ہمارے اعتراضات کو مانیں، ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی آپ کے ساتھ نہیں چل سکے گی؛ بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
سٹی 42 : پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ سندھ کے عوام نے نہروں کا منصوبہ مسترد کردیا۔ شیر پنجاب کے کسان اور سندھ کے ہاری کا خون چوس رہا ہے۔ ہم کسی سیاسی مقصد اور مفاد کے لئے نہین نکلے، ہم وزرتِ عظمیٰ کے لئے نہیں نکلے ہیں، ہم کسی جیل میں قید کو بچانے کے لئے نہیں نکلے ، ہم سندھو کو بچانے کے لئے نکلے ہیں۔
حیدرآباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا، میں حکومت کو خبردار کرتا ہوں، کسی غلط فہمی میں نہ رہیں کہ میں پیچھے ہٹوں گا، میں اپنے عوام کے ساتھ کھرٓ ہوں، میرے پاس سیلیکٹڈ ہونے کا کوئی سرٹیفیکیٹ نہیں میرے پاس اگر کوئی چیز ہے تو وہ یہ عوام ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز کا پنجاب بھر کےہسپتالوں کی او پی ڈیز بند کرنے کا اعلان
بلاول بھٹو نے کہا، آپ اپنا منصوبہ چھوڑیں، میں اپنے عوام کو نہین چھوڑوں گا۔سندھ کے عوام ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگانے والے کے ساتھ ہیں۔میں اسلام آباد کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ عوام کے مطالبے کو دیکھیں اور سمجھیں، ہمارے اعتراضات کو مانیں، ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی آپ کے ساتھ نہیں چل سکے گی۔
افغانستان حکومت کے نمائندہ وفد کی طلال چوہدری سے ملاقات، اہم امور پر تبادلہ خیال
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے حیدرآباد میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے پیپلز پارٹی کے جیالوں کو، بھٹو کے سپاہیوں کو عمر کوٹ کی سیٹ میں تیر کی جیت مبارک ہو، سندھ کی عوام نے ایک بات پھر ثابت کردیا ہے ، چاہے جو بھی سامنے ہو سندھ کی عوام نے ثابت کیا نہ میر کا نہ پیر کا ووٹ صرف تیر کا۔ انہوں نے کہا کہ فوتگی والی سیٹ تھی، یوسف تالپور صاحب اس صوبے کا سینیئر ممبران اسمبلی تھا، اپوزیشن جماعتوں کو اصولی طور پر اس الیکشن کو بلامقابلہ کرنا چاہیے تھا، اسلام آباد میں بیٹھے تجزیہ کار کنفیوز بنے ہوئے تھے، کنفیوز تھے کہ سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کو شکست دلوائیں۔
پنجاب اسمبلی کا اجلاس؛ اپوزیشن لیڈر اور وزیر پارلیمانی امور کے درمیان لفظی گولا باری
بلاول بھٹو نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ن لیگ ایک پیج پر تھے، 17 جماعتیں سب اکھٹے تھے کہ پی پی کو ہرانا ہے، عمرکوٹ کی عوام کا شکر گزار ہوں تاریخی شکست دی ان کو ، یہ لوگ منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، آپ نے اسلام آباد والوں کو شکست دلوایا ہے، آپ نے ان منافق سیاستدانوں کو شکست دلوائی جو میرے اور کارکنان کے درمیان فاصلہ بنانا چاہ رہے تھے، عوام نے ان کو صاف پیغام بھیجا کہ اس صوبے کے عوام شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ آج بھی کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے عوام نے نہروں کا منصوبہ مسترد کردیا، سندھ کے عوام ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ لگانے والے کے ساتھ ہیں، عمر کوٹ کی عوام نے ثابت کیا کہ اس صوبے کی عوام کینالوں کو مسترد کرتے ہیں۔
پنجاب حکومت کا سینکڑوں خواتین میں مفت گائے ، بھینس تقسیم
ہم جب بھی کسی تحریک کیلیے نکلتے ہیں تو ہم تاریخی شہر حیدرآباد ضرور آتے ہیں، وہ کہتے ہیں پاکستان میں انقلاب لانا ہے تو حیدرآباد ساتھ ملانا ہے ، حیدرآباد نے آج ثابت کیا واضح کیا کہ یہ پیپلز پارٹی، شہید بی بی اور میرے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو جب شہید ہوئے لاہور میں لوگوں نے خود کو جلا کر احتجاج کیا تھا، بے نظیر بھٹو وفاق کی زنجیر تھیں ان کے ساتھ سب کھڑے تھے، بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تو کچھ لوگوں نے کوشش کی کہ نہ کھپے کے نعرے لگیں، لیکن اُس وقت صدر زرداری نے کھپے کا نعرہ لگایا، ملک بچایا اور جمہوریت کو بحال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب نے مل کر جدوجہد کی، ہم ساتھ مل کر چار بھائی بن کر اس پرچم کو تھاما اور جنرل ضیاء اور مشرف کو شکست دلوائی، حیدرآباد میں پہلے جمع ہوئے تو یہاں وعدہ کیا تھا کہ سلیکٹڈ کو بھگانا ہے ، یہاں میں نے کہا تھا کٹھ پتلی کو بھگاؤں گا اور وہ وعدہ پورا کر کے دکھایا، اُس شخص قیدی نمبر 420 نے چھ میں سے دو کینالوں کی منظوری دی تھی، صرف پیپلز پارٹی نے مخالفت کی، میرا جام خان شورو ہو، مراد علی شاہ یا قومی اسمبلی میں یوسف تالپور پیپلز پارٹی نے مخالفت کی، ہم تاریخ میں پہلی بار عدم اعتماد لائے اور بانی پی ٹی آئی کو گھر بھیجا ۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ جنگ میری اور آپکی جنگ ہے ، پانی کا یہ ایسا مسئلہ ہے جو وفاق کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، پانی کی غیر منصفانہ تقسیم عالمی سطح پر پاکستان کو مسئلے میں ڈال سکتی ہے۔
Waseem Azmet.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو نے سندھ کے عوام پیپلز پارٹی کو شکست عوام نے کے ساتھ کی عوام کے لئے
پڑھیں:
’اسلام کا دفاع‘
ہم جس فقہی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اسے دینی و سیاسی رہبری کے لیے ایک عدد شیخ الاسلام، ایک ہی مفکر اسلام اور ایک قائد ملت اسلامیہ خدمات میسر ہیں۔ یہ ان بزرگوں کی خدمت کی برکت ہے کہ مسلم دنیا پر 500 سال سے جاری زوال کا ہمارے مکتب فکر پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ وہاں دین ترقی پر ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہر آنے والے سال پچھلے برس سے زیادہ چندہ ہوتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا دینی جوش بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے شیخ الاسلام، مفکر اسلام اور قائد ملت اسلامیہ کو دینی و اخلاقی لحاظ سے جو بھی بے راہ روی نظر آتی ہے اپنے مکتب فکر کے دائرے سے باہر نظر آتی ہے۔ چنانچہ انہیں ساری نصیحتیں ہی نہیں بلکہ ڈانٹ ڈپٹ بھی گھر سے باہر والوں کو کرنی پڑتی ہے۔
منبر رسول ہو، مضمون ہو یا ٹویٹ۔ ہر جگہ ان کی تلقین صرف باہر والوں کے لیے ہوتی ہے۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیز کے دور سے متعلق مشہور ہے کہ شہری مالی لحاظ سے اتنے مستحکم ہوگئے تھے کہ امراء زکوۃ ہاتھ میں لئے پھرتے تھے مگر کوئی مستحق زکوٰۃ نہ ملتا، جسے دے کر زکوٰۃ کا فریضہ ادا ہوپاتا۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال کا ہمارے بزرگوں کو یوں سامنا ہے کہ انہیں اپنے مکتب فکر کے اندر کوئی ’مستحق اصلاح‘ نہیں ملتا تاکہ یہ اصلاح کا آغاز گھر سے کرسکیں۔ یوں انہیں اپنے وعظ کی زکوۃ ادا کرنے کے لیے دور پار دیکھنا پڑتا ہے۔
اس کے برخلاف بریلوی مکتب فکر کی صورتحال یہ ہے کہ وہاں ہمارے بہت ہی مہربان مفتی منیب الرحمان اور مفتی محمد اکمل صاحب کو روز اپنوں کو ہی تلقین کرنی پڑتی ہے۔ کبھی وہ انہیں قبروں پر سجدوں سے روکتے ہیں، کبھی نعت خوانی کے نام پر ’شوبز‘ کے جملہ تقاضے پورے کرنے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو کبھی دیگر بہت سی خرافات پر انہیں اپنوں کا ہی شدید لب و لہجے میں محاسبہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے کیا ثابت ہوا؟ یہی کہ ان کا تو ’خانہ‘ ہی خراب ہے۔ سو ان بزرگوں کے پاس اس باطل کی سرکوبی کے لیے وقت ہی بہت تھوڑا بچتا ہے جو ان کے مکتب فکر کی چار دیواری کے باہر منڈلا رہا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی دفاع اور منی لانڈرنگ
لگ بھگ 30 برس ہونے کو ہیں جب شیطان نے ہمیں گمراہ کیا اور ہم سے پہلی بار یہ گناہ سرزد ہوگیا کہ اپنوں کو ہی تلقین کر ڈالی۔ یہ گناہ ہم سے ’علماء الریال‘ کے عنوان سے سرزد ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر ہمارے بزرگوں کا دل ہی بیٹھ گیا کہ اپنے ہی گھر میں ایک فتنہ پیدا ہوگیا جو اس طرح کے بیہودہ کالم لکھتا ہے؟ سو ان میں سے جن پر اللہ کی رحمانی صفت کا غلبہ تھا، انہوں نے پاس بلا کر دو باتیں سمجھانے کی کوشش کی۔ پہلی یہ کہ ’تم بچے ہو‘ اور دوسری یہ کہ گھر کی باتیں باہر نہیں کی جاتیں۔ باہر صرف باہر والوں کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اور جن بزگوں پر اللہ کی جباری صفت کا غلبہ تھا انہوں نے تو جو منہ میں آیا ہمیں سنا ڈالا۔ اب آپ کہیں گے کہ بتایئے تو سہی کیا سنا ڈالا تھا؟ تو آپ کے جھانسے میں آکر ہم کالم باؤنس کروا دیں؟ بس اتنا جان لیجیے کہ وہی الفاظ تھے جن کے استعمال پر 2 یہودی سوشل میڈیا پلیٹ فارم یوٹیوب اور فیس بک اکاؤنٹ اڑا دیتے ہیں۔
عربی کی کہاوت ہے کہ انسان اس چیز میں زیادہ حرص محسوس کرتا ہے جس سے اسے روکا جائے۔ سو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جلد وہ وقت آیا جب ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آگیا۔ تب ہمارے بزرگوں کا مؤقف بنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ فتنوں کے دور میں گھر دبک جایا کرو۔ یوں ہمارے بزرگ دبک لیے۔ وہ اللہ والے تھے، فتنوں کا سامنا کرنے سے ان کےدامنِ ولایت پر چھنٹے پڑ سکتے تھے۔ ہمارا تو دامن پہلے سے ہی داغدار تھا، سو فتنوں کو چیلنج کرنے کا ذمہ ہم نے ہی لے لیا۔ صرف فتنوں کو ہی چیلنج نہ کیا بلکہ انہیں بھی آڑے ہاتھوں لیا جو گھروں میں دبک لیے تھے۔ یوں پر ہم پر علماء کا گستاخ ہونے کی الہامی مہر بھی ثبت ہوگئی۔ سنا ہے ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جب ایسے بزرگ ہوا کرتے جس کا حوالہ شاملی کا میدان تھا۔ ہوتے ہوں گے، ضرور ہوتے ہوں گے مگر اپنے حصے میں تو صرف شملے آئے ہیں۔ وہ شملے جنہیں ہم سے زیادہ میمن سیٹھ جانتے ہیں۔
کسی میمن سیٹھ کے پاس ایک پریشان حال شملہ پہنچا اور فرمایا ’اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے، احقر اس کا سد باب کرنا چاہتا ہے مگر وسائل نہیں ہیں۔ ہمارے پاس دنیا کمانے کے لیے وقت ہی کہاں ہوتا ہے؟ آپ کے پاس بس اس دعا کی درخواست کے لیے آیا ہوں کہ اللہ وسائل کا انتظام فرما دیں‘۔
میمن سیٹھ پریشان کہ اس کی کیا اوقات کہ شملے کو دعا دے؟ سو اس نے شملے کو بھی اپنی اس سوچ سے آگاہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ حضرت ہماری کیا اوقات کہ آپ کو دعا دیں؟ جواب آیا ’نیک تاجر اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے۔ اور اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کی دعائیں خوب قبول کرتا ہے‘۔
میمن ویسے تو بڑے معصوم ہوتے ہیں مگر جب معاملہ پیسے کا ہو تو پھر رمز بھی ان کے آگے رمز نہیں رہتا، سو اس نے موٹی سی رقم ادا کرتے ہوئے کہا
’تاجر کے پاس 2 ہی چیزیں ہوتی ہیں، ایک مال تجارت اور دوسری اس کی کمائی۔ کمائی میں سے معمولی سا حاضر ہے، دعائیں کسی اور سے لے لیجیے گا‘۔
کچھ دن بعد وہی شملہ کسی تقریب میں ملا تو سلام دعا کے بعد سیٹھ سے ان کا حال پوچھ لیا۔ سیٹھ نے کہ ’ہمارا حال چھوڑیے حضرت، یہ بتایئےاسلام کا کیا حال ہے؟‘
حضرت نے خوشخبری سنا دی کہ ان کے دیے مال سے اسلام کا حال اچھا ہے۔ یہ میمن شرارتی بہت ہوتے ہیں۔ ایک روز ہم سے کہنے لگے
’اسلام کب خطرے میں ہوتا ہے اور کب مامون، اس کا اپن سے زیادہ کسی کو پتا نہیں‘۔
ہم نے درخواست کردی کہ اس راز میں ہمیں بھی شریک فرما لیجیے۔ فرمایا
مزید پڑھیے: ’غلامی آج بھی موجود ہے‘
’رمضان سے ایک 2 ہفتے قبل اپن کو وٹس ایپ کے ذریعے یاد دہانی کرادی جاتی ہے کہ اسلام کو خطرہ لاحق ہونے لگا ہے۔ رمضان آتے ہی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے جو عید کے تیسرے دن تک جاری رہتا ہے۔ اس کے بعد اسلام مامون ہوجاتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ چندہ مانگنے والوں کی گاڑی کے ماڈل بدل جاتے ہیں۔ گاڑی تو بندہ امن والے دنوں میں ہی خرید سکتا ہے، خطرات والے ایام بھی بھلا کوئی گاڑی کی خریداری کرسکتا ہے؟ اس کے بعد سال کے وسط میں جاکر اسلام کو تھوڑا سا خطرہ پھر سے لاحق ہوتا ہے۔ اس بار جب اسلام خطرے سے باہر نکلتا ہے تو چندہ مانگنے والوں کی اولاد کے سیل فون بھی بدل جاتے ہیں‘۔
وہ کہتے، اور ہم مسکراتے جا رہے تھے، جس کا غلط نتیجہ اخذ کرکے دریافت فرمایا
’آپ کو میری بات کا یقین نہیں؟‘
ہم نے کانوں کو ہاتھ لگا کر آگاہ کیا کہ اسلام کو لاحق خطرات تو اب اتنی شدت اختیار کرگئے ہیں کہ دفاع کے لیے فرخ کھوکھر کی خدمات لینی بھی واجب ہوگئیں۔ سنا ہے چھوٹے کھوکھر نے کسی اپنے جیسے دوسرے ’سماجی رہنما‘ کو اسلامی میں 5 کروڑ دیے تھے۔ تو سوچیے اسلام کے دفاع کے لیے وہ کیا کچھ نہیں دے گا۔ این سعادت بزور تعویذ نیست !
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں