عالمی سطح پربڑھتی ہوئی غیریقینی صورتحال اورکشیدگی نے اقوامِ عالم کوایک ممکنہ عالمی جنگ کے خدشے سے دوچار کردیاہے۔مشرق وسطی،یورپ اوربحرالکاہل خطے میں طاقت کے توازن میں شدیدتبدیلی دیکھی جارہی ہے۔ اسرائیل کی ایما پر امریکا ایران پرالزام لگارہاہے کہ وہ ایران کا 60افزودہ یورینیم کاذخیرہ جوہری بم بنانے کی صلاحیت دیتاہے۔یہ مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی دوڑکوجنم دے سکتاہے، جس میں سعودی عرب،ترکی،مصراور6دیگرممالک بھی جوہری پروگرام شروع کرسکتے ہیں۔
صدرٹرمپ نے ایران کودوماہ کی مہلت دی ہے تاکہ وہ ایک نئے معاہدے پررضامندی ظاہر کرے ۔ بصورتِ دیگرفوجی کارروائی کا عندیہ دے رکھاہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایران کے نے ایران ایران پر کرنے کی کے ساتھ

پڑھیں:

دھمکی نہیں دلیل

اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں: امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اسکے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔ تحریر: احسان احمدی

امریکی حکام نے برسوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور ایک سینیئر امریکی ماہر رے ٹیکیکی کے الفاظ کا۔ رے ٹیکیکی نے ہفتے کے روز پولیٹیکو ویب سائٹ پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایک مضمون  شائع کیا تھا۔ مغربی میڈیا کے معمول کے پروپیگنڈے کے برعکس رے ٹیکیکی نے اپنے مضمون کا مرکز اس حقیقت پر رکھا کہ جس چیز کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان مختلف ادوار میں مذاکرات ہوئے، وہ ایران کے خلاف پابندیوں کا دباؤ نہیں تھا بلکہ امریکہ کو ایران کی جوہری پیش رفت سے خطرے کا احساس تھا۔

یہ نقطہ نظر، میڈیا کی تشہیر سے ہٹ کر، مختلف امریکی حکومتوں کے حکام کے الفاظ میں اشاروں کنایوں میں درک کیا جاسکتا ہے۔ ان اہلکاروں میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہیں۔ اپنی ایک رپورٹ Every Day Is Extera میں وہ واضح کرتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران کی مقامی افزودگی کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ بات چیت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں، جان کیری لکھتے ہیں: "اس بات سے قطع نظر کہ ایران کو افزودگی کا "حق" حاصل ہے یا نہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک ہم احتیاط سے طے شدہ حدود کے تحت ایران کی افزودگی جاری رکھنے کے امکان کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تب تک  ایران کے ایٹمی پروگرام تک رسائی، شفافیت اور حقائق کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ افزودگی کے حق کو تسلیم کرکے ہی اس بات کو  یقینی بنایا جا سکتا  ہے کہ ایران فوجی جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے یا نہیں۔

سابق امریکی سفارت کار نے مزید کہا ہے کہ ایران میں اوسط ہر دوسرا فرد اس خیال سے ناراض ہوگا کہ ان کا ملک وہ نہیں کرسکتا، جو دوسرے آزاد ممالک (افزودگی) کرتے ہیں، کیونکہ امریکہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ایرانیوں کے نزدیک یہ انداز امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مساوی ہوگا۔ وہ امریکی جنہوں نے ان کے خیال میں شاہ کے دور میں ان کی آزادی اور خودمختاری میں کافی عرصے تک مداخلت کی تھی۔ اس کتاب میں کیری نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی خفیہ طور پر ایران میں مقامی افزودگی کو قبول کرنے کی ضرورت کے خیال کو قبول کر لیا تھا۔

وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے  اپنی نجی گفتگو سے یہ درک کیا  کہ بش انتظامیہ کے بظاہر عوامی موقف کے باوجود، اس انتظامیہ نے خفیہ طور پر اور نجی طور پر (ایرانی افزودگی کے) خیال سے اتفاق کر لیا تھا، حالانکہ وہ کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ ایٹمی ڈھانچہ یا سطح (افزودگی) کیا ہونی چاہیئے۔ اپنے مضمون میں رے ٹیکیکی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کی  پہلی انتظامیہ کے دوران زیادہ سے زیادہ دباؤ کا منصوبہ ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز، حتیٰ کہ اوباما کے دور میں بھی، واشنگٹن کی جانب سے تہران کو دی جانے والی اہم مراعات کا نتیجہ تھا۔

"اوباما کی زیادہ دوستانہ پالیسی تبھی آگے بڑھی، جب واشنگٹن نے (تہران) کو ایک کلیدی رعایت دی یعنی "ایران کو افزودہ کرنے کا حق،" امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں۔ امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟
  • جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا نادر موقع ضائع کر دیا؛ رپورٹ
  • امریکی وزیر خارجہ کے تازہ ریمارکس پر ایرانی اہلکار کا دوٹوک "انکار"
  • ایران مذاکرات میں سنجیدہ ہے، رافائل گروسی
  • بھارت جوہری خطرات کو کم کرنے کیلئے دوطرفہ اقدامات کرے، جنرل ساحر شمشاد مرزا
  • ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال
  • دھمکی نہیں دلیل
  • جاپانی شہری کے ساتھ دلخراش واقعہ، 10 سال بچت کے بعد خریدی گئی فیراری چند منٹ میں جل کر راکھ
  • عمان کے سلطان اور ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات، ایرانی جوہری مذاکرات پر تبادلہ خیال
  • سعودی عرب کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات کو فروغ دیا جائے گا، ایران