شکی مزاج شریکِ حیات کے ساتھ زندگی عذاب
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) دوسری جانب شکی مزاج خواتین اپنے شوہر پر کڑی نگاہ کسی باڈی گارڈ کی مانند رکھتی ہیں اور خوامخواہ یہ تصور کرتی ہیں کہ ان کا افیئر کسی کے ساتھ چل رہا ہے۔ شک کی بیماری ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔اگر اس شک کو زوجین تقویت دیں تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ ایسا ہے کہ جس کا رفع دفع ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔
یعنی ایک ایسا روگ ہے کہ اگر بروقت ختم نہ ہو یا اس کا مناسب حل نہ ڈھونڈا جائے تو باہمی چپقلش سے اچھا خاصا گھر پاتال بن جاتا ہے۔شکی انسان اپنے آپ کو مریض نہیں گردانتا بلکہ شک کا سب سے گھمبیر مسئلہ یہ ہے کہ شکی مزاج اسے تسلیم بھی نہیں کرتا۔ ظاہر ہے جب تسلیم نہیں کرتے تو اس سے چھٹکارے کے لیے کچھ کرتے بھی نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
بلا تردد شک ہی یقین کی دیمک ہے۔
یہ لاعلاج مرض کی صورت تب اختیار کرتی ہے جب بیویاں شوہروں پر کڑی نگاہ رکھتی ہیں حتیٰ کہ نامدار شوہر کے فلاح وبہبود کے کام کو بھی منفی پیرائے میں پرکھتی ہیں۔ انہیں خدشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ ان کے شوہر دوسری خواتین میں دلچسپی لیتے ہیں یا بیوی کا اس خبط میں مبتلا رہنا کہ ان کے شوہر کا افئیر ضرور کسی سے چل رہا ہوگا جبھی تو لیٹ گھر آتے ہیں۔
پھر ہر چیز میں نقص نکالنا، بات کا بتنگڑ بنانا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔ شوہر کے دفتر سے واپسی پر کپڑوں کا بغور جائزہ لینا، شوہر کے بناؤ سنگھار پر نظر رکھنا اور ہمیشہ اس تاک میں رہنا کہ شوہر کے موبائل کا پاس ورڈ معلوم ہو جائے۔شوہروں کے حوالے سے بیگمات کی حساسیت اپنی جگہ مگر بعض شکی مزاج خواتین اس معاملے میں اس قدر حاسد و محتاط ہوتی ہیں کہ وہ چند گھڑیوں کے لیے بھی اپنے شوہر نامدار کی کسی دوسری خاتون کے ساتھ ضروری گفت و شنید کو بھی گوارا نہیں کرتیں۔
مضحکہ خیز بات کہ بعض سیاسی شخصیات کی بیویاں اہم سرکاری اجلاسوں میں بھی اپنے شوہر کو تنہا نہیں چھوڑتی بلکہ ان کے ہمراہ باڈی گارڈ کی مانند رہتی ہیں۔شوہر پر شک کی ممکنہ وجوہات میں سے شوہر کا اوپن مائنڈڈ ہونا یا ڈبل اسٹینڈرڈ ہوتا ہے۔ شوہر کا دیگر خواتین سے خندہ پیشانی سے گفتگو کرنا، ان کے ساتھ ہنسنا بولنا، بیوی کو بہت کھٹکتا ہے۔
یہاں سے بھی بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ عورت خود کو کمتر سمجھتی اور شوہر پر مختلف طریقوں سے شک کرتی ہے۔زبان زد عام ہے کہ شک و وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ اسی طرح اگر شوہر شکی مزاج ہو تو پھر بھی سکون غارت ہو جاتا ہے۔ بعض ذہنی مریض شوہر بلا وجہ کے شک کو پال پال کر ایک بلا بنا دیتے ہیں جو اس کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے۔
مثلاً دفتر سے واپسی پر گھر میں آہستہ آہستہ اینٹری مارنا اور یہ تجسس رکھنا کہ گھر میں اس کی غیر موجودگی میں کیا ہو رہا ہے؟ فون پر کس سے باتیں ہو رہی ہیں؟ نیز تہذیب کے پیرائے میں کسی مرد کا بیوی کو سلام کرنا اور احوال دریافت کرنا اس پر شوہر کا سوالیہ نشان اٹھانا، اگر بیوی کسی شخص کے کام کی تعریف کردے تو یہ سمجھنا کہ وہ اس پر فریفتہ ہے۔ ایسے شوہروں کی کافی تعداد پائی جاتی ہے جنہوں نے اپنی بے گناہ بیویوں کو بےجا شک کے باعث قتل کردیا یاخودکشی کرلی۔کتنا عجیب رویہ ہے کہ اگر بیوی بے تکلف ہو تو اسے برا لگتا ہے۔ اس طرز کے سارے اعمال اسکی غیرت برداشت نہیں کرتی لیکن وہ خود اپنے لیے دیگر خواتین کے ساتھ ہنسنا بولنا جائز قرار دیتا ہے، بزنس ڈنر کے نام پہ ہائی ٹی سلاٹ بک کرتا ہے، کاروباری مجبوری کے نام پہ ہاتھ ملاتا ہے ان سے جس حد تک ممکن ہو بے تکلفی اپنا حق سمجھتا ہے۔
ایسی خواتین جو ان سے خوش گپیاں کریں وہ خوش اخلاق ہیں مگر اپنے گھر کی خواتین سے کچھ کوتاہی ہوجائے تو وہ بدکردار ہیں۔زوجین کا باہمی شک کرنے کی وجہ سےکوئی واقعہ، قصہ، ڈرامہ یا کہانی ہوتی ہے۔ کبھی کسی فلم سے متاثر ہو کر میاں اپنی بیوی کو اسی روپ میں دیکھنے لگ جاتا ہے یا بیوی سوچتی ہے کہ فلاں ہیروئن جو اپنے شوہر پر نگاہ رکھتی ہے اس کا کرادر مجھے نبھانا چاہیے وغیرہ۔ مسائل کو زیر بحث نہ لانا بھی شک کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ لہذا مسائل تب جنم لیتے ہیں جب غلط فہمی دل میں بٹھائی جائے اور کھل کر بات نہ ہو۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اپنے شوہر شکی مزاج جاتی ہے شوہر کا شوہر پر جاتا ہے شوہر کے کے ساتھ
پڑھیں:
تعوُّذات: اہمیت و فوائد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ذخیرۂ احادیث کو دیکھا جائے تو ہر موقع و محل کے مناسب تعوذ پر رسولؐ کے عملی اہتمام کو دیکھ پڑھ کر قاری، حیرانگی اور تعجب میں پڑجاتا ہے کہ آخر کیا سبب ہے کہ تعوُّذات‘ اس قدر اہمیت کے حامل رہے ہیں کہ جنہیں صبح وشام کے وقت، سونے جاگنے، برا خواب دیکھنے، بیمار پرسی، غیض وغضب سے دو چار ہونے، وساوس کی بندش کو توڑنے، سفر کی روانگی، کسی جگہ پڑاؤ، گھر سے خروج، بازار جانے، کوئی چیز خریدنے، بیماری یا بخار میں مبتلا ہونے، سخت آندھی چلنے کے مواقع کے علاوہ نماز کے دوران اور نماز کے بعد پڑھنے کا خاص حکم ہے۔ اور اسی طرح مصائبِ دنیویہ جیسے: برص، جنون، جذام، ذلت، پریشانی، غم، لاچارگی، قرض، فقر وفاقہ، بڑھاپے اور ہر قسم کے ناگہانی آفات کے ساتھ ساتھ اُخروی مصائب، مثلاً: نفاق، کفر، شرک، گمراہی، برے اعمال، برے ساتھی اور برے پڑوسی سے مخصوص استعاذہ کا وارد ہونا بھی آدمی کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ تعوُّذ کے معنی میں ذرا سا غور کیا جائے اور اس کی حکمتوں کو سوچا جائے، تو ساری حیرانگی، اللہ کی قدرتِ کاملہ کا استحضار کرتے ہوئے اپنی بے بسی، لاچارگی اور کمزوری سے بدل جاتی ہے کہ انسان کسی بھی آفت، حادثہ یا دشمن کے مقابلے کی سکت نہیں رکھتا ہے، بلکہ وہ ہر آن، ہر گھڑی، ہر لمحہ اور ہر مصیبت، آفت کے وقت اللہ تعالیٰ کی کامل احتیاج رکھتا ہے، چنانچہ علامہ راغب اصفہانیؒ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’المفردات‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ:
’’العَوْذ‘‘ دوسرے کی پناہ میں رہنے اور اس کے ساتھ لگے رہنے کو کہتے ہیں اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لیا گیا ہے: ’’أَعُوْذُ بِاللہِ أَنْ أَکُوْنَ مِنَ الْجَاہِلِيْن‘‘۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعوُّذ کی وضع، اللہ کی طرف التجاء ہے، مگر حافظ ابنِ کثیرؒ نے ایک اور نکتہ تحریر فرمایا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعوُّذات کا مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع، اِنابت اور متوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی لاچارگی، بے بسی اور کمزوری کا اظہار بھی ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ: کلام عرب میں پناہ پکڑنے کے لیے دو قسم کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں: 1- الْعَوْذُ، 2- اللَّوْذُ، مگر ان دونوں کے درمیان ایک باریک فرق ہے، جس سے استعاذہ کا مقصد مزید واضح ہوجاتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ لفظ ’’لوذ‘‘ کسی کی پناہ میں اپنے فائدہ کے تحت آنے کو کہتے ہیں، جبکہ ’’عوذ‘‘ اپنے آپ کو شر سے بچانے کے لیے کسی کی پناہ پکڑنے کو کہتے ہیں۔
حافظ ابن کثیرؒ نے استعاذہ کے لطائف بیان کرتے ہوئے مقصد کو مزید واضح کردیا: ’’استعاذہ میں مشغول رہنے سے زبان ہر قسم کے بےہودہ اور بےکار مشاغل سے دور ہوکر پاکیزہ رہتی ہے اور کلام اللہ کی تلاوت کے لیے تیار رہتی ہے، بلکہ استعاذہ میں اللہ کی مدد مانگنے اور ان کی قدرتِ کاملہ کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی لاچارگی اور اپنے اُس کھلم کھلا، آنکھوں سے اوجھل دشمن کے مقابلے سے ناتوانی کا اظہار بھی ہے، جس کے پچھاڑنے کی طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جس نے اسے پیدا کیا، جس کے یہاں نہ تصنع کا اعتبار ہے اور نہ کاسا لیسی کا‘‘۔
البتہ اگر کسی کے ذہن میں یہ آجائے کہ ہر ’’مستعاذ منہ‘‘ یعنی ہر وہ چیز جس سے آنحضرتؐ نے اپنے رب کی پناہ مانگی ہے، وہ ہر حال میں مصیبت اور وبال ہی ہے، تو اس حوالے سے جان لینا چاہیے کہ ہر مستعاذ منہ مصیبت یا وبال نہیں ہے، بلکہ یہ خیال حقیقت سے کوسوں دور ہے؛ کیونکہ ایک جانب اگر غیرطبعی یا ناگہانی موت سے پناہ مانگی گئی ہے، تو دوسری طرف اسے شہادت بھی کہا گیا ہے، چنانچہ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے مذکورہ مسئلے کو اپنے اَمالی (العرف الشذي) میں سوال و جواب کی شکل میں بیان کیا، جسے ہم من وعن نقل کرتے ہیں، کیونکہ اس میں پناہ لینے کی حکمت کا بھی ذکر ہے: ’’اگر کوئی کہے کہ ابو داؤد شریف میں ناگہانی موت سے پناہ مانگی گئی ہے، جبکہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ناگہانی موت شہادت ہے، تو ہم کہیں گے کہ شریعت پناہ مانگنے کا حکم دیتی ہے، تاکہ وصیت یا معاملاتِ شرعیہ فوت نہ ہوں، باقی ناگہانی طور پر انتقال کر جائے، تو وہ شہید شمار ہوگا‘‘ (ابواب الجنائز)۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ حافظ الدنیا حافظ ابن حجر نفعنا اللہ بعلومہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’فتح الباری‘‘ میں ایک حدیث کے ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت لکھتے ہوئے استعاذہ بالغیر کا حکم بیان کیا کہ اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی پناہ پکڑنا درست نہیں، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں: ’’پناہ صرف اللہ تعالیٰ یا اس کی صفاتِ ذاتیہ میں کسی صفت کی لی جاسکتی ہے اور ابن تین ؒ پر یہی مخفی رہا تو انہوں نے کہا کہ حدیث میں صفت کے ذریعے سے قسم کھانے کی بات نہیں، جیسا کہ قائم کردہ باب سے معلوم ہورہا ہے۔ پھر میں نے ابن منیرؒ کے حاشیہ میں دیکھا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’أعوذ بعزتک‘‘ دعا ہے، قسم نہیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ پناہ صرف قدیم کی لی جاتی ہے، تو یہ ثابت ہوا کہ عزت اللہ کی صفاتِ قدیمہ میں سے ہے نہ کہ صفاتِ فعل میں سے، لہٰذا اس سے قسم منعقد ہوجاتی ہے‘‘ (کتاب الايمان و النذور)۔
غالباً انہی اقوال کی بنا پر ہمارے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف افشانی صاحب مد ظلہم اکثر اپنے بیانات میں فرمایا کرتے ہیں کہ: ’’أعوذ باللہ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو دنیاوی اور اُخروی ہر قسم کے مصائب سے نکال کر اللہ تعالیٰ کے مضبوط قلعے میں پناہ گزین بنادیتا ہے‘‘۔
انسان کے خمیر میں چوں کہ یہ بات ہے کہ عموماً مطلب اور فائدہ کے بغیر وہ کسی کام کا اقدام نہیں کرتا، اسی لیے ہم اپنے مضمون کے آخر میں استعاذہ کے چند فوائد ذکر کرتے ہیں:
1-علامہ ابن قیمؒ نے تعوُّذات اور دیگر اذکار کے فوائد تحریر کرتے ہوئے ایک عمدہ فائدہ بیان کیا ہے کہ دوائیاں تب ہی مفید اور سود مند ہیں، جب پہلے سے بیماری نے آکر نقصان سے دوچار کیا ہو، جبکہ تعوُّذ کا کمال اور فائدہ یہ ہے کہ یہ بیماری کے اسباب اور انسان کے درمیان سدِسکندری کی طرح حائل بن جاتی ہے، بہرحال علامہ موصوف کا مطلب یہ ہے کہ تعوُّذات مرض کے خاتمے، مرض سے پیشگی حفاظت اور صحت کے برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور دلائل سے اپنی بات کو ثابت کیا۔
2-علامہ ابن قیمؒ ہی نے اپنی مشہور شہرہ آفاق کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں تعوُّذات کی اہمیت و وقعت کو فوائد کی شکل میں تحریر فرمایا کہ اس آدمی پر لازم ہے جو دنیوی اور اُخروی مصائب سے اپنی حفاظت کا خواہاں ہے کہ وہ ہمہ وقت قلعہ بند اور زرہ زیبِ تن رکھے، یعنی وہ تعوُّذات نبویہ کی پاپندی کرے۔
3- نضرۃ النعیم میں استعاذہ کی مسلسل پابندی کے چودہ فوائد بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے چند ہم قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں:
1- استعاذہ نفس کی راحت وسکون کا سبب ہے۔
2- استعاذہ سے اللہ پر توکل کی صفت پیدا ہوتی ہے۔
3- استعاذہ کی دعاؤں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
4- استعاذہ شیطان سے بچنے کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔
5- استعاذہ سے انسان اپنے اعضاء کے شرور سے محفوظ رہتا ہے۔