رات کے اندھیرے میں جب دنیا کے خوشحال اور پرامن شہروں میں نیند اپنی پُرکیف آغوش میں لوگوں کو سلاتی ہے تب غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو ملبے تلے ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔ نہ بجلی ہے نہ پانی نہ دوا نہ دلاسہ۔ ہر طرف خاک اُڑتی ہے اس مٹی میں بے گناہ فلسطینی دفن ہیں۔
وہ بچی جو اسکول سے واپس آرہی تھی، آسمان سے برستی آگ کی ایک لکیر نے اس کا بستہ اس کی کاپی اس کا ننھا سا یونیفارم اور اس کا وجود ایک لمحے میں مٹا دیا۔ دنیا کی خاموشی نے اس معصوم کی موت کو محض ایک کولیٹرل ڈیمیج میں بدل دیا۔
غزہ اب کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں۔ یہ اب ایک اجتماعی قبر ہے جہاں ہر دن نئی قبریں کھو دی جاتی ہیں مگرکوئی کتبہ نہیں لگتا۔ نہ نام، نہ تاریخ پیدائش، نہ تاریخِ وفات۔ بس ایک ہجوم ہے جو ماضی حال اور مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن کرتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں حکومتیں لڑتی ہیں مگر مرتے عوام ہیں۔ غزہ میں تو حکومتیں بھی محصور ہوچکی ہیں اور عوام بھی۔ یہاں امن کا دروازہ کھلتا نظر نہیں آرہا اور لوگ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ایک طرف بمبار طیارے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی وہ تصویریں جوکبھی اسکول کے کارڈ پر لگی تھیں۔
یہ کون سا انصاف ہے کہ ایک پورا خطہ دنیا کی سب سے جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے نشانے پر ہو اور اس کی واحد طاقت اس کی مظلومیت ہو؟ یہ کون سا عالمی ضمیر ہے جو یوکرین کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر لیتا ہے مگر فلسطین کے لیے اس کی زبان گُنگ اور قلم خشک ہوجاتا ہے؟
میں سوچتی ہوں اگر محمود درویش آج زندہ ہوتے توکیا لکھتے؟ کیا وہ پھر کہتے’’ ہم زندہ رہیں گے کیونکہ ہم مرنا نہیں چاہتے۔‘‘یا پھر خاموش ہو جاتے؟ جب مسلسل بمباری میں زندگی کی ہر صورت بکھر جائے تو شاعری بھی بے بس ہو جاتی ہے۔غزہ کے اسپتالوں میں زخمی بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ موت کا گہرا سایہ ہر وقت فلسطینیوں کے سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ایک بچہ جس کی دونوں ٹانگیں اُڑ چکی ہیں۔ اپنی ماں سے پوچھتا ہے’’ امی،کیا اب بھی میں اسکول جا سکوں گا؟‘‘ اور ماں اپنی چیخ اپنے سینے میں دفن کر لیتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی قراردادیں انسانی حقوق کے عالمی منشور انصاف کے دعوے دار بین الاقوامی ادارے سب غزہ میں ہونے والے ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ غزہ میں ہونے والے مکروہ جرائم کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں مگر اسرائیل اور امریکا کی حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ مگر تاریخ اس ظلم و زیادتی کو نہ بھولے گی اور نہ معاف کرے گی۔
میں نے ایک بوڑھی فلسطینی عورت کی تصویر دیکھی جو اپنی بیٹی کی لاش پر بیٹھ کر کہہ رہی تھی ’’ یہ میری آخری امید تھی اب خدا ہی باقی ہے۔‘‘ اُس عورت کی آنکھوں میں وہ دکھ تھا جسے لفظوں میں نہیں سمویا جا سکتا۔ یہ دکھ کسی ایک ماں کا نہیں پورے مشرقِ وسطیٰ کا نوحہ ہے جو روز نئی لاشوں پر ماتم کرتا ہے۔
ظلم جہاں بھی ہو انسان کے اندرکی انسانیت اگر زندہ ہو تو خاموش نہیں رہ سکتا۔ تو پھر یہ عالمِ اسلام کیوں خاموش ہے؟ تمام مسلم ممالک فلسطینیوں کے لیے کیا کررہے ہیں؟ اس خاموشی کا حساب ایک نہ ایک دن دینا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ تمام ممالک ایک ہوکر فلسطینیوں کی آواز بنیں اور ان کا ساتھ دیں۔ کیسے ان بچوں سے منہ موڑا جاسکتا ہے جو اسرائیل کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔
کیا ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں جب مظلوم ہماری زبان بولے ہمارا لباس پہنے یا ہمارے مفادات سے جُڑا ہو؟ اگر ظلم کو صرف قوم نسل یا مذہب کے ترازو میں تولا جائے تو انسانیت کہاں جائے گی۔میری آنکھوں کے سامنے غزہ کا ایک اور منظر آتا ہے ایک لڑکی جو اپنی چھوٹی بہن کو گود میں لیے کھڑی ہے، اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے مگر وہ رو نہیں رہی۔ وہ بس خلا میں دیکھ رہی ہے جیسے سوال کر رہی ہو’’ کیا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں فلسطینی ہوں؟‘‘یہ سوال صرف اسرائیل سے نہیں ہم سب سے ہے۔جو لوگ غزہ کے ظلم پر خاموش ہیں وہ درحقیقت اس بچی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل نہیں۔کیونکہ وہاں صرف لہو نہیں ایک پوری نسل کی شکستہ امیدیں جھلک رہی ہیں۔
پاپائے روم فرینسس، نے کہا’’ یہ جنگ نہیں یہ نسل کشی ہے۔‘‘ مگر کیا یہ آواز عالمی عدالتوں کے کانوں تک پہنچی؟ یا پھر وہ عدالتیں صرف ان کے لیے کھلتی ہیں جو سفید فام ہوں یا جن کے پاس نیٹوکی چھتری ہو؟غزہ کی بربادی صرف اسرائیلی اور امریکی ریاستوں کی جارحیت کا شکار نہیں بلکہ وہ حکومتیں جو اس ظلم پر خاموش ہیں وہ سب اس گناہ میں شریک ہیں۔ جہاں حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، وہیں دنیا بھر میں عام آدمی سڑکوں پہ فلسطین کے لیے اپنی آواز اٹھا رہا ہے۔
میں چاہتی ہوں کہ اس تحریرکے آخر میں کوئی امید کی بات لکھوں مگر جھوٹ نہیں لکھ سکتی۔ غزہ کے بچوں کی لاشوں پر امن کی کوئی داستان نہیں لکھی جا سکتی۔ ہاں اگرکچھ باقی ہے تو یہ ایک سوال جو ہر باشعور انسان کے دل میں جاگنا چاہیے۔ ’’ اگر ہم نے آج غزہ کے لیے آواز نہ اٹھائی تو کل جب ہمارے دروازے پر قیامت آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟‘‘
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے ا ا نکھوں غزہ کے
پڑھیں:
16 سال سے کم عمر بچوں نے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنایا تو کتنی سزا ہوگی؟
سینیٹ میں ’سوشل میڈیا (ایج رجسٹریشن فار یوزرس ) بل 2025‘ پیش کیا گیا ہے، جس کے تحت 16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنانے کی پابندی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اس بل کا مقصد بچوں کو سائبر بُلئنگ، ہراسانی، ذہنی دباؤ اور فحش مواد جیسے خطرات سے بچانا ہے۔
بل میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر کوئی سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس پابندی کی خلاف ورزی کرے گا تو اس پر کم از کم 50 ہزار روپے جبکہ زیادہ سے زیادہ 50 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اگر کوئی فرد نابالغ کو اکاؤنٹ بنانے میں مدد فراہم کرے گا تو اسے 6 ماہ قید کی سزا دی جا سکے گی۔
اس قانون کے نفاذ کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کو ذمہ داری سونپی گئی ہے، جو نابالغ صارفین کے اکاؤنٹس بند کرنے اور پلیٹ فارمز کے لیے ضوابط بنانے کی مجاز ہوگی۔
یہ بھی پڑھیے کم عمر صارفین کی سوشل میڈیا تک رسائی پر پابندی، سینیٹ میں بل پیش
بل پیش کرنے والوں کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک، خصوصاً آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی اس نوعیت کی قانون سازی کی جا چکی ہے، جہاں نابالغوں کی سوشل میڈیا تک رسائی محدود کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہوگا، کیونکہ بچوں کی درست عمر کی تصدیق کے لیے کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، اور کئی بچے جعلی تاریخ پیدائش دے کر پابندی کو بائی پاس کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، اس قانون کے اطلاق سے آزادی اظہار اور پرائیویسی کے حوالے سے بھی سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔
ماضی میں کمسن بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین بنانے میں معاونت کرنے والے وکیل شرافت علی کا کہنا تھا کہ بچوں کی حفاظت کے نام پر ایسا قانون لانا جس کا نفاذ عملی طور پر ممکن نہ ہو، صرف کاغذی کارروائی بن کر رہ جائے گا۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے پہلے عمر کی تصدیق کے موثر اور محفوظ نظام، والدین کی تربیت اور ڈیجیٹل لٹریسی جیسے اقدامات کو بنیاد بنانا چاہیے۔ بصورت دیگر، یہ قانون صرف نمائشی حیثیت رکھے گا اور بچے باآسانی عمر چھپا کر پلیٹ فارمز تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔
انہوں نے زور دیا کہ ایسے قوانین بنانے سے پہلے پارلیمانی مشاورت، تکنیکی ماہرین کی رائے، اور انسانی حقوق کمیشن کی شمولیت ضروری ہے تاکہ قانون سازی متوازن ہو، مؤثر بھی رہے اور آئینی حدود سے متجاوز بھی نہ ہو۔
’میری ذاتی رائے میں پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال جہاں بچوں کے لیے سیکھنے، اظہارِ خیال اور کمانے کے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے، وہیں اس کے ساتھ جڑے خطرات کہیں زیادہ اور سنگین ہیں۔ اس پلیٹ فارم کے بے لگام استعمال سے معاشرے میں کئی نئے سماجی، نفسیاتی اور اخلاقی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی قانون بچوں کو ان نقصانات سے محفوظ رکھنے کے لیے متعارف کروایا جاتا ہے تو ممکن ہے کہ یہ ایک مثبت سماجی رجحان قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو۔‘
واضح رہے کہ بل کو اب سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے جہاں اس پر مزید غور کیا جائے گا، اور منظوری کے بعد یہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے برازیل کی سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ، سوشل میڈیا کمپنیوں کو صارفین کے مواد پر جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے
قرۃ العین راولپنڈی میں ایک نجی بینک میں ملازم ہیں۔ اور 3 بچوں کی ماں ہیں۔ جنہوں نے اس حوالے سے بتایا ’ماں ہونے کے ناتے میں روز یہ دیکھتی ہوں کہ ہمارے بچے کس حد تک سوشل میڈیا کے زیرِ اثر آ چکے ہیں۔ ان کے خیالات، عادتیں اور یہاں تک کہ نیند کا شیڈول بھی سوشل میڈیا سے متاثر ہو رہا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ 12 یا 14 سال کا بچہ ابھی جذباتی اور ذہنی طور پر اتنا پختہ نہیں ہوتا کہ وہ آن لائن ہراسانی، فحش مواد یا غلط معلومات کا سامنا کر سکے۔‘
کپتی ہیں کہ ان کے نزدیک اگر حکومت سوشل میڈیا پر عمر کی حد مقرر کر رہی ہے تو یہ قدم بچوں کی فلاح کے لیے ہے، نہ کہ ان کی آزادی سلب کرنے کے لیے۔ ہاں، اس پر عمل درآمد ایک چیلنج ہو سکتا ہے، مگر بحیثیت والدین ہمیں بھی اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی۔ صرف قانون پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خود اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کو سوشل میڈیا کے فائدے اور نقصانات سمجھائیں، ان کی آن لائن سرگرمیوں پر نرمی سے نظر رکھیں، اور وقتاً فوقتاً ان سے بات کریں۔
’ کیونکہ آج کل سوشل میڈیا کی وجہ سے جو حالات ہو چکے ہیں۔ اگر اس طرح کے اقدامات نہ کیے گئے تو نسلوں کی نسلیں تباہ ہو جائیں گی۔‘
کون سے ممالک میں اس قسم کے قوانین موجود ہیں؟امریکا
امریکا میں 13 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنانا قانونی طور پر ممنوع ہے۔ یہ پابندی ’چلڈرنز آن لائن پرائیویسی پروٹیکشن ایکٹ‘ (COPPA) کے تحت نافذ ہے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابند کرتا ہے کہ وہ نابالغ صارفین کی معلومات والدین کی اجازت کے بغیر جمع نہ کریں۔ اسی قانون کی وجہ سے پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، انسٹاگرام، اور یوٹیوب پر 13 سال سے کم عمر افراد کے اکاؤنٹس بنانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
برطانیہ
برطانیہ نے ’ایج اپروپریئیٹ ڈیزائن کوڈ‘ کے نام سے بچوں کے آن لائن تحفظ کے لیے ایک جامع ضابطہ اخلاق متعارف کروایا ہے، جو بچوں کے لیے استعمال ہونے والے تمام پلیٹ فارمز کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ صارف کی عمر کا درست اندازہ لگائیں اور پرائیویسی کو ترجیح دیں۔ یہاں بھی کم از کم عمر کی حد 13 سال ہے۔
یورپی یونین
یورپی یونین میں جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (GDPR) کے تحت بچوں کے لیے ڈیجیٹل خدمات تک رسائی 16 سال کی عمر سے مشروط ہے، تاہم رکن ممالک اس حد کو کم کر کے 13 سال بھی مقرر کر سکتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بچوں کی معلومات والدین کی اجازت کے بغیر جمع نہیں کر سکتے۔
آسٹریلیا
آسٹریلیا نے حال ہی میں 16 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنانے پر مکمل پابندی کا فیصلہ کیا ہے، جس کا نفاذ 2025 کے اختتام تک متوقع ہے۔ اس پابندی کے ساتھ حکومت عمر کی تصدیق کے سخت نظام بھی متعارف کروانے جا رہی ہے تاکہ بچے جعلی تاریخ پیدائش کے ذریعے پلیٹ فارمز تک رسائی حاصل نہ کر سکیں۔
یہ بھی پڑھیے کم عمری میں اسمارٹ فون کا استعمال ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ، تحقیق
نیوزی لینڈ
نیوزی لینڈ میں فی الحال 13 سال کی عمر کی حد نافذ ہے، تاہم حکومتی سطح پر یہ تجویز زیر غور ہے کہ بچوں کے لیے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنانے کی عمر 16 سال تک بڑھا دی جائے۔ اس کے ساتھ ہی بچوں کے آن لائن ڈیٹا اور پرائیویسی کے تحفظ کے لیے اضافی قوانین پر بھی کام جاری ہے۔
چین
چین میں بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر سخت ترین کنٹرول موجود ہے۔ 18 سال سے کم عمر بچوں کو رات 10 بجے کے بعد سوشل میڈیا اور گیمنگ پلیٹ فارمز استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ علاوہ ازیں، چین میں ’ریئل نیم رجسٹریشن‘ اور چہرے کی شناخت جیسے نظام بھی رائج کیے گئے ہیں تاکہ بچوں کی رسائی کو محدود کیا جا سکے۔
سنگاپور
سنگاپور میں 13 سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ بنانا منع ہے، اور پلیٹ فارمز پر لازم ہے کہ وہ بچوں کے ڈیٹا کو اکٹھا کرنے سے قبل والدین کی رضامندی حاصل کریں۔ پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ کے تحت عمر کی تصدیق کے اقدامات بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سوشل میڈیا بل 2025