Islam Times:
2025-07-26@07:14:12 GMT

غزہ پر مستقل قبضے کا اسرائیلی خواب

اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT

غزہ پر مستقل قبضے کا اسرائیلی خواب

اسلام ٹائمز: صیہونی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ وہ میدان جنگ میں فلسطینی مجاہدین کو شکست نہیں دے سکتے لہذا اب انہوں نے نرم جنگ کے ہتھکنڈے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک اقتصادی دباو اور دوسرا فلسطینی عوام کو مجاہدین سے دور کرنا ہے۔ اس سے پہلے یہ حکمت عملی فرانسیسی فوج انیسویں صدی کے وسط میں الجزائر میں آزما چکی ہے۔ 1840ء کے عشرے میں شدید گرمی کے دوران فرانسیسی فوجیوں کا تجربہ غاصب صیہونی فوجیوں سے ملتا جلتا تھا اور انہیں الجزائر کے مجاہدین کے خلاف مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ لہذا تھامس رابرٹ باگہود کی سربراہی میں فرانسیسی فوج نے وہاں کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنا شروع کر دیا اور عوام کو ان کے دیہاتوں سے جبری جلاوطن کر دیا۔ کچھ عرصے بعد عوام خود ہی مجاہد لیڈر عبدالقادر کے خلاف ہو گئے اور اس سے گھٹنے ٹیک دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
غاصب صیہونی رژیم نے 2 مارچ 2025ء کے دن یکطرفہ طور پر حماس سے جنگ معاہدہ ختم کر دیا اور غزہ جانے والی بین الاقوامی انسانی امداد بھی روک دی۔ اس کے تقریباً دو ہفتے بعد دوبارہ سے غزہ پر وسیع بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا جبکہ صیہونی فوج جس نے جنگ بندی کے دوران پسماندگی اختیار کی تھی دوبارہ پیشقدمی کرنے لگی۔ برطانوی اخبار گارجین نے غزہ کے جن شہریوں سے انٹرویو لینے میں کامیاب رہا ان کا کہنا تھا کہ وہ فضائی بمباری سے زیادہ قحط اور غذائی قلت سے خوفزدہ ہیں۔ غزہ کے شمال میں واقع شہر بیت لاہیا کے 44 سالہ یونیورسٹی پروفیسر حکمت المصری نے کہا: "میں بارہا کھانے کی کمی کی وجہ سے اپنا حصہ بیٹے کو دینے پر مجبور ہوا ہوں۔ یہ بھوک مجھے مار دے گی اور یہ ایک مرحلہ وار موت ہے۔" غزہ جانے والی انسانی امداد کو روک دینا حماس کے خلاف اسرائیل کا نیا ہتھیار ہے۔
 
اسرائیلی فوجی کمانڈرز نے پہلی بار غزہ میں کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی ہے جو دراصل تل ابیب کی جانب سے اہل غزہ پر دباو ڈالنے کا ایک ہتھکنڈہ قرار دیا جا رہا ہے۔ تل ابیب کو امید ہے کہ وہ غزہ کے فلسطینیوں کو جبری طور پر جلاوطن کر کے اس کے اکثر حصوں میں جلی ہوئی زمین کی حکمت عملی اختیار کرے گا اور یوں غزہ کی پٹی پر اپنا قبضہ مکمل کر لے گا۔ یہ منصوبہ بظاہر تو بہت دلکش دکھائی دیتا ہے لیکن حماس کے ملٹری ونگ شہید عزالدین قسام بٹالینز گوریلا جنگ میں اعلی درجہ مہارت رکھتی ہیں اور وہ غزہ میں صیہونی فوج کی لاجسٹک سپورٹ بند کر دینے کی مکمل صلاحیت کی حامل ہیں۔ صیہونی فوج کی دوبارہ جارحیت شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ غزہ کی صورتحال تبدیل کرنے جا رہا ہے۔
 
جبری جلاوطنی
اخبار اکانومیسٹ کے بقول صیہونی حکمرانوں نے رفح کے شہریوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر چلے جانے کا حکم دیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ ان کا اصل مقصد غزہ کے جنوبی حصے کو مستقل طور پر خالی کروانا ہے۔ یاد رہے اس حصے میں غزہ کی آبادی کا 20 فیصد حصہ آباد ہے۔ اسی طرح کا منصوبہ غزہ کے شمالی حصے کے لیے بھی بنایا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ درحقیقت غزہ میں مقیم 20 لاکھ فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کر کے بحیرہ روم کے مشرقی کنارے منتقل کرنے پر مبنی ہے۔ فی الحال مقدماتی مرحلے کے طور پر اسرائیل غزہ کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں "نو گو ایریاز" بنانا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے عام شہریوں کے انخلاء کے بعد مجاہدین کے خلاف کھل کر فوجی کاروائی انجام دے سکے۔ اگلے مرحلے میں اسرائیل غزہ کے تمام فلسطینی شہریوں کو وہاں سے نکال کر دنیا کے دوسرے حصوں میں بھیج دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
 
بنیادی اہمیت کی حامل راہداریوں پر قبضہ
بعض اعلی سطحی اسرائیلی فوجی افسران کے بقول غزہ میں اسرائیل جو نئی راہداریاں بنا رہا ہے ان کے فوجی اہداف کے علاوہ بھی کچھ اہداف ہیں۔ اسرائیل نے گذشتہ ایک ماہ سے غزہ کے شہریوں کے لیے جانے والی تمام بیرونی امداد بند کر رکھی ہے اور اس بندش کی وضاحت پیش کرتے ہوئے اس نے یہ بہانہ پیش کیا ہے کہ اس امداد کا زیادہ تر حصہ حماس کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ صیہونی فوج نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے فلسطینی جیسے ہی یہ علاقہ چھوڑ کر اس کے مطلوبہ علاقے میں چلے جائیں گے تو فوجی راہداریوں کے ذریعے ان تک انسانی امداد کی فراہمی کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ یہ پالیسی اگرچہ بظاہر انسانی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی چھوڑ دینے پر مجبور کرنا ہے۔ اسی طرح اسرائیل اس طرح فلسطینی شہریوں اور حماس کے مجاہدین کے درمیان فاصلہ ڈالنا چاہتا ہے۔
 
نرم جنگ کا آغاز
صیہونی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو چکے ہیں کہ وہ میدان جنگ میں فلسطینی مجاہدین کو شکست نہیں دے سکتے لہذا اب انہوں نے نرم جنگ کے ہتھکنڈے بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک اقتصادی دباو اور دوسرا فلسطینی عوام کو مجاہدین سے دور کرنا ہے۔ اس سے پہلے یہ حکمت عملی فرانسیسی فوج انیسویں صدی کے وسط میں الجزائر میں آزما چکی ہے۔ 1840ء کے عشرے میں شدید گرمی کے دوران فرانسیسی فوجیوں کا تجربہ غاصب صیہونی فوجیوں سے ملتا جلتا تھا اور انہیں الجزائر کے مجاہدین کے خلاف مکمل کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ لہذا تھامس رابرٹ باگہود کی سربراہی میں فرانسیسی فوج نے وہاں کے بنیادی انفرااسٹرکچر کو تباہ کرنا شروع کر دیا اور عوام کو ان کے دیہاتوں سے جبری جلاوطن کر دیا۔ کچھ عرصے بعد عوام خود ہی مجاہد لیڈر عبدالقادر کے خلاف ہو گئے اور اس سے گھٹنے ٹیک دینے کا مطالبہ کرنے لگے۔
 
صیہونی منصوبے کو درپیش چیلنجز
صیہونی فوجی حماس کے مجاہدین کے خلاف اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے جو فوجی راہداریاں بنائی ہیں جو حماس مجاہدین کے حملوں کی زد میں ہیں۔ یوں القسام بٹالینز ان کی رصد میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔ دوسری طرف مظلوم فلسطینیوں پر صیہونی ظلم و ستم کا فائدہ حماس کو ہو رہا ہے۔ وہ یوں کہ فلسطینی شہریوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے اور وہ اس بات کے قائل ہو رہے ہیں کہ صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ مسلح جدوجہد ہے لہذا حماس کے مجاہدین میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مزید برآں، غزہ سے فلسطینیوں کا انخلاء بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ مصر اور اردن اس منصوبے میں اسرائیل کا ساتھ نہیں دے رہے جبکہ مصر حکومت نے چین سے جنگی طیارے اور اسلحہ خرید کر صحرائے سینا میں فوج تعینات کرنا شروع کر دی ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی جبری جلاوطنی کو روکنا ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مجاہدین کے خلاف کے مجاہدین کے فرانسیسی فوج جبری جلاوطن شروع کر دیا صیہونی فوج جلاوطن کر جا رہا ہے عوام کو حماس کے غزہ کی کیا ہے غزہ کے اور اس

پڑھیں:

غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے

وہی ہوا جو منطقی تسلسل میں ہوتا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں باقاعدہ ضم کرنے کی علامتی قرار داد گذرے بدھ تیرہ کے مقابلے میں اکہتر ووٹوں سے منظور کر لی۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر نیتن یاہو حکومت مستقبلِ قریب میں ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو پارلیمان اس کے پیچھے کھڑی ہے۔گزشتہ برس نو کے مقابلے میں اڑسٹھ ووٹوں سے دو ریاستی حل کا فارمولا مسترد کرنے کی قرار داد بھی کنیسٹ منظور کر چکی ہے۔

مغربی کنارے کو باقاعدہ ضم کرنے کی قرار داد کی مخالفت میں جو تیرہ ووٹ آئے وہ پارلیمنٹ میں عرب بلاک کے نمایندوں اور بائیں بازو بشمول لیبر ارکان نے دیے۔نام نہاد اعتدال پسند صیہونی جماعتوں ، دائیں بازو کی حکمران لیخود پارٹی اور اس کی حواری متشدد مذہبی پارٹیوں نے مقبوضہ علاقے کو اسرائیلی ریاست میں ضم کرنے سے اتفاق کیا۔

تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مقبوضہ غربِ اردن کی فلسطینی آبادی کو ضم ہونے کی صورت میں برابر کا اسرائیلی شہری تسلیم کیا جائے گا اور ان پر موجودہ فوجی قوانین کے بجائے وہی سویلین قوانین لاگو ہوں گے جو اسرائیلی شہریوں پر لاگو ہوتے ہیں ؟ ہرگز نہیں۔

 اس کا عملی مطلب یہ ہے کہ انضمام کے بعد مسلح یہودی آبادکاروں کے حملے اور تیز ہو جائیں گے ، فلسطینیوں کی باقی ماندہ نجی زمینوں پر فوجی سنگینوں کے سائے میں ’’ دفاعی مقاصد ‘‘ کے نام پر قبضے کی رفتار بھی بڑھ جائے گی۔ان زمینوں پر نئی یہودی بستیاں بسائی جائیں گی۔یعنی ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا کہ لاکھوں فلسطینیوں کا آخری ریلا بھی ’’ رضاکارانہ ‘‘ طور پر اپنی زمین سے نکل جائے اور جوڈیا سماریا (غربِ اردن ) ایک مکمل یہودی خطہ بن جائے۔

یہ قرار داد اسرائیلی کابینہ کے پندرہ وزرا کے بنام سرکار خط کی روشنی میں لکھی گئی۔ خط کے مطابق ’’ ایرانی شیطانی تکون ( حزب اللہ ، بشار الاسد ، یمنی ہوثی ) پر فتح کے بعد اب اندر موجود بقائی خطرے ( مقبوضہ فلسطینی ) سے بھی موثر انداز میں نمٹنے کی ضرورت ہے۔امریکا اور اسرائیل کی اسٹرٹیجک ساجھے داری اور صدر ٹرمپ کی مکمل حمائیت کے سبب یہی مناسب وقت ہے کہ آیندہ اسرائیلی نسلوں کا جغرافیائی مستقبل محفوظ کیا جائے۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے المیے نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست ہر شکل میں اسرائیل کی بقا کے لیے سنگین خطرہ ہے۔لہٰذا جوڈیا سماریا ( مقبوضہ کنارہ ) پر اسرائیل کا مکمل اختیار نافذ کیا جائے ‘‘۔

قرار داد کی علامتی اہمیت اپنی جگہ مگر عملاً اسرائیل بیشتر مقبوضہ علاقے کو پہلے ہی بتدریج ہضم کر چکا ہے۔مغربی یروشلم انیس سو اڑتالیس میں ہی اسرائیل کا حصہ قرار دے دیا گیا۔فلسطینی اکثریتی مشرقی یروشلم انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد گریٹر یروشلم میونسپلٹی کا حصہ بنا دیا گیا۔ فلسطینی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یروشلم کے چاروں طرف آبادکار بستیوں کا جال بچھا دیا گیا۔

حالانکہ اقوامِ متحدہ نے نومبر انیس سو سینتالیس میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی جو قرار داد منظور کی تھی اور جس کی بنیاد پر چھ ماہ بعد اسرائیل کا وجود عمل میں آیا۔ اس قرار داد کے تحت یروشلم ایک کھلا بین الاقوامی شہر ہو گا۔مگر اسرائیلی پارلیمان نے انیس سو اسی میں متحدہ یروشلم کو اسرائیل کا تاریخی دارالحکومت قرار دے کے قصہ چکتا کر دیا۔

 اسرائیل نے شام سے انیس سو سڑسٹھ میں چھینی گئی گولان پہاڑیوں کو انیس سو اکیاسی میں باقاعدہ ضم کر لیا۔اگرچہ سلامتی کونسل نے اس اقدام کو بھی غیر قانونی قرار دیا۔مگر پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہزار انیس میں نہ صرف گولان کو اسرائیل کا جائز حصہ مان لیا بلکہ یروشلم پر بھی اسرائیل کی حاکمیت کو قانونی تسلیم کر کے وہاں سفارت خانہ منتقل کر کے عشروں پرانی مبہم امریکی پالیسی ٹھکانے لگا دی۔

غزہ کے المئے نے نہ صرف وہاں کی پوری آبادی کو غذائی و عسکری نسل کشی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے بلکہ مغربی کنارے کی قسمت بھی سربمہر کر دی ہے۔اس بحران کے شروع ہونے کے بعد سے اب تک مغربی کنارے پر اکتیس نئی یہودی بستیوں کی آبادکاری کی منظوری دی جا چکی ہے۔مزید چالیس ہزار سے زائد فلسطینی خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ سیکڑوں ایکڑ فصلیں اور باغات نذرِ آتش ہو چکے ہیں یا اجاڑے جا رہے ہیں ، لگ بھگ ایک ہزار فلسطینی شہید اور چار گنا زخمی ہو چکے ہیں۔

انیس سو چورانوے کے نام نہاد اوسلو سمجھوتے کے تحت مغربی کنارے کا ساٹھ فیصد علاقہ ایریا سی کے نام پر اسرائیل کی دفاعی ضروریات کے لیے مختص ہے۔یہاں کوئی فلسطینی باشندہ کچھ بھی تعمیر نہیں کر سکتا۔اکیس فیصد علاقہ ایریا بی کے نام سے اگرچہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے مشترکہ کنٹرول میں ہے۔ عملاً اسرائیلی فوج مسلح آباد کاروں کو آگے رکھ کے ایریا بی کو بھی مقامی آبادی سے صاف کر رہی ہے۔

اب رہ جاتا ہے انیس فیصد ایریا اے۔کہنے کو یہاں فلسطینی اتھارٹی کی اتھارٹی چلنی چاہیے۔مگر اسرائیلی فوج دھشت گردوں کے قلع قمع کے نام پر ایریا اے کے شہروں اور قصبوں میں جس وقت جہاں اور جب چاہے گھس جاتی ہے ، ناکہ بندی کرتی ہے اور برسوں سے قائم پناہ گزین کیمپوں کو بھی مکمل منہدم کر رہی ہے۔

مسجدِ اقصی کا احاطہ اگرچہ قانوناً غیر مسلموں پر بند ہے اور اس احاطے کی علامتی نگرانی اردن کے ہاتھ میں ہے۔مگر کوئی ہفتہ ایسا نہیں جاتا کہ کوئی نہ کوئی صیہونی جتھہ اس احاطے میں نہ گھسے اور نمازیوں کو بے دخل نہ ہونا پڑے۔

مسجد مسلسل فوج اور پولیس کے محاصرے میں رہتی ہے۔یعنی یروشلم سمیت مغربی کنارہ عملاً اسرائیل میں ضم ہو چکا ہے۔بس باضابطہ اعلان کی کسر ہے تاکہ عرب ممالک ، او آئی سی ، اقوامِ متحدہ اور کچھ غیر عرب ریاستیں بین الاقوامی قوانین کا علم اٹھائے پہلے کی طرح کچھ ہفتے ماتم کر سکیں۔

اگلا منصوبہ یہ ہے کہ اسرائیل کس طرح غزہ سے تمام فلسطینیوں کو زندہ یا مردہ نکالتا ہے ، جنوبی لبنان کی سرحدی پٹی پر مستقل پنجے گاڑنا ہے اور جنوبی شام کے گولان سے متصل کچھ اور علاقے ہڑپ کرنے کے عمل میں قبائلی و علاقائی خانہ جنگی کو ہوا دے کر شام کے چار ٹکڑے ( دروز ، علوی ، سنی ، کرد ) کرواتا ہے۔

 علاقے میں بس ترکی آخری طاقت رہ گیا ہے جو اسرائیل کو کبھی منہ دے سکے۔چنانچہ ان سب ہتھکنڈوں کا ہدف اگلے مرحلے میں ترکی کو تنہا کرنا ہے۔

آپ کے علم میں ہے کہ اسرائیلی بچوں کو اسکول میں کیا پڑھایا جاتا ہے ؟

’’ خدا نے دریاِ نیل تا فرات پھیلی زمین بنی اسرائیل کو ہمیشہ کے لیے بخشی ہے ‘‘۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں صیہونی فورسز کی بربریت جاری، مزید 80 فلسطینی شہید
  • حماس کو ’شکار کیا جائے گا‘، ٹرمپ وحشیانہ دھمکیوں پر اتر آئے
  • مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کیجانب سے مظاہرین کو دبانے کا عمل صیہونی رژیم کیساتھ تعاون کے مترادف ہے، حماس
  • غزہ سے پہلے مغربی کنارہ ہڑپ ہو رہا ہے
  • اسرائیل کا ایک اور متنازع قدم، پارلیمنٹ میں مغربی کنارے پر قبضے کی قرارداد منظور
  • امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام
  • غزہ میں جنگ بندی کی اسرائیلی تجویز کا جواب دے دیا ہے، حماس
  • حماس نے غزہ جنگ بندی معاہدے پر اپنا تحریری جواب ثالثوں کو بھیج دیا
  • مغربی کنارے میں اسرائیلی خودمختاری کی درخواست منظور، خبر ایجنسی
  • ہم نے ایران کیخلاف اسٹریٹجک گفتگو شروع کر رکھی ہے، غاصب صیہونی وزیر خارجہ کا دورہ کی اف