بنگلا دیش کا پاکستان سے 71ء سے قبل کے 4.52 ارب ڈالرز کے اثاثوں کا مطالبہ کرنے کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
— فائل فوٹو
بنگلا دیش نے پاکستان سے 4.52 ارب ڈالرز کے مالی مطالبات کی رسمی طور پر درخواست کرنے کی تیاری شروع کر دی۔
بنگلا دیشی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق بنگلا دیشی حکومت کی جانب سے 1971ء سے قبل کے غیر منقسم پاکستان کے اثاثوں بشمول امدادی رقم، پراویڈنٹ فنڈز اور بچت کے آلات سمیت، پاکستان سے 4.52 بلین ڈالرز کے مالیاتی دعوؤں کے لیے مطالبہ باضابطہ طور پر اٹھانے کی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ معاملہ آج ڈھاکا میں ہونے والے خارجہ سیکریٹری کی سطح کے مذاکرات کے دوران باضابطہ طور پر اٹھایا جائے گا۔
پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان دو طرفہ فارن آفس مشاورت کا سلسلہ 15 سال بعد بحال ہو گیا۔
بنگلا دیشی وزارتِ خارجہ کے حکام کے مطابق سب سے اہم دعوے میں 1970ء کے تباہ کُن بھولا طوفان کے بعد اس وقت کے مشرقی پاکستان کو بھیجی گئی 200 ملین ڈالرز کی غیر ملکی امداد شامل ہے۔
بنگلا دیشی حکام کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ڈھاکا برانچ میں جمع کی گئی رقم کو لاہور برانچ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
پاک بنگلادیس فارن آفس مشاورت کا سلسلہ 15 سال بعد بحالخیال رہے کہ پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان دو طرفہ فارن آفس مشاورت کا سلسلہ 15 سال بعد دوبارہ بحال ہو گئے ہیں۔
بنگلا دیشی میڈیا کے مطابق پاکستان اور بنگلا دیشی دفتر خارجہ کا مشاورتی اجلاس آج مقامی وقت صبح 10بجے ڈھاکا میں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ہوا۔
مشاورتی اجلاس میں دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹری وفود کی قیادت کی۔
اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی خارجہ سیکریٹری آمنہ بلوچ جبکہ بنگلا دیش کی نمائندگی سیکریٹری خارجہ محمد جسیم الدین نے کی۔
اجلاس کےبعد خارجہ سیکریٹری آمنہ بلوچ بنگلہ دیشی چیف ایڈوائزر محمدیونس، مشیر خارجہ توحید حسین سے بات کریں گی، جبکہ شام کو تھنک ٹینکس ،بنگلہ دیش میں مقیم پاکستانیوں سے بھی بات چیت شیڈولڈ ہے۔
اجلاس میں باہمی امور، علاقائی صورتِ حال، دوطرفہ تعاون کے فروغ پر گفتگو متوقع ہے۔
ڈھاکا میں موجود ، بنگلا دیش کے ہائی کمشنر برائے پاکستان اقبال حسین خان کا کہنا ہے کہ پاکستان بنگلا دیش کو برآمدات بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کپاس، چینی، چاول اور گندم جیسی اشیاء برآمد کرنے کا خواہشمند ہے، دونوں ممالک کے درمیان براہ راست پروازیں شروع کرنے پر بھی بات چیت جاری ہے۔
پاکستان بنگلا دیش کے درمیان آخری مرتبہ دفتر خارجہ کی مشاورت 2015؍ میں ہوئی تھی۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلا فارن ا فس مشاورت خارجہ سیکریٹری دیش کے درمیان بنگلا دیش کے بنگلا دیشی کے مطابق سال بعد
پڑھیں:
پی ٹی آئی کا بھارتی جارحیت کے حوالے سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ
اسلام آباد:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بھارت کے جارحانہ بیانات کے پیش نظر متفقہ جواب دینے کے لیے تمام جماعتوں سے بات کرنے اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما علی محمد خان نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ‘سینٹر اسٹیج’ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس فوری بلانا چاہیے، مطالبہ کرتا ہوں کہ حکومت کو آج رات یا کل ہی مشترکہ اجلاس بلا لینا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ سب کو اس اجلاس میں شرکت کرنی چاہیے، حکومت کو کہوں گا کہ اجلاس بلائیں، بانی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو انگیج کریں۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان پر بات آجائے تو ہمیں متفقہ طور پر جواب دینا چاہیے، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ قومی یک جہتی چاہیے تو حکومت اپنی ذات سے نکلے، حکومت کو بانی پی ٹی آئی کو ساتھ لانا ہو گا۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ایک تصویر آجائے جس میں بانی پی ٹی آئی، وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر ایک ساتھ نظر آجائیں، اگر یہ ایک تصویر آ جائے اور بھارت دیکھ لے تو بھارت کی جرات نہیں ہو گی، حکومت انگیج کرے تو میں جا کر بانی پی ٹی آئی سے بات کرتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کو قومی یک جہتی چاہیے تو سب کو انگیج کرے، یہ وقت کھل کر مضبوط فیصلے کرنے کا ہے، بھارتی جارحیت کے خلاف ہم سب ایک ہیں، اکیلے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے، ملک کو تقسیم کر کے کوئی جنگ نہیں جیت سکتے، ہمیں پاکستانی بن کر جواب دینا ہے، میرا لیڈر اس وقت جیل میں ہے۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ میرے لیڈر نے کہا تھا کہ ہم جواب دینے کا سوچیں گے نہیں بلکہ جواب دیں گے، پاکستان کے دفاع کے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم انتظار میں ہے کہ نواز شریف کا اس پر کیا جواب آتا ہے، نواز شریف کو خاموشی اختیار نہیں کرنی چاہیے، کھل کر بات کرنی چاہیے۔
علی محمد خان نے کہا کہ سب کو ایک پیج پر ہونا چاہیے، ہم بھائی ہیں، بھائی آپس میں لڑتے بھی ہیں لیکن جب ماں پر بات آ جائے تو بھائی بھائی کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت والے دوست ممالک جائیں، دوست ممالک کو بھی انگیج کریں، حکومت والوں کو سعودی عرب، چین اور روس بھی جانا پڑے تو جائیں، یہ تنقید کا وقت نہیں ہے، ہم مشورہ دینے کا حق رکھتے ہیں کہ اگر ہم حکومت میں ہوتے تو کیا کرتے۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے جو کیا ہے وہ اچھا اقدام ہے لیکن یہ ردعمل ہے، ہمیں پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں تھے، ہمیں دشمن کے خلاف تیار رہنا چاہیے تھا۔
علی محمد خان نے کہا کہ بھارت نے ہمارے ملک میں کئی دہشت گردی کے واقعات کیے، افغان طالبان نے کبھی پاکستان پر حملہ نہیں کیا، افغان طالبان نہیں بلکہ کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں حملے کیے ہیں۔