پہلگام حملے کی مذمت کرنے پر مشی خان پاکستانی اداکاروں پر کیوں برس پڑیں؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
اداکارہ و ٹی وی میزبان مشی خان نے پہلگام حملے کی مذمت کرنے والے پاکستانی اداکاروں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسان میں عزتِ نفس ہونی چاہیے انڈیا ہمارے خلاف بول رہا ہے اور آپ خوشامد میں لگے ہیں۔
مشی خان نے فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ کہیں بھی جان و مال کا نقصان قابلِ مذمت ہے اور وہاں کے لوگوں کے درد میں ان کا ساتھ دینا چاہیے لیکن پاکستان میں اتنا کچھ ہو جاتا ہے تب تو ہمارے اسٹارز بولتے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلگام میں حادثہ ہوا تو فواد خان، ہانیہ عامر اور دیگر فنکار بول رہے ہیں تو کیا آپ کو صرف وہاں کا درد ہی محسوس ہو رہا ہے، کیا آپ لوگوں میں کوئی خوداری نہیں ہے کہ وہاں کے لوگ پاکستان اور پاکستانیوں کو لعن طعن کر رہے ہیں۔
View this post on Instagram
A post shared by Mishi Khan MK (@mishikhanofficial2)
مشی خان نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپنی کسی پوسٹ میں فلسطین تو آپ کو کبھی یاد نہیں رہا، پاکستان میں اتنے گھناؤنے واقعات ہوئے اس پر کبھی نہیں بولے لیکن وہاں کا درد آپ لوگ محسوس کر رہے ہیں جبکہ وہ لوگ آپ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔
اداکارہ نے کہا کہ انسان میں عزتِ نفس بھی ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں اس چیز کی کمی ہے۔ جو کچھ بھی ہو جائے اپنے لیے اور اپنے ملک کے لیے اسٹینڈ لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیار محبت تب ہوتا ہے جب یہ دو طرفہ معاملہ ہو، ہر وقت دوسروں کی خوشامد کرنا کہاں کی انسانیت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلم بائیکاٹ کا خطرہ، پہلگام حملے پر فواد خان کا ردعمل بھی سامنے آگیا
ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو شرم آنے چاہیے کہ بھارت کے اینکرز ہمیں کھلے عام گالیاں دے رہے ہیں اور برا بھلا کہہ رہے ہیں اور آپ لوگ چپ بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ کرکٹ کو بند ہونا چاہیے اور ہمیں کہنا چاہیے کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں کھیلیں گے، ہمیں پہلے ایسی چیزوں کے لیے منع کرنا چاہیے وہ کیوں پہل کرتے ہیں ہم کیوں نہیں کر سکتے ایٹمی پاور تو ہم بھی ہیں لیکن ہم میں عزتِ نفس کی کمی ہے۔ خود کی عزت کرنا سیکھیں اور اپنے لیے کھڑے ہونا سیکھیں۔
مشی خان کی پوسٹ پر صارفین ان سے اتفاق کرتے نظر آ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کو انڈیا ہی چھوڑ آنا چاہیے جبکہ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ ان اداکاروں کے انڈیا میں کام چاہیے اس لیے ان کے حق میں بیان دیتے نظر آتے ہیں۔
واضح رہے کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستانی فنکاروں نے اس کی شدید مذمت کی تھی جس میں فواد خان، ہانیہ عامر، فرحان سعید اور ماورا حسین شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’فواد خان کی فلم ریلیز نہیں ہونی چاہیے‘، پہلگام حملے کے بعد بھارت میں پاکستانی فنکار کے خلاف احتجاج
مشی خان ایک معروف پاکستانی ٹیلی ویژن اداکارہ اور میزبان ہیں، ان کے قابل ذکر ٹیلی ویژن پروجیکٹس میں عروسہ، عجائب گھر، بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، سات پردوں میں اور دیگر شامل ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے کے ٹو ٹی وی پر مارننگ شو کی میزبانی کر رہی ہیں اور اکثر حالات حاضرہ، تنازعات اور شوبز کے تازہ ترین واقعات پر اپنی رائے کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پہلگام حملہ فرحان سعید فواد خان ماورا حسین مشی خان ہانیہ عامر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پہلگام حملہ فواد خان ماورا حسین ہانیہ عامر کا کہنا تھا کہ پہلگام حملے فواد خان رہے ہیں ا پ لوگ کہا کہ
پڑھیں:
معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔
کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟
کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔
کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟
اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟
یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !
بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔
قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔
تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔
نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟
یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں