مداحوں اور خیرخواہوں کی جانب سے تیزی سے کم ہوتے وزن پر تشویش کے اظہار کے بعد بالآخر کرن جوہر نے خاموشی توڑ دی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بالی ووڈ کے معروف فلم ساز کرن جوہر کا وزن ڈرامائی انداز سے کم ہوا ہے جس پر مداحوں نے بارہا فکرمندی کا اظہار بھی کیا لیکن کوئی وجہ سامنے نہیں آسکی تھی۔

انسٹاگرام لائیو سیشن کے دوران کرن جوہر نے بتایا کہ میں بالکل صحت مند ہوں اور خود کو پہلے سے کہیں زیادہ بہتر محسوس کر رہا ہوں۔

کرن نے بتایا کہ انہیں وزن کم کرنے کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب ان کے بلڈ ٹیسٹ میں کچھ چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت ظاہر ہوئی۔

تاہم کرن جوہر نے یہ نہیں بتایا کہ وہ خون میں کس چیز کی مقدار کو درست کرنے کی بات کر رہے ہیں۔

کرن جوہر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ اس وقت دوا پر بھی ہیں لیکن ان کا وزن روزانہ صرف ایک وقت کھانا کھانے کی وجہ سے کم ہوا ہے۔

کرن جوہر نے بتایا کہ اپنی فٹنس کو برقرار رکھنے کے لیے پیڈل بال کھیلنا اور تیراکی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

فلم ساز کرن جوہر کا کہنا تھا کہ وزن کی یہ تبدیلی بہتر صحت کے مقاصد کے حصول کے لیے ہے اور یہ ہدف صحت مند طریق سے حاصل کیا ہے۔

انہوں نے مداحوں کو مشورہ دیا کہ صحت مند غذا کھائیں صرف اتنا کھائیں جتنا ضروری ہو اور لالچ میں نہ آئیں۔ اچھی غذا، ورزش، اور خود کو بہتر رکھنے کی کوشش کریں۔

جب ایک رپورٹر نے ان سے ان کے روٹین کے بارے میں پوچھا تو کرن نے ہنستے ہوئے کہا کہ اگر میں یہ سب بتا دوں گا تو میرا راز کھل جائے گا اور اب واقعی راز سب کے سامنے آ چکا ہے۔

یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر ایک صارف نے کرن جوپر پر وزن کم کرنے والی دوا اوزیمپک کے استعمال کرنے کا الزام لگایا۔

اس کے جواب میں کرن جوہر نے انسٹاگرام اسٹوری پر اس پوسٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا وزن متوازن غذا کی وجہ سے کم ہوا ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کرن جوہر نے بتایا کہ

پڑھیں:

پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے صرف فلم سٹی کافی نہیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی فلم انڈسٹری کی صورت حال پر قریب سے نظر رکھنے والے صحافی طاہر سرور میر نے صوبہ پنجاب میں ایک فلم سٹی بنانے کے اعلان کا خیر مقدم تو کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر جملہ سہولیات کی فراہمی کے باوجود مواد کی تخلیق میں آزادی کو یقینی نہ بنایا گیا، تو ملکی فلمی صنعت کی بحالی کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔

لاہور میں نیشل کالج آف آرٹس کی اسما نامی ایک سابقہ طالبہ نے، جو ایک نوجوان فلم میکر بھی ہیں، ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لوگ سینما گھروں میں اس لیے جاتے ہیں کہ وہ حقیقی دنیا سے کچھ دیر کے لیے دور ہو کر دلچسپ اور تفریحی فلمیں دیکھ سکیں۔

اسما کا کہنا تھا کہ اگر سینما گھروں میں بھی شائقین نے پراپیگنڈا ہی دیکھنا اور سننا ہے، تو پھر ایسی فلمیں دیکھنے کے لیے ٹکٹیں کون خریدے گا؟ انہوں نے بتایا کہ ماضی میں کئی فلمیں معمولی غلط فہمیوں کی وجہ سے بھی طویل عرصے تک ریلیز نہ ہو سکیں، ''تو یہ ایسے معاملات ہیں، جن پر حکومت کو توجہ دینا چاہیے۔

(جاری ہے)

‘‘ عوام کو فلموں سے دور کن عوامل نے کیا؟

طاہر سرور میر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سابق فوجی حکمران ضیا الحق کے دور میں بھارتی اداکار شتروگھن سنہا ان کے گھر آتے جاتے رہے لیکن پاکستان میں فلم انڈسٹری پابندیوں ہی کا شکار رہی۔ اس کے علاوہ پاکستانی فلم انڈسٹری کو پابندیوں کے علاوہ دہشت گردی کا بھی سامنا کرنا پڑا، سینما گھروں میں بم دھماکے ہوتے رہے اور رہی سہی کسر ان کم تعلیم یافتہ لوگوں نے پوری کر دی، جو پاکستانی فلمی صنعت کا حصہ بن گئے تھے، ''ان عوامل کے باعث تخلیقی شخصیات اور عام شائقین فلموں سے دور ہوتے چلے گئے۔

‘‘

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں بیشتر روایتی سینما گھر اب شادی ہالوں، ورکشاپوں،پارکنگ ایریاز اور شو رومز میں بدل چکے ہیں۔ لاہور کے معروف گلستان سینما میں موجود اکرم نامی ایک شخص نے بتایا کہ پچھلے کئی ہفتوں سے یہ سینما بند ہے اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ سینما دوبارہ کب کھلے گا۔ اسی طرح نغمہ سینما کے باہر موجود نثار نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہاں سینما مستقل طور پر ختم ہو چکا ہے۔

کئی ماہرین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فلم سٹی جیسے منصوبے کو اگر افسر شاہی کے سپرد کر دیا گیا، یا اگر اسے اقربا پروری اور سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا، تو یہ صرف وسائل کے ضیاع کا باعث بنے گا۔

فلموں سے متعلق عمومی سوچ کی تبدیلی کی ضرورت

اداکارہ جیا علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آرٹ، کلچر اور فلموں کے بارے میں ملکی اشرافیہ کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی اور مقابلتاﹰ زیادہ بہتر طرز عمل اپنانا ہو گا۔

انہوں نے کہا، ''ہم نے اپنے سکولوں میں طلبا کو ڈرامہ، میوزک، ڈانس اور تھیٹر کی تربیت حاصل کرتے دیکھا تھا۔ اسی طرح آج بھی آرٹ کو اسکولوں میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے، تاکہ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں سامنے آ سکیں۔‘‘ ان کے بقول آرٹ اور کلچر سے متعلق ملکی پالیسیوں کا دیرپا ہونا بھی ناگزیر ہے۔

کن فلمی میلہ: ٹرانس جینڈر سے متعلق پاکستانی فلم انعام کی حقدار

طاہر سرور میر سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی ریاست اور معاشرے کی ترجیح ہے ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں فلم کو بھی ابلاغ عامہ کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے، تاہم پاکستان میں فلم انڈسٹری سے وابستہ افراد کو کمتر اور برا سمجھا جاتا ہے۔

طاہر سرور میر کے بقول، ''پاکستانی فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے اس سیکٹر کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ اسے عزت دینا ہو گی۔ اس شعبے کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ دوسری طرف پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو بھی ذمہ دارانہ طرز عمل اپنانا ہو گا۔

‘‘ ماضی میں فلمی شعبے سے متعلق کیے گئے اعلانات

صحافت کے سینئر استاد، پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کی فلمی صنعت کی بحالی کے کئی اعلانات ماضی میں بھی کیے گئے، لیکن ان کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے کہا، ''اہم ترین بات تربیت یافتہ افرادی قوت کی عدم دستیابی ہے۔‘‘ ان کے بقول یونیورسٹیوں میں فلم اسٹڈیز پڑھانے والے خود فلم کی عملی تربیت سے عاری ہیں اور اسی لیے ان سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی کچھ نہیں آتا۔

‘‘

لالی وڈ کا زوال: کراچی پاکستان فلم انڈسٹری کا مرکز کیسے بنا؟

پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر کے بقول پاکستانی معاشرے میں یہ غلط تاثر عام ہے کہ لوگ پیدائشی اداکار ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق فلم سازی ایک سنجیدہ کام ہے، جس کے لیے اداکاروں، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز سب کو اچھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، ''پہلے لوگ اداکار بننے کی آرزو کرتے تھے۔

اب ہر کوئی پہلے ہی دن سے سپر سٹار بن جانا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ معیار کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتا۔‘‘

ڈرامہ نگار اور اداکار افتخار احمد عثمانی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فلم سٹی کے قیام کا اعلان ایک اچھا اقدام ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ فلمی صنعت ''بےجا سرکاری پابندیوں میں جکڑی ہوئی نہیں ہونا چاہیے۔

‘‘ وفاقی وزارت کے پاس سو سے زائد فلموں کی تجاویز

افتخار احمد عثمانی کے مطابق، ''اب تک میں نے خود جتنے بھی ڈرامے لکھے ہیں، ان میں ایک ڈرامہ نگار کے طور پر میرے اپنے اندر بھی ایک سنسرشپ تھی، کہ فلاں بات نہیں لکھنا چاہیے کیوں کہ وہ معاشرے کے لیے بہتر نہیں۔ آج بھی میں جو ویڈیوز بناتا ہوں، ان میں میری کوشش ہوتی ہے کہ اچھے اور مہذب الفاظ کا چناؤ کروں۔

یا پھر اس میں کچھ نہ کچھ تبدیلی کر کے زیب داستاں کے لیے اسے اس قابل بنا دوں کہ اس ویڈیو کہانی کو بچے، بچیاں، بزرگ، سبھی دیکھ سکیں اور اس سے کچھ نہ کچھ سیکھ بھی سکیں۔‘‘

پاکستانی فلمی صنعت: زوال کی گرد سے عروج کے چڑھتے سورج تک

پاکستان کی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات میں فلم کے شعبے کے سربراہ جاوید میاں داد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ فلمی صنعت کی بحالی کے لیے وفاقی حکومت کے پاس 107 فلموں کی تجاویز آئی ہوئی ہیں اور حکومت اگلے چند ہفتوں میں ان میں سے 50 کے قریب فلموں کی تجاویز منظور کر کے انہیں فلمیں بنانے کے لیے گرانٹ دے گی جو کہ زیادہ سے زیادہ پانچ کروڑ تک ہو سکتی ہے۔

یاد رہے کہ حال ہی میں پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے صوبے میں پہلے فلم سٹی، فلم اسٹوڈیو، پوسٹ پروڈکشن لیب اور فلم اسکول کے قیام کی منظوری دے دی۔ ساتھ ہی فلموں کی تیاری کے لیے امدادی رقوم کی فراہمی کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی
  • ماریہ ملک مداحوں سے مخاطب ہونے کا انوکھا انداز سوشل میڈیا پر وائرل
  • حکومت کا مزید ایک ہزار یوٹیلٹی اسٹورز بند کرنے کا فیصلہ
  • پنکج ترپاٹھی کے مداحوں کیلیے بڑی خوشخبری! انتظار ختم
  • آئی پی ایل: ایک منٹ کی خاموشی، چیئرلیڈرز اور ڈی جے پرفارمنس بھی منسوخ
  • سینیٹ اجلاس: پوپ فرانسس کی وفات پر ایک منٹ کی خاموشی
  • فلسطین، مزاحمت اور عرب دنیا کی خاموشی
  • پاکستانی فلمی صنعت کی بحالی کے لیے صرف فلم سٹی کافی نہیں
  • پنجاب اسمبلی : پوپ کیلئے ایک منٹ خاموشی ،3بل منظور ‘ 2کمیٹیوں کے سپرد : اپوزیشن کا واک آئوٹ 
  • ندا یاسر کا کرن جوہر کے وزن میں کمی پر تبصرہ