UrduPoint:
2025-09-18@14:53:46 GMT

کشمیر کا تنازعہ، کیا کوئی نیا مسلح تصادم ممکن ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

کشمیر کا تنازعہ، کیا کوئی نیا مسلح تصادم ممکن ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) اس دنیا میں چند ہی علاقے ایسے ہیں، جہاں کشیدگی اور تناؤ مستقل رہتا ہے۔ کشمیر کا خطہ ایسے ہی علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں واقع یہ سرزمین تین ایٹمی طاقتوں بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ یہ خطہ طویل عرصے سے علاقائی دشمنیوں اور حل طلب سرحدی تنازعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اسی کشیدگی کا ایک نیا ثبوت اس ہفتے ایک ہلاکت خیز واقعہ بھی ہے۔ منگل 22 اپریل کو بھارتی زیرانتظام کشمیر میں شدت پسندوں نے پہلگام کے قریب ایک سیاحتی مقام پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

بھارت نے اس واقعے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔

چند روز قبل ہی اس خطے کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے تبادلوں کے دوران تین عسکریت پسند اور ایک بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔

(جاری ہے)

یہ حالات اس بات کا اشارہ ہیں کہ کشمیر کے حالات بدستور انتہائی کشیدہ ہیں۔ کشمیر کی اہمیت کیوں؟

تقریباً 222,200 مربع کلومیٹرپر پھیلا ہوا کشمیر کا خطہ بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان منقسم ہے۔ تاہم بھارت اور پاکستان اس پر مکمل حق ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اس خطے میں تقریباً دو کروڑ نفوس آباد ہیں۔ ان میں سے اندازاً ایک کروڑ 45 لاکھ بھارتی زیرانتظام علاقے میں، 60 لاکھ پاکستانی زیرانتظام علاقے میں اور چند ہزار چین کے زیرانتظام علاقے میں آباد ہیں۔

کشمیر نہ صرف جغرافیائی اور اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم ہے بلکہ مذہبی اور معاشی مفادات کے تناظر میں بھی اس خطے کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی ہے۔

تاریخ کیا کہتی ہے؟

مسئلہ کشمیر کی جدید تاریخ سن 1947 سے شروع ہوتی ہے، جب برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان معرض وجود میں آئے۔ 'جموں و کشمیر‘ تقسیم ہند سے قبل ہندو مہا راجہ ہری سنگھ کے زیر حکومت تھی۔

ہری سنگھ نے ابتدائی طور پر دونوں ممالک میں سے کسی کے ساتھ الحاق سے انکار کر دیا تھا۔

صورتحال اُس وقت بدل گئی جب سن 1947 میں ہی پاکستانی قبائلی جنگجوؤں نے خطے پر قبضے کی کوشش کی اور مہاراجہ ہری سنگھ کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی۔ اس کے نتیجے میں ہی پاکستان اور بھارت کے مابین پہلی جنگ چھڑی۔ اس جنگ میں مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد طلب کی اور بدلے میں اپنے ریاستی الحاق کا معاہدہ دہلی حکومت کے ساتھ کر لیا۔

اقوام متحدہ کا مؤقف کیا ہے؟

سن 1948 میں بھارت نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا، جس نے قرارداد نمبر 47 منظور کی۔ اس قرارداد میں کشمیر کے مستقبل کے تعین کے لیے ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلائے، اور بھارت مطالبہ کیا گیا کہ وہ کمشیر میں اپنی فوجی موجودگی کو محدود بنائے۔

اگرچہ جنگ بندی نافذ ہو گئی، لیکن پاکستان نے اپنی فوجیں خطے سے نکالنے سے انکار کر دیا۔ یوں کشمیر عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس خطے کا یہ اسٹیٹس آج بھی ویسے ہی قائم ہے۔

آج بھارت کشمیر کے خطے کے سب سے زیادہ حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ اس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ شامل ہیں۔ پاکستان شمالی کشمیر کے کچھ حصوں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں، جن میں 'آزاد جموں و کشمیر‘ اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔

دوسری جانب چین شمال مشرق میں وادی شکسگام اور کم آبادی والے علاقے اکسائی چن کا کنٹرول سنھبالے ہوئے ہے۔ ان علاقوں پر بھارت بھی دعویٰ کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت چین کے اس کنٹرول کو تسلیم نہیں کرتا۔

پاکستان کی دلیل کیا ہے؟

پاکستان کے کشمیر پر دعوے کی بنیاد اس دلیل پر قائم ہے کہ چونکہ اس خطے میں مسلم اکثریت تھی، اس لیے تقسیم کے وقت اسے پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا۔

دوسری طرف بھارت کا مؤقف ہے کہ سن 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے دستخط کردہ 'معاہدہ الحاق‘ کی بنیاد پر بھارت کا کشمیر پر دعویٰ قانونی ہے۔

تاہم کئی قانونی ماہرین اس معاہدے کی صداقت اور مبینہ طور پر جبر کے تحت ہری سنگھ سے کروائے جانے والے دستخط پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ اختلافات اب تک کئی جنگوں، مزاحمتی تحریکوں اور عشروں پر محیط سفارتی کشیدگی کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔

چین کا دعویٰ کیا ہے؟

اگرچہ کشمیر کے تنازعے میں بھارت اور پاکستان مرکزی فریق ہیں مگر چین بھی اس مسئلے کا ایک اہم اسٹریٹیجک حصہ دار ہے۔ خطے کے شمال مشرقی حصے میں وادی شکسگام اور اکسائی چن نامی علاقے چین کے زیرانتظام ہیں لیکن بھارت ان پر دعویٰ کرتا ہے۔

وادی شکسگام اپنی سخت اور دشوار گزار زمین کے باعث تقریباً غیر آباد ہے مگر اکسائی چن چین کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ تبت اور مغربی علاقے سنکیانگ کے درمیان زمینی رابطے کا ایک کلیدی راستہ ہے۔

چین نے سن 1950 کی دہائی میں اُس وقت اکسائی چن پر قبضہ کیا، جب اس نے سنکیانگ اور تبت کو جوڑنے والی ایک اہم شاہراہ تعمیر کی، جو بھارت کے دعوے کردہ علاقے سے گزرتی تھی۔ بھارت نے اس چینی موجودگی پر شدید اعتراض کیا اور یہ کشیدگی سن 1962 کی مختصر مگر شدید سرحدی جنگ میں تبدیل ہو گئی تھی۔

اس جنگ کے بعد چین نے اکسائی چن پر کنٹرول برقرار رکھا اور تاحال اسے اپنے زیرانتظام رکھے ہوئے ہے۔

حالیہ برسوں میں چین نے بھارت کے ساتھ متنازعہ 'لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ (ایل اے سی) پر اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان اکثر سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

چین کے لیے یہ خطہ صرف اسٹریٹیجک اہمیت کا ہی حامل نہیں بلکہ معاشی مفادات کا بھی ضامن قرار دیا جاتا ہے۔ بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم حصہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری (CPEC) پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان سے گزرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں استحکام بیجنگ کے لیے محض جغرافیائی نہیں بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ فوجیوں سے گھرا ہوا خطہ

اندازہ ہے کہ بھارت نے جموں و کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں، جن کی بڑی تعداد مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں تعینات ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی جانب سے بھی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں، جن میں خصوصی دستے، جیسا کہ مجاہد فورس بھی شامل ہیں۔

اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر دو لاکھ تیس ہزار پاکستانی فوجی اس خطے میں موجود ہیں۔

دونوں ممالک ایک دوسرے پر اپنی اپنی فوجی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور سرکاری سطح پر درست اعداد و شمار شائع نہیں کیے جاتے۔

بھارتی زیرانتظام کشمیر میں مسلح مزاحمتی تحریک سن 1980 کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی، جو مقامی بے چینی اور مبینہ بیرونی مدد کے امتزاج سے جاری رہی۔

بھارت پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ شدت پسند گروپوں کی حمایت کرتا ہے، جسے اسلام آباد حکومت مسترد کرتی ہے۔

گزشتہ دہائیوں میں حزب المجاہدین، جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسے گروپ خطے میں کئی حملے کر چکے ہیں، جنہوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ اور خطرناک بنا دیا ہے۔

کیا ایک نیا بحران سر اٹھانے کو ہے؟

حالیہ حملے کے جواب میں، بھارت نے پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں سفارتی تعلقات میں کمی، زمینی اور فضائی سرحدوں کی بندش اور سن 1960 کےسندھ طاس معاہدے کی معطلی شامل ہے۔

یہ واٹر ٹریٹی دونوں ملکوں کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا ضابطہ طے کرتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو ممکنہ ''جنگی اقدام‘‘ تصور کیا جائے گا۔

اس صورتحال میں کشمیر کے خطے میں ایک بار پھر فوجی کشیدگی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسا سن 2019 میں دیکھنے کو ملا تھا۔ تب پلوامہ میں خودکش حملے میں 40 بھارتی نیم فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

اس کے ردعمل میں بھارت نے پاکستانی شہر بالاکوٹ کے قریب فضائی حملہ کیا اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر آ گئے تھے۔

اسی برس بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو بھی منسوخ کر دیا تھا، جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی خودمختار حیثیت حاصل تھی۔ اس اقدام کی پاکستان نے سخت مخالفت کی اور اس کے بعد سے خطے میں بدامنی میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ اس بھارتی اقدام پر عالمی توجہ وقت کے ساتھ کم ہو گئی لیکن سرحدی کشیدگی بدستور جاری ہے۔

کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جو پہلے بھی کئی جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ وہاں موجودہ کشیدہ حالات عالمی برداری کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔

مونیر قائدی (عاطف بلوچ)

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اپنی فوجی اکسائی چن کے درمیان کشمیر کے ہری سنگھ بھارت نے کے ساتھ کے لیے کر دیا جنگ کے چین کے

پڑھیں:

بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا ، کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلئے تیار ہیں.اسحاق ڈار

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16 ستمبر ۔2025 )وزیر خارجہ سینیٹراسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا ، بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلئے تیار ہیں تاہم پاکستان کسی سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگے گا،انہوں نے کہا کہ اسرائیل کا ایک خود مختار ملک پر حملے کا کوئی جواز نہیں ہے، قطر پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں، اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا، غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی یقینی بنائی جائے.

(جاری ہے)

قطری نشریاتی ادارے ”الجزیرہ“ سے انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل کا لبنان اور شام کے بعد قطر پر حملہ ناقابل قبول اور عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) فورم پر قطر پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے پاکستان نے ہمیشہ تنازعات کا بات چیت کے ذریعے پرامن انداز میں حل کی حمایت کی، قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد ہم نے صومالیہ کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کی درخواست کی.

ان کا کہنا تھا کہ قطر کے دوست اوربرادرملک کے طور پر پاکستان نے فعال کردارادا کیا، دوحہ میں عرب اسلامی ہنگامی اجلاس بہت اہمیت کا حامل ہے، قطر پر اسرائیل کا حملہ مکمل طور پر خلاف توقع اقدام ہے، اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں،اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیارکرنا ہوگا. اسحاق ڈار کاکہنا تھا کہ اسرائیلی حملوں کی صرف مذمت ہی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے خلاف واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا اسرائیلی اشتعال انگیزیوں سے واضح ہے کہ وہ ہرگز امن نہیں چاہتا ہے دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا.

سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ غزہ کے عوام انتہائی مشکل وقت گزار رہے ہیں، غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی جاری ہے، وقت آگیا ہے کہ غزہ میں غیر مشروط جنگ بندی یقینی بنائی جائے امت مسلمہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف متحد ہے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا کیونکہ وہ سندھ طاس معاہدے سے فرار چاہتا ہے.

انہوں نے کہا ہے کہ مسائل کے حل کے لئے مذاکرات بہترین راستہ ہے اور پاکستان امن پسند ملک ہے جو مذاکرات سے مسائل کاحل چاہتا ہے بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کے لیے تیار ہیں تاہم اسحاق ڈار نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کسی سے مذاکرات کی بھیک نہیں مانگے گا. اسحاق ڈار نے واضح کیا کہ بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان کے پاس مضبوط افواج اور جدید ہتھیارموجود ہیں، پاکستان کے پاس مضبوط افواج ،دفاعی صلاحیتیں موجود ہیں، ہم کسی کو اپنی خودمختاری اورسالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیں گے سلامتی کونسل میں اصلاحات کی جانی چاہئیں. 

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر آل پارٹیز کا مسلح افواج سے یکجہتی کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ
  • پنجاب بمقابلہ بہار تنازعہ، مودی کی ناکام پالیسیوں کے باعث بھارت میں نئی دراڑ
  • ریفری اینڈی پائی کرافٹ پاکستان کے خلاف بھارت کا ہتھیار، سابق ٹیسٹ کرکٹر نے سب راز کھول دیئے
  • آزاد کشمیر آل پارٹیز کا مسلح افواج سے یکجہتی کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ
  • بھارت سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ ختم یا معطل نہیں کرسکتا ، کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کےلئے تیار ہیں.اسحاق ڈار
  • ایشیاءکپ میں ہاتھ ملانے کا تنازعہ،بھارتی کرکٹ بورڈکا بیان آگیا
  • ملکی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں :اسحاق ڈار
  • پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حمایت جاری رکھے گا، عطاء اللہ تارڑ
  • ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار