ماہ رنگ بلوچ، پاکستان میں نسلی اقلیت کے لیے مزاحمت کا ایک چہرہ
اشاعت کی تاریخ: 17th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 اپریل 2025ء) گزشتہ ماہ گرفتار کی گئی 32 سالہ ماہ رنگ بلوچ اب ملک کے سب سے زیادہ پہچانے جانے والے احتجاجی رہنماؤں میں سے ایک ہیں، جو بلوچ اقلیت کی نمائندگی کرتی ہیں۔
’’ہمارے والد نے ہمارے لیے یہ فیصلہ اس وقت کیا، جب انہوں نے خود کو بلوچ حقوق کے لیے وقف کر دیا اور ان کے بعد، ہم سب نے ان کے فلسفے کو اپنایا اور خود کو اس جدوجہد کے لیے وقف کر دیا۔
‘‘ ماہ رنگ نے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایک حراستی مرکز سے یہ بات اپنے اہل خانہ کو لکھی۔اے ایف پی کی جانب سے دیکھی گئی پولیس کی چارج شیٹ کے مطابق مارچ میں گرفتاری کے وقت ان پر دہشت گردی، غداری اور قتل کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
صوبہ بلوچستان، ایران اور افغانستان کی سرحدوں پر واقع ایک کم آبادی والا، دشوار گزار خطہ ہے، جو ہائیڈرو کاربن اور معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود ملک کا غریب ترین صوبہ ہے۔
(جاری ہے)
رقبے کے لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔سکیورٹی فورسز کالعدم تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کی قیادت میں بلوچ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی دہائیوں سے جاری شورش سے نبرد آزما ہیں، جو حکام اور چینی سرمایہ کاروں سمیت بیرونی افراد پر خطے کا استحصال کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بلوچ تنظیموں کی طرف سے تشدد کا جواب حکام کی جانب سے سخت کریک ڈاؤن کی صورت دیا جاتا ہے جس میں بے گناہ افراد ہلاک ہوتے ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق سال 2000ء سے اب تک صوبے میں 18 ہزار افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔
ماہ رنگ نے 2018 میں اپنے بھائی کی چار ماہ تک گمشدگی کے بعد بلوچ یونٹی کمیٹی (بی وائی سی) کی بنیاد رکھی تاکہ مبینہ ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور دیگر من مانی گرفتاریوں کے متاثرین کے رشتہ داروں کو متحرک کیا جاسکے۔
پاکستان کے ایک سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے خبر رساں ادارے نے اے ایف پی کو بتایا، ''ماہ رنگ ظالمانہ ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کا بچہ ہے۔‘‘
بلوچستان حکومت کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا، ''ایکٹیوسٹ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور جبری گمشدگیوں کے بارے میں بے بنیاد دعوے کر رہے ہیں۔‘‘
ماہ رنگ کی جدوجہد کا آغاز والد کی گم شدگی سےماہ رنگ نے سب سے پہلے اپنے والد کی گمشدگی کے بعد اپنی احتجاجی مہم شروع کی، ایک ایسے علاقے میں قبائلی روایات کو نظر انداز کرتے ہوئے جہاں ایک تہائی سے بھی کم لڑکیوں اور خواتین کو پڑھنے لکھنے کے لیے بھی گھر چھوڑنے کی اجازت ہوتی ہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے صدر نسیم بلوچ نے، جو 2011 ء سے یورپ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، کہا، ''ہم دیکھ سکتے تھے کہ وہ سڑکیں بلاک کر رہی ہیں، روتے ہوئے اپنے والد کی واپسی کے لیے التجا کرتی تھیں، یہاں تک کہ جب پولیس کی گاڑی آتی، تب بھی وہ ہر رکاوٹ کے سامنے بہادری سے کھڑی ہوئیں۔‘‘
ماہ رنگ کے والد کی گولیوں سے چھلنی لاش کی شناخت بالآخر 2011 میں جولائی کی ایک رات ہوئی، جو تشدد زدہ تھی اور اسی لباس میں تھی جس میں انہیں اغوا کیا گیا تھا۔
ماہ رنگ کی ان کی 26 سالہ بہن نادیہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، '' میرا بھائی ان کی لاش دیکھ کر بے ہوش ہو گیا۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس کے بعد ماہ رنگ نے ہمارے والد کی جگہ لے لی۔ انہوں نے اپنے میڈیکل اسکالرشپس کے ذریعے ہمیں کھانا کھلانے میں ہماری ماں کی مدد کی اور بلوچی کاز کے لیے اپنی لڑائی جاری رکھی۔
‘‘ان کے ہم جماعتوں کے مطابق انہوں نے نہ صرف اپنی جدوجہد کو جاری رکھا بلکہ بلوچ تحریک کو بھی یکسر تبدیل کر دیا۔
نسیم بلوچ کے بقول، ''پہلے، ہر کوئی میڈیا سے بات کرنے سے ڈرتا تھا، لیکن ماہ رنگ نے یہ راستہ اختیار کیا اور اپنے بھائی کو رہا کرانے میں کامیاب رہیں، لہٰذا اب (دیگر لاپتہ افراد کے) اہل خانہ بھی ان اغوا کی مذمت کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔
‘‘سب سے بڑھ کر، ماہ رنگ اور نادیہ بلوچ نے یہ الزام لگانے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں کہ ان کے بھائی کے اغوا کے پیچھے سکیورٹی سروسز کا ہاتھ تھا۔
ماہ رنگ نے بطور طالب علم بھی غلط اقدامات کے خلاف آواز بلند کی۔ انہوں نے اپنی کوئٹہ یونیورسٹی کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی جب عملے کو کیمپس میں خواتین کو بلیک میل کرنے کے لیے خفیہ طور پر ویڈیو بناتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔
باپ کے قتل، ایک بھائی کو اغوا کیے جانے اور غربت میں گزارے گئے بچپن کے ساتھ، ماہ رنگ کی کہانی بلوچستان کے دیہی خاندانوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔
ان کی بہن کا کہنا ہے، ''لوگ ماہ رنگ کو اس لیے پہچانتے ہیں کیوں کہ وہ بھی انہی جیسے درد سے گزر رہی ہیں۔‘‘
ماہ رنگ کے ایک 55 سالہ رشتہ دار محمد گل کے مطابق: ''بلوچ عوام انہیں امید کی ایک کرن کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک حقیقی رہنما جو ذمہ دار لوگوں کو چیلنج کرتا ہے۔
‘‘بلوچ مسلح گروہ بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں، جس کے لیے وہ مارچ میں ٹرین کو ہائی جیک کرنے جیسے بڑے حملوں کا راستہ بھی اختیار کرتے ہیں، لیکن بی وائی سی عدم تشدد اور وفاقی ریاست کے فریم ورک کے اندر مذاکرات کے ذریعے حل کی وکالت کرتی ہے۔
ماہ رنگ نے ایک بلوچ نوجوان کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف بلوچستان سے قومی دارالحکومت اسلام آباد تک 1600 کلومیٹر سے زیادہ کے ''لانگ بلوچ مارچ‘‘ کی قیادت کر کے بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔
ان کی اس جدوجہد کے سبب انہیں ٹائم میگزین کے 2024 کے 100 سب سے زیادہ امید افزا لوگوں میں شامل کیا گیا۔ تاہم وہ یہ ایوارڈ وصول کرنے کے لیے نہ جا سکیں کیونکہ حکام نے انہیں ملک چھوڑنے سے روک دیا تھا۔
ان کے مارچ میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین شرکت کرتی ہیں، جو کئی دنوں تک دھرنے دیتی ہیں۔
لندن میں مقیم پولیٹیکل سائنٹسٹ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے، ''ان (خواتین) پر تشدد، گرفتاری یا اغوا کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
‘‘ تاہم، حالیہ ہفتوں میں بہت سی خواتین مظاہرین کو قید کیا گیا ہے۔ماہ رنگ بلوچ کی بہن نادیہ کا کہنا ہے کہ ماہ رنگ نے لڑائی جاری رکھنے کے لیے پہلے ہی فیملی کو تیار کر لیا ہے، ''شاید ایک دن، انہیں بھی اغوا کر لیا جائے گا یا قتل کر دیا جائے گا۔‘‘
ادارت: عاطف بلوچ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے ماہ رنگ نے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کرتے ہیں والد کی کے خلاف کے بعد کے لیے کر دیا
پڑھیں:
دفتر خارجہ میں غیر ملکی سفارتی مشنز کو قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں پر بریفنگ
پاکستان نے بھارتی اقدامات کے جواب میں فیصلوں پر عالمی برادری کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کر لیا۔
دفتر خارجہ میں غیر ملکی سفارتی مشنز کو قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلوں پر بریفنگ دی گئی، 30 سے زائد غیر ملکی مشنز کے سربراہان، نمائندے بریفنگ میں شریک تھے۔
سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ کی جانب سے سفارتی مشنز کو بریفنگ دی گئی، آمنہ بلوچ نے پہلگام حملے کے بعد پیدا صورتحال پر بریفنگ دی، سیکریٹری خارجہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے نتائج سے آگاہ کیا۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ سیکریٹری خارجہ نے پاکستان کے خلاف بھارت کی گمراہ کن مہم کو مسترد کردیا اور کہا کہ اس طرح کے ہتھکنڈے خطے میں امن و استحکام کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں گے۔
سیکریٹری خارجہ نے بھارت کی جانب سے کشیدگی بڑھانے کی کوششوں سے خبردار کرتے ہوئے کسی بھی بھارتی مہم جوئی کا مؤثرجواب دینے کیلئے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔