Express News:
2025-11-03@02:02:28 GMT

غزہ کے بچوں کے نام

اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT

رات کے اندھیرے میں جب دنیا کے خوشحال اور پرامن شہروں میں نیند اپنی پُرکیف آغوش میں لوگوں کو سلاتی ہے تب غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو ملبے تلے ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔ نہ بجلی ہے نہ پانی نہ دوا نہ دلاسہ۔ ہر طرف خاک اُڑتی ہے اس مٹی میں بے گناہ فلسطینی دفن ہیں۔

 وہ بچی جو اسکول سے واپس آرہی تھی، آسمان سے برستی آگ کی ایک لکیر نے اس کا بستہ اس کی کاپی اس کا ننھا سا یونیفارم اور اس کا وجود ایک لمحے میں مٹا دیا۔ دنیا کی خاموشی نے اس معصوم کی موت کو محض ایک کولیٹرل ڈیمیج میں بدل دیا۔

غزہ اب کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں۔ یہ اب ایک اجتماعی قبر ہے جہاں ہر دن نئی قبریں کھو دی جاتی ہیں مگرکوئی کتبہ نہیں لگتا۔ نہ نام، نہ تاریخ پیدائش، نہ تاریخِ وفات۔ بس ایک ہجوم ہے جو ماضی حال اور مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن کرتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں حکومتیں لڑتی ہیں مگر مرتے عوام ہیں۔ غزہ میں تو حکومتیں بھی محصور ہوچکی ہیں اور عوام بھی۔ یہاں امن کا دروازہ کھلتا نظر نہیں آرہا اور لوگ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ایک طرف بمبار طیارے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی وہ تصویریں جوکبھی اسکول کے کارڈ پر لگی تھیں۔

یہ کون سا انصاف ہے کہ ایک پورا خطہ دنیا کی سب سے جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے نشانے پر ہو اور اس کی واحد طاقت اس کی مظلومیت ہو؟ یہ کون سا عالمی ضمیر ہے جو یوکرین کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر لیتا ہے مگر فلسطین کے لیے اس کی زبان گُنگ اور قلم خشک ہوجاتا ہے؟

میں سوچتی ہوں اگر محمود درویش آج زندہ ہوتے توکیا لکھتے؟ کیا وہ پھر کہتے’’ ہم زندہ رہیں گے کیونکہ ہم مرنا نہیں چاہتے۔‘‘یا پھر خاموش ہو جاتے؟ جب مسلسل بمباری میں زندگی کی ہر صورت بکھر جائے تو شاعری بھی بے بس ہو جاتی ہے۔غزہ کے اسپتالوں میں زخمی بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ موت کا گہرا سایہ ہر وقت فلسطینیوں کے سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ایک بچہ جس کی دونوں ٹانگیں اُڑ چکی ہیں۔ اپنی ماں سے پوچھتا ہے’’ امی،کیا اب بھی میں اسکول جا سکوں گا؟‘‘ اور ماں اپنی چیخ اپنے سینے میں دفن کر لیتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی قراردادیں انسانی حقوق کے عالمی منشور انصاف کے دعوے دار بین الاقوامی ادارے سب غزہ میں ہونے والے ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ غزہ میں ہونے والے مکروہ جرائم کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں مگر اسرائیل اور امریکا کی حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ مگر تاریخ اس ظلم و زیادتی کو نہ بھولے گی اور نہ معاف کرے گی۔

میں نے ایک بوڑھی فلسطینی عورت کی تصویر دیکھی جو اپنی بیٹی کی لاش پر بیٹھ کر کہہ رہی تھی ’’ یہ میری آخری امید تھی اب خدا ہی باقی ہے۔‘‘ اُس عورت کی آنکھوں میں وہ دکھ تھا جسے لفظوں میں نہیں سمویا جا سکتا۔ یہ دکھ کسی ایک ماں کا نہیں پورے مشرقِ وسطیٰ کا نوحہ ہے جو روز نئی لاشوں پر ماتم کرتا ہے۔

ظلم جہاں بھی ہو انسان کے اندرکی انسانیت اگر زندہ ہو تو خاموش نہیں رہ سکتا۔ تو پھر یہ عالمِ اسلام کیوں خاموش ہے؟ تمام مسلم ممالک فلسطینیوں کے لیے کیا کررہے ہیں؟ اس خاموشی کا حساب ایک نہ ایک دن دینا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ تمام ممالک ایک ہوکر فلسطینیوں کی آواز بنیں اور ان کا ساتھ دیں۔ کیسے ان بچوں سے منہ موڑا جاسکتا ہے جو اسرائیل کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔

کیا ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں جب مظلوم ہماری زبان بولے ہمارا لباس پہنے یا ہمارے مفادات سے جُڑا ہو؟ اگر ظلم کو صرف قوم نسل یا مذہب کے ترازو میں تولا جائے تو انسانیت کہاں جائے گی۔میری آنکھوں کے سامنے غزہ کا ایک اور منظر آتا ہے ایک لڑکی جو اپنی چھوٹی بہن کو گود میں لیے کھڑی ہے، اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے مگر وہ رو نہیں رہی۔ وہ بس خلا میں دیکھ رہی ہے جیسے سوال کر رہی ہو’’ کیا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں فلسطینی ہوں؟‘‘یہ سوال صرف اسرائیل سے نہیں ہم سب سے ہے۔جو لوگ غزہ کے ظلم پر خاموش ہیں وہ درحقیقت اس بچی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل نہیں۔کیونکہ وہاں صرف لہو نہیں ایک پوری نسل کی شکستہ امیدیں جھلک رہی ہیں۔

پاپائے روم فرینسس، نے کہا’’ یہ جنگ نہیں یہ نسل کشی ہے۔‘‘ مگر کیا یہ آواز عالمی عدالتوں کے کانوں تک پہنچی؟ یا پھر وہ عدالتیں صرف ان کے لیے کھلتی ہیں جو سفید فام ہوں یا جن کے پاس نیٹوکی چھتری ہو؟غزہ کی بربادی صرف اسرائیلی اور امریکی ریاستوں کی جارحیت کا شکار نہیں بلکہ وہ حکومتیں جو اس ظلم پر خاموش ہیں وہ سب اس گناہ میں شریک ہیں۔ جہاں حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، وہیں دنیا بھر میں عام آدمی سڑکوں پہ فلسطین کے لیے اپنی آواز اٹھا رہا ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ اس تحریرکے آخر میں کوئی امید کی بات لکھوں مگر جھوٹ نہیں لکھ سکتی۔ غزہ کے بچوں کی لاشوں پر امن کی کوئی داستان نہیں لکھی جا سکتی۔ ہاں اگرکچھ باقی ہے تو یہ ایک سوال جو ہر باشعور انسان کے دل میں جاگنا چاہیے۔ ’’ اگر ہم نے آج غزہ کے لیے آواز نہ اٹھائی تو کل جب ہمارے دروازے پر قیامت آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟‘‘

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے لیے ا ا نکھوں غزہ کے

پڑھیں:

پاکستان کی نیہا منکانی ٹائم میگزین کی ’100 کلائمیٹ‘ فہرست میں شامل

سندھ کی مڈ وائف نیہا منکانی عالمی شہرت یافتہ جریدے ٹائم نے اپنی سالانہ فہرست ’ٹائم 100 کلائمیٹ 2025‘ میں شامل کر لیا، اور وہ اس فہرست میں شامل واحد پاکستانی خاتون ہیں۔
نیہا منکانی کو فہرست میں ’ڈیفینڈر‘ کے طور پر شامل کیا گیا ہے، جہاں وہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد میں عالمی سطح کے سی ای اوز، وزراء، سربراہان مملکت اور حتیٰ کہ پوپ لیو XIV جیسے بڑے ناموں کے ساتھ جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
نیہا کا ’ماما بیبی فنڈ‘ منصوبہ، جو ساحلی اور موسمیاتی بحران زدہ علاقوں میں خواتین اور بچوں کو جان بچانے والی سہولیات فراہم کرتا ہے، دس سال قبل ایک چھوٹے فنڈ کے طور پر شروع ہوا تھا۔ آج یہ تنظیم کراچی کے باہر بابی آئی لینڈ پر کلینک بھی چلا رہی ہے، جہاں گزشتہ سال 4,000 حاملہ خواتین کا معائنہ کیا گیا اور 200 نوزائدہ بچوں کا علاج کیا گیا۔
مزید برآں، یہ تنظیم ایک ایمبولینس بوٹ بھی چلاتی ہے جو مریضوں کو کیماڑی ہسپتال پہنچاتی ہے۔
ٹائم میگزین کو دیے گئے انٹرویو میں نیہا منکانی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی فرنٹ لائن پر موجود برادریوں میں خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں، لیکن ان کے مسائل اکثر نظر انداز کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ماؤں کی دیکھ بھال ایک کم لاگت، مؤثر اور قابل رسائی حل ہے، جو پاکستان جیسے ملک میں نوزائدہ بچوں اور ماؤں کی صحت کے بحران کو کم کر سکتا ہے۔
نیہا منکانی نے قبل ازیں 2023 میں بی بی سی کی ’100 خواتین‘ کی فہرست میں بھی جگہ بنائی تھی، جہاں ان کا نام مشیل اوباما، ایمل کلونی اور ہدہ کیٹن جیسی عالمی شخصیات کے ساتھ شامل تھا۔ انہیں امریکا کے پاکستان مشن سے بھی اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔
’ماما بیبی فنڈ‘ 2015 میں قائم کیا گیا، جس کا مقصد مالی امداد کے ذریعے حاملہ خواتین اور نوزائدہ بچوں کی صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ نیہا منکانی انٹرنیشنل کانفیڈریشن آف مڈ وائفز میں ہیومینیٹرین انگیجمنٹ اور کلائمیٹ ایڈوائزر بھی ہیں اور انہوں نے کراچی کے ہائی رسک وارڈ میں 16 سال کام کیا، جس دوران انہوں نے ساحلی جزیروں کی خواتین کی ضروریات کو قریب سے سمجھا۔

متعلقہ مضامین

  • زہریلا کھانسی سیرپ
  • روس کے یوکرین پر فضائی حملے، 2 بچوں سمیت 9 افراد ہلاک
  • تین سال سے کم عمر بچوں کو فلورائیڈ گولیاں دینا خطرناک، امریکی ایف ڈی اے کی سخت وارننگ
  • ایشوریا رائے ایسا کیا کرتی ہیں کہ 52سال کی عمر میں بھی ان کے حسن کا چرچا برقرار ہے؟
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • بچوں کا ٹیلنٹ اجاگر کرنے پر  پاک فوج کو سلام: شاہد آفریدی
  • موبائل فون کا استعمال بچوں میں نظر کی کمزوری کا بڑا سبب قرار
  • پاکستان کی نیہا منکانی ٹائم میگزین کی ’100 کلائمیٹ‘ فہرست میں شامل
  • کسی بھی بیرونی جارحیت کا جواب سخت اور شدید ہوگا: ڈی جی آئی ایس پی آر  
  • 17 بچوں کو یرغمال بنانے والا ہلاک، روہت آریہ کے مطالبات کیا تھے؟