Islam Times:
2025-09-18@21:46:37 GMT

وفاقی دارالحکومت میں ’’کرم امن کنونشن‘‘

اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT

وفاقی دارالحکومت میں ’’کرم امن کنونشن‘‘

اسلام ٹائمز: قومی اسمبلی میں مجلس وحدت مسلمین کے پارلیمانی لیڈر اور پاراچنار سے منتخب رکن قومی اسمبلی حمید حسین طوری نے کہا کہ اگر پاراچنار کا مسئلہ پاکستان کی عدالتوں میں حل نہ ہوا تو ہم اسے بین الاقوامی عدالت میں لے جائیں گے، کیونکہ حکومتی نااہلی کے باعث لوگوں کا کھربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے، جسکا حساب دینا ہوگا۔ پاراچنار کے عوام گذشتہ سات ماہ سے محاصرے میں ہیں، تاہم حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں یکسر ناکام ہوئی ہے، راستوں کو محفوظ بنانا اور انہیں کھولنا حکومت کا کام ہے۔ رپورٹ: سید عدیل عباس

پاراچنار کے محاصرے کو سات ماہ ہوچکے ہیں، تاہم حکومتی یقین دہانیوں اور پے در پے جرگوں کے باوجود اب تک ریاست راستے محفوظ بنا کر انہیں کھولنے میں ناکام ہے، واضح رہے کہ پاراچنار کے اہل تشیع قبائل نے طے پانے والے معاہدے کی ایک ایک شق پر مکمل عمل کیا ہے۔ پاراچنار کے اکابرین، مشران، علمائے کرام، ملی تنظیمیں اور سیاسی نمائندے ہر ممکن فورم پر اپنی مظلومانہ آواز تسلسل کیساتھ بلند کر رہے ہیں اور ہر وہ پرامن راستہ اختیار کر رہے ہیں کہ جس سے انہیں بنیادی انسانی حقوق مل سکیں، تاہم حکومت بھی مسلسل عوام کے صبر کا امتحان لے رہی ہے۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل کرم کے نوجوانوں اور مشران نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک اہم کنونشن منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ اپنی آواز کو موثر انداز میں بلند کیا جاسکے، اس سلسلے میں ملک کے نامور علمائے کرام، ملی تنظیموں کے سربراہان، سیاسی و سماجی شخصیات، اداروں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو باقاعدہ دعوت دی گئی۔

کرم کے مشران اور پاراچنار یوتھ راولپنڈی و اسلام آباد کے زیراہتمام ’’کرم امن کنونشن‘‘ گذشتہ روز اسلام آباد کے ایک نجی ہوٹل میں منعقد ہوا، جس میں بڑی تعداد میں علمائے کرام، سیاسی و سماجی شخصیات، صحافی حضرات اور مشران قوم نے شرکت اور خطاب کیا۔ کنونشن کا آغاز انجمن حسینیہ کے رکن اور سابق صدر تحریک حسینی پاراچنار علامہ سید تجمل حسین کے خطاب سے ہوا۔ انہوں نے کرم کے عوام کو درپیش مشکلات اور بدامنی کو حکومتی بے حسی کا نتیجہ قرار دیا، ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران جو صورتحال کرم کے غیور عوام نے جھیلی ہے، وہ کسی دشمن پر بھی نہ گزرے۔ اس وقت پاراچنار پاکستان کا غزہ بن چکا ہے، جس پر چاروں طرف سے یلغار ہو رہی ہے، مگر ریاستی محافظ ان کے دفاع میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں۔

جماعت اہلِ حرم کے سربراہ مفتی گلزار نعیمی نے بھی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پاراچنار میں جاری بدامنی کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور حکومت سے فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاراچنار کے عوام کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ قومی اسمبلی میں مجلس وحدت مسلمین کے پارلیمانی لیڈر اور پاراچنار سے منتخب رکن قومی اسمبلی حمید حسین طوری نے کہا کہ اگر پاراچنار کا مسئلہ پاکستان کی عدالتوں میں حل نہ ہوا تو ہم اسے بین الاقوامی عدالت میں لے جائیں گے، کیونکہ حکومتی نااہلی کے باعث لوگوں کا کھربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے، جس کا حساب دینا ہوگا۔ پاراچنار کے عوام گذشتہ سات ماہ سے محاصرے میں ہیں، تاہم حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں یکسر ناکام ہوئی ہے، راستوں کو محفوظ بنانا اور انہیں کھولنا حکومت کا کام ہے۔

پاراچنار سے ایم پی اے علی ہادی نے خیبر پختونخوا حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ علی امین گنڈاپور کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے کرم میں بدامنی اور سڑکوں کی بندش ہوئی ہے۔ اس موقع پر معروف صحافی ہرمیت سنگھ نے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پاراچنار کے محاصرے اور بے گناہ عوام کے قتل عام کو پشتون روایات کے منافی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ راستوں کی بندش کیوجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، کرم کے عوام کو امن فراہم کرنا حکومت کا کام ہے، حکومت کیوں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔ آئی ڈی سی کی چیئرپرسن گل زہراء نے کہا کہ پاراچنار کے نوجوانوں کا قتل عام حکومت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے، چند سو تکفیری دہشتگردوں کا خاتمہ نہ کرسکنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے حکومت ان دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہی ہو۔

جرگہ ممبر اور ہنگو کے سابق ایم پی اے حسین علی حسینی نے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی عدم توجہی کو پاراچنار میں بدامنی کا سبب ٹھہرایا، ان کا کہنا تھا کہ کرم کے عوام امن چاہتے ہیں، امن انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کے وائس چیئرمین علامہ سید احمد اقبال رضوی نے کہا کہ پاراچنار کی سڑکیں سات ماہ سے بند ہیں اور اب تک سینکڑوں جانیں ضائع ہوچکی ہیں، حکومت اور ریاستی ادارے اس صورتحال پر شرم سے ڈوب مریں۔ صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت، امن فراہم کرنا اور راستوں کو محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، چند کلومیٹر کی سڑک کو محفوظ نہیں بنایا جاسکتا تو حکومت بڑے بڑے دعوے کیسے کرسکتی ہے۔؟

شیعہ علماء کونسل کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے پاراچنار کے مظلوم عوام کی حمایت، ملک میں امن و وحدت کی ضرورت اور علامہ ساجد نقوی کی قیادت میں پاراچنار سمیت ملت کے حقوق کے لیے کی گئی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ہر میدان میں جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے رکن شوریٰ عالی، علامہ سید حسن ظفر نقوی نے کہا کہ پاراچنار گذشتہ سات ماہ سے محاصرے کی حالت میں ہے، سینکڑوں افراد قتل ہوچکے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب پاراچنار سے دلخراش خبر موصول نہ ہو۔ ہم تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک پاراچنار کے مسائل حل نہیں ہو جاتے۔

سابق چیئرمین سینیٹ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء سید نیئر بخاری نے کہا کہ ایک عرصے سے ضلع کرم میں بدامنی اور قتل عام جاری ہے، جب تک ہم آپس میں بات چیت نہیں کریں گے، امن قائم ہونا ناممکن ہے۔ کنونشن سے معروف صحافی صدیق جان، اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی میثم کاظم، ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی صدر علامہ جہانزیب جعفری، علامہ سید سبطین حسینی اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا اور پاراچنار کی ابتر صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مقررین نے مطالبہ کیا کہ پاراچنار کا محاصرہ فی الفور ختم کیا جائے، ٹل، پاراچنار روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کے لیے کھولا جائے اور دہشتگردوں کا قلع قمع کیا جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: مجلس وحدت مسلمین کے ان کا کہنا تھا کہ اور پاراچنار کہ پاراچنار قومی اسمبلی پاراچنار کے پاراچنار سے تاہم حکومت سات ماہ سے علامہ سید کرتے ہوئے نے کہا کہ کو محفوظ کے عوام عوام کو کرم کے

پڑھیں:

اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) ہر سال 16 ستمبر کو اقوام متحدہ اوزون کی تہہ میں شگاف کو ختم کرنے اور کرہ ارض کو تحفظ دینے کے اقدامات پر توجہ دلانے میں عالمی برادری کی کامیابی کا دن مناتا ہے۔۔

گزشتہ صدی میں سائنس دانوں نے اس تشویشناک حقیقت کی تصدیق کی تھی کہ اوزون کی تہہ میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔ یہ گیس کی نظر نہ آنے والی تہہ ہے جس نے زمین کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور اسے سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں سے تحفظ دیتی ہے۔

Tweet URL

اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادوں کے مجموعے میں 'سی ایف سی' یعنی کلورو فلورو کاربن بھی شامل ہیں جو 1980 کی دہائی کے وسط میں روزمرہ استعمال کی اشیاء جیسا کہ ایئر کنڈیشنر، فریج اور ایروسول کین میں عام پائے جاتے تھے۔

(جاری ہے)

سائنس نے اوزون گیس کی تہہ کو دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کی راہ ہموار کی۔ جب یہ احساس ہوا کہ نقصان دہ بالائے بنفشی شعاعیں ممکنہ طور پر اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچنے کے باعث فضا میں داخل ہو رہی ہیں تو رکن ممالک نے 1985 میں ویانا کنونشن کے تحت یہ عہد کیا کہ وہ لوگوں اور زمین کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔

انتونیو گوتیرش نے امسال عالم یوم اوزون پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج اوزون کی تہہ میں شگاف پُر ہو رہے ہیں جبکہ ویانا کنونشن اور اس کا مونٹریال پروٹوکول اس معاملے میں کثیرالفریقیت کی کامیابی کی تاریخی مثال بن گئے ہیں۔

ویانا کنونشن کیا ہے؟

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ چالیس سال پہلے رکن ممالک نے سائنس کی رہنمائی میں اور مشترکہ طور پر کام کرتے ہوئے اوزون کی تہہ کے تحفظ کی جانب پہلا قدم اٹھایا۔

اوزون کی تہہ کے تحفظ کے لیے منظور کردہ ویانا کنونشن اس معاملے میں عالمگیر تعاون کو باضابطہ شکل دیتا ہے۔ یہ کنونشن 22 مارچ 1985 کو 28 ممالک کی جانب سے منظور کیا گیا تھا۔

یہ پہلا معاہدہ ہے جس پر دنیا کے تمام ممالک نے دستخط کیے اور اسی کے نتیجے میں مونٹریال پروٹوکول بنایا گیا ہے۔

مونٹریال پروٹوکول کا مقصد ان مادّوں کی عالمی سطح پر پیداوار اور استعمال کی نگرانی کرنا ہے جو اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

کثیر الفریقی تعاون کی بہترین مثال

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام(یونیپ) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے اس دن پر اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ کنونشن کے تحت کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادے اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور اس کی تہہ میں موجود سوراخ بند ہو رہا ہے۔

جب سائنسدانوں نے اس معاملے میں خطرے کی گھنٹی بجائی تو رکن ممالک اور کاروباری ادارے اکٹھے ہوئے اور زمین کی حفاظت کے لیے عملی قدم اٹھایا جو کہ کثیرالملکی تعاون کی بہترین مثال ہے۔

مونٹریال پروٹوکول کی بدولت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک میں اوزون کی تہہ کو مضبوط بنانے کے معاملے میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے اور زیادہ تر ممالک نے نقصان دہ مادّوں کی پیداوار بند کرنے کے لیے مقرر کردہ وقت میں ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی یاد دلاتی ہے کہ جب رکن ممالک سائنس کے انتباہات پر دھیان دیتے ہیں تو ترقی ممکن ہوتی ہے۔

کیگالی ترامیم کی اہمیت

سیکرٹری جنرل نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ مونٹریال پروٹوکول میں شامل کیگالی ترمیم کی توثیق اور اس پر عملدرآمد کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیگالی ترمیم پر عملدرآمد اس صدی کے آخر تک عالمی حدت میں 0.5 ڈگری سیلسیئس تک اضافے سے بچا سکتا ہے۔

اگر اسے توانائی کی بچت کرنے والی کولنگ ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑا جائے تو ان فوائد کو دوگنا بڑھایا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ پیرس معاہدے میں واضح کیا گیا ہے، رکن ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ اوزون کے اس عالمی دن پر سبھی کو یہ گیس محفوظ رکھنے اور انسانوں اور زمین کے تحفظ کے عزم کو دہرانا ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • میئر کراچی نے وفاق کے منصوبے گرین لائن پر کام بند کرادیا
  • میئر کراچی نے وفاقی حکومت کے منصوبے گرین لائن پر جاری کام بند کرا دیا
  • حکومت! فوج کو عوام کے سامنے نہ کھڑا کرے، حزب‌ الله لبنان
  • حکومت زرعی پالیسیوں میں کسان کو ریلیف فراہم کرے، علامہ مقصود ڈومکی
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • کمیٹیاں بلدیاتی اداروں پر عوام کا دباؤ بڑھائیں گی‘ وجیہہ حسن
  • اسرائیلی سفاکانہ رویہ عالمی یوم جمہوریت منانے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے، علامہ ساجد نقوی
  • چاروں صوبوں کی فلور ملز کا وفاقی حکومت سے بڑا مطالبہ