امریکا نے پاک بھارت صورتحال پر گہری نظر رکھنے کا اعلان کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
امریکا نے کہا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری صورتحال کو بہت قریب سے مانیٹر کر رہا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پر نظر رکھے ہوئے ہے اس بات کا اظہار امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے پریس بریفنگ کے دوران کیا ترجمان نے کہا کہ جموں و کشمیر کے حوالے سے امریکا اس وقت کوئی واضح پوزیشن اختیار نہیں کر رہا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اس حساس وقت میں امریکا انتہائی احتیاط سے کام لے رہا ہے اور کسی بھی فریق کی حمایت یا مخالفت کا اعلان نہیں کیا جا سکتا ٹیمی بروس نے بھارت میں حالیہ دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ امریکا اس مشکل وقت میں بھارت کے ساتھ کھڑا ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس حملے میں ملوث تمام عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ خطے میں امن و امان قائم رہ سکے اور دہشت گردوں کو واضح پیغام دیا جا سکے کہ ان کے اقدامات برداشت نہیں کیے جائیں گے امریکی ترجمان کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لیے کسی قسم کا کردار ادا کریں گے یا نہیں اس حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی تاہم امریکا دونوں ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ امن و استحکام کے لیے سفارتی ذرائع کو اپنائیں اور تحمل کا مظاہرہ کریں امریکا کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاک بھارت تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی اور تجارتی روابط معطل ہو چکے ہیں بین الاقوامی برادری اس وقت خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں سے ذمہ دارانہ طرز عمل کی توقع کر رہی ہے
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان
پڑھیں:
جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل
دنیا ایک نئے جوہری دور میں داخل ہو رہی ہے، جہاں امریکا اور مغرب کا جوہری اجارہ داری کا خواب بتدریج ختم ہو رہا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ جوہری ہتھیار دوسرے ممالک تک پھیلیں گے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کتنی تیزی سے یہ عمل مکمل ہوگا۔
آنے والے برسوں میں دنیا میں جوہری طاقتوں کی تعداد 9 سے بڑھ کر 15 یا اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔ اگرچہ مغرب اس امکان کو عالمی تباہی کے مترادف سمجھتا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی دنیا کی سیاسی ساخت کو بنیادی طور پر متاثر نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی عالمی قیامت کا باعث بنے گی۔
جوہری طاقت: جنگی تاریخ میں انقلابجوہری ہتھیاروں کی ایجاد نے عالمی سیاست میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کی۔ ان کی موجودگی نے طاقتور ریاستوں کو بیرونی جارحیت سے تقریباً ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ چند ممالک – خاص طور پر روس اور امریکا – ایسی جوہری طاقت رکھتے ہیں کہ انہیں کسی عالمی اتحاد کے ذریعے بھی شکست دینا ممکن نہیں رہا۔
یہ بھی پڑھیے روس کے نئے غیر جوہری دفاعی ہتھیار نے پوری دنیا کو چونکا دیا
چین بھی اب اس جوہری اشرافیہ میں شامل ہونے کی طرف گامزن ہے، اگرچہ اس کا ذخیرہ ابھی تک امریکا اور روس کے مقابلے میں محدود ہے۔
سلامتی مہنگی، خواہشات محدودعالمی سطح پر جوہری سپرپاور بننا انتہائی مہنگا عمل ہے۔ چین جیسے وسائل سے مالا مال ملک نے بھی حالیہ برسوں میں اس منزل کی طرف پیش رفت کی ہے، لیکن بیشتر ممالک کے لیے یہ راستہ قابلِ برداشت نہیں۔
خوش قسمتی سے زیادہ تر ممالک کو اس حد تک جانے کی ضرورت بھی نہیں۔ بھارت، پاکستان، ایران، برازیل، جاپان، اسرائیل جیسے ممالک کی جوہری خواہشات علاقائی تحفظ تک محدود ہیں، نہ کہ عالمی تسلط تک۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے چھوٹے جوہری ہتھیار عالمی طاقت کے توازن کو متزلزل نہیں کرتے۔
جوہری پھیلاؤ: خطرہ نہیں، استحکام کا ذریعہ؟ماضی میں کئی معروف مغربی اور روسی ماہرین کا یہ مؤقف رہا ہے کہ محدود سطح پر جوہری پھیلاؤ دراصل عالمی استحکام کو بڑھا سکتا ہے۔ جوہری ہتھیار کسی بھی جارحیت کی قیمت بہت بڑھا دیتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ریاستیں حملے سے پہلے کئی بار سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
یہ اصول شمالی کوریا کے طرزعمل میں واضح دیکھا جا سکتا ہے، جو معمولی جوہری صلاحیت کے باوجود واشنگٹن کے سامنے قدرے جری ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس، ایران نے معاہدوں پر بھروسہ کیا، اور جون 2025 میں امریکا اور اسرائیل کے حملے کا نشانہ بن گیا۔ اس واقعے نے دنیا کو واضح پیغام دیا کہ جوہری تحفظ کے بغیر ریاستیں غیرمحفوظ ہیں۔
عدم پھیلاؤ کا نظام ناکام؟عالمی جوہری عدم پھیلاؤ کا نظام رفتہ رفتہ غیر مؤثر ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا جیسے ممالک نے اس نظام کی خلاف ورزی کی، مگر کسی کو سزا نہیں ملی۔ دوسری طرف ایران نے ضوابط پر عمل کیا اور اس کی قیمت چکائی۔
یہ منظرنامہ دیکھ کر جاپان، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک اب خود کو جوہری طاقتوں کی صف میں شامل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ چاہے امریکی حمایت سے خاموشی سے ہو یا خود مختارانہ طور پر۔
کیا 15 جوہری طاقتیں دنیا کا خاتمہ ہوں گی؟اگرچہ مغرب میں بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں مزید جوہری ریاستوں کا مطلب تباہی ہے، لیکن حقیقت میں ایسا ضروری نہیں۔
نئے جوہری ممالک – خواہ ایران ہو یا جاپان – فوری طور پر روس یا امریکا جیسے بڑے ذخائر نہیں بنا سکتے۔ ان کی جوہری طاقت زیادہ سے زیادہ دفاعی سطح تک محدود ہوگی، نہ کہ مکمل عالمی خطرہ۔
یہ بھی پڑھیے ایران جوہری افزودگی ترک نہیں کرے گا یہ قومی وقار کا مسئلہ ہے، عباس عراقچی
ہاں، علاقائی جنگوں کا خطرہ ضرور رہے گا۔ مثلاً بھارت اور پاکستان، یا ایران اور اسرائیل کے درمیان لیکن یہ تصادم عالمی تباہی کا سبب نہیں بنیں گے۔ اور ایسی صورتحال میں غالب امکان ہے کہ روس اور امریکا جیسے بڑے جوہری ممالک صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے مداخلت کریں گے۔
اصل خطرہ کہاں ہے؟ماہرین کے مطابق اصل خطرہ ان نئے جوہری ممالک سے نہیں، بلکہ مغرب – خصوصاً واشنگٹن کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں سے ہے۔
امریکا کی مشرقی ایشیا میں مداخلت، چین کو روکنے کے جنون میں اپنے اتحادیوں کو خطرے میں ڈالنا، اور ہر قیمت پر اسٹریٹیجک غلبہ برقرار رکھنے کی خواہش – یہی وہ عناصر ہیں جو دنیا کو واقعی بحران میں دھکیل سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا جوہری ہتھیار چین