اب تک شادی کیوں نہیں کی؟ فیصل رحمان نے دلچسپ وجہ بتادی
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
فیصل رحمان نے نوجوانی میں ہی فلم انڈسٹری میں اپنی جگہ بنالی تھی اور شبنم سمیت عمر میں بڑی کئی سینیئر اداکاراؤں کے ہیرو بھی بنے۔
ہیرو اور ہیروئن کے عمر میں اتنے بڑے خلا کو فیصل رحمان نے اپنی جاندار اور برجستہ اداکاری سے پُر کیا کہ وہ کردار امر ہوگئے۔
نجی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں 58 سالہ فیصل رحمان نے اب تک شادی نہ کرنے کی حیران کن اور دلچسپ وجہ بتادی۔
فیصل رحمان نے کہا کہ شادی نہ کرنے پر ملال نہیں، مجھے آج تک کسی سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور مستقبل میں بھی خود کفیل رہنا چاہتا ہوں۔
محبت میں ناکامی کے باعث شادی نہ کرنے کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے اداکار فیصل رحمان نے کہا کہ شادی نہ کرنے کی ایک وجہ میرا آزاد خیال ہونا بھی ہے اور نہ ہی میرا دل ٹوٹا ہے۔
اداکار نے حال ہی میں ایک ویب شو میں بطور مہمان شرکت کے دوران اب تک شادی نہ کرنے کی وجہ بتائی ہے۔
فیصل نے بتایا کہ میں زندگی میں کئی لوگوں کے قریب ہوا اور شادی کرنے کا فیصلہ بھی کیا لیکن شادی نہ ہوسکی۔
یاد رہے کہ دو ماہ قبل ایک اور انٹرویو میں شادی نہ ہونے کے راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ مجھے وعدے کرنے سے ڈر لگتا ہے اس لیے میں ہر بار شادی کرنے کا ارادہ ترک کردیتا ہوں۔
فیصل رحمان نے کہا کہ میرے خیال میں سارے مرد ہی اس طرح کے وعدے کرنے سے ڈرتے ہیں لیکن معاشرے کے دباؤ اور اپنے عدم تحفظ کی وجہ سے شادی کرلیتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ زندگی میں کسی ساتھی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ اگر ہم اچھی طرح خود کو پہچان لیں تو ہمیں زندگی میں کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں ہے۔
اداکار نے یہ بھی کہا کہ دو لوگ صرف اس صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ چل سکتے ہیں اگر وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ جائیں اور دونوں ایک ہی جیسی خصوصیات کے حامل ہوں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: فیصل رحمان نے کہا کہ
پڑھیں:
معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔
کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟
کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔
کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟
اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟
یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !
بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔
قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔
تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔
نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟
یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں