سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
بھارت کی جانب سے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو ‘فوری طور پر معطل’ کرنے کا اعلان جنوبی ایشیا کی سیاست میں ایک سنگین موڑ اور بین الاقوامی قانون کے مسلمہ اصولوں سے انحراف کا مظہر ہے۔
24 اپریل 2025 کو بھارت کی وزارت جل شکتی کی جانب سے پاکستان کو بھیجے گئے خط میں آبادی میں ہونے والی تبدیلیوں، صاف توانائی کی ضروریات اور سرحد پار دہشتگردی جیسے عوامل کا حوالہ دے کر اس فیصلے کو جواز بخشنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن قانونی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ اقدام ایک ایسے معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کی کوشش ہے جو نہ صرف 2 ممالک کے درمیان دہائیوں سے جاری تعاون کی علامت ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کی مضبوط روایت کا بھی حصہ ہے۔
سندھ طاس معاہدہ، جو عالمی بینک کی ثالثی میں 1960 میں طے پایا، ایک تفصیلی اور مؤثر نظام فراہم کرتا ہے جس کے تحت دریاؤں کے پانی کی تقسیم، مشترکہ معائنے، معلومات کے تبادلے اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار طے کیے گئے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ معاہدے میں کہیں بھی کسی فریق کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اسے یکطرفہ طور پر معطل کرسکے۔ بھارت کی طرف سے معاہدے کے آرٹیکل XII(3) کا حوالہ کسی طور پر درست نہیں ہے کہ اس کی رو سے معاہدے میں ترامیم باہمی رضامندی سے کی جاسکتی ہیں۔ کسی ایک فریق کی طرف سے اسے یکطرفہ معطل کرنے کا قطعی طو پر کہیں ذکر نہیں ہے۔
بھارت کے اس اقدام کے پیچھے بین الاقوامی قانون میں موجود اصول rebus sic stantibus یعنی ‘حالات میں بنیادی تبدیلی کی بنیاد پر معاہدے کی منسوخی یا معطلی’ کا حوالہ ممکنہ طور پر دیا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی قانون کے عمومی اصول، جیسا کہ ویانا کنونشن 1969 میں واضح کیے گئے ہیں، اس اصول کو نہایت محدود حالات میں قابل اطلاق قرار دیتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حالات میں آنے والی تبدیلی غیر متوقع ہو اور وہ معاہدے کی اصل نوعیت اور ذمہ داری کو بنیادی طور پر بدل دے۔ بھارت کی طرف سے پیش کیے گئے دلائل جیسے آبادی، توانائی کی ضروریات یا سیکیورٹی خدشات، نہ تو غیر متوقع ہیں اور نہ ہی اس سطح کی بنیادی تبدیلی ہیں جو معاہدے کی سرے سے غیر مؤثر بنا دیتی ہو۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اگرچہ سندھ طاس معاہدہ ویانا کنونشن سے پہلے کا ہے، لیکن ویانا کنونشن میں موجود اصول جیسے کہ pacta sunt servanda یعنی ‘معاہدے کی پابندی کی جاتی ہے’ اور معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے خلاف ضابطے بین الاقوامی عرفی قانون (customary international law) کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس لیے ان اصولوں کا اطلاق بھارت اور پاکستان دونوں پر ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت کی اپنی عدلیہ بھی بین الاقوامی معاہدوں کی تشریح کے لیے ویانا کنونشن کے اصولوں کو قابل قبول مان چکی ہے، جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ بھارت خود بھی ان اصولوں کو قانونی رہنمائی کے لیے تسلیم کرتا آیا ہے۔
بھارت کی جانب سے پاکستان پر دہشتگردی کی پشت پناہی کا الزام اگرچہ سیاسی طور پر سنگین ہے مگر قانونی طور پر یہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا کوئی جواز فراہم نہیں کرتا۔ ہندوستان نے ان الزامات کے لیے کوئی قابل اعتبار شواہد فراہم نہیں کیے اور اس بنیاد پر معاہدے کو معطل کرنے میں غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ گویا کہ یہ فیصلہ پہلے سے مطلوب تھا اور اب صرف ایک بہانہ درکار تھا۔
اگر پاکستان نے واقعی کسی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہوتا تو بین الاقوامی قانون کی رو سے بھارت کو چاہیے تھا کہ وہ معاہدے میں موجود باقاعدہ طریقہ کار یعنی مشترکہ کمیشن، غیر جانبدار ماہرین اور ثالثی کے فورم وغیرہ کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کرتا، لیکن بھارت نے ان تمام قانونی ذرائع کو نظرانداز کیا۔
قانونی ماہرین نے دنیا میں دیگر تنازعات، جیسے کہ روس کی جانب سے امریکا کے ساتھ نیو اسٹارٹ معاہدے کی معطلی کے تناظر میں متنبہ کیا ہے کہ کسی معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنا، جب تک کہ اس کی اجازت معاہدے میں نہ دی گئی ہو یا کوئی سنگین خلاف ورزی ثابت نہ ہو، بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ سیکیورٹی خدشات خواہ کتنے ہی شدید ہوں، وہ معاہدہ معطل کرنے کا خودکار قانونی اختیار پیدا نہیں کرتے۔ یہی اصول یہاں بھی لاگو ہوتا ہے۔
بھارت کا یہ اقدام محض ایک سفارتی یا تزویراتی چال نہیں بلکہ ایک ایسے قانونی نظام کے لیے خطرہ ہے جو دہائیوں سے جنوبی ایشیا میں آبی تنازعات کو منظم کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اگر ایک فریق محض اپنی مرضی سے کسی معاہدے کو معطل کردے تو یہ نہ صرف اس معاہدے کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے بلکہ بین الاقوامی قانون کے سارے ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اس عمل سے دوسرے معاہدے بھی غیر محفوظ ہوجائیں گے اور عالمی سطح پر معاہدوں کا احترام کمزور پڑ جائے گا۔
سندھ طاس معاہدہ اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود خطے کے امن اور تعاون کا ستون رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے اسے بلاجواز اور غیر قانونی طور پر معطل کرنا نہ صرف دو طرفہ اعتماد کو مجروح کرتا ہے بلکہ اس اصول پر بھی سوال اٹھاتا ہے کہ کیا بین الاقوامی معاہدے اب بھی واقعی قابل بھروسہ ہیں؟ اس معاہدے کو ‘معطل’ کرکے بھارت نے شاید صرف دریا کا بہاؤ نہیں روکا بلکہ قانون کی روانی کو بھی روک دیا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈائریکٹر اسکول آف لاء قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی قانون کی ویانا کنونشن معاہدے میں کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی معاہدے کو اس معاہدے بھارت کی کے لیے
پڑھیں:
بھارت کو بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے کا کوئی اختیار نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن: وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت پر عالمی سطح پر بھارتی جارحیت کے خلاف پاکستان کا مؤقف اجاگر کرنے کے لیے بنائے گئے سفارتی وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے جو ہمیشہ امن، مذاکرات اور سفارتکاری کو ترجیح دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بارہا دنیا کو باور کروایا ہے کہ تمام مسائل، خاص طور پر پاک بھارت کشیدگی کا حل مسئلہ کشمیر سے جڑا ہوا ہے۔
بلاول بھٹو نے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے پانی روکنے کی کسی بھی کوشش کو پاکستان اعلانِ جنگ تصور کرے گا۔ انہوں نے سندھ طاس معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کو یہ بین الاقوامی معاہدہ یکطرفہ طور پر ختم کرنے یا معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں، کیونکہ پاکستان کے لیے پانی ایک بنیادی اور ناگزیر ضرورت ہے جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ ممکن نہیں۔
اپنے بیان میں انہوں نے بھارت پر مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا اور کہا کہ بھارت عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پہلگام واقعے پر غیرجانبدار تحقیقات کی پیشکش کی تھی، مگر بھارت نے یہ پیشکش مسترد کر کے ایک اور موقع ضائع کر دیا۔
بلاول بھٹو نے ایک مرتبہ پھر پاک بھارت جنگ بندی کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار کی تعریف کی اور کہا کہ اس نازک موقع پر ٹرمپ کی مداخلت نے صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد دی۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دونوں ایٹمی ممالک کے درمیان تنازعات کے پرامن حل کے لیے کوئی مؤثر مکینزم ہونا چاہیے تاکہ خطے کو غیر یقینی صورتحال سے بچایا جا سکے۔