Juraat:
2025-04-29@09:42:07 GMT

سول نظام ناکام، تمام مقدمات فوجی عدالت بھیج دیں

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

سول نظام ناکام، تمام مقدمات فوجی عدالت بھیج دیں

 

سویلینز کے فوجی ٹرائل مقدمہ کی سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل کے سخت ریمارکس
آئینی بینچ کی سماعت کے دوران 7رکنی بینچ کے رکن اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران برہم

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے 3 نکات پر دلائل دینے ہیں، 9 مئی کے واقعات پر وزرات دفاع کے وکیل خواجہ حارث بھی دلائل دے چکے ہیں، میں بھی اس معاملے پر کچھ تفصیل عدالت کے سامنے رکھوں گا، میرے دلائل کا دوسرا حصہ مرکزی کیس کی سماعت کے دوران کروائی جانے والی یقین دہانیوں پر ہو گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ دلائل کا تیسرا نکتہ اپیل کے حق سے متعلق ہو گا، ملٹری ٹرائل کا سامنا کرنے والوں کو اپیل کا حق دینے کا معاملہ پالیسی میٹر ہے، اس پر ہدایات لے کر ہی گذارشات عدالت کے سامنے رکھ سکتا ہوں، پہلے سندھ کنال کا معاملہ زیرِ بحث رہا، اب بھارت نے جو کچھ کیا اس پر سب کی توجہ ہے، عالمی عدالت انصاف آج روانگی تھی لیکن منسوخ کر دی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ نے جو کرنا ہے کرے وہ ان کا پالیسی کا معاملہ ہے، ہم نے صرف اس کیس کی حد تک معاملے کو دیکھنا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے تو صرف گذارشات رکھی ہیں، آگے وقت دینا ہے یا نہیں، عدالت نے طے کرنا ہے، ملٹری ایکٹ میں شقیں 1967 سے موجود ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں سول نظام ناکام ہو چکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ دلائل میں کتنا وقت درکار ہو گا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ 45 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

ججز تبادلے اور سینیارٹی کیس: آئینی بینچ میں منیر اے ملک کے دلائل، سماعت کل تک ملتوی

سپریم کورٹ میں جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آیا وفاقی حکومت کے جواب میں کچھ تحریری مواد جمع کرایا گیا؟ اس پر درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک نے بتایا کہ ابھی تحریری جواب جمع نہیں کرایا گیا، تاہم جلد جمع کرا دیا جائے گا۔

منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 200، جو ججز کے تبادلے سے متعلق ہے، اسے تنہا نہیں پڑھا جا سکتا بلکہ اسے آرٹیکل 2 اے اور 175 اے کے ساتھ ملا کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل 2 اے عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، جبکہ ان کا بنیادی مؤقف یہی ہے کہ آرٹیکل 200 کا اصل مقصد عارضی تبادلے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ ججز ٹرانسفر کیس میں رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے جواب جمع

منیر اے ملک نے آئینی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں ججز کے تبادلے کی کوئی شق شامل نہیں تھی۔ بعد ازاں 1956 کے آئین میں اس حوالے سے شق متعارف کرائی گئی، جس کے تحت صدر، دونوں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی مشاورت سے ججز کا تبادلہ کر سکتا تھا، جو مخصوص یا عارضی مدت کے لیے ہوتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ 1962 کے آئین اور پھر 1973 کے آئین میں بھی ججز کے تبادلے کے لیے مخصوص دفعات رکھی گئیں۔ خاص طور پر آئین کے آرٹیکل 202 کے تحت صدر کو تبادلے کی مدت اور مراعات کا تعین کرنے کا اختیار حاصل تھا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد آرٹیکل 200(2) کے تحت یہ واضح کیا گیا کہ ججز کا تبادلہ صرف عارضی نوعیت کا ہوگا، اور بعد کی ترمیم یعنی 26ویں ترمیم میں اس شق کو برقرار رکھا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ججز کے تبادلے صرف عوامی مفاد میں ہی کیے جا سکتے ہیں، اور ثابت کرنا ہوگا کہ حالیہ تبادلے بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ منیر اے ملک نے کہا کہ تبادلوں کو سزا یا دباؤ کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔

مزید پڑھیں: صدر مملکت کے پاس ججز کے تبادلوں کا اختیار ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس

جسٹس شاہد بلال حسن نے سوال اٹھایا کہ اگر تبادلہ عارضی نوعیت کا ہو تو اس کی مدت کیا ہوگی؟ وکیل نے جواب دیا کہ آئینی تاریخ کے مطابق اس کی مدت 2 سال ہو سکتی ہے۔ تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ موجودہ آئین میں ایسی کوئی مدت واضح نہیں، جس کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ تبادلہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ اگر تبادلہ جج کی مرضی کے بغیر ہو تو مدت لازماً 2 سال ہونی چاہیے، جس پر بینچ نے رائے دی کہ اگر جج خود رضامند ہو تو تبادلہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ سماعت کے اختتام پر بینچ نے کیس کی کارروائی کل صبح 9:30 بجے تک ملتوی کر دی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئینی بینچ ججز تبادلے اور سینیارٹی کیس سپریم کورٹ منیر اے ملک

متعلقہ مضامین

  • ججز تبادلے اور سینیارٹی کیس: آئینی بینچ میں منیر اے ملک کے دلائل، سماعت کل تک ملتوی
  • بھارتی اقدام پر آج عالمی عدالت انصاف روانگی تھی لیکن منسوخ کردی: اٹارنی جنرل پاکستان
  • فیصلہ کرلیں سول نظام ناکام ہو چکا، سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں، جج آئینی بینچ
  • بھارت کے اقدام پر آج عالمی عدالت انصاف روانگی تھی لیکن منسوخ کر دی، اٹارنی جنرل 
  • یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا ہے: جسٹس جمال مندوخیل
  • یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں کہ سول نظام ناکام ہو چکا، سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں، جسٹس مندوخیل
  • یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں سول نظام ناکام ہو چکا، سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں: آئینی بنچ
  • یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں سول نظام ناکام ہو چکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں: جسٹس جمال خان مندوخیل
  • فیصلہ کرلیں کہ سول نظام ناکام ہوچکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں، جسٹس جمال مندوخیل