UrduPoint:
2025-06-09@13:36:48 GMT

بحیرہ مرمرہ میں طاقت ور زلزلے نے استنبول کو ہلا کر رکھ دیا

اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT

بحیرہ مرمرہ میں طاقت ور زلزلے نے استنبول کو ہلا کر رکھ دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اپریل 2025ء) استنبول سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ زلزلہ بدھ 23 اپریل کو مقامی وقت کے مطابق قبل از دوپہر آیا اور ابتدائی طور پر اس کی ریکٹر اسکیل پر شدت 6.2 ریکارڈ کی گئی۔

ترکی میں قدرتی آفات کا مقابلہ اور ہنگامی انتظامات کرنے والے قومی ادارے کے مطابق اس زلزلے کا مرکز استنبول سے تقریباﹰ 40 کلومیٹر (25 میل) جنوب مغرب کی طرف بحیرہ مرمرہ میں سمندر کی تہہ سے نیچے تقریباﹰ 10 کلومیٹر (قریب چھ میل) کی گہرائی میں ریکارڈ کیا گیا۔

ترکی: زلزلے میں عمارت کی تباہی، ملزم کو 865 سال قید کی سزا

امریکی جیولوجیکل سروے نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ اس زلزلے کا مرکز بحیرہ مرمرہ میں ریکارڈ کیا گیا اور شروع میں ریکٹر اسکیل پر 6.

2 کی شدت کے جھٹکوں کے بعد کئی ایسے طاقت ور ضمنی جھٹکے بھی محسوس کیے گئے، جن میں سے ایک تو 5.3 کی شدت کا تھا۔

(جاری ہے)

ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کی شہریوں کو ہدایت

اس زلزلے کے بعد اور کئی طاقت ور ضمنی جھٹکوں کے پیش نظر ترکی کی ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ ایجنسی نے استنبول کے شہریوں کو ہدایت کی کہ وہ بلند و بالا عمارات سے دور رہیں۔

حکام کے مطابق یہ زلزلہ صرف استنبول شہر میں ہی نہیں بلکہ اس کے ارد گرد ملک کے دیگر خطوں میں بھی محسوس کیا گیا، جس دوران بہت سے شہری خوف زدہ ہو کر اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔

فوری طور پر ترک حکام نے اس زلزلے کے نتیجے میں کسی جانی یا مادی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں دی۔

ترکی: زلزلے کے بعد 'پراسرار' بچی اپنی ماں سے مل گئی

زلزلے کے بعد سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے ایک آن لائن بیان میں استنبول کی میٹروپولیٹن میونسپلٹی کی طرف سے کہا گیا کہ زلزلے کے نتیجے میں شہر میں عمارات کو کوئی بڑا نقصان پہنچنے یا کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی کوئی اطلاعات نہیں ملیں۔

ترکی میں زیادہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟

جغرافیائی طور پر ترکی ایک ایسے خطے میں واقع ہے، جہاں سے ارضیاتی اصطلاح میں دو ایسی 'فالٹ لائنز‘ گزرتی ہیں، جن کا وہاں ہونا ہی بار بار زلزلوں کا باعث بنتا ہے۔

فروری 2023ء میں بھی ترکی میں ریکٹر اسکیل پر 7.8 کی شدت کا ایک ایسا شدید زلزلہ آیا تھا، جس کے کئی گھنٹے بعد آنے والے ضمنی جھٹکے بھی انتہائی طاقت ور تھے۔

اس زلزلے کے نتیجے میں ترکی کے جنوب اور جنوب مشرق میں واقع مجموعی طور پر 11 متاثرہ صوبوں میں لاکھوں عمارات کلی یا جزوی طور پر تباہ ہو گئی تھیں۔

ترکی اور شام کا زلزلہ صدی کی بدترین آفت، ڈبلیو ایچ او

اس کے علاوہ یہ زلزلہ صرف ترکی میں ہی 53 ہزار سے زائد انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنا تھا۔

دو سال قبل یہ زلزلہ ترکی کے ہمسایہ ملک شام کے شمالی حصوں میں بھی وسیع تر جانی اور مادی نقصانات کا سبب بنا تھا۔

اس زلزلے کے نتیجے میں شام میں بھی کافی زیادہ تباہی ہوئی تھی اور مجموعی طور پر تقریباﹰ 6,000 انسان ہلاک ہو گئے تھے۔

دو سال قبل چھ فروری کو آنے والے اس زلزلے کے نتیجے میں ان دونوں ممالک میں مجموعی طور پر تقریباﹰ 60,000 انسان ہلاک ہوئے تھے۔

ادارت: امتیاز احمد

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اس زلزلے کے نتیجے میں کے مطابق یہ زلزلہ ترکی میں میں بھی کے بعد

پڑھیں:

عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘

عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ WhatsAppFacebookTwitter 0 9 June, 2025 سب نیوز

تحریر: عرفان صدیقی

میں اپنے ایک کالم میں عبدالرحمان پیشاوری کا ذکر کرچکا ہوں جس نے چھبیس سال کی عمر میں، علی گڑھ کالج کو الوداع کہا اور ترکوں کے شانہ بہ شانہ ’جنگِ بلقان‘ لڑنے ایک صدی پہلے کے قسطنطنیہ جاپہنچا۔ برادرِ عزیز محترم ’خلیل طوقار‘ کو میں پاکستان میں ترکی کا غیررسمی سفیر کہا کرتا ہوں۔ وہ گذشتہ تین سال سے پاکستان میں ’’یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ‘‘ سے منسلک، خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کمال کی اُردو بولتے ہیں۔ استنبول یونیورسٹی کے شعبۂِ اُردو کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ مارچ کا ذکر ہے کہ وہ ترکی سفارتخانے کے ایک سینئر اہلکار کے ہمراہ مجھے ملنے آئے اور مجھے دو دعوت نامے پیش کئے۔ دونوں ایک ہی تقریب سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک دعوت نامہ استنبول یونیورسٹی کی طرف سے تھا اور دوسرا ترکیہ کے عزت مآب سفیر کی طرف سے۔ دو روزہ تقریبات کا تعلق پاکستان کے ایک فرزندِ جلیل وجمیل، عبدالرحمان پیشاوری سے تھا جس کی شہادت کو سو برس ہوچلے تھے۔ ترکیہ عبدالرحمان کی یاد تازہ کرنے کے لئے، برسی کی سوسالہ تقریبات کا اہتمام کر رہا تھا۔ میں بتا چکا ہوں کہ کیسے پشاور کے انتہائی متمول تاجر، بلکہ رئیس التجّار، حاجی غلام صمدانی کا بیٹا عبدالرحمان اعلی تعلیم کے لئے علی گڑھ کالج پہنچا۔ یہ ترکوں پہ اُفتاد کا دور تھا۔ حسرت موہانی جیسے بغاوت سرشت کی صحبت نے عبدالرحمان کی سوچ میں کچھ کر گذرنے کی چنگاری سلگائی۔ استنبول جانے کے لئے ڈاکٹر انصاری مشن کا دریچہ کھُلا تو وہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر قسطنطنیہ پہنچ گیا۔ دورانِ سفر 13 دسمبر1912؁ کو بمبئی سے اپنی بہن کے نام خط میں لکھا __ ’’یہ بیان کرنے سے عاجز ہوں کہ کن مشکلات سے اپنا سرمایۂِ سفر فراہم کرکے، کس دِل سے بلقان کی طرف جا رہا ہوں۔ میں اپنے مصارفِ سفر خود ادا کروں گا جن کا اندازہ ایک ہزار فی کس لگایا گیا ہے۔ اِس صورت میں کہ میں نے نہ تو جناب قبلہ والد صاحب کو اطلاع دی اور نہ جناب بھائی (حاجی محمد امین) کو خبر کی اور نہ کسی اور ہی سے امداد طلب کی۔ خیال کرو کہ میں نے یہ رقم کس طرح حاصل کی۔ میری بہن! میں نے اپنا تمام لباس، سوٹ وغیرہ فروخت کردیے۔ کتابیں اور جتنی فالتو چیزیں تھیں، سب طالب علموں نے گراں قیمت پر مجھ سے خرید لیں۔ مبلغ دو سو روپے میرے رفیق فضل امین نے دیے۔ اب میرے پاس صرف چند خاکی سوٹ اور دو جوڑے کپڑے رہ گئے ہیں اور بس! لیکن دِل مطمئن ہے کہ اللہ تعالی نے میر ا دستِ سوال کسی کے سامنے نہ پھیلانے دیا۔ میری بہن! گو کہ میرے پاس اِس وقت بہت کم رقم ہے لیکن غم نہ کرو۔ عبدالرحمان جہاں جائے گا، اپنی روزی پا لے گا اور انشاء اللہ عزت کی روزی حاصل کرے گا۔ آغا لالہ جان نے اس لئے مجھے رقم نہیں بھیجی کہ میں بلقان نہ جاسکوں۔ بہن! نوشتۂِ تقدیر نے فرصت نہیں دی کہ چند روز اور توقف کرتا۔ اپنے محبوب کی محبت، یعنی بلقان پہنچنے کی بے قراری میں ازحد محو رہتا ہوں۔ حتّیٰ کہ اپنی بیماری کو بھی بھول چکا ہوں دَر دیست دردِ عشق کہ اندر علاج اُو ہر چند سعی بیش نُمائی بتر شود

(عشق کا دَرد بھی کیا دَرد ہے کہ اُس کے علاج کے لئے جس قدر بھی کوشش کی جائے، اُسی قدر بڑھتا چلا جاتا ہے۔)

علامہ اقبال نے اِس دَردِ عشق کو ’’لذّتِ آشنائی‘‘ کا نام دیا ہے دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دِل کو عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی عبدالرحمان پیشاوری، اپنے رَگ وپے میں لذّتِ آشنائی کی آگ لئے، رشتہ وپیوند کے سارے بندھنوں سے آزاد ہوکر، اپنے رئیس التجّار باپ کی بے کراں دولت اور جاگیروں کو مُشتِ خس وخاشاک جان کر ’دیارِ عشق‘ کو نکل گیا اور وہیں کا ہوکے رہ گیا۔ 1921؁ میں جب مصطفی کمال پاشا نے عبدالرحمان پیشاوری کو ترکی کا پہلا سفیر نامزد کرکے کابل بھیجا تو خاندان والوں نے اُسے پشاور آنے اور ایک بڑا جشن بپا کرنے کی دعوت دی۔ عبدالرحمان نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ میں ایک غلام زمین پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ 1922 ؁ میں والد حاجی غلام صمدانی بیٹے سے ملنے کابل گئے تو اُس نے ایک فرمانبردار بیٹے کے طورپر بے پناہ خدمت کی۔ باپ نے ایک دِن ایک تھیلی کھول کر پچاس ہزار روپے (جو آج کے پتہ نہیں کتنے کروڑ ہوں گے) عبدالرحمن کو دیتے ہوئے کہا __ ’’بیٹا یہ میرے مال وجائیداد سے تمہارا حصہ ہے۔‘‘ عبدالرحمان نے معذرت کی۔ والد نے اصرار کیا تو یہ رقم ترکی اور ہند کے مدارس اور تعلیمی اداروں میں تقسیم کردی۔ استنبول یونیورسٹی کے ایک ہال میں پیشاوری سے متعلق ایک سو کے لگ بھگ انتہائی نادر ونایاب تصاویر کی خوبصورت نمائش آراستہ تھی۔ مجھے، استنبول کے ڈپٹی گورنر کے ہمراہ اِس نمائش کے افتتاح کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہر تصویر، تاریخ کا ایک ورق تھی جو ایک داستان کہہ رہی تھی۔ پتہ چلا کہ یہ تحقیقی کاوش بھی میرے دوست خلیل طوقار کی ہے۔ کاش پاکستان کا کوئی ادارہ اِن تصاویر کو، تاریخی حوالوں کے ساتھ، البم کی شکل میں شائع کرسکے۔ 1979؁ میں، عبدالرحمان پیشاوری کے چھوٹے بھائی محمد یوسف نے ’’غازی عبدالرحمان شہید پیشاوری‘‘ کے عنوان سے کوئی ڈیڑھ سو صفحات کی ایک چھوٹی سی کتاب بھی مرتب کی جس پر مصنف کے طورپر پروفیسر ابوسلمان شاہجہانپوری کا نام درج ہے۔ دیباچے میں بتایا گیا ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی مسودہ معروف شاعر حفیظ ہوشیارپوری نے اُس وقت تیار کیا تھا جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے۔ اِس کتاب کو بھی نئے اضافوں کے ساتھ بہ اندازِ نو چھپنا چاہیے۔ صحابی رسولؐ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزارِ اقدس پر حاضری کے اگلے دِن، تقریباتی مصروفیات سے فارغ ہوکر میں، دو جواں سال دوستوں کے ہمراہ یونیورسٹی سے نکلا اور اُس قدیم تاریخی قبرستان کا رُخ کیا جہاں عبدالرحمان پیشاوری آسودۂِ خاک ہے۔ ماشکا نامی قبرستان، ایک جنگل کی طرح ہے جس میں سایہ دار درختوں کی گھنی چھائوں میں قدیم پشتوں اور شکستہ کتبوں والی قبریں حدِّ نگاہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ جب 1925؁ میں عبدالرحمان کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیاگیا، تو پہلو میں جمال الدین افغانی کی قبر تھی جو 1897؁ میں استنبول میں ہی انتقال کرگئے تھے۔ 1944؁ میں ظاہر شاہ کی درخواست پر اُن کی میّت افغانستان لا کر کابل یونیورسٹی کے احاطے میں دفنا دی گئی۔ پیشاوری کی لوحِ مزار پہ دو پرچم کندہ ہیں۔ ایک ترکی اور دوسرا پاکستان کا۔ نیچے ترکی زبان میں لکھا ہے __ ’’فاتحہ عبدالرحمن غلام صمدانی کی روحِ پاک پر، جو جنگ بلقان کے زمانے میں، ہلالِ احمر ہند کے ساتھ استنبول آیا۔ جنگِ بلقان اور جنگِ آزادی میں، ترکی کے لئے اپنا خون بہایا۔ 1925؁ میں اُسے ایک نامعلوم شخص نے شہید کردیا۔ پیشاوری نے افغانستان میں پہلے ترک سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات سرانجام دیں۔‘‘ میں فاتحہ پڑھ کے گاڑی کی طرف چلا تو ہمراہی نوجوان بولا__ ’’کوئی دو ماہ پہلے پاکستان کے چیف جسٹس، عزت مآب یحییٰ آفریدی بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ عبدالرحمان پیشاوری کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آئے تھے۔ غالباً اُن کی بیگم صاحبہ، پیشاوری کے خاندان سے ہیں۔‘‘ مجھے اِس کا علم نہیں۔ اگر ایسا ہے تو بڑے اعزاز کی بات ہے۔ ایک بوڑھی ترک خاتون، فصیلِ قبرستان سے لگی بیٹھی تھی۔ بولی ’’یہاں تو میرے خاندان کی قبریں ہیں۔ تم لوگ کس لئے آئے ہو؟ میرے ساتھ آئے نوجوان نے ترکی میں اُسے بتایا تو وہ بولی __ ’’ہاں ہاں! وہ بھی تو ہمار ا ہی ہے۔‘‘ واقعی ’’عجب چیز ہے لذّتِ آشنائی‘‘

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپرتگال نے یوئیفانیشنز لیگ کا ٹائٹل دوسری بار جیت لیا غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحان بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ مُودی کا ”نیو نارمل”  اور  راکھ ہوتا سیندور! اٹھائیس مئی قوم کی خودمختاری کا دن سائبر سکیورٹی اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے طریقے ارتھنگ: فطرت کے لمس میں شفا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • کولمبیا میں 6.3 شدت کا زلزلہ: عمارتیں منہدم، سڑکوں پر دراڑیں
  • عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘
  • کولمبیا میں 6.3 شدت کا زلزلہ، عمارتوں کو نقصان پہنچا
  • بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
  • دوصوبے زلزلے سے لرز اٹھے
  • گوادر میں زلزلے کے جھٹکے، شدت 3.0 ریکارڈ
  • بلوچستان میں زلزلے کے جھٹکے
  • کراچی اور اورماڑہ میں زلزلہ
  • چلی ، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ
  • چلی، بولیویا، ارجنٹینا سمیت مختلف ممالک میں 6.7 شدت کا زلزلہ