پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل کا دورہ کیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات گزشتہ ایک سال سے ٹھیک نہیں تھے۔
پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ افغانستان نے دہشت گردوں کو پناہ دی ہوئی ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون نہیں کر رہی ہے۔ اس لیے پاکستان افغانستان سے ناراض تھا۔ اسی لیے دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے بھی ختم تھے۔
اسی ناراضگی میں پاکستان نے پاک افغان بارڈرز پر نقل و حرکت محدود کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ پہلے آمد و رفت عام تھی اب ویزہ کے بغیر کوئی نہیں آجا سکتا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی پاکستان نے افغانستان سے تجارت محدود کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے۔ پاکستان کا موقف تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے میں جب تک تعاون نہیں کیا جائے گا تجارت اور معاشی تعلقات کیسے ہو سکتے ہیں۔اسی لیے دونوں ممالک کا تجارتی حجم بھی بہت کم ہوگیا۔
پاکستان نے اپنے ہاں مقیم افغانوں کو واپس بھیجنا شروع کیا۔کئی دہائیوں سے مقیم افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا رہا ہے۔ کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان بھی جو چیزیں افغانستان سے لیتا ہے طالبان حکومت نے اس پر ٹیرف لگا دیا تھا۔ اس میں کوئلہ سر فہرست ہے۔ پاکستان نے ٹرانزٹ ٹریڈ پر قدغن لگائی۔سادہ بات بارڈر بھی بند تجارت بھی بند۔ دونوں ممالک ایک دوسرے سے ناراض۔
کچھ غیر مصدقہ خبریں ایسی بھی ہیں کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے تناظر میں پاکستان نے افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر سرجیکل اسٹرائیکس بھی کی تھیں۔ افغانستان کے اندر جا کر بھی کارروائیوں کی خبریں بھی آئی ہیں۔ ان کی تصدیق پاکستان نے تو نہیں کی تھی لیکن افغان حکام کے رد عمل نے اس کی تصدیق کی تھی۔ اس لیے جب کشیدگی میں اضافہ ہوا بات چیت اور تعاون کے تمام دروازے بند ہوئے تو کارروائیاں بھی کی گئیں۔
لیکن گزشتہ دو ماہ میں افغانستان کی طرف سے پاکستان کو ایسے پیغامات موصول ہوئے کہ وہ معاملات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کے ان پیغامات کی روشنی میں پاکستان کے افغانستان کے لیے مستقل نمائندے دو دفعہ کابل بھی گئے وہاں بات چیت ہوئی۔ ان کے دوروں کے بعد اسحاق ڈار کابل گئے ہیں۔ یہ پاکستان کے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کا چار سال بعد افغانستان کا دورہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ سب کے ذہن میں یہی سوال ہے۔
جب پاکستان نے افغانستان کے ساتھ معاشی تعلقات محدود کرنے شروع کیے تو شروع میں افغانستان نے اس کا کوئی دباؤ نہیں لیا تھا۔ اب کیا ہوا۔ ایک بات تو سب کو پتہ ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد افغان طالبان کو جو مدد مل رہی تھی وہ بند کر دی گئی ہے۔ جس سے وہ معاشی طور پر مشکل میں ہیں۔ اب انھیں معاشی تکلیف ہوئی ہے۔ اس لیے جو باتیں ان کے لیے پہلے اہم نہیں تھیںِ اب اہم ہیں۔ وہ اب پاکستان سے تجارت کو اہم سمجھتے ہیں۔ امریکی ڈالر جو بند ہو گئے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ گزشتہ ایک سال سے افغانستان میں حقانیوں اور قندھاریوں کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ طالبان کے قندھار گروپ اور حقانی گروپ کے درمیان لڑائی تھی۔ قندھار گروہ مضبوط ہے لیکن قندھار گروپ کا یہ خیال تھا کہ حقانی ہمیشہ سے پاکستان کے قریب رہے ہیں۔
ان کے تعلقات بھی پاکستان سے زیادہ رہے ہیں اس لیے پاکستان حقانیوں کا ساتھ دے گا، ان کی مدد کرے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں بالکل دخل نہیں دیا ہے۔ حقانیوں اور قندھاریوں کے تنازعہ میں پاکستان فریق نہیں بنا ہے۔ دونوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بہرحال اس وقت قندھار گروپ نے اقتدار پر اپنا کنٹرول زیادہ مضبوط کر لیا ہے۔ ملا ہیبت اللہ نے اقتدار پر گرفت مضبوط کی ہے۔ اس وجہ سے بھی قندھار گروپ کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے اور انھوں نے پاکستان کی طرف دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
پاکستان نے قندھار گروپ بالخصوص ملا ہیبت اللہ کے مثبت پیغامات کا مثبت جواب دیا ہے۔ ہم نے اس موقع کو ضایع نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے پہلے محمد صادق کو بھیجا گیا اور جب کافی معاملات حل کے قریب پہنچ گئے تو اسحاق ڈار گئے ہیں۔ اب سوال یہ ہوگا کہ دہشت گردی میں کیا ہوگا، تو اطلاعات یہی ہیں کہ تعاون ہوگا۔ ویسے تو اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک ماہ سے دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے۔ کچھ اعداد و شمار کے مطابق ستر فیصد کمی ہوئی ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کی رائے میں دہشت گردی میں جب بہت تیزی آتی ہے تو پھر کمی بھی آتی ہے۔
اس لیے اگر تو یہ کمی مستقل ہوئی تو پھر ہی کچھ کہا جائے گا۔ بہر حال اطلاعات یہی ہیں کہ وہ دہشت گردی میں تعاون کرنے پر مان گئے ہیں۔ بالخصوص بلوچ دہشت گردوں پر زیادہ تعاون نظر آئے گا۔ ان کی افغانستان میں کوئی مدد نہیں ہوگی بلکہ پاکستان کی نشاندہی پر ان کے خلاف افغانستان میں آپریشن بھی کیے جائیں گے۔ حال ہی میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ میں بھی بلوچ دہشت گرد افغانستان سے ہدایات لے رہے تھے۔ اس لیے طالبان حکومت ان بلوچ دہشت گردوں کی مدد ختم کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پہلی بڑی پیش رفت ہے۔ ٹی ٹی پی سے وہ بات کریں گے اور انھیں بھی کارروائیاں بند کرنے کے لیے کہا جائے گا۔
اسی بات پر پاکستان نے معاشی تعلقات بحال کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اور آپ نے دیکھا کہ اسحاق ڈار نے معاشی تعلقات کی بحالی کے لیے اعلانات بھی کیے۔ لیکن پاکستان نے افغان مہاجرین پر کوئی مفاہمت نہیں کی ہے۔ افغان طالبان کی یہ درخواست کہ ان کے رہنے کی مدت بڑھائی جائے، نہیں مانی گئی۔ یہ بتایا گیا کہ اس پر کوئی لچک نہیں ہو سکتی۔ اب افغان طالبان کو ان مہاجرین کو واپس لینا ہی ہوگا۔ یہ ایک مستقل پالیسی ہے۔ اس کا اچھے برے تعلقات سے کوئی واسطہ نہیں۔
لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ بلوچ دہشت گرد افغانستان میں اب ان علاقوں میں ہیں جو افغان ایران کے بارڈر کے ساتھ ہیں۔وہاں طالبان کا کنٹرول بھی محدود ہے۔ لیکن افغان طالبان وہاں آپریشن کرنے اور وہاں اپنا کنٹرول بڑھانے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ اس میں پاکستان ان کی مدد بھی کرے گا تا کہ ان علاقوں کو بلوچ دہشت گردوں سے پاک کیا جاسکے۔ بہرحال پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی میں تعاون پر اتفاق ہو گیا ہے۔امید یہی کی جا سکتی ہے اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان نے افغانستان پاکستان نے افغان افغانستان میں افغانستان سے معاشی تعلقات افغان طالبان افغانستان کے میں پاکستان قندھار گروپ پاکستان کے بلوچ دہشت اسحاق ڈار نہیں ہو گئے ہیں ہوئی ہے بھی کی اس لیے ہیں کہ
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات کا نیا دور
پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں جو افغان سرزمین سے آنے والے خوارج کی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔
پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان قیادت کو بارہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت وعدوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں سے آگے عملی طور پر دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ادھر پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جو روسی مداخلت کے بعد کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپس بھیجنا شروع کر دیا تو طالبان قیادت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کابل دورے کی دعوت دی تاکہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کے قیام کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔
اس پس منظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے ایک روزہ سرکاری دورے پرکابل گئے جہاں انھوں نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے تفصیلی مذاکرات کیے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کے افغانستان سے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو افغان حکومت کے سامنے رکھا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد اس بات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ سطح پر روابط برقرار رکھے جائیں گے۔
علاوہ ازیں مختلف شعبوں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ طے ہوئی کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو دونوں ممالک مشترکہ طور پر فوری کارروائی کریں گے۔ افغان حکومت اس سے قبل بھی وعدہ وعید سے کام لیتی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے گی۔
پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کے اہم ملک شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور دیرینہ تاریخی، تہذیبی اور مذہبی روابط بھی قائم ہیں۔ محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور ظہیرالدین بابر دونوں کے مشترکہ ہیروز ہیں۔ اس قدر طویل اور مضبوط تاریخی و تہذیبی مشترکہ اقدار کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی و تعاون کے جذبوں کے فروغ پانے کی بجائے تعلقات میں سردمہری، عدم تعاون،کشیدگی، نفرت، عداوت اور دشمنی جیسے رویوں کا پروان چڑھنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی دشمنی کا پہلا اظہار اقوام متحدہ میں 30 ستمبر 1947 کے اجلاس میں کیا گیا۔ جب افغان مندوب حسین عزیز نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے ضمن میں واحد مخالف ووٹ ڈالا۔ تاہم پاکستان تلخیوں کو پس پشت ڈال کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پالیسی پر اخلاص نیت کے ساتھ کاربند رہا۔ اسی باعث جب دسمبر 1979 میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں برسر اقتدار حفیظ اللہ امین حکومت کا خاتمہ کر کے کابل کے تخت پر ماسکو کی پسند کا آدمی حکمران بنا دیا گیا۔ روسی ہوائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔
برادر اسلامی ملک اور دیرینہ رشتوں کے احترام میں پاکستان نے کشادہ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کی میزبانی کو صدق دل سے قبول کیا۔ آج بھی جو افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو نقصانات ہو رہے ہیں، حکومت انھیں خوش دلی سے برداشت کر رہی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین کا استعمال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کی سلامتی و بقا ہر شے پر مقدم ہے۔
افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پاک افغان تازہ معاہدے پر اخلاص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے ہر صورت روکے گی، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی جیسے خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔