قصور ڈانس پارٹی کیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں ایس ایچ او اور 2 کانسٹیبل قصور وار قرار
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
قصور ڈانس پارٹی کیس کی تحقیقاتی رپورٹ میں ایس ایچ او اور 2 کانسٹیبل قصور وار قرار WhatsAppFacebookTwitter 0 18 April, 2025 سب نیوز
لاہور(آئی پی ایس) قصور ڈانس پارٹی کیس سے متعلق ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔
لاہور کی عدالت میں پیش کردہ تحقیقات رپورٹ کے مطابق واقعے میں ایس ایچ او اور 2 کانسٹیبل قصور وار پائے گئے ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آئندہ کسی پولیس افسر نے زیر حراست ملزمان کا انٹرویو کیا تو متعلقہ ایس پی ذمہ دار ہوگا، عدالت نے آئندہ سماعت پر پولیس سے سوشل میڈیا پالیسی بھی طلب کر لی۔
قصور مبینہ ڈانس پارٹی کا سرغنہ ڈی پی او قصور کا پرسنل سٹاف افسر نکلا۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ اگر پولیس کو اپنی مثبت امیجنگ کرنی ہے پھر بھی کسی کو گنجا کرنا اور خواتین کی ویڈیو بنانا درست نہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت پر پولیس سے سوشل میڈیا پالیسی بھی طلب کر لی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی کے ملزمان کی ویڈیو بنانے اور وائرل کرنے پر پولیس افسران پر توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا کہ ایس ایچ او اور دو کانسٹیبل اس سارے معاملے میں قصوروار پائے گئے۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دئیے کہ اگر پولیس کو اپنی مثبت امیجنگ کرنی ہے پھر بھی کسی کو گنجا کرنا اور خواتین کی ویڈیو بنانا درست نہیں، اگر کوئی شخص دو سال بعد عدالت سے بری ہو جائے تو اس کے میڈیا ٹرائل کا کیا بنے گا؟
متعلقہ ایس ایچ او کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ قصور ڈانس پارٹی ڈی پی او کا پرسنل سٹاف افسر کروا رہا تھا۔ ہمارے پاس اس حوالے سے ایک کال بھی موجود ہے۔
ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے ایس ایچ او کے مؤقف کو درست قرار دیا اور بتایا کہ پی ایس او اور دو اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ اگر آئندہ کسی پولیس افسر نے زیر حراست ملزمان کا انٹرویو کیا تو متعلقہ ایس پی ذمہ دار ہوگا۔ عدالت نے پنجاب پولیس کی سوشل میڈیا پالیسی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 25 اپریل تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: قصور ڈانس پارٹی تحقیقاتی رپورٹ ایس ایچ او اور کیس کی
پڑھیں:
غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-2
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟