Juraat:
2025-06-13@16:24:27 GMT

سول نظام ناکام، تمام مقدمات فوجی عدالت بھیج دیں

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

سول نظام ناکام، تمام مقدمات فوجی عدالت بھیج دیں

 

سویلینز کے فوجی ٹرائل مقدمہ کی سماعت میں جسٹس جمال خان مندوخیل کے سخت ریمارکس
آئینی بینچ کی سماعت کے دوران 7رکنی بینچ کے رکن اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران برہم

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے 3 نکات پر دلائل دینے ہیں، 9 مئی کے واقعات پر وزرات دفاع کے وکیل خواجہ حارث بھی دلائل دے چکے ہیں، میں بھی اس معاملے پر کچھ تفصیل عدالت کے سامنے رکھوں گا، میرے دلائل کا دوسرا حصہ مرکزی کیس کی سماعت کے دوران کروائی جانے والی یقین دہانیوں پر ہو گا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ دلائل کا تیسرا نکتہ اپیل کے حق سے متعلق ہو گا، ملٹری ٹرائل کا سامنا کرنے والوں کو اپیل کا حق دینے کا معاملہ پالیسی میٹر ہے، اس پر ہدایات لے کر ہی گذارشات عدالت کے سامنے رکھ سکتا ہوں، پہلے سندھ کنال کا معاملہ زیرِ بحث رہا، اب بھارت نے جو کچھ کیا اس پر سب کی توجہ ہے، عالمی عدالت انصاف آج روانگی تھی لیکن منسوخ کر دی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ نے جو کرنا ہے کرے وہ ان کا پالیسی کا معاملہ ہے، ہم نے صرف اس کیس کی حد تک معاملے کو دیکھنا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں نے تو صرف گذارشات رکھی ہیں، آگے وقت دینا ہے یا نہیں، عدالت نے طے کرنا ہے، ملٹری ایکٹ میں شقیں 1967 سے موجود ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ پالیسی فیصلہ بھی کر لیں سول نظام ناکام ہو چکا سب کیسز فوجی عدالت بھیج دیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ دلائل میں کتنا وقت درکار ہو گا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ 45 منٹ میں دلائل مکمل کر لوں گا۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی سماعت 5 مئی تک ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

توہینِ مذہب کے مقدمات میں پاگل پن کا دفاع

توہینِ مذہب کے مقدمات میں ملزم کے وکیل کی جانب سے عام طور پر یہ عذر پیش کیا جاتا ہے کہ وہ نفسیاتی اور ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہے، اور یہ کہ ایک عام آدمی سے ایسے افعال یا الفاظ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

عام طور پر ایسے مقدمات میں یہ استدعا بھی کی جاتی ہے کہ ایسے ذہنی مریضوں کو سزا دینے کے بجائے انھیں مناسب طبی دیکھ بھال فراہم کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ تاہم، یہ ساری باتیں کسی اور جرم، مثلاً قتل، تسلسل سے قتل کرنے والے افراد (سیریل کلرز) یا دہشتگردی کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہیں کہ ’نارمل‘ انسان تو یہ جرائم بھی نہیں کرتے۔ تو کیا اسی دلیل کی بنیاد پر قاتلوں، سیریل کلرز اور دہشتگردوں کو بھی سزا نہ دی جائے اور ان کا طبی و نفسیاتی علاج کیا جائے؟

کچھ لوگ تو اس کے بھی قائل ہیں کہ کسی کے مجرم ہونے کا سبب بھی اس کے ’جینز‘ ہوتے ہیں ؛ س نظریے کو ’جینیاتی تقدیر‘ (genetic determinism)  کا  نظریہ  کہا جاتا ہے؛ تو کیا اس نظریے کی بنیاد پر جزا و سزا کا پورا نظام ہی ختم کردیں؟

پاگل پن کے عذر کے متعلق قانون کیا کہتا ہے؟

مجموعۂ ضابطۂ فوجداری ایک ایسے شخص کے خلاف مقدمہ چلانے سے روکتا ہے جو ’غیر متوازن ذہن‘  (unsound mind) کا حامل ہو اور جو اپنی صفائی پیش کرنے کے قابل نہ ہو؛ دفعہ 464، ذیلی دفعہ 1 طے کرتی ہے:

’جب کوئی مجسٹریٹ کسی انکوائری یا مقدمے کی سماعت کر رہا ہو اور اُسے یقین ہو جائے کہ ملزم کا ذہنی توازن درست نہیں ہے اور وہ اپنی صفائی دینے کے قابل نہیں ہے، تو وہ اس ذہنی عدم توازن کے معاملے کی تحقیق کرے گا، اور اس شخص کا معائنہ ضلع کے سول سرجن یا ایسے دیگر میڈیکل آفیسر سے کروائے گا جس کی ہدایت صوبائی حکومت دے، اور پھر اُس سرجن یا آفیسر کو بطور گواہ طلب کرے گا، اور اس بیان کو تحریر کرے گا۔‘

اگر مجسٹریٹ اس نتیجے پر پہنچے کہ ملزم اپنی صفائی پیش کرنے کے قابل نہیں ہے، تو’وہ مقدمے کی کارروائی مؤخر کر دے گا۔‘ مزید یہ کہ اگر تفتیش یا مقدمہ زیرِ التوا ہو، تو ایسے ملزم کو ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ مناسب ضمانت فراہم کی جائے کہ: ”اس کا مناسب خیال رکھا جائے گا اور اسے خود کو یا کسی دوسرے شخص کو نقصان پہنچانے سے روکا جائے گا، اور جب مجسٹریٹ یا عدالت یا اس کے مقرر کردہ افسر کے سامنے حاضری کی ضرورت ہو تو وہ پیش کیا جائے گا۔‘

مزید برآں، مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان ایسے شخص کو عمومی رعایت دیتا ہے جو ’غیر متوازن ذہن‘ کا حامل ہو، مگر اس رعایت کے استعمال کے لیے ایک بلند معیار مقرر کرتا ہے۔ چنانچہ دفعہ 84 میں طے کیا گیا ہے:

”ایسا کوئی فعل جرم نہیں ہے جو ایسا شخص کرے، جو اس فعل کے وقت ذہنی عدم توازن کے باعث نہ تو فعل کی نوعیت کو جانتا ہو اور نہ یہ سمجھتا ہو کہ وہ کوئی غلط یا قانون کے خلاف کام کر رہا ہے۔“

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ضابطۂ فوجداری میں جو طریقہ کار بیان کیا گیا ہے وہ اس وقت لاگو ہوتا ہے جب مقدمے کے دوران میں ملزم کے ذہنی توازن خراب ہونے کا عذر پیش کیا جائے، خواہ جرم کے ارتکاب کے وقت وہ صحیح الدماغ ہو۔ ایسی صورت میں کارروائی اس وقت تک مؤخر کی جاتی ہے جب تک کہ ملزم کا ذہنی توازن بحال نہ ہو جائے اور عدالت یہ نہ سمجھ لے کہ وہ اپنی صفائی دینے کے قابل ہے۔ اس کے برعکس مجموعۂ تعزیرات کے تحت فوجداری  قانون یہ بنیادی اصول طے کرتا ہے کہ جب جرم کے وقت ملزم ذہنی طور پر غیر متوازن ہو تو قانون کی نظر میں اس کی مجرمانہ ذمہ داری موجود ہی نہیں ہوتی، یعنی اس کے فعل کو جرم کہا ہی نہیں جاسکتا۔

قانون میں پاگل پن کا تصور علمِ نفسیات سے مختلف ہے

البتہ اس بحث میں یہ نکتہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ’پاگل پن‘ (insanity) کا عذر ایک قانونی اصطلاح ہے، اور یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ اس کا وہی مفہوم لیا جائے جو ماہرینِ نفسیات نے اس اصطلاح کے لیے علمِ نفسیات کے تحت طے کیا ہے۔ چنانچہ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی شخص ماہرینِ نفسیات کی اصطلاح کے مطابق غیر متوازن ذہن کا حامل ہو  لیکن اس کی جو کیفیت ہو اسے قانون جرم کی سزا سے بچنے کے لیے کافی عذر تسلیم نہ کرے۔

پاکستان کی عدالتیں عمومی طور پر قانونی دیوانگی کے تعین کے لیے M’Naghten Rules پر عمل کرتی ہیں۔ ان قواعد کے مطابق درج ذیل صورتوں کو پاگل پن قرار دے کر ملزم کے دفاع کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا:

کہ ملزم جو فعل کر رہا تھا، وہ اس کے عقائد یا خیالات کے مطابق اخلاقی طور پر درست تھا؛

کہ ملزم اپنے اوپر قابو نہیں رکھ پایا؛

کہ ملزم کو’واہموں‘ یا ’تخیلات‘ نے دھوکے میں ڈالا تھا۔

ان میں بالخصوص تیسری صورت ماہرینِ نفسیات اور ماہرینِ قانون کے درمیان متنازعہ ہے، اور پچھلے کچھ عرصے سے ہمارے ہاں توہینِ مذہب کے مقدمات میں اسی تیسری صورت کو عذر کے طور پر پیش کیا جانے لگا ہے۔

مقدمہ خواب دیکھنے کا تھا یا لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا؟

توہینِ مذہب کے کئی مقدمات میں واہموں (delusions) کا عذر کس حد تک قابلِ قبول ہوسکتا ہے، اس موضوع پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے 2022ء میں ایک اہم فیصلہ دیا تھا۔ مقدمے کا عنوان تھا ’نصراللہ خان بمقابلہ اسٹیشن ہاؤس آفیسر، تھانہ صدر، میانوالی‘ (2022 LHC 7503)۔

اس مقدمے میں جسٹس شیخ کے سامنے ملزم کی جانب سے ضمانت کی درخواست آئی تھی اور درخواست گزار پر الزام تھا کہ اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ہواؤں میں اُڑ سکتا ہے اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اور صحابہ کرام کو خواب میں دیکھتا ہے۔ کہا گیا کہ ایسے بیانات نے عوام کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور یہ بیانات تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں۔

جسٹس شیخ نے مقدمے کے حقائق کا تجزیہ کرنے کے بعد قرار دیا کہ ان دعووں سے نہ تو مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-اے کا جرم (دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح کرنا) اور نہ ہی دفعہ 298-اے کا جرم (توہینِ صحابہ) ثابت ہوتا ہے۔ انھوں نے سگمنڈ فرائیڈ، کارل یونگ اور دیگر ماہرینِ نفسیات کے نظریات پر بحث کے بعد نتیجہ یہ نکالا کہ: ’کسی شخص کو اس بات پر سزا نہیں دی جا سکتی کہ اُس نے خواب میں کیا دیکھا یا اُس نے اُن خیالات، مشاہدات یا جذبات کو دوسروں کے سامنے کیوں بیان کیا۔‘

یہ نتیجہ نکالتے وقت جسٹس شیخ نے اس بات کو نظرانداز کر دیا کہ ملزم پر مقدمہ صرف خواب دیکھنے یا خواب بیان کرنے پر نہیں دائر کیا گیا، بلکہ اس پر الزام یہ تھا کہ اس کے بیانات نے لوگوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا، جو ایک ایسا معاملہ ہے جس پر صرف ٹرائل کورٹ ہی مکمل شواہد کی جانچ کے بعد حتمی رائے دے سکتی تھی، اور اس سوال پر ہائیکورٹ اپنی ’رِٹ درخواستوں کے اختیارِ سماعت‘ کے تحت فیصلہ نہیں دے سکتی تھی۔

پاگل پن کا عذر استثنا ہے، نہ کہ قاعدہ۔

جسٹس شیخ نے مزید ’مینیا اور شیزوفرینیا‘ کے اثرات پر تبصرہ کیا، اور واہموں پر ایک طویل گفتگو کے بعد اسے ملزم کے ’منصفانہ سماعت کے حق‘  کے ساتھ جوڑتے ہوئے یہ ہدایت جاری کی:

’جب کوئی پولیس افسر کسی جرم کی تفتیش کرے، خاص طور پر تعزیراتِ پاکستان کے پندرھویں باب (جو مذہب کے خلاف جرائم سے متعلق ہے) کے تحت، تو اُسے یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ملزم صحیح الدماغ ہے یا نہیں۔ اگر اُسے ذہنی بیماری کا شک ہو، تو وہ متعلقہ فورم سے ملزم کا نفسیاتی معائنہ کروانے کے لیے رجوع کرے۔‘

جسٹس شیخ نے عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا، جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں کل بیماریوں کے بوجھ کا 4 فیصد سے زیادہ ذہنی عوارض پر مشتمل ہے اور 2 کروڑ 40 لاکھ افراد کو نفسیاتی نگہداشت کی ضرورت ہے۔

یہاں بھی جسٹس شیخ نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ قانون میں پاگل پن کا تصور اور نفسیات میں ذہنی عارضے کا تصور  دو الگ چیزیں ہیں۔ انھوں نے یہ قانونی اصول بھی نظرانداز کر دیا کہ دیوانگی ایک استثنا (exception) ہے، اور فوجداری قانون میں ہر استثنا کی طرح اس کا بارِ ثبوت پر بھی اس فریق پر ہے جو اس استثنا سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔

جسٹس شیخ نے لاہور ہائیکورٹ کے ایک سابقہ فیصلے (’دلشاد حسین بنام ریاست‘) کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا کہ ٹرائل جج کو چاہیے کہ وہ ازخود ایسے اقدامات کرے جو کسی ملزم کو تحفظ فراہم کریں اگر ملزم  یہ نہ سمجھ سکتا ہو کہ اُس کا عمل غلط یا غیر قانونی تھا، خواہ ملزم یا اُس کا وکیل خود یہ دفاع پیش نہ کریں۔ تاہم جسٹس شیخ نے یہ بات نظر انداز کی کہ مذکورہ مقدمے میں پہلے ہی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی رپورٹ سے یہ ثابت ہو چکا تھا کہ جرم کے وقت ملزم پاگل تھا، مگر اس کے باوجود ٹرائل جج نے مقدمہ چلایا تھا۔ موجودہ مقدمہ اس مقدمے سے مختلف تھا کیونکہ اس مقدمے میں ملزم کا قانونی لحاظ سے ابھی پاگل ثابت نہیں ہوا تھا۔

اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے ججوں کی آئینی و قانونی ذمہ داری

یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ جسٹس شیخ نے خوابوں کی تعبیر اور ان کے اثرات پر فرائیڈ، یونگ وغیرہ کی آراء کو تو پیش کیا مگر اسلامی اصولوں سے رہنمائی لینے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ عدالتوں پر یہ لازم ہے کہ وہ تمام موجودہ قوانین کی تعبیر قرآن و سنت کے احکام کی روشنی میں کریں، جیسا کہ آئین کی دفعہ 227 اور قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء کی دفعہ 4 میں صراحت کے ساتھ عدالتوں پر لازم کیا گیا ہے۔  فاضل جج نے جتنا وقت فرائڈ اور یونگ وغیرہ کے نظریات سمجھنے میں لگایا، اس سے آدھا وقت بھی وہ اسلامی تراث کے مطالعے میں صرف کرتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ فقہ و اصولِ فقہ میں تفصیل سے جنون کی مختلف قسموں اور مدارج کا تفصیلی تجزیہ موجود ہے اور فقہائے کرام نے نہایت وضاحت سے بتایا ہے کہ ذہنی عدم توازن کب اور کس حد تک سزا کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے جج کب مغربی نظریات کے بجائے اسلامی اصولوں کی روشنی میں قوانین کی تعبیر و تشریح کے متعلق اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری پوری کرنے کی طرف توجہ دیں گے؟

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • عافیہ صدیقی رہائی کیس: ہائی کورٹ کا وفاق سے بذریعہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عدالتی سوال پرجواب طلب
  • امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوالات کے جوابات طلب
  • جلاؤ گھیراؤ مقدمات: علیمہ اور عظمیٰ خان کی عبوری ضمانتیں کنفرم
  • یاسمین راشد اورعمر سرفراز چیمہ کی ضمانت پر سماعت سے متعلق اہم پیشرفت
  • پشاور‘ سپریم کورٹ پولیس کے زیر استعمال مال مقدمہ گاڑیوں پر برہم، تفصیلات طلب
  • عدالت عظمیٰ کی تاریخ میں ریکارڈ قائم‘ 4روز میں489کیسز نمٹادیے
  • عالیہ حمزہ کے نو مقدمات میں ورانٹ گرفتاری منسوخ کردیے
  • پشاور ہائیکورٹ: عاطف خان کو درج مقدمات میں گرفتار نہ کرنے کا حکم
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سزا معطلی درخواستوں پر سماعت کرنے والے بنچ کے جسٹس آصف رخصت پر چلے گئے
  • توہینِ مذہب کے مقدمات میں پاگل پن کا دفاع