Daily Ausaf:
2025-09-18@17:32:44 GMT

تسخیر کائنات اور سائنسی ترقی کا لازم فریضہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

سٹیفن ہاکنگ کی کتاب، “وقت کی مختصر تاریخ” میں ایک بات دل کو لگی۔ راقم الحروف نے پوری کتاب پڑھی مگرماسوائے اس ایک بات کے کتاب کا دوسرا کوئی اقتباس یاد نہ رہا۔ آپ اسے کتاب کا ماحصل” بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہاکنگ مرحوم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ، “کچھ ستارے زمین سے نوری سالوں کی اتنی دوری پر واقع ہیں کہ جب تک ان ستاروں کی روشنی زمین پر پہنچتی ہے تب تک وہ ستارے اپنی عمر پوری کر کے مرچکے ہوتے ہیں۔
“عام حالات میں روشنی کی رفتار 3لاکھ میل فی سیکنڈ ہے اور سائنس کی زبان میں “نوری سال” (Light Year) اس فاصلےکو کہتے ہیں جو روشنی ایک سال میں سفر کرتے ہوئے طے کرتی ہے۔ اس مختصر اقتباس سےایک تو یہ اندازہ ہوتا ہےکہ کائنات کتنی بڑی ہے جو اربوں کھربوں اورلاتعدادمیلوں تک پھیلی ہوئی ہےیا پھرسرے سے یہ “لامحدود” (Unlimited) ہے یعنی اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اتنی بڑی کائنات کی کیا انسان تسخیرکر سکتا ہے؟ اگر کائنات لامحدود ہے تو اس کی تسخیر کے لیئے وقت بھی لامحدود درکار ہو گالیکن جدیداور نئے علوم کی وسعت بھی لامحدود ہے۔ اس پر مستزاد انسانی دماغ اور زہن کی لامحدودیت کے سامنے مادی کائنات کا وجود بذات خود “قابل تسخیر” ہے۔ اس کے بارے قرآن پاک میں ذکر آتا ہےجس کا مفہوم یہ ہے کہ “کائنات کو تمھارے لیئے مسخر کر دیا گیا ہے،” کہ انسان قرآن پاک ہی کی روشنی میں “خلیفتہ الارض” اور احسن تقویم” بھی ہے۔
یہاں کائنات کے مسخرکردیئےجانے سےتیقن اوریقین کی وہ تصدیق ملتی ہے کہ جس سے ظاہرہوتا ہے کہ قدرت نے بنی نوع انسان کے ہاتھوں کائنات کے تسخیر ہونے کو “تقدیر” میں اور “لوح محفوظ” پر پہلے ہی لکھ دیا ہےجسے ہرحال اور ہرصورت میں مکمل ہونا ہے۔ دینی علوم میں کائنات اور انسان کے فانی ہونے کے باوجود انسان کی زندگی کے “امر” ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیاہو سکتا ہے؟ بالفاظ دیگر کائنات تب تک فنا ہو ہی نہیں سکتی (یعنی قیامت نہیں آ سکتی) جب تک وہ بنی نوع انسان کے ہاتھوں مکمل طور پر “مسخر” یا دریافت” نہ ہو جائے۔ یوں اسلام کےمطابق انسان “فاتح” اور کائنات “مفتوح” ہے۔ بنی نوع انسان اور اہل ایمان کتنےخوش نصیب ہیں کہ دین اسلام نےکائنات اوراس کےاٹل طبیعاتی قوانین کے باوجود انسان کو کائنات کے مسخر ہونے کی نوید سنائی ہے۔امریکی ادارہ “ناسا” (NASA) خلائی تحقیق پردن رات کام کررہاہےاورہرسال دوسرے ستاروں پر تحقیق اور زندگی کے آثار ڈھونڈنے کے لیے اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرتا ہے مگر اس میدان میں مسلم امہ بہت پیچھے ہے حالانکہ قرآن پاک میں کائنات اور خلائی تحقیق پر واضح احکامات موجود ہیں۔ غورسے دیکھاجائےتو طبیعات کےقوانین کو سمجھ کر ہی کائنات اور زندگی کی حقیقت” (The Reality) کو سمجھا جا سکتاہے۔ انسان کی زندگی کائنات اور زمین کی مٹی سے پھوٹتی ہے۔ اس ضمن میں ابھی تک بطور مجموعی علم کے سمندر میں انسان ساحل پر پڑے ریت کے ایک ذرے کی مانند کھڑا ہے۔ کیا نئے اور جدید علوم انسان کو وہ پل فراہم کر سکتے ہیں کہ کائنات کو انسان مسخر کر لے؟ جدید علوم اور سائنس و ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی کو کائنات کی وسعت، وقت اور فاصلوں کےپیمانے میں رکھ کر تولا جائے تو تاہنوز کائنات کی وسعت حالیہ علوم پر بھاری نظر آتی ہے تاآنکہ کچھ نئے اور جدید علوم کی دریافت نہ ہو جائے۔
بہرکیف قدرت نے انسانی دماغ کو وہ بھرپور صلاحیت بخشی ہے کہ دنیا میں کچھ بھی نیا ہو سکتا ہے کہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا: “آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں،محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔” لیکن مسلم دنیا یہ سوچے کہ یہ ارشاد خداوندی ہمارے لیئے اغیار بجا لائیں گے ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ قرآن پاک میں واضح طور پر ارشاد ربانی ہے جس کا مفہوم ہے کہ خدا کسی قوم )اور فرد) کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ خود بدلنے کی کوشش نہ کرے۔ مسلم امہ کو اس خواب غفلت اور تجاہل عارفانہ سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے کہ کائنات ہو، زندگی ہو یا دوسرا کوئی بھی معاملہ ہو، انہیں اپنی حالت کو خود بدلنے کی تگ و دو شروع کرنی چاہیے۔ایک اور جگہ قرآن حکیم میں آتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ مومن دنیا میں بھی کامیاب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی، اس لحاظ سے اگر مسلمان دنیا میں ناکام ہیں اور امریکہ و یورپ کے ہاتھوں غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ آخرت کی کامیابی سے بھی محروم جا رہے ہیں۔ آج کی دنیا میں انسانی معاشروں کی ساری ترقی کا دارومدار سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہے جس میں مسلم دنیا کا ذرہ برابر بھی حصہ نہیں ہے۔ سوئی سے لے کر جہاز تک خریدنے میں مسلمان غیرمسلموں کے محتاج ہیں۔ لہٰذا دنیا میں ترقی کرنے اور کامیاب و فاتح قوم بننے کے لیئے مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا علم حاصل کریں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کائنات اور قرآن پاک دنیا میں ہیں کہ

پڑھیں:

صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ز قلم:خدیجہ طیب

نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی افواج نے قطر میں حماس کے رہنماؤں کو اس لیے نشانہ بنایا کیونکہ وہاں انہیں “محفوظ پناہ گاہ” ملی ہوئی تھی۔

انہوں نے خبردار کیا:“میں قطر اور تمام اُن ممالک سے کہتا ہوں جو دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں: یا تو انہیں ملک بدر کریں یا انہیں انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا، تو ہم کریں گے۔”

یہ نیتن یاہو کے الفاظ ہیں: انصاف کا مطالبہ، اور سب سے حیران کن بات یہ کہ، خود اپنے زمانے کے سب سے بڑے دہشت گرد کی جانب سے کیا جا رہا ہے!

اسرائیل کا قطر میں دوحہ پر حالیہ حملہ دنیا کو یہ باور کرانے کے لیے تھا کہ وہ اب صرف فلسطین کی سرزمین تک محدود نہیں رہا بلکہ جہاں چاہے اور جسے چاہے نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ کوئی عام کارروائی نہیں بلکہ ایک منظم پیغام تھا کہ جو بھی ہمارے راستے میں کھڑا ہوگا، اس کی سزا موت سے کم نہیں ہوگی۔ یہ حملہ اُس وقت کیا گیا جب حماس کی سیاسی قیادت دوحہ میں مذاکراتی اجلاس میں شریک تھی۔

قطر پر اسرائیلی حملہ کوئی عام واقعہ نہیں۔ یہ محض ایک ملک کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے خلاف ایک کھلا اعلانِ جنگ ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ حملہ اُس خطے میں ہوا جہاں امریکا کی مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی فوجی بیس العدید ایئر بیس(Al Udeid Air Base) موجود ہے۔ ٹرمپ کا انجان بننا اور اسرائیل کا آگے بڑھنا، یہ سب مل کر ایک بڑی تصویر دکھاتے ہیں کہ دنیا کو ایک نئے عالمی نظام(New World Order)کیطرف دھکیلا جا رہا ہے؟ جس میں طاقت صرف چند ہاتھوں میں ہو گی اور باقی دنیا غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہے گی۔

دنیا کے بیشتر طاقتور یہودی طبقات کا تعلق اشکنازی یہودیوں سے ہے۔ یہ وہ گروہ ہے جو زیادہ تر یورپ (خصوصاً مشرقی یورپ اور روس) سے تعلق رکھتا ہے اور موجودہ اسرائیلی ریاست میں سیاسی و فوجی غلبہ رکھتا ہے۔ صیہونی تحریک (Zionism) کی بنیاد رکھنے اور اسے عملی ریاست میں ڈھالنے کا سہرا بھی زیادہ تر انہی کے سر ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اشکنازی یہودی دراصل چاہتے کیا ہیں؟

سب سے پہلے ان کا مقصد ہے طاقت اور بالادستی۔ یہودی تاریخ میں صدیوں کی غلامی، بیدخلی اور جلاوطنی کے بعد اشکنازی یہودیوں نے یہ سوچ پختہ کر لی کہ انہیں ایسا نظام قائم کرنا ہے جس میں وہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں بلکہ خود دوسروں کو اپنا محکوم بنائیں۔ اسی سوچ نے ’’ریاستِ اسرائیل‘‘ کو جنم دیا، لیکن یہ ان کا آخری ہدف نہیں۔

دوسرا مقصد ہے گریٹر اسرائیل کا قیام۔ اشکنازی یہودی اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ ان کا ’’وعدہ شدہ ملک‘‘ (promised land) ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین محض پہلا قدم ہے، اصل خواب اس میں فلسطین کے ساتھ ساتھ اردن، شام، لبنان، عراق، مصر کے حصے، حتیٰ کہ سعودی عرب کے شمالی علاقے بھی شامل ہیں۔ اسی توسیع پسندی نے پورے خطے کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ یعنی فلسطین کے بعد بھی یہ رکے گا نہیں۔ یہ جنگ ہماری دہلیز تک آ کر ہی رہےگی۔

آج اگر قطر نشانہ ہے، تو کل کوئی اور ہوگا۔ کیا عرب دنیا یہ سمجھتی ہے کہ خاموش رہ کر وہ بچ جائے گی؟ تاریخ گواہ ہے کہ ظالم کی بھوک کبھی نہیں ختم ہوتی۔ اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، اگر آج ہم نے صفیں نہ باندھیں، تو آنے والے کل میں یہی آگ ہمیں بھی لپیٹ لے گی۔

امت کی سب سے بڑی کمزوری اتحاد کی کمی ہے۔ ایک طرف 2 ارب مسلمان ہیں، دوسری طرف 15 ملین اسرائیلی۔ لیکن طاقت کس کے پاس ہے؟ جس کے پاس اتحاد اور نظم ہے۔ قرآن ہمیں پہلے ہی خبردار کر چکا ہے: “اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ مت ڈالو” (آل عمران 103)۔  لیکن ہم نے رسی چھوڑ دی اور تفرقے کو گلے لگا لیا۔ یہی ہماری شکست کی اصل جڑ ہے۔

نیا عالمی نظام جسے صیہونی اشکنازی اور ان کے عالمی اتحادی ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے نام سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے:ایک ایسی دنیا جہاں طاقت اور دولت چند ہاتھوں میں ہو۔ فیصلے چند خفیہ ایجنڈے رکھنے والے گروہ کریں۔ قوموں کی آزادی محض دکھاوا ہو۔جس کے پاس زیادہ طاقت ہوگی، وہی بغیر کسی معاہدے کو توڑے، ظلم کرنے کا اختیار رکھے گا۔اور انسانوں کو ایک ایسے نظام میں جکڑ دیا جائے جہاں مزاحمت کا کوئی راستہ نہ بچے۔

اب نہیں تو کب؟

سوال یہی ہے — اب نہیں تو کب؟

اگر آج بھی امت نے غفلت برتی، اگر آج بھی حکمران ذاتی مفاد کے اسیر رہے، اگر عوام نے اپنی آواز بلند نہ کی، تو کل ہمارے پاس پچھتانے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ آج قطر ہے، کل شاید پاکستان، ایران، یا کوئی اور عرب ملک۔

یہ وقت فیصلہ کن ہے۔ یا تو ہم بیدار ہوں، یا پھر تاریخ ہمیں مٹتے ہوئے دیکھے۔ا

متعلقہ مضامین

  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • قومیں سڑکوں سے بنتی ہیں
  • ’اب خود کو انسان سمجھنے لگا ہوں‘، تیز ترین ایتھلیٹ یوسین بولٹ نے خود سے متعلق ایسا کیوں کہا؟
  • ’کسی انسان کی اتنی تذلیل نہیں کی جاسکتی‘، ہوٹل میں خاتون کے رقص کی ویڈیو وائرل
  • ویٹ پالیسی پر صوبوں سے مشاورت شروع، اوزون بچانا انسانیت کا فریضہ: مریم نواز
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  •  اوزون کو بچانا انسانیت کا اہم ترین فریضہ ہے:مریم نواز
  • جمہوریت عوام کی آواز ہے اور اس کی حفاظت ہم سب پر لازم ہے‘وزیراعلیٰ