افغانستان کے وفد کی وزیر مملکت برائے داخلہ سے ملاقات، افغان مہاجرین کی واپسی پر گفتگو
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
پاکستان میں موجود عمارت اسلامیہ افغانستان کے سرکاری وفد نے وزیرمملکت داخلہ سے ملاقات کی ہے، ملاقات میں پاکستان سے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی کے حوالے سے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اسلام آباد میں افغان سفارت خانے کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر صنعت و تجارت نورالدین عزیزی کی قیادت میں پاکستانی دورے پر موجود افغان وفد نے جمعے کے روز اسلام آباد میں پاکستان کی وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹری محمد خرم آغا اور وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری سے ملاقات کی۔
یہ بھی پڑھیں: افغان مہاجرین کا بحران اور تجارت و ٹرانزٹ میں مشکلات، امارت اسلامی کا وفد پاکستان روانہ
اس ملاقات میں تجارت، ٹرانزٹ اور افغان مہاجرین سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا،نورالدین عزیزی نے تجارت اور ٹرانزٹ سے متعلق امور بحث کے علاوہ یہ بھی واضح کیا کہ امارت اسلامیہ چاہتی ہے کہ مہاجرین کی واپسی باعزت انداز میں ہو۔
ملاقات میں افغان وزارتِ امورِ مہاجرین کے نائب وزیر شیخ کلیم الرحمان فانی نے بھی شرکت کی۔ انہوں نے افغان مہاجرین کی باعزت واپسی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے دونوں ملکوں اور بین الاقوامی اداروں کے مابین اعلیٰ سطح کی مشترکہ کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ مہاجرین کے مسائل کو مشترکہ طور پر حل کیا جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: سچ کہا جائے تو اب فضا ہے کہ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس لوٹ جائیں، افغان قونصل جنرل
اس موقع پر وزیرمملکت داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ غیر قانونی مہاجرین پاکستان کے لیے بھی ایک بڑا مسئلہ ہیں جس کا حل نکالا جانا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے 2023 میں تمام ممالک کے لیے ایک دستاویزی پالیسی کا اعلان کیا، جس کے تحت جو کوئی بھی پاکستان آتا ہے، اُسے قانونی دستاویزات کے ساتھ آنا ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغان مہاجرین افغان وفد طلال چوہدری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان مہاجرین افغان وفد طلال چوہدری افغان مہاجرین مہاجرین کی
پڑھیں:
افغانستان کے موجودہ نظام میں کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ موجود ہیں، وزیرِ دفاع
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ افغانستان کے موجودہ نظام میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ موجود ہیں، افغان طالبان نے ان کو پناہ دی ہوئی ہے۔
نجی ٹی وی پروگرام سے گفتگو کے دوران وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے لیے مانیٹرنگ کا میکنزم افغان طالبان کی ذمہ داری ہے۔ ہمارا سب سے بڑا مطالبہ بھی یہی ہے کہ جو لوگ افغانستان سے بارڈر کراس کرکے پاکستان میں دراندازی کرتے ہیں اور تباہی پھیلاتے ہیں، ان لوگوں کو روکنے کے لیے ہمیں ایک میکنزم چاہیے یا افغان طالبان اپنے طور پر ان کو روکیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے کہنے پر دہشتگردی ہوئی تو پھر ’اینج تے اینج ہی سہی‘، خواجہ آصف
وزیرِ دفاع نے کہا کہ دہشتگردوں کو بارڈر کراس کرنے کے لیے فری ہینڈ دینا جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو مانیٹر نہیں کرتے اور ان کو نہیں روکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں ان کی مرضی بھی شامل ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر دہشتگرد داخل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بھی اس حوالے سے مانیٹرنگ کے لیے ایک میکنزم بنائے گا تاکہ افغانستان سے دہشتگرد بارڈر کراس کرکے پاکستان میں داخل نہ ہوسکیں۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بارڈر کراس ہورہا ہے، افغانستان سے باڑ کاٹ کر دہشتگرد پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، ہم ان کو کاؤنٹر کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انکاؤنٹر کے دوران ہمارا بھی نقصان ہوتا ہے لیکن ان کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ مانیٹرنگ کے عمل میں ثالث ممالک کا کردار بھی کسی نہ کسی صورت میں ہوگا تاکہ کوئی خلاف ورزی نہ ہو اور پندرہ دن یا مہینے بعد دوبارہ امن خراب نہ ہو۔ ان ممالک کی خفیہ ایجنسیاں معاملات کی نگرانی کریں گی۔
یہ بھی پڑھیں: مسلم ممالک کو نیٹو طرز کا اتحاد بنانا چاہیے، خواجہ آصف نے تجویز دیدی
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں خفیہ ایجنسیاں بھی شریک تھیں جن کے پاس جدید معلومات موجود ہیں کہ دہشتگردی کہاں سے ہورہی ہے، کون کررہا ہے، اس کے پیچھے کون ہے، بھارت کا اس میں کیا کردار ہے اور موجودہ افغان حکومت میں کون سے عسکری گروپس شامل ہیں۔ جس طرح خفیہ ایجنسیاں مذاکرات کررہی ہیں شاید اس طرح کوئی اور نہ کرسکے۔ مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو استنبول میں ہوگا جس میں یہ ساری چیزیں طے ہوں گی۔
خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یہ دونوں نیٹو فورسز کے ساتھ مل کر لڑے ہیں۔ دونوں کے مشترکہ مفاد ایسے ہیں کہ افغان طالبان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے۔ ٹی ٹی پی کی لیڈرشپ کابل میں موجود ہے تو افغانستان کے نظام میں بھی ان کا عمل دخل ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذاکرات میں نجی طور پر افغان حکومت ٹی ٹی پی کی موجودگی کا اعتراف کرتی ہے۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے لوگوں کو پناہ دی ہوئی ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں دراندازی میں کمی ضرور ہوئی ہے مگر معاملات ختم نہیں ہوئے۔ جب سے مذاکرات چل رہے ہیں 3 سے 4 وارداتیں سرحد پار سے ہوئی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغانستان پاکستان ترکیہ جنگ بندی خواجہ آصف قطر وزیردفاع