پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان 3 میچوں پر مشتمل ٹی20 سیریز کا دوسرا میچ آج قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا جائے گا۔

میچ کے تمام ٹکٹس فروخت ہو چکے ہیں، جبکہ دونوں ٹیموں نے میچ سے قبل بھرپور پریکٹس سیشن میں حصہ لیا۔ کھلاڑیوں نے بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ کی خصوصی مشقیں کیں۔

پاکستان ساؤتھ آفریقہ ٹی ٹونٹی سیریز

پاکستان اور ساؤتھ افریقہ کی ٹیم لاہور پہنچ گئی

پاکستان اور ساؤتھ آفریقہ کے مابین سیریز کا دوسرا میچ 31 اکتوبر کو کھیلا جائے گا pic.

twitter.com/UNtpo1kK8Y

— PCB Media (@TheRealPCBMedia) October 29, 2025

مزید پڑھیں: پاکستانی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت، جنوبی افریقہ نے پہلے ٹی20 میں 55 رنز سے شکست دیدی

مہمان جنوبی افریقی ٹیم کو سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل ہے۔ پہلے ٹی20 میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو 55 رنز سے شکست دی تھی۔

سیریز کا مکمل شیڈول:

ٹی ٹوئنٹی سیریز:

1 نومبر: تیسرا ٹی20 — قذافی اسٹیڈیم، لاہور

ون ڈے سیریز:

4 نومبر: پہلا ون ڈے — اقبال اسٹیڈیم، فیصل آباد

مزید پڑھیں: بابراعظم، کیا دوپٹہ پیکو کے لیے دیا ہوا ہے؟

6 نومبر: دوسرا ون ڈے — اقبال اسٹیڈیم، فیصل آباد

8 نومبر: تیسرا ون ڈے — اقبال اسٹیڈیم، فیصل آباد

اب تک دونوں ٹیموں کے درمیان 25 ٹی20 میچز کھیلے جا چکے ہیں، جن میں 13 جنوبی افریقہ جبکہ 12 پاکستان کے نام رہے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاکستان ٹی20 سیریز جنوبی افریقہ قذافی اسٹیڈیم لاہور

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان ٹی20 سیریز جنوبی افریقہ قذافی اسٹیڈیم لاہور جنوبی افریقہ

پڑھیں:

اسرائیلی برتری کی خاطر غزہ میں کنٹرول شدہ تناو پر مبنی امریکی پالیسی

اسلام ٹائمز: اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔ تحریر: یحیی دبوق (کالم نگار لبنانی اخبار الاخبار)
 
اگرچہ اسرائیل کی جانب سے تناو کی شدت میں حالیہ اضافہ غزہ میں جنگ بندی متزلزل ہونے کی علامت ہے لیکن متضاد طور پر غزہ کے جنوبی شہر رفح میں فائرنگ کے تبادلے پر مبنی واقعے سے غلط فائدہ اٹھا کر تناو کی شدت میں ایسے کنٹرول شدہ اضافے کی کوشش ہے جو امریکہ کی براہ راست نگرانی میں انجام پا رہی ہے۔ غزہ میں جنگ بندی محض ایک متزلزل جنگ بندی ہی نہیں ہے بلکہ وہ دراصل مدمقابل فریقوں خاص طور پر حماس کی طاقت آزمانے کا ایک میدان ہے تاکہ اسے جنگ کے ان نئے قوانین سے مطابقت دی جا سکے جو امریکہ کی جانب سے وضع کیے گئے ہیں۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا بیان بھی اسی پیرائے میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے جنگ بندی کے "تسلسل" پر زور دیتے ہوئے پیشن گوئی کی ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کی ہر قسم کی خلاف ورزی کا جواب دے گا۔
 
امریکی نائب صدر نے اپنے اس بیان کے ذریعے نہ صرف امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی حمایت کا اظہار کیا ہے بلکہ ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر بھی بیان کیا ہے جس کے مطابق جنگ کے بعد والا مرحلہ درحقیقت اسرائیل کی سیکورٹی کے حق میں نئے قوانین وضع کرنے کا ایک میدان ہے اور مقصد میدان جنگ میں طاقت کا توازن برقرار کرنا نہیں ہے۔ یہ حکمت عملی واضح طور پر زمینی حقائق میں دکھائی دے رہی ہے۔ آج اسرائیل نے غزہ کے ایسے علاقوں میں بھی اپنی فوجی موجودگی بڑھا دی ہے جہاں سے اسے جنگ بندی معاہدے کی روشنی میں فوجی انخلاء انجام دینا تھا۔ اس اقدام کو امریکہ کی اس سیاسی حمایت پر مبنی چھتری سے علیحدہ کر کے سمجھنا مشکل ہے جو اس نے اسرائیل کے لیے کھول رکھی ہے۔ یوں امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کو جنگ بندی کی "پابندی" کا من گھڑت معنی کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔
 
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل کی ہر فوجی سرگرمی کو "جائز دفاع" کا نام دے دیا جاتا ہے چاہے وہ غزہ کی پٹی میں اعلان شدہ حدود کی خلاف ورزی پر ہی کیوں نہ مشتمل ہو۔ ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی حماس نے کی ہے۔ اس کا نتیجہ حماس اور فلسطینیوں پر ایک نابرابر صورتحال مسلط کر دینے کی صورت میں نکلتا ہے۔ یعنی ایک طرف حماس سے جنگ بندی معاہدے کی ہر شق کی پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اسرائیلی فوج کو امریکہ کی کھلی یا ڈھکے چھپے حمایت سے ان شقوں کی اپنی مرضی سے تشریح کرنے کا اختیار دے دیا جاتا ہے تاکہ وہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے الزام سے بھی بچ جائے اور غزہ میں اپنے فوجی آپریشن کی وسعت بھی بڑھاتی چلی جائے۔
 
اس صورتحال سے ایک گہری تبدیلی بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ اسٹریٹجک فیصلہ کا مرکز تل ابیب سے باہر منتقل ہو جانے پر مبنی ہے۔ بیرونی موثر فوجی نظارت کے باعث اسرائیلی فوج فوجی صلاحیتیں رکھنے کے باوجود نہ تو حملے اور نہ ہی جوابی کاروائی میں خودمختار نہیں ہے۔ اسرائیل کے جنوب خاص طور پر کریات گات آپریشن روم میں امریکہ موجود ہے اور وہاں ایک قسم کا ہیڈکوارٹر اور کنٹرول روم بنا ہوا ہے۔ وہیں یہ طے کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کب، کہاں اور کس شدت سے فوجی جارحیت انجام دے گا۔ اس بارے میں اسرائیلی کابینہ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے سیاسی اقدام سے پہلے امریکہ کی جانب سے سبز جھنڈی دکھائے جانے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ نے عملی طور پر اسرائیل کے تمام فیصلوں پر کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے۔
 
اسرائیل کے حساس اداروں سے عبرانی ذرائع ابلاغ تک لیک ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے سیکورٹی ادارے مختلف قسم کے حربوں سے اپنے فیصلوں میں خودمختاری دوبارہ حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف اگرچہ اسرائیل میں امریکی مداخلت پر ناراضگی پائی جاتی ہے لیکن امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اہداف کو تل ابیب سے دشمنی نہیں بلکہ اس کے مفادات کے تحفظ کے طور پر پیش کرے۔ امریکہ نے اسرائیل کو یقین دہانی کروا رکھی ہے کہ اس کے تمام فیصلے "ایک ریاست کے طور پر اسرائیل" کے حق میں اور ان میں محض افراد کے مفادات کو مدنظر قرار نہیں دیا جاتا۔ یہ صورتحال درحقیقت اس بات کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل امریکہ اور مغربی ممالک کی بھرپور مدد اور حمایت کے باوجود غزہ کے خلاف جنگ میں فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کر پایا ہے۔
 
امریکہ اسرائیل کو اپنی مکمل اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتا بلکہ آخرکار اسے "مشروط" طور پر سیکورٹی امور میں آزادی دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ہم آنے والے دنوں میں بھی اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کریں گے۔ ایسی صورتحال میں حماس نہ صرف مشکل انتخاب سے روبرو ہو گی بلکہ عین ممکن ہے اسے بیرونی دباو کے نتیجے میں حقیقی شراکت داری سے بھی محروم ہونا پڑے۔ یوں رفح میں فائرنگ کا تبادلہ اور اس پر اسرائیل کا ردعمل ایک طے شدہ حکمت عملی کا شاخسانہ تھا جس کا مقصد جنگ کے نئے قوانین مسلط کرنا ہے۔ ایسے قوانین جن کا واضح اعلان نہیں کیا جاتا لیکن میدان جنگ میں لاگو کیے جاتے ہیں۔ ایسا مرحلہ جس کا مستقبل واضح نہیں ہے اور وہ فوجی یا سیاسی راہ حل کے بغیر طول پکڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور میں مقیم مہمان ہندوؤں کے لیے دیوالی کی تقریب کا انعقاد
  • گرین شرٹس پروٹیز پر پلٹ کر وار کرنے کے لیے تیار
  • پاکستان اور جنوبی افریقہ کا دوسرا ٹی 20 آج، مہمان ٹیم کو 0-1 کی برتری حاصل
  • اسرائیلی برتری کی خاطر غزہ میں کنٹرول شدہ تناو پر مبنی امریکی پالیسی
  • خواتین ورلڈ کپ سیمی فائنل: جنوبی افریقہ نے انگلینڈ کو 125 رنز سے شکست دے کر فائنل میں جگہ بنالی
  • ٹی20 میں 8ویں بار صفر پر آؤٹ، بابر اعظم نے شاہد آفریدی کا ناپسندیدہ ریکارڈ برابر کر دیا
  • ٹی20 کرکٹ میں بدترین کارکردگی، آخری 25 میچوں میں بڑی ٹیموں کے خلاف پاکستان کے نتائج کیا رہے؟
  • ٹی ٹوئنٹی سیریزکا پہلا میچ: پاکستان کا ٹاس جیت جنوبی افریقا کے خلاف فیلڈنگ کافیصلہ
  • پہلا ٹی20: پاکستان کا جنوبی افریقہ کے خلاف ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ