Express News:
2025-11-03@14:45:49 GMT

پہلگام کے زخم، جنگ کی سیاست اور امن کی تلاش

اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT

پہلگام میں ہونے والے حالیہ حملے نے نہ صرف کئی گھرانوں کو سوگوار کیا بلکہ برصغیرکی فضا کو ایک بار پھر بارود کی بو سے آلودہ کردیا۔ ہم کب تک لاشیں گنتے رہیں گے؟ کب تک مائیں اپنے بیٹوں کے لاشے اٹھاتی رہیں گی؟ کب تک بچوں سے ان کے باپ چھینے جاتے رہیں گے؟ یہ سرزمین جس نے کبھی صوفیا، سنتوں، بھگتوں اور فقیر منش انسانوں کو جنم دیا، وہ اب مسلسل ایک جنگی میدان بنی ہوئی ہے جہاں انسان کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے اور سیاستدانوں کے لیے صرف نعرے اہم ہیں، عوام کی اذیت نہیں۔

پہلگام حملے کی مذمت نہ کرنا ظلم کا ساتھ دینا ہے۔ بے گناہ لوگوں پر حملے چاہے، وہ کسی بھی طرف سے ہوں، انسانیت کے خلاف جرم ہیں، مگر اس جرم کی آڑ میں دو ریاستوں کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کرنا اور امن کی ہر کوشش کو سبوتاژکرنا بھی ایک جرم ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ریاست اور غیر ریاستی عناصر میں فرق ہوتا ہے، اگر کسی غیر ریاستی تنظیم کی جانب سے کوئی مذموم حرکت کی جائے تو اس کی بنیاد پر پوری ریاست کو ذمے دار ٹھہرانا نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ ایک خطرناک روش بھی۔ اس سے نہ صرف غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں بلکہ وہ عناصر مزید طاقتور ہوتے ہیں جو دشمنی کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔

اس سارے منظر نامے میں بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کی دھمکیاں اور اس کی جانب بڑھتے قدم نہایت افسوسناک ہیں۔ یہ معاہدہ ان ہی دنوں میں ممکن ہوا تھا جب تقسیم کے زخم ابھی تازہ تھے، اگر اس وقت بھی دونوں ملکوں کے درمیان معاہدہ ہو سکتا تھا تو اب کیوں نہیں؟ آج بھی دونوں ممالک کے کروڑوں لوگ غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔

پاکستان کی گلیوں میں بھوک رقص کرتی ہے، ہندوستان کی بستیوں میں بھوک سسکتی ہے۔ ایسے میں پانی کو ہتھیار بنانا، زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت کو سیاسی انتقام کا ذریعہ بنانا، انسانیت کے خلاف ایک اور حملہ ہے۔ یہ معاہدہ ان لاکھوں کسانوں کے مستقبل کی ضمانت تھا جن کے کھیت پانی کے ایک ایک قطرے کے محتاج ہیں۔ اس کو ختم کرنے کی بات دراصل اُن کسانوں کے ساتھ غداری ہے چاہے وہ ہندوستان کے ہوں یا پاکستان کے۔

ہمیں یورپ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ یورپ جس نے دو عظیم جنگوں میں کروڑوں جانیں کھو دیں، جہاں برلن کی گلیاں ویران ہوئیں، وارسا کے ملبے اور پیرس کے خواب خون میں نہا گئے، آج وہی یورپ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہے۔ فرانس اور جرمنی جنھوں نے ایک دوسرے کو دہائیوں تک دشمن سمجھا، آج یورپی یونین کے ستون ہیں۔

وہاں کے رہنما جان چکے ہیں کہ دشمنی کسی مسئلے کا حل نہیں اور جنگ صرف لاشیں دیتی ہے، زندگی نہیں۔ انھوں نے ایک ایسا نظام وضع کیا جس میں مکالمہ ہے، مشاورت ہے اور سب سے بڑھ کر انسان کی حرمت کا احساس۔ برصغیر کیوں نہیں سیکھتا؟ کیوں ہم امن کو کمزوری سمجھتے ہیں اور جنگ کو غیرت کا نام دیتے ہیں؟ کیوں ہماری تاریخ ہر دس سال بعد ایک نئی جنگ کے خونی باب سے داغدار ہوجاتی ہے؟

پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی مکینزم ہونا چاہیے جو ایسے واقعات کو رونما ہونے سے پہلے ہی روکے۔ دونوں ملکوں کی انٹیلیجنس ایجنسیاں اگر ایک دوسرے سے رابطے میں ہوں، ایک مشترکہ تحقیقاتی بورڈ قائم ہو، تو ہم کسی بھی واقعے کی ذمے داری کا درست تعین کرسکتے ہیں اور بے گناہ ریاستوں کو الزام کے دائرے میں آنے سے بچا سکتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر دونوں ممالک کے نوجوان صحافی، دانشور، ماہرین تعلیم اور فنکار باقاعدگی سے ملاقات کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں اور مل کر ایسا بیانیہ بنائیں جو نفرت کے خلاف ہو، محبت کے ساتھ ہو۔ ہم کیوں ہر بار وہی کہانی دہراتے ہیں جس کا انجام ہمیشہ تباہی ہوتا ہے؟

یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ نفرت کی سیاست صرف انتخابی فائدے کے لیے کی جاتی ہے۔ جب بھی بھارت میں انتخابات قریب آتے ہیں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے، جس کا سارا بوجھ پاکستان پر ڈال کر ووٹ بٹورے جاتے ہیں اور پاکستان میں بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو ہر مثبت اشارے کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ہرکوشش کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔

دونوں اطراف میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے امن کے راستے پرکانٹے بچھا رکھے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان کانٹوں سے ڈر کر راستہ بدل دیں گے؟ یا ان کو چنتے ہوئے ایک نیا راستہ بنائیں گے؟یہ وقت ہے کہ ہم ان مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہوں جن کے عزیز پہلگام میں مارے گئے، مگر ساتھ ہی ساتھ، یہ بھی وقت ہے کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ بھی کھڑے ہوں جو جنگ کی سیاست کا شکار ہیں۔ جو چاہے کشمیر کی سرزمین پر ہوں یا تھرکی ریت میں جن کے لیے جنگ صرف بھوک اور موت لاتی ہے۔ اگر ہم نے امن کا راستہ نہ اپنایا تو اگلا حملہ کسی اور شہر میں ہو گا ،کسی اور ماں کی گود اجڑے گی اور ہم ایک بار پھر صرف تعزیت کر سکیں گے، کوئی بہتری نہیں لا سکیں گے۔

پانی کی لڑائی ہو یا سرحد کی کشیدگی یا غیر ریاستی عناصر کا مسئلہ ان سب کا حل جنگ نہیں بلکہ مکالمہ ہے، مذاکرات ہیں۔ ہمیں اس خطے کو یورپ بنانا ہوگا، وہ یورپ جو لڑتے لڑتے تھک گیا اور پھر امن کی چادر اوڑھ لی۔ ورنہ ہم صرف اپنے بچوں کو ایک ایسا برصغیر دے سکیں گے جہاں مٹی میں خون کی بو ہو اور ہوا میں بارود کی دھول، کیا ہم یہی چاہتے ہیں؟ یا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں اس دھرتی پر امن کے ساتھ جئیں، محبت کے ساتھ رہیں اور صرف ایک دوسرے کی قبریں نہ کھو دیں بلکہ ایک دوسرے کے خوابوں میں شریک ہوں۔

فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے، وقت بہت کم ہے۔ دشمنی کے دن گنے جا چکے ہیں، اب محبت کو موقع دینا ہوگا۔ ورنہ تاریخ ایک بار پھر ہمیں شکستہ لفظوں میں یاد کرے گی کہ ہم وہ لوگ تھے جو امن کو صرف تقریروں میں چاہتے تھے عمل میں نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ایک دوسرے کے ساتھ ہیں اور

پڑھیں:

پاکستان کی 20 سال بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے حوالے سے بڑی کامیابی

ویب ڈیسک : پاکستان میں توانائی کے شعبے میں نئی سرمایہ کاری کے دروازے کھل گئے ہیں، آف شوربڈنگ راؤنڈ میں 23 بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول ہوگئیں۔

وزیراعظم شہباز شریف کے انرجی سیکیورٹی وژن کے مطابق مقامی وسائل کی ترقی میں بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے، پاکستان کو 20 سال بعد سمندر میں تیل و گیس oil and gas کے ذخائر کی تلاش کے سلسلے میں اہم حاصل ہوئی ہے۔

اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں 80 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی، پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق زیر سمندر تیل اورگیس کیلئے ڈرلنگ کے دوران سرمایہ کاری ایک ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔

سندھ : گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی تبدیلی میں مزید 2 ماہ کا اضافہ  

کامیاب بولیاں 53 ہزار 510 مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر محیط ہیں، انڈس اور مکران بیسن میں بیک وقت ایکسپلوریشن کی حکمت عملی کامیاب رہی۔کامیاب بڈنگ راؤنڈ اپ اسٹریم سیکٹرمیں سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر ہے۔

پیٹرولیم ڈویژن کے مطابق ترکیہ پیٹرولیم،یونائیٹڈ انرجی اورینٹ پیٹرولیم اورفاطمہ پیٹرولیم نے شمولیت کی،اوجی ڈی سی ایل،پی پی ایل،ماڑی انرجیز اور پرائم انرجی کامیاب بڈرز میں شامل ہیں۔

امریکی ادارے ڈیگلیور اینڈ میکناٹن نے پاکستان کے سمندری علاقے میں تقریباً 100 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ممکنہ ذخائرکا اندازہ لگایا ہے۔ آف شور راؤنڈ 2025 کے ذریعے پاکستان میں توانائی کے نئے باب کا آغاز ہو گیا ہے جو ملکی معیشت اور توانائی کے تحفظ کے لیے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔

پنجاب بار کونسل کی 75 نشستوں کیلئے پولنگ جاری

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی:ڈی جی آئی ایس پی آر
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • صرف بیانات سے بات نہیں بنتی، سیاست میں بات چیت ہونی چاہیے: عطاء تارڑ
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • نارووال،خانہ بدوش بچہ کچرے کے ڈھیر سے کام کی اشیا تلاش کررہاہے
  • تلاش
  • پاکستانی سیاست… چائے کی پیالی میں طوفان
  • پاکستان کی 20 سال بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کے حوالے سے بڑی کامیابی
  • پاکستان میں 20 سال بعد سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش کیلئے کامیاب بولیاں
  • اسرائیل جنگ بندی ختم کرنے کے بہانے تلاش کررہا ہے: اردوان