مسلمان ہوں نماز بھی پڑھتی ہوں، بھارتی اداکارہ نشرت بھروچا کا ناقدین کو جواب
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
معروف بالی ووڈ اداکارہ نُشرت بھروچا نے مسلمان ہونے کے باعث خود پر بھارت میں ہونے والی تنقید پر ردعمل دے دیا۔
ایک حالیہ انٹرویو میں اپنے مذہبی عقائد اور اس پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے بات کرتے ہوئے نشرت بھروچا نے کہا کہ اُن کے لیے ایمان ایک ذاتی اور سچا تجربہ ہے، اور جب غیر معمولی واقعات پیش آتے ہیں تو اُن کا ایمان مزید مضبوط ہوتا ہے۔
فلم چھوری کی اداکارہ کاکہنا تھا، ’مجھے جہاں سکون ملے، چاہے وہ مندر ہو، گوردوارہ ہو یا چرچ، میں وہاں جاتی ہوں۔ میں کھلے عام کہتی ہوں کہ میں نماز بھی پڑھتی ہوں، اور اگر وقت ملے تو پانچ وقت پڑھتی ہوں۔ میں سفر کے دوران جائے نماز بھی ساتھ رکھتی ہوں۔‘
View this post on InstagramA post shared by Filmymantra Media (@filmymantramedia)
نُشرت نے مذہب کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کا بھی ذکر کیا۔ اُنہوں نے کہا، ’جب میں اپنی تصاویر پوسٹ کرتی ہوں تو لوگ کہتے ہیں، 'یہ کیسی مسلمان ہے، اس کے کپڑے دیکھو۔ لیکن ایسی باتیں میرے راستے کو نہیں بدل سکتیں۔ میں مندر بھی جاؤں گی اور نماز بھی پڑھوں گی۔‘
اداکارہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک خدا پر ایمان رکھتی ہیں اور مختلف راستوں سے اُس سے جُڑنے کی خواہش رکھتی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نماز بھی
پڑھیں:
پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رکھنا ناقابل برداشت اقدام ہے، مولوی محمد عمر فاروق
گزشتہ روز علیحدگی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ مختصر علالت کے بعد اپنی رہائشگاہ واقع شمالی کشمیر کے سوپور میں انتقال کرگئے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین اور میرواعظ کشمیر مولوی محمد عمر فاروق نے کہا کہ حکام نے مجھے پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں دی اور مجھے اپنے گھر کے اندر بند رکھا گیا۔ میرواعظ محمد عمر فاروق نے ایکس پر لکھا کہ میں یہ دکھ اور تکلیف الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا کہ حکام نے پروفیسر بٹ کے اہل خانہ کو ان کی نماز جنازہ جلدی ختم کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے کہا "مجھے اپنے گھر کے اندر بند کر دیا گیا اور ان کے آخری سفر میں جنازہ کے ساتھ چلنے کے حق سے بھی محروم رکھا گیا"۔
انہوں نے مزید لکھا کہ میں نے پروفیسر بٹ کے ساتھ 35 برس دوستی اور رہنمائی کے گزارے ہیں اور ہماری دوستی 35 برس پر محیط تھی اور بہت سے افراد تھے جو ان کی نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لئے بے چین تھے۔ ان کے جنازہ میں شرکت کی اجازت نہ دینا اور آخری الوداعی سے بھی محروم رکھنا ناقابل برداشت ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز آزادی پسند تنظیم کل جماعتی حریت کانفرنس کے سابق چیئرمین پروفیسر عبدالغنی بٹ مختصر علالت کے بعد اپنی رہائشگاہ واقع شمالی کشمیر کے سوپور میں انتقال کر گئے۔ پروفیسر بٹ کئی دہائیوں تک کشمیر کی علیحدگی پسند سیاست میں متحرک رہے۔
پروفیسر بٹ کے انتقال پر جموں و کشمیر کے سیاسی، سماجی اور علحیدگی پسند رہنماؤں نے گہرے دکھ اور صدمہ کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ نے پروفیسر بٹ کی وفات پر ایکس پر اپنا تعزیتی پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے سینیئر کشمیری سیاسی رہنما اور ماہر تعلیم پروفیسر بٹ کے انتقال کی خبر سن کر دکھ ہوا، ہمارے سیاسی نظریات ایک دوسرے سے الگ تھے لیکن میں انہیں ہمیشہ ایک انتہائی معزز انسان کے طور پر یاد رکھوں گا۔