ہاضمہ ٹھیک تو آپ ٹھیک، جانیے جادوئی جوس کے کمالات
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
پاکستان میں گرمیاں آچکی ہیں جس کے ساتھ ہی جوس کی جانب رغبت میں بھی اضافہ ہوگا۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ کون سے جوس ہیں جو فرحت بخشنے کے علاوہ آپ کے ہاضمے کو بھی بہتر کرتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ اچھا ہاضمہ صحت مند زندگی کا ضامن ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دبلے پن سے ہیں پریشان؟ تو یہ جوس بدل دیں گے آپ کی زندگی
اگر آپ درست جوس کا انتخاب کرتے ہیں تو یہ آپ کے ہاضمے کی صحت پر مثبت اثر ڈال سکتا ہے اور ایسے لذیذ جوس کی ایک طویل فہرست ہے۔
چقندر اور گاجر کا جوسچقندر ہاضمے کے لیے بہت اچھا ہے کیونکہ یہ فائبر سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ جگر کی صحت کو بھی بہتر رکھتا ہے اور جسم کو ڈی ٹاکسیفائی کرنے میں مدد دیتا ہے۔
اس کے ساتھ جب گاجر کو ملایا جائے تو یہ جوس آنتوں کے کام کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے اور آنتوں کی حرکت کو ہموار رکھتا ہے۔
اورنج جوسایک گلاس تازہ اورنج جوس میں وٹامن سی کی معقول مقدار ہوتی ہے جس سے ہاضمے میں مدد ملتی ہیے۔ یہ چکنائی کو بھی توڑتا ہے۔
سنترے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس نظام انہضام میں سوزش کو بھی کم کرتے ہیں اور یہ جوس آنتوں کی صحت کے لیے بہترین انتخاب ہے۔
کھیرے کا جوسکھیرے کا رس پانی سے بھرپور ہوتا ہے جو جسم کو ہائیڈریٹ کرتا اور تروتازہ رکھتا ہے۔ یہ پیٹ کی خرابی کو دور کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔
یہ عمل انہضام کو فروغ دیتا اور زہریلے مادوں کو باہر نکالتا ہے۔ اپنی ہائیڈریٹنگ خصوصیات کی بدولت کھیرے کا جوس عام طور پر جسم کو توانائی بخش سکتے ہوئے ہاضمہ بہتر کرتا ہے۔
کرین بیری کا رسکرین بیریز اپنی خصوصیات کے لیے مشہور ہیں جو پیشاب کی نالی کی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور ہاضمے میں بھی بڑا فرق لا سکتی ہیں۔
مزید پڑھیے: صبح ناشتے سے پہلے ایک عادت جو صحت کے لیے بیحد مفید ہے
کرین بیری کا جوس اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جو ہاضمہ کی نالی کے انفیکشن سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ فائدہ مند بیکٹیریا کے توازن کو فروغ دے کر آنتوں کی صحت کی حمایت کرنے کے لیے بھی معروف ہے۔
ادرک کا جوسادرک کا استعمال صدیوں سے ہاضمے کو بہتر بنانے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ یہ اپھارہ کم کرنے، متلی کے ازالے اور ہاضمے کو تیز کرنے کی صلاحیت کے لیے مشہور ہے۔ ادرک کا تھوڑا سا رس ہاضمے کے آرام کے فوائد کو زیادہ سے زیادہ کرنے اور تکلیف سے فوری نجات دلانے میں مدد کر سکتا ہے۔
انناس کا رسانناس میں برومیلین ہوتا ہے۔ یہ ایک انزائم ہے جو پروٹین کو توڑتا ہے اور عمل انہضام کو آسان بناتا ہے۔ یہ جوس پروٹین سے بھرپور کھانے کو ہضم کرنے کے ساتھ ساتھ سوزش اور اپھارہ کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
گھیکوار کا جوسگھیکوار (ایلو ویرا) اپنی آرام دہ خصوصیات کے لیے معروف ہے اور یہ ہاضمہ کی صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس کا جوس پیٹ کے کو سکون بخشتا ہے، سوزش کو کم کرتا اور آنتوں کی مجموعی صحت کو سہارا دیتا ہے۔
ایلو ویرا کا جوس پینے سے تیزابیت اور قبض جیسے مسائل کے علاج میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
ایپل سائڈر سرکے کا رسایپل سائڈر سرکہ اپنے ہاضمہ کے فوائد کے لیے جانا جاتا ہے۔ اسے جب پانی یا جوس سے ملایا جائے تو یہ معدے کی تیزابیت کو متوازن کرنے، ہاضمے کے خامروں کو متحرک کرنے اور آنتوں کے صحت مند بیکٹیریا کی حمایت کرنے میں مدد کرتا ہے۔
لیموں کا جوسلیموں کا رس ایک روایتی ہاضمہ کو مدد دینے والی چیز ہے۔ یہ پیٹ کے تیزاب کو متوازن رکھنے میں مدد کرتا ہے اور بدہضمی کو دور کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: گوشت کی متبادل خوراک، پروٹین کے خزانے اور ایک علیحدہ بونس بھی
ایک سادہ گلاس لیموں پانی یا تازہ لیموں کا ہاضمے کو بہتر بنانے اور اس کے نظام کو ہموار رکھنے میں حیرت انگیز اثرات مرتب کرتا ہے۔
پپیتے کا جوسپپیتا پپین سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ ایک انزائم ہے جو پروٹین کو ہضم کرنے میں مدد کرتا ہے۔
پپیتے کا جوس باقاعدگی سے پینے سے اپھارہ، بدہضمی اور قبض کے سدباب میں مدد مل سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جادوئی جوس جوس کا کمال ہاضمے کے لیے جوس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جوس کا کمال ہاضمے کے لیے جوس میں مدد کرتا ہے ہاضمے کے آنتوں کی ہاضمے کو کو بہتر میں بھی کو بھی کی صحت یہ جوس ہے اور کا جوس کے لیے
پڑھیں:
بڑے شہروں کے مسائل اور ہماری ترجیحات
پاکستان کے حکمرانی کے نظام میں بہت زیادہ شفافیت کا عمل نہیں ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ عام آدمی سے لے کر پڑھے لکھے افراد تک یا پالیسی سازی کی سطح پر فیصلے کرنے والے افراد اور ادارے موجودہ حکمرانی کے نظام سے مطمئن نظر نہیں آتے۔حکمرانی کے نظام میں بہتری کے لیے ہمیں جن بڑی اصلاحات یا جدیدیت کے نظام کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اس سے گریز کرنے کی پالیسی نے ہماری مشکلات میں اور زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔
بالخصوص بڑے شہروں کے مسائل بہت زیادہ گھمبیر ہو چکے ہیں اور اگر ہم نے فوری طور پر ان مسائل پر توجہ نہ دی یا کوئی ہنگامی اقدامات نہ کیے تو مستقبل میں یہ بڑے شہر مزید بدحالی کا منظر نامہ پیش کریں گے۔اگر ہم کراچی،لاہوراور راولپنڈی،ملتان،فیصل آباد، پشاور، کوئٹہ کو دیکھیں تو ان بڑے شہروں کا نظام بہت سی خرابیوں کے ساتھ ہماری توجہ کا مستحق ہے۔
ناجائز طور پر تجاوزات، بھاری بھرکم ٹریفک،پبلک ٹرانسپورٹ کا نہ ہونا،صاف پانی کی عدم دستیابی، سیوریج کا ناقص نظام،سڑکوں کی حالت زار،صفائی کے نظام کا نہ ہونا،امن وامان کی صورتحال اور جرائم میں اضافہ،کھیلوں کے میدان کی کمی،پولیس کا کمزور نظام،سرکاری اسپتالوں کے حالات ،ریگولیٹری اتھارٹیوں کی عدم شفافیت،کمزور نگرانی اور جواب دہی احتساب کا نظام جیسے مسائل سرفہرست نظر آتے ہیں۔
عمومی طور پہ حکمرانی کے نظام میں بڑے اور چھوٹے شہروں کے درمیان ایک بنیادی نوعیت کا فرق رکھا جاتا ہے۔ یہ فرق بڑے شہروں کے مسائل کی درجہ بندی کرتے ہوئے بہت سے غیر معمولی اقدامات کو تجویز کرتا ہے۔عمومی طور پر دنیا کے حکمرانی کے نظام میں بڑے شہروں کی سطح پرموجود نظام میں ماسٹر پلان کو بنیادی فوقیت حاصل ہوتی ہے۔بڑے شہروں کے ماسٹر پلان 10 سے 20 برسوں پر محیط ہوتے ہیں اور اسی ماسٹر پلان کو کامیاب بنا کر بڑے شہروں کے مسائل کو منصفانہ و شفاف بنیادوں پر حل کیا جاتا ہے۔
بڑے شہروں کے مسائل کے حل میں مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کو بنیادی فوقیت حاصل ہوتی ہے۔یعنی بڑے شہروں میں سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات کی تقسیم کو اس انداز سے کیاجاتا ہے کہ اس سے شہروں کی حقیقی ترجیحات متاثر نہ ہوں اور وسائل کی تقسیم بھی اس بنیاد پر ہو کہ کمزور لوگوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہو سکیں۔بڑے شہروں کے مسائل اس لیے بھی بڑھ گئے ہیں کہ ہمارے چھوٹے شہر بنیادی اعلی سہولتوں سے محروم نظر آتے ہیں۔جب چھوٹے شہروں میں بنیادی نوعیت کی سہولیات میسر نہیں ہوں گی تو لوگ اپنی بقا کے لیے بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔اسی لیے آج کے جدیدیت کے نظام میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کو بھی بنیادی سہولتوں سے آباد کیا جائے اور یہ ہی عمل بڑے شہروں میں بڑھتی ہوئی آبادی کو کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے بڑے شہروں کو ایک بے ترتیبی کے ساتھ آگے بڑھایا ہے اور کسی بھی سطح پر کسی روڈ میپ یا ماسٹر پلان کو فالو نہیں کیا گیا ، ہم نے شہروں کو بڑی بے ترتیب بنیادوںپر جوڑا ہے اور جو بھی حکمران آیا ہے اس کی ترجیحات ماضی کے حکمرانوں سے مختلف ہوتے ہیں اور وہ اقتدار میں آکر شہروں کے نقشے بدل دیتے ہیں۔بڑے شہروں کی تعمیر و ترقی میں ہم عام آدمی یا کمزور طبقات کے مسائل کو نظر انداز کر دیتے ہیں مثال کے طور پر آپ کو بڑے شہروں میں فٹ پاتھ نظر نہیں آتے یا سڑکوں پرسائیکل سواری کے ٹریک دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔اسی طرح بڑے شہروں میں گاڑیوں کی بھرمار نے پورے شہر کے ٹریفک کے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔ ہم لوگوں کو کئی کئی گھنٹوں تک سڑکوںہی پر خواری کرنی پڑتی ہے۔اسکولوں، کالجوں اور دفتری اوقات کار میں شہر کی ٹریفک بدترین منظر پیش کرتی ہوئی نظر آتی ہے اور ان کو کنٹرول کرنے کا نظام بھی ناقص ہے۔
اگرچہ حکمران دعویٰ کرتے ہیں کہ انھوں نے بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کے جدید نظام متعارف کروائے ہیں۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ہمارے بڑے شہروں میں موٹر سائیکل رکشہ موجود ہے اور اگر ان کو نکال دیا جائے تو شہروں میں چھوٹے علاقوں سے بڑے علاقوں تک کا سفر مشکل ہو جائے گا۔اسی طرح بڑے شہروں کے کھیلوں کے میدان اس حد تک کمرشلائز ہو گئے ہیں کہ عام نوجوان بغیر پیسے دیے ہوئے ان میدانوں میں کھیل نہیں سکتے۔لڑکیوں کے لیے تو بڑے شہروں میں کھیلوں کے میدان ہی موجود نہیں ہیں۔بڑے شہروں میں کمیونٹی سینٹرز کی عدم موجودگی بھی لوگوں کو مختلف تفریحی مواقعوں سے محروم کرتی ہے۔بڑے شہروں کی آلودگی بھی شہریوں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے۔
اسی طرح سے بڑے شہروں میں بننے والی بلڈنگز یاکاروباری سطح کی عمارات کی تعمیر میں بھی نہ صرف ایک بے ترتیبی ہے بلکہ تعمیرات سے جڑے قانون کو بھی فالو نہیں کیا جاتا۔بڑے شہروں میں بہت سے ترقیاتی منصوبے بغیر منصوبہ بندی کے شروع ہوتے ہیں اور بہت سے منصوبوں کی صوبائی اسمبلیوں سے منظوری بھی نہیں لی جاتی۔اسی طرح وہ علاقے جہاں کمرشلائزیشن نہیں ہونی چاہیے تھی وہاں بھی کمرشلائزیشن نے شہروں کی صورتحال کو مزید بدنما کردیا ہے۔
ہم شہروں کو درست کرنے کی بجائے ان کا پہلے سے موجود حلیہ بگاڑ رہے ہیں۔ بڑے شہروں کی ترقی جہاں ترقیاتی منصوبوں سے جڑی ہوئی ہے وہیں انسانی ترقی اور شہروں کی ترتیب کی شفافیت کو ممکن بنانا بھی حکومتی ترجیحات اور خاص طور پر ماحولیاتی آلودگی سے شہروں کو بچانا ان کا فرض بھی ہے۔
بنیادی طور پر آج کے جدیدیت اور مبنی حکمرانی کے نظام میں خود مختار اور شفاف مقامی حکومتوں کے نظام کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔مقامی حکومتوں کا مربوط اور جامع نظام ہی بڑے شہروں کے مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔بڑے شہروں کا ماسٹر پلان جہاں صوبائی حکومت کی ترجیحات کا حصہ ہوتا ہے وہیں مقامی حکومتیں اپنی ترجیحات کی بنیاد پر اس ماسٹر پلان پر اتفاق رائے کے عمل کو پیدا کرتی ہیں۔ مقامی حکومتوں کا نظام ہی منصفانہ نگرانی اور جواب دہی کے نظام کو ممکن بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔لیکن ہم دنیا کے جدید نظام سے سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
یہ ہی وجہ ہے کہ 1973 کے آئین میں مقامی حکومتوں کو تیسری حکومت کا درجہ ملنے کے باوجود ہم مقامی حکومتوں کے نظام کو مستحکم بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس وقت بھی پنجاب مقامی حکومتوں کے نظام سے محروم ہے اور دیگر صوبوں میں بھی موجود مقامی حکومتوں کے نظام کو اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے بڑے شہر اپنی ترقی کے تناظر میں بہتری کو پیدا کرنے کی بجائے خرابیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 18 ویں ترمیم کی منظوری کے باوجود ہمارے بڑے شہر اختیارات کی تقسیم سے محروم ہیں اور صوبائی سطح پر اضلاع میں مقامی حکومتوں کے نظام کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
اصل میں ہمارا مجموعی سیاسی اور ریاستی نظام اختیارات کی تقسیم کے خلا ف ہے اور ہم اختیارات کی اس تقسیم کو اپنے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ سمجھتے ہیں۔ ہمیں اصولی طور پر بڑے شہروں سے جڑے مسائل کا بہتر طور پر ادراک کرنا ہوگا اور وہاں موجود مسائل کو اس کی ترجیحات کی بنیاد پر سمجھنا ہوگا۔سیاسی جماعتیں اور ان سے جڑی قیادت کو بھی بڑے شہروں کے مسائل پر وہ ادراک نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔یہ ہی وجہ ہے کہ خود بڑی سیاسی جماعتوں کا اپنا روڈ میپ موجود نہیںاور نہ ہی وہ اقتدار میں آکر وہ کردار ادا نہیں کرتیںجو لوگوں کی ان سے توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔
اسی طرح اب وقت آگیا ہے کہ ہم بڑے شہروں کی ترقی کے ماڈل پر غور کریں اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کیا وجہ ہے ہم ان بڑے شہروں میں بڑی سرمایہ کاری کرنے کے باوجود ترقی کے ماڈل کو شفافیت میں تبدیل نہیں کرسکیں۔ہمیں بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کی ترقی کے ماڈل کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا کیونکہ جب تک چھوٹے شہروں یا دیہی علاقوں سے لوگوں کی آمد کو بڑے شہر میں آنے سے نہیں روکیں گے بڑے شہروں کا بوجھ بڑھتا ہی جائے گا ۔
اس کا حل چھوٹے شہروں کی ترقی سے ہی جڑا ہوا ہے۔لیکن ہماری حکمرانی کے نظام میں ترجیحات کی عدم شفافیت ہی بڑی خرابی کے زمرے میں آتی ہے۔اس لیے اب بھی وقت ہے کہ ہم دنیا میں ہونے والی ترقی کے عمل سے سیکھیںاور اپنی موجودہ ترجیحات کو تبدیل کریںکیونکہ موجودہ حکمرانی کا نظام ہماری ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا۔بڑے شہروں کے حالات ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم اب بڑے شہروں کے ماڈل کو نئے سرے سے ترتیب دیں اور کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں۔
یہ جو پالیسی ہے کہ ہم نے روائتی طور طریقوں سے حکمرانی کے نظام کو آگے بڑھانا ہے اس سے اب ہمیں گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ لوگ بڑے شہروں میں رہنا چاہتے ہیں مگریہاں موجود مسائل ان کے لیے کافی گھمبیر ہوگئے ہیں اور وہ ان مسائل کا حقیقی طورپرحل چاہتے ہیں۔لیکن یہ کام آسانی سے نہیںہوگا بلکہ بڑے شہروں کے غیر معمولی حالات ہیں ان میں غیر معمولی اقدامات ہی مسائل کا حل بن سکتے ہیں۔