پہلگام حملے میں کشمیری ٹورسٹ گائیڈ نے ریاست چھتیس گڑھ کے 11 لوگوں کی جان بچائی
اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT
بی جے پی یووا مورچہ کے لیڈر اروند اگروال نے نزاکت علی کیساتھ اپنی تصویر سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر شیئر کی ہے اور انکی مدد کی تعریف کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وادی کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 22 اپریل کو بڑی بے دردی کے ساتھ 26 سیاحوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ دہشت گردوں کی اس حرکت سے فطرت اور انسانیت شرمسار ہوگئی ہے۔ اس دہشت گردانہ حملے کے درمیان پہلگام کے نزاکت احمد شاہ کی بہادری نے بھارتی ریاست چھتیس گڑھ کے 11 لوگوں کی جان بچائی۔ یہ چرمیری کے چار خاندانوں کے لوگ تھے، جن کی جان نزاکت احمد شاہ نے بچائی۔ بی جے پی یووا مورچہ کے لیڈر اروند اگروال، جو ٹورسٹ گروپ کا حصہ تھے، نے نزاکت علی کے ساتھ اپنی تصویر سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر شیئر کی ہے اور ان کی مدد کی تعریف کی ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہماری جان بچائی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نزاکت بھائی کا احسان کبھی نہیں چکا سکیں گے۔ خود بی جے پی کے لیڈر اروند اگروال نے خوبصورتی سے یہ تصویر پوسٹ کی ہے اور سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر ان کی تعریف کی ہے۔
انہوں نے لکھا "جب دہشت گرد گولیاں برسا رہے تھے، پھر نزاکت احمد شاہ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہم سب کی جان بچائی، انہوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ہماری جان بچائی، ہم نزاکت بھائی کا احسان کبھی نہیں چکا پائیں گے"۔ سیاح شیوانشی جین، جو پہلگام کی سیر کے لئے گئی تھی، نے اپنے گھر والوں کو فون کیا اور انہیں نزاکت علی کے بارے میں مطلع کیا۔ اس نے نزاکت علی کی بہادری کے بارے میں چرمیری میں رہنے والے اپنے گھر والوں کو بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو کشمیر کے ایک کاروباری نزاکت علی شاہ آگے آئے اور سب کو حملے کی جگہ سے باہر لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت اور کشمیریت کی جو مثال نزاکت علی نے قائم کی ہے، چرمیری کے مکین اس سے بے حد خوش ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سوشل میڈیا جان بچائی نزاکت علی انہوں نے کی جان
پڑھیں:
اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کون تھیں؟
اسلام آباد کے علاقے جی-13 میں گزشتہ روز نامعلوم شخص نے ایک گھر میں گھس کر 17 سالہ لڑکی پر فائرنگ کی، جس سے وہ شدید زخمی ہوئی اور بعدازاں زندگی کی بازی ہار گئی۔
اسلام آباد پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرکے تفتیش شروع کر دی ہے تاہم ابھی تک ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ اسلام آباد پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق قتل کا واقعہ گزشتہ روز شام 5 بجے کے قریب پیش آیا۔ ایف آئی آر میں مقتولہ کی شناخت ثنا یوسف کے نام سے ہوئی ہے۔
‘ملزم گھر میں داخل ہوا، بیٹی پر فائرنگ کر دی’ایف آئی آر میں مقتولہ کی والدہ فرزانہ یوسف نے پولیس کو بتایا ہے کہ واقعے کے وقت ان کے شوہر کسی کام سے باہر گئے تھے اور گھر میں موجود نہیں تھے، جبکہ ان کا بیٹا آبائی گاؤں چترال گیا ہوا تھا۔ اس وقت ثنا یوسف کے علاوہ ان کی ماں اور نند گھر میں تھیں۔
پولیس رپورٹ کے مطابق نامعلوم شخص گھر میں داخل ہوا اور سیڑھیوں سے اوپر کے پورشن میں جاکر ان کی بیٹی کو ان کے کمرے میں نشانہ بنایا۔ ‘میری بیٹی پر نامعلوم شخص نے پستول سے 2 گولیاں ماریں، جو سینے میں لگیں۔’
Famous influencer from Chitral, Sana Yousaf, shot dead in Islamabad
Sana Yousaf was reportedly shot and killed by an unidentified assailant who entered the house of her relatives in Islamabad’s G-13 sector and fled the scene after the attack.#MagpieNews #SanaYousaf #Influencer pic.twitter.com/74aZAUpju8
— Magpie News (@MagpieChitral) June 3, 2025
تفصیلات کے مطابق واقعے کے بعد ملزم مقتولہ کا موبائل بھی لے کر فرار ہوگیا، جبکہ والدہ نے پڑوسی کی گاڑی میں ثنا کو اسپتال منتقل کیا، مگر وہ راستے میں دم توڑ گئی۔
‘واقعہ غیرت کے نام پر قتل کا نہیں ہے’واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر ثنا کے قتل کی خبر وائرل ہو گئی، اور کچھ حلقے اسے غیرت کے نام پر قتل قرار دینے لگے جس کے بعد اسلام آباد پولیس کا مؤقف بھی سامنے آیا۔
پولیس کے مطابق واقعے کی تفتیش جاری ہے، اور اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ واقعہ غیرت کے نام پر قتل نہیں ہے۔ پولیس کے مطابق اہل خانہ نے بھی ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات جاری ہیں اور جلد ملزم قانون کی گرفت میں آئیں گے۔
ثنا یوسف کون تھیں؟17 سالہ ثنا یوسف کا تعلق اپر چترال کے علاقے چوئنج سے تھا اور وہ اسلام آباد میں مقیم مشہور سماجی کارکن سید یوسف حسن کی بڑی بیٹی تھیں۔ ثنا یوسف اسلام آباد میں پری میڈیکل کی طالبہ اور سوشل میڈیا انفلوئنسر تھیں، جن کے مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر 5 لاکھ سے زائد فالوورز تھے۔
یوسف حسن کے دوست اور رشتہ دار سید کوثر نے بتایا کہ ثنا بہت ہی معصوم بچی تھی، جو پڑھائی کے ساتھ سوشل میڈیا پر اپنی روزمرہ زندگی کی ویڈیوز شئیر کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ چترال کے لوگ انتہائی پُرامن لوگ ہیں، اور نہ ہی یوسف حسن یا ان کی بیٹی کا کسی سے کوئی مسئلہ یا دشمنی تھی۔
سید کوثر کا بتانا ہے کہ چترال میں غیرت کے نام پر قتل کا کوئی رواج نہیں ہے اور نہ ہی ثنا کوئی ایسا کام کرتی تھیں جس سے گھر والے ناراض ہوں۔ ‘ثنا کی سوشل میڈیا ویڈیوز ان کے گھر والے ہی بناتے تھے۔ وہ اکثر ویڈیوز گھر پہ ہی بناتی تھیں جبکہ ان کا ماموں خود ہر وقت ساتھ ہوتا تھا اور ویڈیوز بناتا تھا۔’
انہوں نے بتایا کہ ثنا سب سے بڑی اولاد تھیں، جبکہ ان کا ایک اکلوتا چھوٹا بھائی ہے، جو اس وقت چند دن کے لیے آبائی گاؤں گیا ہوا تھا۔
تدفین چوئنج میں ہوگیثنا یوسف کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ثنا یوسف کی لاش کو قانونی تقاضے پورے ہونے پر پولیس نے لواحقین کے حوالے کیا، جس کے بعد ان کی نماز جنازہ اسلام آباد میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ اس کے بعد اہل خانہ باڈی کو تدفین کے لیے آبائی علاقے لے کر گئے، جہاں آج ان کی تدفین آبائی قبرستان میں کی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسٹاگرام ثنا یوسف ٹک ٹاک چترال خواتین سوشل میڈیا انفلوئنسر قتل واردات