لاہور(نیوز ڈیسک)پنجاب میں نئے تعمیراتی پروجیکٹس کو بارش کا پانی ذخیرہ کرنے سے مشروط کردیا گیا۔

ڈی جی ماحولیات عمران حامد شیخ نے حکمنامہ جاری کردیا جس کے مطابق پنجاب میں 23 پروجیکٹس شروع کرنے کے لئے ڈیزائن میں پانی ذخیرہ کرنے کا سسٹم لازمی قرار دے دیا گیا۔ پولٹری، فش فارمز، پیٹرولیم ریفانریز، ٹیکسٹائل انڈسٹری، گارمنٹس یونٹس میں بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا سسٹم بنانا لازمی ہوگا

حکمنامے کے مطابق فوڈ انڈسٹری، فلور ملز، رائس ملز، گھی آئل ملز، پیٹرول پمپس اور سیمنٹ پلانٹس میں بھی بارش کے پانی کا سسٹم ہوگا جبکہ شوگر ملز، کیمیکل انڈسٹری، فارما انڈسٹری، پیپر ملزاور کھادوں کے یونٹس کو بھی بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا سسٹم لگانا ہوگا۔

ائیرپورٹس، ہاوسنگ سوسائیٹیز، کمرشل بلڈنگز، ہوٹلزاور میرج ہالز پربھی سسٹم لازمی قرار دیا گیا ہے۔ تمام تعلیمی اداروں، بسوں، ویگنوں کے اسٹینڈز پر بھی بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا سسٹم لازمی ہوگا۔بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے سسٹم کی پلاننگ، ڈیزائننگ اور کام کرنے کو جانچا جائے گا۔ تعمیراتی کام کی منظوری بارش کے پانی ذخیرہ کرنے کے سسٹم سے مشروط ہوگی۔ بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا سسٹم تعمیر کرنے کے فیصلے کا اطلاق فوری ہوگا۔
مزید پڑھیں: عمران خان کی تین بہنیں پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ گرفتار

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا سسٹم کرنے کے

پڑھیں:

لاہور میں زیر زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے، ڈائریکٹر ایری گیشن ریسرچ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایری گیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ذاکر سیال نے خبردار کیا ہے کہ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔

ان کے مطابق شہر کی گلیاں، بازار اور گرین بیلٹس پختہ کر دی گئی ہیں جس کے باعث زمین بارش کے پانی کو جذب نہیں کر پا رہی۔ نتیجتاً لاہور کے ’’قدرتی پھیپھڑے‘‘ بند ہو گئے ہیں اور بارش کا پانی ضائع ہو کر نالوں اور گٹروں میں بہہ جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں سے بھی زیر زمین پانی کی سطح بلند نہیں ہو سکی اور صرف 15 لاکھ لیٹر پانی مصنوعی طریقے سے ری چارج کیا گیا، جب کہ باقی تمام پانی نکاسی کے نظام میں ضائع ہو گیا۔ یہ صورتحال لاہور کے لیے نہایت خطرناک ہے کیونکہ شہر میں پانی کی دستیابی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر سیال نے کہا کہ لاہور میں اس وقت پینے کا صاف پانی 700 فٹ کی گہرائی سے نکالا جا رہا ہے۔ شہر میں 1500 سے 1800 ٹیوب ویل چوبیس گھنٹے چل رہے ہیں، جس سے پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق بارش کے پانی کا صرف تین فیصد حصہ زیر زمین واٹر ٹیبل کو ری چارج کرتا ہے، جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پانی کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے ری چارجنگ کنویں بنانا ناگزیر ہیں، جب کہ بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ انڈر گراؤنڈ ڈیمز کی تعمیر بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر آنے والے سالوں میں لاہور کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت کا عارضی بنیادوں پر طبی ماہرین بھرتی کرنے کا فیصلہ
  • دریائوں اور آبی ذخیروں میں پانی کی صورتحال
  • بارش اور کرپٹ سسٹم
  • دریائے ستلج میں سیلابی پانی میں کمی کے باوجود بہاولپور کی درجنوں بستیوں میں کئی کئی فٹ پانی موجود
  • پنجاب بھر کے 200 سے زائد گوداموں سے ذخیر کی گئی گندم قبضے میں لے لی گئی
  • محکمہ خوراک کے پاس ذخیرہ ختم، بلوچستان میں گندم کا بحران شدت اختیار کر گیا
  • رضی دادا کی غیر مشروط معافی مسترد، کمیٹی کا چینل بند کرنے کا فیصلہ، وائرل ویڈیو پر عمر چیمہ کے بعد وسیم عباسی نے بھی رد عمل جاری کر دیا 
  • لاہور میں زیر زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے، ڈائریکٹر ایری گیشن ریسرچ
  • پنجاب میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کیلیے سخت فیصلہ، سیپٹک ٹینک بنانا لازمی قرار
  • ادارہ تحفظ ماحولیات پنجاب کا ہاؤسنگ سوسائٹیز کیلئے سیپٹک ٹینک لازمی قرار