کشمیر کا تنازعہ، کیا کوئی نیا مسلح تصادم ممکن ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) اس دنیا میں چند ہی علاقے ایسے ہیں، جہاں کشیدگی اور تناؤ مستقل رہتا ہے۔ کشمیر کا خطہ ایسے ہی علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں واقع یہ سرزمین تین ایٹمی طاقتوں بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ یہ خطہ طویل عرصے سے علاقائی دشمنیوں اور حل طلب سرحدی تنازعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
اسی کشیدگی کا ایک نیا ثبوت اس ہفتے ایک ہلاکت خیز واقعہ بھی ہے۔ منگل 22 اپریل کو بھارتی زیرانتظام کشمیر میں شدت پسندوں نے پہلگام کے قریب ایک سیاحتی مقام پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔
بھارت نے اس واقعے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔
چند روز قبل ہی اس خطے کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے تبادلوں کے دوران تین عسکریت پسند اور ایک بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔
(جاری ہے)
یہ حالات اس بات کا اشارہ ہیں کہ کشمیر کے حالات بدستور انتہائی کشیدہ ہیں۔ کشمیر کی اہمیت کیوں؟تقریباً 222,200 مربع کلومیٹرپر پھیلا ہوا کشمیر کا خطہ بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان منقسم ہے۔ تاہم بھارت اور پاکستان اس پر مکمل حق ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اس خطے میں تقریباً دو کروڑ نفوس آباد ہیں۔ ان میں سے اندازاً ایک کروڑ 45 لاکھ بھارتی زیرانتظام علاقے میں، 60 لاکھ پاکستانی زیرانتظام علاقے میں اور چند ہزار چین کے زیرانتظام علاقے میں آباد ہیں۔
کشمیر نہ صرف جغرافیائی اور اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم ہے بلکہ مذہبی اور معاشی مفادات کے تناظر میں بھی اس خطے کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی ہے۔
تاریخ کیا کہتی ہے؟مسئلہ کشمیر کی جدید تاریخ سن 1947 سے شروع ہوتی ہے، جب برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان معرض وجود میں آئے۔ 'جموں و کشمیر‘ تقسیم ہند سے قبل ہندو مہا راجہ ہری سنگھ کے زیر حکومت تھی۔
ہری سنگھ نے ابتدائی طور پر دونوں ممالک میں سے کسی کے ساتھ الحاق سے انکار کر دیا تھا۔صورتحال اُس وقت بدل گئی جب سن 1947 میں ہی پاکستانی قبائلی جنگجوؤں نے خطے پر قبضے کی کوشش کی اور مہاراجہ ہری سنگھ کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی۔ اس کے نتیجے میں ہی پاکستان اور بھارت کے مابین پہلی جنگ چھڑی۔ اس جنگ میں مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد طلب کی اور بدلے میں اپنے ریاستی الحاق کا معاہدہ دہلی حکومت کے ساتھ کر لیا۔
اقوام متحدہ کا مؤقف کیا ہے؟سن 1948 میں بھارت نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا، جس نے قرارداد نمبر 47 منظور کی۔ اس قرارداد میں کشمیر کے مستقبل کے تعین کے لیے ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلائے، اور بھارت مطالبہ کیا گیا کہ وہ کمشیر میں اپنی فوجی موجودگی کو محدود بنائے۔
اگرچہ جنگ بندی نافذ ہو گئی، لیکن پاکستان نے اپنی فوجیں خطے سے نکالنے سے انکار کر دیا۔ یوں کشمیر عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس خطے کا یہ اسٹیٹس آج بھی ویسے ہی قائم ہے۔
آج بھارت کشمیر کے خطے کے سب سے زیادہ حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ اس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ شامل ہیں۔ پاکستان شمالی کشمیر کے کچھ حصوں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں، جن میں 'آزاد جموں و کشمیر‘ اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔
دوسری جانب چین شمال مشرق میں وادی شکسگام اور کم آبادی والے علاقے اکسائی چن کا کنٹرول سنھبالے ہوئے ہے۔ ان علاقوں پر بھارت بھی دعویٰ کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت چین کے اس کنٹرول کو تسلیم نہیں کرتا۔
پاکستان کی دلیل کیا ہے؟پاکستان کے کشمیر پر دعوے کی بنیاد اس دلیل پر قائم ہے کہ چونکہ اس خطے میں مسلم اکثریت تھی، اس لیے تقسیم کے وقت اسے پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا۔
دوسری طرف بھارت کا مؤقف ہے کہ سن 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے دستخط کردہ 'معاہدہ الحاق‘ کی بنیاد پر بھارت کا کشمیر پر دعویٰ قانونی ہے۔
تاہم کئی قانونی ماہرین اس معاہدے کی صداقت اور مبینہ طور پر جبر کے تحت ہری سنگھ سے کروائے جانے والے دستخط پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ اختلافات اب تک کئی جنگوں، مزاحمتی تحریکوں اور عشروں پر محیط سفارتی کشیدگی کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔
چین کا دعویٰ کیا ہے؟اگرچہ کشمیر کے تنازعے میں بھارت اور پاکستان مرکزی فریق ہیں مگر چین بھی اس مسئلے کا ایک اہم اسٹریٹیجک حصہ دار ہے۔ خطے کے شمال مشرقی حصے میں وادی شکسگام اور اکسائی چن نامی علاقے چین کے زیرانتظام ہیں لیکن بھارت ان پر دعویٰ کرتا ہے۔
وادی شکسگام اپنی سخت اور دشوار گزار زمین کے باعث تقریباً غیر آباد ہے مگر اکسائی چن چین کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ تبت اور مغربی علاقے سنکیانگ کے درمیان زمینی رابطے کا ایک کلیدی راستہ ہے۔
چین نے سن 1950 کی دہائی میں اُس وقت اکسائی چن پر قبضہ کیا، جب اس نے سنکیانگ اور تبت کو جوڑنے والی ایک اہم شاہراہ تعمیر کی، جو بھارت کے دعوے کردہ علاقے سے گزرتی تھی۔ بھارت نے اس چینی موجودگی پر شدید اعتراض کیا اور یہ کشیدگی سن 1962 کی مختصر مگر شدید سرحدی جنگ میں تبدیل ہو گئی تھی۔
اس جنگ کے بعد چین نے اکسائی چن پر کنٹرول برقرار رکھا اور تاحال اسے اپنے زیرانتظام رکھے ہوئے ہے۔
حالیہ برسوں میں چین نے بھارت کے ساتھ متنازعہ 'لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ (ایل اے سی) پر اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان اکثر سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔چین کے لیے یہ خطہ صرف اسٹریٹیجک اہمیت کا ہی حامل نہیں بلکہ معاشی مفادات کا بھی ضامن قرار دیا جاتا ہے۔ بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم حصہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری (CPEC) پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان سے گزرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں استحکام بیجنگ کے لیے محض جغرافیائی نہیں بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ فوجیوں سے گھرا ہوا خطہاندازہ ہے کہ بھارت نے جموں و کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں، جن کی بڑی تعداد مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں تعینات ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی جانب سے بھی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں، جن میں خصوصی دستے، جیسا کہ مجاہد فورس بھی شامل ہیں۔
اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر دو لاکھ تیس ہزار پاکستانی فوجی اس خطے میں موجود ہیں۔دونوں ممالک ایک دوسرے پر اپنی اپنی فوجی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور سرکاری سطح پر درست اعداد و شمار شائع نہیں کیے جاتے۔
بھارتی زیرانتظام کشمیر میں مسلح مزاحمتی تحریک سن 1980 کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی، جو مقامی بے چینی اور مبینہ بیرونی مدد کے امتزاج سے جاری رہی۔
بھارت پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ شدت پسند گروپوں کی حمایت کرتا ہے، جسے اسلام آباد حکومت مسترد کرتی ہے۔گزشتہ دہائیوں میں حزب المجاہدین، جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسے گروپ خطے میں کئی حملے کر چکے ہیں، جنہوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ اور خطرناک بنا دیا ہے۔
کیا ایک نیا بحران سر اٹھانے کو ہے؟حالیہ حملے کے جواب میں، بھارت نے پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں سفارتی تعلقات میں کمی، زمینی اور فضائی سرحدوں کی بندش اور سن 1960 کےسندھ طاس معاہدے کی معطلی شامل ہے۔
یہ واٹر ٹریٹی دونوں ملکوں کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا ضابطہ طے کرتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو ممکنہ ''جنگی اقدام‘‘ تصور کیا جائے گا۔اس صورتحال میں کشمیر کے خطے میں ایک بار پھر فوجی کشیدگی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسا سن 2019 میں دیکھنے کو ملا تھا۔ تب پلوامہ میں خودکش حملے میں 40 بھارتی نیم فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔
اس کے ردعمل میں بھارت نے پاکستانی شہر بالاکوٹ کے قریب فضائی حملہ کیا اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر آ گئے تھے۔اسی برس بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو بھی منسوخ کر دیا تھا، جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی خودمختار حیثیت حاصل تھی۔ اس اقدام کی پاکستان نے سخت مخالفت کی اور اس کے بعد سے خطے میں بدامنی میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ اس بھارتی اقدام پر عالمی توجہ وقت کے ساتھ کم ہو گئی لیکن سرحدی کشیدگی بدستور جاری ہے۔
کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جو پہلے بھی کئی جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ وہاں موجودہ کشیدہ حالات عالمی برداری کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔
مونیر قائدی (عاطف بلوچ)
ادارت: افسر اعوان
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اپنی فوجی اکسائی چن کے درمیان کشمیر کے ہری سنگھ بھارت نے کے ساتھ کے لیے کر دیا جنگ کے چین کے
پڑھیں:
دنیا کو جوہری طاقتوں کے درمیان مکمل تصادم کے امکان پر فکر مند ہونا چاہیئے، خواجہ آصف
برطانوی ٹی وی اسکائی نیوز کو انٹرویو میں وفاقی وزیر خواجہ آصف نے پہلگام واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام مسترد کرتے ہوئے حملے کو بھارت کا فالس فلیگ آپریشن قرار دے دیا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جیسا حملہ ہوا ویسا ہی جواب ہوگا، پاکستان بھارت تنازع مکمل جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے، دنیا کو جوہری طاقتوں کے درمیان مکمل تصادم کے امکان پر فکر مند ہونا چاہیئے، مکمل حملہ ہوا تو مکمل جنگ ہوگی، پاکستانی فوج ہرطرح کی صورتحال کے لیے تیار ہے۔ برطانوی ٹی وی اسکائی نیوز کو انٹرویو میں وفاقی وزیر خواجہ آصف نے پہلگام واقعے میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام مسترد کرتے ہوئے حملے کو بھارت کا فالس فلیگ آپریشن قرار دے دیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ دنیا کو جوہری ہتھیار رکھنے والے دونوں ممالک کے درمیان مکمل جنگ کے امکان کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیئے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ تنازع مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے گا۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ پاکستانی فوج دونوں جانب سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور سفارتی اقدامات کے درمیان کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان بھارت کے کسی بھی حملے کا منہ توڑ جواب دے گا، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا، دونوں ملکوں کے تصادم کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے، جیسا حملہ ہوا ویسا ہی جواب ہوگا، پاک بھارت تنازع مکمل جنگ کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ہم بھارت کی کسی بھی جارحیت کا ناپ تول کر جواب دیں گے، اگر مکمل حملہ ہوتا ہے تو مکمل جنگ ہوگی۔