پوپ فرانسس کی آخری رسومات ہفتے کے روز ادا کی جائیں گی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) ویٹیکن نے بالآخر اپنے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے کہ پیر کے روز وفات پانے والے پوپ فرانسس کی آخری رسومات ہفتے کے روز ادا کر دی جائیں گی۔ ان لوگوں کے لیے اوقات کی بھی تصدیق کر دی گئی ہے، جو آنجہانی پوپ کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہتے ہیں۔
ویٹیکن کے اعلان کے مطابق پوپ کے تابوت کو بدھ کی صبح ہی سینٹ پیٹرز باسیلیکا میں منتقل کر دیا جائے گا اور مقامی وقت کے مطابق صبح گیارہ بجے سے نصف شب تک اسے عوام کے دیدار کے لیے کھلا رکھا جائے گا۔
البتہ جمعرات اور جمعے کے روز باسیلیکا کو ویٹیکن کے وقت کے مطابق صبح سات بجے سے کھول دیا جائے گا۔جمعے کے روز باسیلیکا کو شام سات بجے ہی بند کر دیا جائے اور اس طرح عوامی دیدار کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور سنیچر کے روز ان کی آخری رسومات ادا کر دی جائیں گی۔
(جاری ہے)
پوپ فرانسس کی وفات پر عالمی رہنماؤں اور عوام کا خراج عقیدت
پوپ کی آخری رسومات میں عالمی رہنماؤں کی شرکتکیتھولک چرچ کے سربراہ پیر کے روز 88 برس کی عمر میں فالج کے باعث انتقال کر گئے تھے۔
حال ہی میں انہیں ڈبل نمونیا جیسی بیماری ہوئی تھی، جس کے بعد سے ان کی صحت خراب رہنے لگی تھی۔اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، پرنس آف ویلز، اور برازیل کے صدر لوئیز اناسیو لولا دا سلوا اور برطانوی وزیر اعظم کیر اسٹارمر جیسے عالمی رہنما نے پوپ فرانس کی آخری رسومات میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔
البتہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور جرمنی کے ممکنہ اگلے چانسلر فریڈرش میرس اس میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔
پولینڈ کے صدر اندرزیج ڈوڈا، یورپی یونین کمیشن کی صدر ارزلا فان ڈیر لائن، یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی اور اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی جیسے رہنماؤں بھی آخری رسومات میں شرکت کی تصدیق کی ہے۔
ایک قدامت پسند اور غیر روایتی پوپ کا انتقال
ہزاروں سوگوار پہلے ہی ویٹیکن سٹی پہنچ چکے ہیں اور وہ سب پھول، صلیب اور موم بتیاں لے کر ان کے لیے دعائیں کر رہے ہیں۔
پوپ کے آخری لمحات کی تفصیلاتہولی سی کے سرکاری میڈیا ویٹیکن نیوز نے پوپ فرانسس کے انتقال سے پہلے کے آخری لمحات کے بارے میں تفصیلات جاری کی ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ پوپ نے پیر کی صبح تقریبا ساڑھے پانچ بجے بیماری کو محسوس کرنا شروع کیا، جو اتوار کے دن سینٹ پیٹرز اسکوائر میں عقیدت مندوں کے ایک ہجوم کا استقبال کرنے کے چوبیس گھنٹے سے بھی کم وقت کے بعد شروع ہوئی۔
اس سے پہلے شام کو انہوں نے خاموشی سے کھانا کھایا تھا۔
کوما میں جانے سے پہلے پوپ فرانسس نے اپنے بستر سے ہی اپنی ذاتی نرس ماسیمیلیانو سٹریپیٹی کو ہاتھ ہلا کر اشارہ کیا۔ ویٹیکن نیوز نے اسے "الوداعی اشارہ" قرار دیا۔
پوپ فرانسس کا ’نسل کشی‘ کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ
اس سے قبل اتوار کے روز پوپ نے اپنی حوصلہ افزائی کرنے اور سینٹ پیٹرز اسکوائر کا دورہ کرانے کے لیے اپنی ذاتی خصوصی نرس کا شکریہ ادا کیا تھا، جو ان کا اسکوائر کا آخری دورہ ثابت ہوا۔ فرانسس کے حوالے سے کہا گیا کہ "مجھے واپس اسکوائر پر لانے کے لیے آپ کا شکریہ۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی آخری رسومات پوپ فرانسس کے مطابق جائے گا کے صدر کے لیے کے روز
پڑھیں:
’شہد کی مکھی کے خاتمے سے انسانیت کا ایک ہفتے میں خاتمہ‘، آئن سٹائن کی تھیوری کی حقیقت کیا؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)”اگر شہد کی مکھی اس کرہ زمین سے غائب ہو جائے تو انسان صرف چار سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔“ یہ مشہور قول اکثر عظیم سائنسدان البرٹ آئن سٹائن سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن کیا واقعی آئن سٹائن نے یہ الفاظ کہے تھے؟ لیکن سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا شہد کی مکھیاں واقعی معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں اور کیا وہ انسانی زندگی کے لیے واقعی اتنی اہم ہیں؟
شہد کی مکھیاں انسانوں کی بقا کے لیے کیوں اہم ہیں؟ شہد کی مکھیاں بظاہر صرف شہد فراہم کرنے والی مخلوق نظر آتی ہیں، مگر ان کا اصل کردار قدرت کے ایک وسیع اور نازک نظام میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں سے رس اور پولن جمع کرتی ہیں اور پھر مختلف پھولوں تک منتقل کرتی ہیں، جس کے ذریعے پودوں کا تولیدی عمل مکمل ہوتا ہے۔
یہ پودے نہ صرف زمین کی خوبصورتی اور ماحول کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ کروڑوں چرند و پرند اور جانداروں کی خوراک بھی ہیں۔ ان پودوں کو کھانے والے جانور، خود گوشت خور جانوروں کی خوراک بنتے ہیں، جن میں انسان بھی شامل ہے۔ اگر شہد کی مکھیوں کی مدد سے پودوں کی افزائش نہ ہو، تو پوری غذائی زنجیر یا فوڈ چین متاثر ہو جاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں انسانوں سمیت بہت سی مخلوقات معدومی کے دہانے پر جا سکتی ہیں۔
کیا شہد کی مکھیاں واقعی ناپید ہو رہی ہیں؟
مختلف تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق، اگرچہ شہد کی مکھیوں کے فوری طور پر مکمل طور پر ختم ہونے کا خطرہ موجود نہیں، تاہم ان کی آبادی میں تشویشناک حد تک کمی آئی ہے۔ اس کی اہم وجوہات میں شامل ہیں،
جنگلات کی کٹائی، قدرتی ماحول میں محفوظ جگہوں کی کمی، پھولوں کی عدم دستیابی، فصلوں پر زہریلے کیمیکلز اور کیڑے مار دواؤں کا استعمال، مٹی کی ساخت میں تبدیلی، اسکے علاوہ موبائل فونز اور دیگر الیکٹرانک آلات سے خارج ہونے والی نقصان دہ ریڈیائی لہریں۔
کچھ ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ 90 فیصد شہد کی مکھیوں کی اقسام معدومی کے قریب پہنچ چکی ہیں، تاہم یہ دعویٰ ابھی تک سائنسی سطح پر مکمل طور پر ثابت نہیں ہو سکا۔
آئن سٹائن کا مشہور قول، حقیقت یا افسانہ؟
جہاں تک اس مشہور قول کا تعلق ہے، جس میں آئن سٹائن سے شہد کی مکھیوں کی ناپیدگی اور انسانی بقا کو جوڑتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’اگر شہد کی مکھی غائب ہو جائے تو انسان صرف چار سال تک زندہ رہ سکتا ہے‘ تو اس بات کا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں کہ آئن سٹائن نے واقعی یہ بات کہی ہو۔
دنیا بھر میں کئی معتبر اداروں اور محققین نے اس حوالے سے تحقیق کی ہے اور کسی بھی کتاب، اخباری ریکارڈ، یا آئن سٹائن کے خط و کتابت میں یہ قول موجود نہیں پایا گیا۔
شہد کی مکھیاں، فطرت کی خاموش محافظ
اگرچہ یہ قول آئن سٹائن کا نہیں، مگر یہ پیغام نہایت اہم اور درست ہے۔ شہد کی مکھیاں قدرتی ماحول، فصلوں، اور انسانی خوراک کے نظام میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی حفاظت نہ صرف ماحول بلکہ انسانی زندگی کے تسلسل کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
ہمیں بحیثیت معاشرہ، ان ننھی محنتی مخلوقات کے تحفظ کے لیے شعور بیدار کرنے اور عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ شہد کی مکھیوں کے بغیر نہ پھولوں کی مہک باقی رہے گی، نہ کھیتوں کی رونق، اور نہ ہماری زندگیوں کا تسلسل۔
مزیدپڑھیں :ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹر سائیکل سواروں کو خبردار کردیا گیا