UrduPoint:
2025-11-05@02:13:14 GMT

کشمیر کا تنازعہ، کیا کوئی نیا مسلح تصادم ممکن ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

کشمیر کا تنازعہ، کیا کوئی نیا مسلح تصادم ممکن ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 26 اپریل 2025ء) اس دنیا میں چند ہی علاقے ایسے ہیں، جہاں کشیدگی اور تناؤ مستقل رہتا ہے۔ کشمیر کا خطہ ایسے ہی علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ ہمالیہ کے پہاڑوں میں واقع یہ سرزمین تین ایٹمی طاقتوں بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ یہ خطہ طویل عرصے سے علاقائی دشمنیوں اور حل طلب سرحدی تنازعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔

اسی کشیدگی کا ایک نیا ثبوت اس ہفتے ایک ہلاکت خیز واقعہ بھی ہے۔ منگل 22 اپریل کو بھارتی زیرانتظام کشمیر میں شدت پسندوں نے پہلگام کے قریب ایک سیاحتی مقام پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں کم از کم 26 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔

بھارت نے اس واقعے کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔

چند روز قبل ہی اس خطے کے مختلف علاقوں میں فائرنگ کے تبادلوں کے دوران تین عسکریت پسند اور ایک بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔

(جاری ہے)

یہ حالات اس بات کا اشارہ ہیں کہ کشمیر کے حالات بدستور انتہائی کشیدہ ہیں۔ کشمیر کی اہمیت کیوں؟

تقریباً 222,200 مربع کلومیٹرپر پھیلا ہوا کشمیر کا خطہ بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان منقسم ہے۔ تاہم بھارت اور پاکستان اس پر مکمل حق ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اس خطے میں تقریباً دو کروڑ نفوس آباد ہیں۔ ان میں سے اندازاً ایک کروڑ 45 لاکھ بھارتی زیرانتظام علاقے میں، 60 لاکھ پاکستانی زیرانتظام علاقے میں اور چند ہزار چین کے زیرانتظام علاقے میں آباد ہیں۔

کشمیر نہ صرف جغرافیائی اور اسٹریٹیجک لحاظ سے اہم ہے بلکہ مذہبی اور معاشی مفادات کے تناظر میں بھی اس خطے کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جا سکتی ہے۔

تاریخ کیا کہتی ہے؟

مسئلہ کشمیر کی جدید تاریخ سن 1947 سے شروع ہوتی ہے، جب برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان معرض وجود میں آئے۔ 'جموں و کشمیر‘ تقسیم ہند سے قبل ہندو مہا راجہ ہری سنگھ کے زیر حکومت تھی۔

ہری سنگھ نے ابتدائی طور پر دونوں ممالک میں سے کسی کے ساتھ الحاق سے انکار کر دیا تھا۔

صورتحال اُس وقت بدل گئی جب سن 1947 میں ہی پاکستانی قبائلی جنگجوؤں نے خطے پر قبضے کی کوشش کی اور مہاراجہ ہری سنگھ کو اقتدار سے ہٹانے کی سازش کی۔ اس کے نتیجے میں ہی پاکستان اور بھارت کے مابین پہلی جنگ چھڑی۔ اس جنگ میں مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے فوجی مدد طلب کی اور بدلے میں اپنے ریاستی الحاق کا معاہدہ دہلی حکومت کے ساتھ کر لیا۔

اقوام متحدہ کا مؤقف کیا ہے؟

سن 1948 میں بھارت نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اٹھایا، جس نے قرارداد نمبر 47 منظور کی۔ اس قرارداد میں کشمیر کے مستقبل کے تعین کے لیے ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلائے، اور بھارت مطالبہ کیا گیا کہ وہ کمشیر میں اپنی فوجی موجودگی کو محدود بنائے۔

اگرچہ جنگ بندی نافذ ہو گئی، لیکن پاکستان نے اپنی فوجیں خطے سے نکالنے سے انکار کر دیا۔ یوں کشمیر عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس خطے کا یہ اسٹیٹس آج بھی ویسے ہی قائم ہے۔

آج بھارت کشمیر کے خطے کے سب سے زیادہ حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔ اس میں وادی کشمیر، جموں اور لداخ شامل ہیں۔ پاکستان شمالی کشمیر کے کچھ حصوں کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں، جن میں 'آزاد جموں و کشمیر‘ اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔

دوسری جانب چین شمال مشرق میں وادی شکسگام اور کم آبادی والے علاقے اکسائی چن کا کنٹرول سنھبالے ہوئے ہے۔ ان علاقوں پر بھارت بھی دعویٰ کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت چین کے اس کنٹرول کو تسلیم نہیں کرتا۔

پاکستان کی دلیل کیا ہے؟

پاکستان کے کشمیر پر دعوے کی بنیاد اس دلیل پر قائم ہے کہ چونکہ اس خطے میں مسلم اکثریت تھی، اس لیے تقسیم کے وقت اسے پاکستان کا حصہ بننا چاہیے تھا۔

دوسری طرف بھارت کا مؤقف ہے کہ سن 1947 میں مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے دستخط کردہ 'معاہدہ الحاق‘ کی بنیاد پر بھارت کا کشمیر پر دعویٰ قانونی ہے۔

تاہم کئی قانونی ماہرین اس معاہدے کی صداقت اور مبینہ طور پر جبر کے تحت ہری سنگھ سے کروائے جانے والے دستخط پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ اختلافات اب تک کئی جنگوں، مزاحمتی تحریکوں اور عشروں پر محیط سفارتی کشیدگی کی بنیاد بنے ہوئے ہیں۔

چین کا دعویٰ کیا ہے؟

اگرچہ کشمیر کے تنازعے میں بھارت اور پاکستان مرکزی فریق ہیں مگر چین بھی اس مسئلے کا ایک اہم اسٹریٹیجک حصہ دار ہے۔ خطے کے شمال مشرقی حصے میں وادی شکسگام اور اکسائی چن نامی علاقے چین کے زیرانتظام ہیں لیکن بھارت ان پر دعویٰ کرتا ہے۔

وادی شکسگام اپنی سخت اور دشوار گزار زمین کے باعث تقریباً غیر آباد ہے مگر اکسائی چن چین کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ تبت اور مغربی علاقے سنکیانگ کے درمیان زمینی رابطے کا ایک کلیدی راستہ ہے۔

چین نے سن 1950 کی دہائی میں اُس وقت اکسائی چن پر قبضہ کیا، جب اس نے سنکیانگ اور تبت کو جوڑنے والی ایک اہم شاہراہ تعمیر کی، جو بھارت کے دعوے کردہ علاقے سے گزرتی تھی۔ بھارت نے اس چینی موجودگی پر شدید اعتراض کیا اور یہ کشیدگی سن 1962 کی مختصر مگر شدید سرحدی جنگ میں تبدیل ہو گئی تھی۔

اس جنگ کے بعد چین نے اکسائی چن پر کنٹرول برقرار رکھا اور تاحال اسے اپنے زیرانتظام رکھے ہوئے ہے۔

حالیہ برسوں میں چین نے بھارت کے ساتھ متنازعہ 'لائن آف ایکچوئل کنٹرول‘ (ایل اے سی) پر اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان اکثر سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔

چین کے لیے یہ خطہ صرف اسٹریٹیجک اہمیت کا ہی حامل نہیں بلکہ معاشی مفادات کا بھی ضامن قرار دیا جاتا ہے۔ بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا اہم حصہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری (CPEC) پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان سے گزرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں استحکام بیجنگ کے لیے محض جغرافیائی نہیں بلکہ اقتصادی لحاظ سے بھی نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ فوجیوں سے گھرا ہوا خطہ

اندازہ ہے کہ بھارت نے جموں و کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے ہوئے ہیں، جن کی بڑی تعداد مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں تعینات ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی جانب سے بھی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں، جن میں خصوصی دستے، جیسا کہ مجاہد فورس بھی شامل ہیں۔

اندازہ ہے کہ مجموعی طور پر دو لاکھ تیس ہزار پاکستانی فوجی اس خطے میں موجود ہیں۔

دونوں ممالک ایک دوسرے پر اپنی اپنی فوجی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور سرکاری سطح پر درست اعداد و شمار شائع نہیں کیے جاتے۔

بھارتی زیرانتظام کشمیر میں مسلح مزاحمتی تحریک سن 1980 کی دہائی کے آخر میں شروع ہوئی، جو مقامی بے چینی اور مبینہ بیرونی مدد کے امتزاج سے جاری رہی۔

بھارت پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ شدت پسند گروپوں کی حمایت کرتا ہے، جسے اسلام آباد حکومت مسترد کرتی ہے۔

گزشتہ دہائیوں میں حزب المجاہدین، جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسے گروپ خطے میں کئی حملے کر چکے ہیں، جنہوں نے صورتحال کو مزید پیچیدہ اور خطرناک بنا دیا ہے۔

کیا ایک نیا بحران سر اٹھانے کو ہے؟

حالیہ حملے کے جواب میں، بھارت نے پاکستان کے خلاف متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں سفارتی تعلقات میں کمی، زمینی اور فضائی سرحدوں کی بندش اور سن 1960 کےسندھ طاس معاہدے کی معطلی شامل ہے۔

یہ واٹر ٹریٹی دونوں ملکوں کے درمیان دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا ضابطہ طے کرتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو ممکنہ ''جنگی اقدام‘‘ تصور کیا جائے گا۔

اس صورتحال میں کشمیر کے خطے میں ایک بار پھر فوجی کشیدگی کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسا سن 2019 میں دیکھنے کو ملا تھا۔ تب پلوامہ میں خودکش حملے میں 40 بھارتی نیم فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

اس کے ردعمل میں بھارت نے پاکستانی شہر بالاکوٹ کے قریب فضائی حملہ کیا اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر آ گئے تھے۔

اسی برس بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو بھی منسوخ کر دیا تھا، جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی خودمختار حیثیت حاصل تھی۔ اس اقدام کی پاکستان نے سخت مخالفت کی اور اس کے بعد سے خطے میں بدامنی میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ اس بھارتی اقدام پر عالمی توجہ وقت کے ساتھ کم ہو گئی لیکن سرحدی کشیدگی بدستور جاری ہے۔

کشمیر ایک ایسا خطہ ہے، جو پہلے بھی کئی جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ وہاں موجودہ کشیدہ حالات عالمی برداری کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔

مونیر قائدی (عاطف بلوچ)

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اپنی فوجی اکسائی چن کے درمیان کشمیر کے ہری سنگھ بھارت نے کے ساتھ کے لیے کر دیا جنگ کے چین کے

پڑھیں:

مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج جب دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، بھارتی فورسز کے اہلکار کشمیری صحافیوں کو مسلسل ہراساں اور گرفتار کر رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ذرائع کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ علاقے میں صحافی انتہائی مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں اور سچ بولنے پر ان کے خلاف کالے قوانین کے تحت مقدمات درج کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی زیر قیادت بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے میں میڈیا کا گلا گھونٹنے کے لیے ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، انہیں گرفتاریوں، پوچھ گچھ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام اور پبلک سیفٹی ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مخصوص واقعات میں صحافیوں سے ان کے ذرائع کے بارے میں پوچھ گچھ، آلات کی ضبطگی اور سوشل میڈیا پوسٹس یا خبروں کی رپورٹنگ پر ملک دشمن قرار دینے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس سے مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے اندر خوف و دہشت اور سیلف سنسر شپ کا کلچر پیدا ہوا ہے۔2019ء میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ مقامی صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامنا ہے جبکہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو تنقیدی رپورٹنگ پر علاقے تک رسائی سے انکار یا ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ ان اقدامات کا مقصد بھارتی بیانیے کو فروغ دینا اور خطے میں حالات معمول کے مطابق ظاہر کرنا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ الجزیرہ نے نومبر 2024ء کی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اکتوبر کی ایک سرد دوپہر کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں دس سالہ تجربہ رکھنے والے صحافی 33سالہ احمد(فرضی نام) کو ایک نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔ کال کرنے والے نے اپنی شناخت ایک پولیس افسر کے طور پر کرتے ہوئے احمد سے اس کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے بارے میں سوالات پوچھے۔احمد نے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر الجزیرہ کو بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں تھا بلکہ گزشتہ پانچ سالوں میں مجھے ہر چند ماہ بعد اس طرح کی کالیں موصول ہوتی رہی ہیں۔

احمد کا کہنا ہے کہ وہ پوچھتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں اس وقت کس کے لئے لکھ رہا ہوں، میں کس قسم کی خبریں چلاتا ہوں اور یہاں تک کہ آیا میں نے حال ہی میں بیرون ملک سفر کیا ہے؟سرینگر میں ایک صحافی نے بتایا کہ پچھلے چھ سالوں سے کم از کم ایک درجن ممتاز صحافیوں کو مسلسل نگرانی میں رکھا جا رہا ہے۔ ان سے ان کی رپورٹنگ یا سفر کے بارے میں تفصیلات پوچھی جا رہی ہیں جس سے حق رازداری اور پریس کی آزادی کا حق سلب کیا جا رہا ہے۔ ان صحافیوں کے پاسپورٹ ضبط کر لیے گئے ہیں جس سے انہیں بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماحول نے صحافیوں کو سیلف سنسر شپ اور حساس موضوعات سے گریز پر مجبور کیا ہے۔
متعدد صحافیوں پر کالے قوانین لاگوں کئے گئے ہیں جن کے تحت بغیر مقدمہ چلائے گرفتار اور نظربند کیا جا سکتا ہے۔ کئی صحافیوں کو نام نہاد مشکوک سرگرمیوں پر گرفتار اور نظربند کیا گیا ہے اور انہیں ضمانت پر رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کیا جاتا ہے۔

صحافیوں کو ان کے ذرائع یا رپورٹنگ کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاتا ہے اور موبائل فون، لیپ ٹاپ اور کیمرے سمیت ان کا سامان ضبط کیا جاتا ہے اور اکثر واپس نہیں کیا جاتا۔ احتجاجی مظاہروں کی کوریج کے دوران کئی صحافیوں کو پولیس نے مارا پیٹا۔ کئی صحافیوں کو گرفتار کر کے طویل عرصے تک نظربند کیا گیا۔ اگست 2018ء میں آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سرینگر میں فائرنگ سے متعلق ایک خبر چلانے پر گرفتار کیا گیا۔ مسرت زہرہ کو کالے قانون یو اے پی اے کے تحت اپریل 2020ء میں سوشل میڈیا پوسٹس پر ملک دشمن قرار دیا گیا جو اب جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ الجزیرہ اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سجاد گل کو جنوری 2022ء میں گرفتار کیا گیا اور رہائی کے عدالتی حکم کے باوجود پی ایس اے کے تحت نظربند رکھا گیا۔

عرفان معراج کو مارچ 2023ء میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام پر کالے قوانین کے تحت گرفتار کیا گیا۔ فہد شاہ کو بی جے پی حکومت اور اس کی پالیسیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرنے پر پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا۔ پیرزادہ عاشق کے خلاف اپریل 2020ء میں ایک خبر چلانے پر مقدمہ درج کیا گیا۔ پلٹزر ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو اور مصنف گوہر گیلانی سمیت کئی ممتاز صحافیوں کو بھارتی حکام نے فرانس، امریکہ اور جرمنی جیسے ممالک میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسوں، ایوارڈ زکی تقریبات اور نمائشوں میں شرکت سے روکنے کے لیے بیرون ملک سفر نہیں کرنے دیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی حکومت علاقے میں میڈیا کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بار بار گرفتاریوں سمیت ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ دفعہ 370کی منسوخی سے پہلے اور بعد میں آصف سلطان، فہد شاہ، ماجد حیدری اور سجاد گل جیسے نامور صحافیوں کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی پر کالے قوانین پی ایس اے اور یواے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔ رپورٹ میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ممتاز صحافی عرفان معراج انہی کالے قوانین کے تحت دہلی کی تہاڑ جیل میں نظر بند ہیں۔

بی جے پی حکومت نے 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں درجنوں صحافیوں کو گرفتار اور ہراساں کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء میں نام نہاد میڈیا پالیسی متعارف کرانے کے بعد بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آزاد صحافت کو تقریبا ناممکن بنا دیا ہے۔ صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں صحافت کو جرم بنا کر زمینی حقائق کو چھپا رہا ہے۔ د

ی وائر کے ایک تجزیے میں کہا گیا ہے کہ سرینگر سے شائع ہونے والے اخبارات کے ادارتی صفحات بی جے پی کے بیانیے کو فروغ دینے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اخبارات کے مضامین میں تنازعہ کشمیر جیسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے غیر سیاسی مسائل پر بحث کی جاتی ہے۔ 2024ء میں فرانسیسی صحافی وینیسا ڈوگناک کو جو طویل عرصے سے کشمیر اور دیگر حساس مسائل پر رپورٹنگ کرنے پر مودی کی ہندوتوا حکومت کی نگرانی میں تھیں، بھارت سے نکال دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے بی جے پی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور بھارت بھر میں 20 سے زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا ہے۔

بھارت میں سیاسی اسکینڈلز کی تحقیقات کے لیے مشہور صحافی راجیو پرتاپ کے حالیہ قتل نے صحافیوں کو درپیش خطرات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔ پرتاپ 18 ستمبر 2025ء کو اتراکھنڈ میں لاپتہ ہو گیا تھا اور دس دن بعد اس کی لاش اترکاشی ضلع کے جوشیارہ ہائیڈرو الیکٹرک بیراج سے ملی تھی۔ اسی طرح روزنامہ جاگرن کے صحافی راگھویندر باجپائی کو 8 مارچ 2025ء کو بی جے پی کے زیر اقتدار ریاست اتر پردیش کے ضلع سیتاپور میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ مندر کے ایک پجاری نے اس کے قتل کا منصوبہ بنایا جب باجپائی نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑا اور اسے کیمرے میں ریکارڈ کیا۔ایک اور کیس میں چھتیس گڑھ کے ضلع بیجاپور سے تعلق رکھنے والے ایک 33 سالہ فری لانس صحافی مکیش چندراکر لاپتہ ہو گیا جس نے یکم جنوری 2025ء کو بستر کے علاقے میں 120کروڑ روپے لاگت کی سڑک کی تعمیر کے منصوبے میں بدعنوانی کو بے نقاب کیا تھا۔ دو دن بعد اس کی لاش ایک ٹینک سے ملی جو ایک مقامی کنٹریکٹر کی ملکیت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • تعریفیں اور معاہدے
  • کشمیری عوام کو گزشتہ 78برس سے حل طلب تنازعہ کشمیر کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے، حریت کانفرنس
  • بھارت: ٹرک اور بس کے تصادم میں 21 مسافر ہلاک
  • لگتا ہے بھارت سمندر کے راستے کوئی فالس فلیگ آپریشن کریگا، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں سچ بولنے پر صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے
  • پاک افغان مذاکرات: افغان ہٹ دھرمی نئے تصادم کا باعث بن سکتی ہے
  • آزاد کشمیر ہمیں جہاد سے ملا اور باقی کشمیر کی آزادی کا بھی یہ ہی راستہ ہے، شاداب نقشبندی
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان