مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی نہریں بنانے کے منصوبے کو ختم کر دیا گیاہے۔ اس ضمن میں پہلے جو منظوریاں جاری کی گئی تھیں ، انھیں واپس لے لیا گیا ہے۔
یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ نئی نہریں نہیں بنیں گی، سارے منصوبے ختم کر دیے گئے ہیں۔کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی جیت گئی ہے؟ کیا اب پیپلزپارٹی فتح کے جشن کے ساتھ سندھ جا سکتی ہے؟ کیا پیپلزپارٹی نے سندھ کا مقدمہ جیت لیا؟ ویسے تو میں اس بات کے سخت خلاف ہوں کہ ہم صوبائیت کی بات کریں۔ لیکن کیا کریں، جب سے اٹھارویں ترمیم پاس ہوئی ہے، صوبائیت بڑھ گئی ہے۔ موقع پرست طبقے پاکستان کے مفاد پر صوبے کے مفاد کا نام لے کر اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سیاست میں اس طرز فکر کو صوبائی کارڈ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی اچھی سیاسی روش نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف زرداری نے پہلے ان نئے نہری منصوبوں کی بطور صدر پاکستان منظوری دی تھی۔ لیکن پھر سندھ میں اپنی سیاست کو نقصان پہنچتا دیکھ کر وہ خود خاموش ہو گئے اور پیپلزپارٹیٰ نے کھل کرمخالفانہ سیاست کی ہے۔ واقعی سیاست ایک بے رحم کھیل ہے۔
پاکستان میں یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ اس سے پہلے ہم نے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بلاول بھٹو سے ملاقات میں بھی کہا کہ وہ آج بھی سمجھتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ لیکن اس کی بھی صوبائی سیاسی مفادات کے تناظر میں مخالفت کی گئی۔ ہر گروہ نے اپنی اپنی سیاست کے چکر میں اہم آبی منصوبہ رکوا دیا ۔ کے پی نئی نہروں کے حق میں تھا۔ بلوچستان کو بھی اعتراض نہیںتھا۔ نئی نہریں بلوچستان کی بھی ضرورت ہیں۔ لیکن سندھ کے اعتراضات اور احتجاج پر نئی نہروں کے منصوبے کو ختم کرنا پڑ گیا ہے۔
آج پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ اگر خدانخواستہ بھارت دریاؤں میں بہنے والا باقی ماندہ پانی بھی روکنے میں کامیاب ہوجاتا تو کیا دریائے سندھ کا پانی کم نہ ہوگا؟ کیونکہ پنجاب سے گزرنے والے پانچوں دریاؤں کا سارا پانی دریائے سندھ میں گرتا ہے ۔یوں طاس معاہدہ ختم ہونے کا نقصان سند ھ کو بھی اتنا ہی ہوگا جتنا باقی صوبوں کو ہوگا۔
افغانستان میں دریائے کابل پر ڈیم بن چکا ہے، اس کا پانی وادی پشاور کو سیراب کرتا ہے، دریائے کابل کا پانی بھی پاکستان میں آکر دریائے سندھ میں گرتا ہے، کیا یہ بات سوچنے والی نہیں ہے کہ جب کالا باغ ڈیم بھی نہیں بنا، کوئی اور بڑا ڈیم بھی نہیں بنا، نئے نہریں بھی نہیں بنی تو پھر دریائے سندھ میں پانی کی مقدار کم کیوں ہورہی ہے؟ اگر دریائے سندھ کے پانی کو صرف سندھ کی ملکیت سمجھ لیا جائے تو کل جب بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم کرکے نئے آبی ذخیرے بناتا ہے، افغانستان دریائے کابل یا ورسک کے پانی کو روک کر آبی ذخیر بناتا ہے تو پھر کیا یہ دیکھا جائے گا کہ پانی تو صرف دریائے سندھ کا ختم ہورہا ہے، باقی صوبے سندھ کے پانی کی جنگ کیوں لڑیں گے؟۔ جب پانی کی جنگ سب نے ملکر لڑنی ہے تو پانی بھی سب کا ہے۔
ایک وقت تھا جب اے این پی کی سیاست کا محور ہی کالا باغ ڈیم تھا۔ کالا باغ ڈیم منصوبہ ختم ہوا توآج ان کے پاس سیاست کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ پی ٹی آئی کے سیاسی طوفان کی نذر ہوکر دو یا تین سیٹوں کی پارٹی بن گئی ہے ، ایسے ہی نہروں کی سیاست کرنے والوں کے ساتھ بھی ہونا ہے ، ان کی سیاست چار دن کے لیے نہروں کے ساتھ زندہ ہوئی تھی۔ اور اب جب نہروں کا منصوبہ ہی ختم ہو گیا ہے، ان کی سیاست بھی ختم ہو گئی ہے۔
پنجاب کے باشعورحلقے دیکھ رہے ہیں کہ بے شک پیپلزپارٹی خود کو ایک وفاقی جماعت کہتی ہے۔ ایک وقت میں وہ پنجاب کی بڑی جماعت تھی۔ اس کی ٹاپ قیادت بھی پنجاب سے الیکشن لڑا کرتی تھی، اسے پنجاب کی جماعت کہا جاتا تھا۔ لیکن آج پیپلز پارٹی صرف سندھ کی جماعت رہ گئی ہے۔ اس کا پنجاب میں ووٹ بینک ختم ہوگیا ہے۔ پنجاب میں اب اس کے امیدواران کی ضمانتیں ضبط ہو جاتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ نہروں کے معاملہ پر پیپلزپارٹی نے اپنے پنجاب کے ہارے ہوئے سیاستدانوں سے نہروں کی مخالفت کرائی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں پیپلزپارٹی کی پنجاب کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔
یہ درست ہے کہ پنجاب میں پنجاب کے نام پر سیاست نہیں کی جاتی۔ پنجاب میں صوبائیت کی سیاست نہیں ہے۔ اسی لیے پنجاب کی بار کونسل ہے جو سندھ سے بڑی بار ہے، اس نے نہروں کے حق یا مخالفت میں تحریک نہیں چلائی ۔ جب سندھ میں مظاہرین نے پنجاب آنے والی سڑکیں بند کی ہوئی تھیں۔ تب پنجاب میں سندھ جانے والی سڑکیں بند کرنا تو دور کی بات کسی نے روڈز بلاک کرنے کی بات تک نہیں کی۔ پنجاب کے سیاستدان اور دانشور جذباتی نہیں ہوئے ۔
پنجاب کی اجتماعی دانش کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی نے ایک مرتبہ پھر خود کو پنجاب سے دور کر لیا ہے۔ نہروں کی مخالفت کے ایشو پر ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو پیپلزپارٹی کے دوست ہیں نہ سندھ کے قوم پرستوں سے مخلص ہیں اور نہ ان کا ایجنڈا سندھ کی ترقی و خوشحالی ہے، وہ اپنی متعصب ایجنڈے کو فالو کر رہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ سندھ کے قوم پرستوں کو ان کا پتہ ہوگا۔ بہرحال پنجاب میں پیپلزپارٹی کے پاس جنوبی پنجاب میں سیاسی طاقت رہ گئی ہے۔ وسطی اور جنوبی پنجاب میں سیاسی طاقت کافی کم ہوگئی ہے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب پیپلزپارٹی کو جنوبی پنجاب میں بھی خاصا سیاسی نقصان ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کالا باغ ڈیم دریائے سندھ نہروں کے کی سیاست پنجاب کے پنجاب کی سندھ کے پانی کی کے ساتھ نہیں ہے گئی ہے ختم ہو
پڑھیں:
بارش و سیلاب کی تباہ کاریاں
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، اس سال بارشوں سے متعلقہ حادثات کے نتیجے میں اب تک 260 سے زائد قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں، جب کہ املاک اور بنیادی ڈھانچے کو ہونے والا نقصان 60 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں کئی دیہات یا تو زیرِ آب آگئے ہیں یا مکمل طور پر منقطع ہو گئے ہیں۔ فصلیں، جو کٹائی سے محض چند ہفتے دور تھیں، بہہ گئی ہیں، جس سے پہلے ہی مشکلات کا شکار دیہی آبادی پر مزید بوجھ پڑا ہے۔
ہر سال مون سون کی بارشوں سے ملک کے کسی نہ کسی حصے میں سیلاب ضرور آتا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ مون سون کی بارشوں میں نقصانات سے بچنے کے لیے کوئی پیشگی انتظامات نہیں کرتی۔ اس وقت پاکستان میں بہنے والے دریاؤں میں پانی کی سطح شدید بارشوں کی وجہ سے بلند ہو رہی ہے اور جب ان دریاؤں کا سیلابی پانی دریائے سندھ میں داخل ہوگا تو ایک متوقع تباہی کا سوچ کر ہی خوف طاری ہوجاتا ہے۔ 2022 میں سندھ سیلاب سے شدید متاثر ہوا تھا۔
سندھ کے شہروں میں تو قدرتی ندی نالوں پر قبضے ہوچکے ہیں۔ سڑکیں، بند، اور ریلوے لائنیں بغیر کسی کراس ڈرینیج کے بنائی گئی ہیں۔ جہاں پہلے دریا 15 کلومیٹر چوڑا تھا، وہاں پل کی لمبائی صرف ایک کلومیٹر رکھی گئی ہے۔ یہ رکاوٹ سیلابی پانی کے بہاؤ کے لیے نہایت خطرناک ہے، جو اپ اسٹریم بندوں پر دباؤ بڑھاتی ہے اور بند ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور پانی ٹھہر کر تباہی مچاتا ہے۔
سندھ کے صوبائی سڑکوں کے محکمے نے سیلاب کو عام تعمیراتی مسئلہ سمجھا ہے۔ ان اداروں کے ایس او پیز اور قواعد کو ایمرجنسی کی مناسبت سے بدلنے کی ضرورت ہے، کیونکہ رابطے کی بحالی ہی انخلاء، ہنگامی فراہمی اور لوگوں کی مدد کے لیے بنیادی قدم ہے، دراصل پانی کو روکنے کے لیے نیچر بیسڈ حل اپنانے ہوں گے۔ جیسے شہروں میں پارکس یا کھیل کے میدانوں کو عارضی واٹر ریٹینشن زون بنانا، قدرتی جھیلوں اور دلدلی علاقوں کی بحالی، جہاں پانی عارضی طور پر ذخیرہ کیا جا سکے، جہاں ممکن ہو وہاں چھوٹے ریٹینشن ڈیمز بنانا اور شجرکاری کو فروغ دینا۔ پچھلی دہائیوں میں سڑکوں، نہروں، اسکیموں اور ریلوے لائنوں کی تعمیر نے قدیم ندی نالوں کو بند کردیا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں نے قدرتی پانی کے بہاؤ کو روک دیا ہے۔ ان مقامات کی ازسرِنو شناخت اور بحالی کی ضرورت ہے۔ نکاسی کے راستے کھولنے ہوں گے۔
آج ہمارے ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں سنگین صورت اختیار کرچکی ہیں تو اس کے ذمے دار حکمران اور انتظامیہ ہے، جو کچھ شمالی علاقوں میں ہوا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں درخت اور جنگلات بے دریغ کاٹے جارہے ہیں۔ پہاڑ کے پہاڑ اسٹون کرشنگ کے نام پر غائب کیے جا رہے ہیں۔ دریاؤں کے اندر ہوٹلز اور مکانات بنا لیے گئے ہیں۔
یہ سب انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ عوام، خصوصاً سیاحوں اور سنسنی کے متلاشی افراد کی غفلت اور لاپروائی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہر سال جب محکمہ موسمیات کی جانب سے وارننگز جاری کی جاتی ہیں، تب بھی کئی لوگ خطرناک علاقوں کا رخ کرتے ہیں، دریاؤں کے کنارے کیمپ لگاتے ہیں یا ان پہاڑی راستوں پر چڑھائی کرتے ہیں جو لینڈ سلائیڈنگ کے لیے مشہور ہوتے ہیں۔ ایسی لاپروائی بارہا قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب بنی ہے، نہ صرف ان افراد کی، جو خود خطرہ مول لیتے ہیں، بلکہ ان امدادی کارکنوں کی بھی، جو انھیں بچانے کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں۔
بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا اور نہ اب اس طرف کوئی توجہ دی جا رہی ہے۔ سیاحتی علاقوں میں بنیادی سہولتیں موجود نہیں۔ سیاحوں کے لیے ایمرجنسی کی صورت میں کوئی ہیلپ لائن نہیں۔ ہمارے ملک کے شمال میں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہیں لیکن ہم ان جگہوں کو آج تک ویسے کیش نہیں کراسکے جیسے دنیا کے دیگر ممالک اپنے سیاحتی مقامات کوکراتے ہیں۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے سیاحتی مقامات پر بنیادی سہولتوں کی فراہمی، ایمرجنسی سروسز کی فراہمی، انفرا اسٹرکچر کی بہتری بہت ضروری ہے۔
گلگت بلتستان اور سوات میں سیاحوں کی اموات کے بعد اکثر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ سیاح اس خراب موسم میں پہاڑی علاقوں کی طرف جاتے ہی کیوں ہیں؟ ملک کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ سارا سال پیسے جمع کر کے بمشکل ان علاقوں کی سیاحت کے لیے جاپاتے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر انھیں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں آتیں۔ گرمی کے ستائے عوام ان چھٹیوں میں پہاڑوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں ناکافی سہولتوں اور بدانتظامی کی وجہ سے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں، اگر متعلقہ محکمے پہلے ہی الرٹ جاری کردیں اور کسی ممکنہ حادثے سے نمٹنے کے لیے پیشگی انتظامات مکمل رکھیں تو اتنا زیادہ نقصان نہ ہو۔ پہاڑی علاقوں میں کوئی ایسی خصوصی فورس نہیں دیکھی گئی جو کسی حادثے کی صورت میں سیاحوں کے ریسکیو کے لیے موجود ہو، عموماً مقامی لوگ ہی سیاحوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں۔
حالیہ بارشوں سے ملک کے شمالی علاقوں میں ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابوں کو اور بڑے شہروں میں اربن فلڈنگ کو قدرتی آفات قرار دے کر متعلقہ حکام خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ اربن فلڈنگ کی ذمے دار قدرت نہیں بلکہ حکومت اور انتظامیہ ہے۔ ہر شہر میں نئے نئے رہائشی منصوبے بن رہے ہیں لیکن ان منصوبوں میں نکاسی آب کے نظام کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ حتیٰ کہ ان رہائشیوں منصوبوں میں آنے والی قدرتی آبی گزرگاہوں کو بھی بند کر دیا جاتا ہے اور وہاں پلاٹ بنا کر فروخت کر دیے جاتے ہیں۔
راولپنڈی کے نالہ لئی کے دونوں طرف تجاوزات کی بھرمار ہے اور ہر سال مون سون کی بارشوں میں نالے کے دونوں اطراف کی آبادی اربن فلڈنگ کا سامنا کرتی ہے۔ پیچھے پہاڑوں پر ڈیم بن جاتے تو بھی ایسا نہ ہوتا۔ ڈیم کیا بنتے یہاں تو پہلے سے موجود نالے بھی تنگ کردیے گئے ہیں، سیوریج کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ اس وجہ سے پانی رہائشی علاقوں میں داخل ہوجاتا ہے۔ جب تک ملک میں نئے رہائشی منصوبوں میں نکاسی آب کے بہتر نظام کو ترجیح نہیں دی جائے گی، نئے ڈیم نہیں بنیں گے، عوام کو اسی صورتحال کا سامنا رہے گا۔
اسلام آباد میں تعمیر ہونے والے نئے ایونیو کی وجہ سے اب سفارتی انکلیو میں پانی جمع ہوجاتا ہے۔ بارش میں اس ایونیو کی سڑکیں بھی بیٹھ رہی ہیں اور انڈرپاس میں پانی بھرجاتا ہے۔ کھڑے پانی میں ڈینگی مچھر افزائش پا رہے ہیں۔ جڑواں شہروں میں جہاں جہاں نالوں کی جگہ تنگ کرکے تعمیرات کی گئی ہیں، وہاں مون سون میں ہر سال اربن فلڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان نالوں پر تجاوزات کے خاتمے کے لیے بھرپور کارروائی ہونی چاہیے، عوام کو متبادل جگہ دی جانی چاہیے۔
زرعی میدان، جو کبھی بارش کے پانی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اب کنکریٹ اور تارکول میں بدل چکے ہیں۔ نہریں اور ذیلی نالے یا تو تنگ کر دیے گئے ہیں یا ان کا رخ موڑ دیا گیا ہے۔ بعض صورتوں میں خشک دریا کے کناروں پر تعمیرات کر ڈالیں، اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے یا جان بوجھ کر بھلا کر کہ یہ خشک راستے مردہ نہیں بلکہ خاموش ہیں۔ جب قدرت اپنا حق واپس لیتی ہے تو نتائج تباہ کن ہوتے ہیں۔ لاہور اور شیخوپورہ کے درمیان کبھی زرخیز رہنے والا علاقہ، اسلام آباد کے گرد و نواح اور کراچی کی مضافاتی بستیاں اس بات کی تلخ مثالیں ہیں کہ کس طرح بے لگام تعمیر و ترقی نے ماحولیاتی توازن بگاڑا اور انسانی مصائب کو جنم دیا۔
اس دکھ میں مزید اضافہ نکاسی آب کے نظام کی مجرمانہ غفلت سے ہوتا ہے۔ پاکستان کے بڑے شہر ہر سال بند گٹروں اور صاف نہ کیے جانے والے نالوں کا شکار ہوتے ہیں۔ بارہا حادثات کے باوجود مقامی انتظامیہ شاذ و نادر ہی بروقت صفائی مہمات کا آغاز کرتی ہے۔ چنانچہ معمولی بارش بھی پورے علاقوں کو زیرِ آب کردیتی ہے، شہری آمد و رفت مفلوج ہو جاتی ہے، اور عوامی و نجی املاک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
ہمارے سامنے چیلنج بہت بڑا ہے لیکن ناقابل تسخیر نہیں، اگر ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، حکمت کو سائنس کے ساتھ جوڑتے ہیں اور اپنے اعمال کو عقل اور راستبازی دونوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں، تو ہمیں حفاظت کا راستہ مل سکتا ہے، ورنہ اگلے سال بارشیں لوٹ کر آئیں گی اور ان کے ساتھ دکھ کا ایک اور باب بھی لائیں گی۔