نہروں کا مںصوبہ ختم، سی سی آئی اجلاس میں باقاعدہ اعلان ہو جائے گا، وزیراعلیٰ سندھ
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
فائل فوٹو۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ چولستان کینال کا منصوبہ ختم ہوگیا، سی سی آئی اجلاس میں باقاعدہ اعلان بھی ہو جائےگا، پیپلز پارٹی کا اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنا موقف منوانا بڑی کامیابی ہے، یہ صرف بلاول بھٹو زرداری کی قیادت کا ہی کرشمہ ہے، ابھی نوٹیفکیشن مانگنے والے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے نہ لگائیں۔
وزیراعلیٰ سندھ نے یہ بات اسلام آباد میں کامیاب مذاکرات کے بعد وزیراعلیٰ ہاوس میں میڈیا بریفنگ کے دوران کہی، ان کے ہمراہ سینئر وزیر شرجیل انعام میمن اور وزیر آبپاشی جام خان شورو بھی موجود تھے۔
مراد علی شاہ نے اسلام آباد میں مذکرات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دو دن پہلے ہم نے متعلقہ حکام کو قائل کرلیا تھا کہ یہ منصوبہ قابل عمل نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانا بہتر ہوگا، ہم نے کہا کہ اس کی تاریخ کا اعلان کریں جس کے بعد دو مئی کو اجلاس بلانے کا فیصلہ ہوا۔
وزیراعلیٰ نے وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والا اعلامیہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس میں واضح لکھا ہے کہ صوبوں کے درمیان مکمل اتفاق رائے کے بغیر کوئی نہر نہیں بنے گی۔
انہوں نے بتایا کہ مذاکرات میں طے پایا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے نمائندے مشترکہ مفادات کونسل اجلاس میں منصوبہ دوبارہ متعلقہ فورم یعنی ارسا کو واپس بھیجنے کے حق میں ووٹ دیں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل میں ن لیگ کے پانچ ووٹ ہیں اور دو ووٹ پیپلز پارٹی (سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ) کے ہیں، اس لیے یہ یقینی ہے کہ منصوبہ واپس ارسا کو چلا جائےگا۔ یہ منصوبہ ارسا کے سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر بنا تھا جب وہ ہی واپس ہو جائے گا تو منصوبہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔
انھوں نے نے کہا کہ نوٹیفکیشن مانگنے والے قوم میں مزید انتشار نہ پھیلائیں۔ یہ ویسی ہی غیرمنطقی بات ہے جس طرح صدر زرداری کےلیے کہا جا رہا تھا کہ انہوں نے نہروں کی منظوری دے دی ہے حالانکہ صدر کو ایسا اختیار ہی نہیں ہے اور بعد میں یہ ثابت بھی ہوگیا۔
وزیراعلیٰ سندھ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وکلا برادری کی ماضی کی قربانیوں اور کینالز کے معاملے پر موجودہ موقف کی قدر کرتے ہیں لیکن ان کو سوچنا چاہیے کہ جب معاملہ ختم ہوگیا ہے اس کے باوجود دھرنا جاری رکھ کر کیا وہ کسی کے ہاتھوں میں تو نہیں کھیل رہے ہیں؟ انہوں نے تمام فریقین سے اپیل کی کہ وہ عوام کی مشکلات کا خیال کرتے ہوئے احتجاج ختم کریں۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی چلتن گھی مل کیخلاف اقدامات کی ہدایات
کوئٹہ میں منعقدہ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کیخلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی زیر صدارت چلتن گھی مل سے متعلق اہم اجلاس چیف منسٹر سیکرٹریٹ کوئٹہ میں منعقد ہوا۔ جس میں صوبائی وزیر انڈسٹریز سردار کوہیار خان ڈومکی، چیف سیکرٹری بلوچستان شکیل قادر خان، پرنسپل سیکرٹری بابر خان، ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان، سیکرٹری انڈسٹریز، کمشنر کوئٹہ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ، ایڈمنسٹریشن کوئٹہ میونسپل کارپوریشن سمیت متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں 33 سال سے زیر قبضہ چلتن گھی مل کو سیل کرنے اور قابضین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ سیکرٹری انڈسٹریز نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 1992 میں معاہدے کی خلاف ورزی پر نجی کمپنی کی لیز ختم کردی گئی تھی، تاہم اس کے باوجود کمپنی نے غیر قانونی طور پر مل پر قبضہ برقرار رکھا ہے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ قابضین کی جانب سے عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ میں دائر درخواستیں بھی مسترد ہوچکی ہیں، جبکہ کمپنی پر حکومت بلوچستان کے 23 کروڑ روپے سے زائد کی رقم واجب الادا ہے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس معاملے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ چلتن گھی مل کو فوری طور پر سرکاری تحویل میں لیا جائے اور قابضین کے خلاف قانونی و انتظامی کارروائی عمل میں لائی جائے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ سرکاری املاک پر قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان کی پالیسی بالکل واضح ہے۔ سرکاری اثاثے عوام کی امانت ہیں۔ ان پر نجی قبضے کسی قیمت پر قبول نہیں کیے جائیں گے۔ سرفراز بگٹی نے متعلقہ محکموں کو ہدایت کی کہ سابق نجی کمپنی کے تمام قبضہ شدہ حصے واگزار کرائے جائیں۔ واجب الادا رقم کی فوری وصولی یقینی بنائی جائے اور اس ضمن میں غفلت برتنے والے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے۔