Islam Times:
2025-07-07@07:09:26 GMT

یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ

اسلام ٹائمز: ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی اور ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ خصوصی رپورٹ:

چینی ویب سائٹ SOHO کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو فوجی طاقت اور وسیع فوجی سہولیات کے باوجود یمن کے انصار اللہ کے مقابلے میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ کاٹنے والا کتا کبھی نہیں بھونکتا اور حقیقی طاقتور اوچنا نہیں بولتا۔ امریکہ کی موجودہ فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اصولی طور پر یہ کہنا ممکن ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تصادم پر یہ مقولہ صادق آتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے استعمال کی بات کی، حوثیوں پر تابڑ توڑ حملے ایک ایسی ہی گھن گرج پر مبنی حکمت عملی ہے، جو امریکیوں کو معقول محسوس ہو رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے مذکورہ مقولہ ہی سچ لگتا ہے۔

فی الحال، ریاستہائے متحدہ کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز اور ان کے ساتھ بحیرہ احمر کے علاقے میں اسٹرائیک گروپس موجود ہیں، جن کے چاروں طرف تباہ کن کشتیوں اور اسکارٹ جہازوں کے بیڑے ہیں۔ اس کے علاوہ، واشنگٹن نے بڑی تعداد میں B-2 سٹیلتھ بمبار طیاروں کو اپنی سرزمین سے منتقل کر دیا ہے اور انہیں بحر ہند میں ایک اڈے پر تعینات کر دیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ فوجی تعیناتی واضح طور پر حوثیوں کے خلاف ہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس سے امریکہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ کی مسلسل فضائی بمباری کے باوجود حوثیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔

وہ پہلے کی طرح (غزہ کی حمایت میں) وقتاً فوقتاً جوابی حملے کرتے رہتے ہیں۔ تہران کے ساتھ مذاکرات کے وقت، واشنگٹن نے حوثیوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کرنے کو ترجیح دی۔ اگرچہ یہ ایران کو مذاکرات کی شرائط ماننے اور براہ راست جنگ سے بچنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن یہ احتیاط سے تیار کی گئی امریکی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی اور بالآخر ایک فسانہ اور جعلی شو میں بدل گئی۔ واشنگٹن کی اعلیٰ فوجی طاقت محدود صلاحیتوں کے ساتھ "یمن کی عوامی فوج" کے خلاف غالب آنے میں ناکام رہی۔ اگر حوثی ایسے ہیں، تو امریکہ ایران سے لڑنے کا فیصلہ کریگا تو حالات کیا ہوں گے؟

ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی سمیت کئی حوالوں سے ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ امریکہ نے یوکرین کے بحران میں روس کا سر توڑ مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں اور وہ مشرق وسطیٰ میں یمن کی دلدل میں پھنس گیا۔

"واشنگٹن نے خطے میں اپنے سلسلہ وار اقدامات سے ایک مضبوط قوت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا، اور آج ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سب کی نظریں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ کیا واشنگٹن اپنا کام جاری رکھے گا یا ذلت اور مایوسی میں پیچھے ہٹ جائے گا۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکہ کی کے ساتھ لگتا ہے ہے اور

پڑھیں:

ایرانی بیلسٹک میزائلوں نے جنگ میںکتنے اسرائیلی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، برطانوی اخبارنےا ندر کی بات بتادی

لندن(نیوز ڈیسک)ایران کے بیلسٹک میزائلوں نے گزشتہ ماہ ہونے والی 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل کے 5 فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا۔

برطانوی اخبار دی ٹیلیگراف کی رپورٹ میں ہفتے کو پہلی بار اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے فراہم کردہ سیٹلائٹ ڈیٹا کے حوالے سے یہ بات بتائی گئی ہے۔

اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کے اڈوں اور دیگر حساس مقامات پر حملوں کی تفصیلات اسرائیل میں فوجی سنسرشپ قوانین کے تحت شائع ہونے سے روکی جاتی ہیں، کیوں کہ حکام کا ماننا ہے کہ اس قسم کی معلومات ایران کو اپنے میزائلوں کو بہتر طریقے سے ہدف بنانے میں مدد دے سکتی ہیں۔

لیکن ’دی ٹیلیگراف‘ کے مطابق جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا اُن میں تل نوف ایئربیس، گلیلوٹ انٹیلیجنس بیس، اور زیپوریت اسلحہ اور بکتر بند گاڑیوں کی تیاری کا مرکز شامل ہیں۔

یہ رپورٹ اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے فراہم کردہ ریڈار ڈیٹا پر مبنی تھی، جو سیٹلائٹ کے ذریعے جنگی علاقوں میں بمباری کے اثرات کی نگرانی کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے جنگ کے دوران، جو اسرائیل نے 13 جون کو ایران کے جوہری اور میزائل پروگرام کو تباہ کرنے کے لیے شروع کی، اسرائیل میں واقع 5 فوجی اڈوں پر کل 6 میزائل گرے۔

رپورٹ کے مطابق ایران کی جانب سے داغے گئے 36 دیگر میزائل بھی اسرائیل کے اندر گرے، جو اسرائیل اور امریکا کے فضائی دفاعی نظام سے بچ نکلے، ان حملوں میں 28 افراد ہلاک ہوئے، 2 ہزار 305 گھروں کو نقصان پہنچا، 240 عمارتوں، 2 جامعات اور ایک ہسپتال کو نقصان پہنچا، جب کہ 13 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔

مجموعی طور پر ایران نے 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل پر 500 سے زائد بیلسٹک میزائل داغے، اس کے ساتھ ساتھ، ایران نے تقریباً ایک ہزار 100 ڈرون بھیجے، جن میں سے صرف ایک ہی اسرائیل میں گرا۔

اگرچہ مجموعی طور پر فضائی دفاعی نظام کی کامیابی کی شرح بلند رہی، رپورٹ کے مطابق جنگ کے ابتدائی 8 دنوں میں ہر دن گزرنے کے ساتھ ان میزائلوں کی تعداد بڑھتی گئی، جو دفاعی نظام کو چکمہ دینے میں کامیاب رہے۔

دی ٹیلیگراف نے کہا کہ جنگ کے ساتویں دن تک تقریباً 16 فیصد میزائل اسرائیلی اور امریکی دفاعی نظام کو چکمہ دے رہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق اس گراوٹ کی وجوہات واضح نہیں، تاہم ممکنہ طور پر اسرائیل اپنے انٹرسپٹر میزائلوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ اُنہیں سب سے زیادہ ضرورت کے وقت استعمال کیا جا سکے۔

وال اسٹریٹ جرنل نے جنگ کے دوران رپورٹ کیا تھا کہ اسرائیل کے ایرو انٹرسپٹر میزائل کم ہو رہے تھے اور اسے فیصلہ کرنا پڑ رہا تھا کہ کن میزائلوں کو مار گرایا جائے اور کن کو جانے دیا جائے, تاہم آئی ڈی ایف نے اس رپورٹ کی تردید کی اور کہا کہ اُس نے پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔

دی ٹیلیگراف نے یہ بھی کہا کہ میزائلوں کی نوعیت میں تبدیلی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے، ممکنہ طور پر ایران کی جانب سے زیادہ جدید اور جدید ٹیکنالوجی والے میزائل داغے گئے، جنہیں مار گرانا مشکل ہوتا ہے۔

19 جون کو ایک تصدیق شدہ واقعے میں، ایران نے ایک کلسٹر بم وارہیڈ استعمال کیا، جس نے تقریباً 8 کلومیٹر کے دائرے میں 20 چھوٹے دھماکا خیز مواد والے ہتھیار گرائے، ان میں سے ایک، جس کا وزن تقریباً 2.5 کلوگرام تھا، ازور کے مرکزی شہر میں ایک گھر پر گرا اور چھوٹے راکٹ جتنا نقصان پہنچایا۔

جب دی ٹیلیگراف نے اسرائیلی فوج سے ان فوجی تنصیبات پر حملوں کے بارے میں پوچھا، تو آئی ڈی ایف نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔

ترجمان نے کہا کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام متعلقہ یونٹوں نے آپریشن کے دوران اپنے فرائض پوری طرح سے جاری رکھے۔

اسرائیل نے کہا کہ ایران کے اعلیٰ فوجی رہنماؤں، جوہری سائنس دانوں، یورینیم افزودگی کی تنصیبات، اور بیلسٹک میزائل پروگرام پر اس کا بڑا حملہ یہودی ریاست کو تباہ کرنے کے ایران کے واضح عزائم کو روکنے کے لیے ضروری تھا۔

ایران نے بار بار اس بات سے انکار کیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے، تاہم، اس نے ایسے یورینیم کی افزودگی کی ہے جس کا کوئی پُرامن استعمال نہیں، بین الاقوامی معائنہ کاروں کو اپنی تنصیبات تک رسائی سے روکا ہے، اور اپنے بیلسٹک میزائل پروگرام کو وسعت دی ہے۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ ایران نے حال ہی میں ہتھیار سازی کی سمت میں اقدامات کیے ہیں۔
مزیدپڑھیں:پنجاب میں بارش کا رواں اسپیل کب تک جاری رہے گا؟ پی ڈی ایم اے نے بتا دیا

متعلقہ مضامین

  • ’برکس‘ کی امریکا مخالف پالیسی پر عمل کرنے والے ممالک پر 10 فیصد اضافی ٹیکس لگائیں گے، ٹرمپ
  • ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد یمن پر صہیونی حملوں کا آغاز، بندرگاہوں پر بمباری
  • ایران اسرائیل جنگ بندی کے بعد پہلی بار صیہونی طیاروں کا یمن میں بڑا فضائی حملہ
  • ایرانی بیلسٹک میزائلوں نے جنگ میںکتنے اسرائیلی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا، برطانوی اخبارنےا ندر کی بات بتادی
  • اسرائیل کی دھمکیاں قابلِ قبول نہیں، ہتھیار نہیں ڈالیں گے، سربراہ حزب اللہ
  • اسلام آباد میں نویں محرم کے مرکزی جلوس پر خصوصی رپورٹ
  • اسلام آباد میں نویں محرم کا مرکزی جلوس پر خصوصی رپورٹ
  • اسرائیل کے سوا کوئی بھارت کے ساتھ نہ کھڑا ہوا، یہ اس کی اصل ہار ہے،خواجہ آصف
  • امید ہے کہ امریکہ اپنے غلط طرز عمل کو مزید درست کرےگا، چینی وزارت تجارت
  • واشنگٹن: امریکی صدر سے سعودی وزیر دفاع کی ملاقات، ایران کی صورتحال پر گفتگو