بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحانہ تیاریاں، پاکستان چوکنا رہے!
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
بھارت کا جنگی جنون بے قابو ہوتا جا رہا ہے۔امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت پہلگام واقعے میں پاکستان کے خلاف شواہد نہ ہونے کے باوجود حملے کا ماحول بنا رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ‘‘ ایسا لگتا ہے کہ بھارت پاکستان پر حملے کے لیے اپنا کیس بنا رہا ہے ، کیونکہ غیر ملکی سفارت کاروں کے مطابق بھارت پہلگام حملے پر پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا۔
پہلگام واقعے کے بعد بھارت نے 100غیر ملکی سفارت کاروں کو وزارت خارجہ بلاکر بریفنگ دی، پہلگام واقعے کے ذمہ داروں کی شناخت کے ڈیٹا سمیت تکنیکی انٹیلی جنس کے بارے میں مختصر طور پر آگاہ کیا گیا۔بریفنگ میں شریک سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق اس بریفنگ میں بھارت واقعے سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر سکا۔
اس بریفنگ سے آگاہ 4 سفارت کاروں نے بتایا کہ نئی دہلی بظاہر اپنے ہمسایہ اور روایتی دشمن کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے کیس بنا رہا ہے ، تاہم اس کے پاس ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہو کہ پہلگام حملے میں پاکستان ملوث ہے ۔ اندرونی خلفشار سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے بھارت نے پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دی ہیں، پہلگام واقعے کے فورا بعد بھارت نے پاکستان پر الزام دھر دیا، مودی نے پاکستان کیخلاف اقدامات میں مدد اور تعاون مانگنے کے لیے درجنوں ملکی سربراہان سے رابطہ کیا’’۔امریکی اخبار کی رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ‘‘ بھارت عالمی برادری میں کشیدگی کم کرنے کے بجائے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز تیار کر رہا ہے ، مودی نے پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام لگایا، اور شدید ردعمل کی بھی دھمکی دی’’۔
بھارتی وزارت خارجہ میں سفارت کاروں کو بریفنگ میں، بھارتی حکام نے بھارت کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروپوں کی حمایت کرنے پر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا۔بھارتی تجزیہ کاروں اور سفارتکاروں کے مطابق بھارت کو پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے دہشت گردانہ حملے کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے ، بھارت نے 1960کے سندھ طاس انڈس معاہدے کو معطل کر دیا۔ یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ مودی کی جنگی جنون میں مبتلا سرکار نے پہلگام حملے کے حوالے سے اب تک پاکستان کیخلاف کوئی عوامی ثبوت پیش نہیں کیااور اب مختلف ممالک کے سفارت کاروں کو دی گئی بریفنگ سے بھی واضح ہو رہا ہے کہ ایسا کوئی ثبوت سفارت کاروں کی بریفنگ میں بھی نہیں رکھا گیا۔ دلچسپ طور پر یہ مطالبہ صرف سفارت کاروں کا نہیں کہ بھارت کو پاکستان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت پیش کرنا چاہئے بلکہ یہ خود بھارت کے اندر سے بھی اب مطالبہ سامنے آرہا ہے کہ بھارت کوئی ثبوت پیش کرے۔ افسوس ناک طور پر بھارت میں سوشل میڈیا پر ایسے سوال اُٹھانے والے گرفتار ہو رہے ہیں۔
اس کے باوجود بھارت کی طرف سے مسلسل سزا دینے اور دہشت گردی کے ایسے سرحد پار تانوں بانوں کا ذکر مسلسل جاری ہے جس کا اشارہ اور ہدف براہِ راست پاکستان ہے۔دوسری طرف بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیریوں کے خلاف اپنے کریک ڈاؤن کو تیز کیا ہے۔ بھارت میں مسلم مخالف جذبات بھی شدت اختیار کر چکے ہیں، بھارت میں کشمیری طلبہ کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بے دخل بھی کیا جا رہا ہے۔
پہلگام واقعے کے بعد بھارت کے پاکستان کے خلاف اقدامات اور پاکستان کی جانب سے جوابی علامتی اقدامات کے باوجود یہ معاملہ اب تھمنے میں نہیں آرہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے24؍اپریل کو بہار میں ایک تقریر کے دوران واضح طور پر پاکستان کے خلاف کارروائی کا اشارہ دیا ہے۔ اُن کے اپنے الفاظ میں‘‘ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کا دنیا کے آخری کونے تک پیچھا کریں گے’’ ۔
نریندری مودی کے ان الفاظ میں‘‘ فوجی کارروائی’’ کا اشارہ پوری طرح موجود ہے۔ روایتی فوجی کارروائیوں کے علاوہ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے خلاف سائبر حملے اور غیرمتناسب کارروائیاں دیگر کارروائیوں کا بھی سہارا لیا جا سکتا ہے۔ کچھ حلقے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحدوں پر بھاری ہتھیار تعینات کیے جاچکے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان کو اندرونی محاذپر سیاسی یکجہتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ پوری قوم کی جانب سے ہم آہنگی کے ساتھ دیاجا سکے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت پاکستان بدترین طور پر سیاسی پولرائزیشن کا شکار ہے اور عملاً پاکستان کی غیر نمائندہ موجودہ حکومت کے لیے بھارت سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ پاکستان کے مقبول ترین اسیر رہنما عمران خان ہیں۔ پاکستان کو اس مسئلے کو فوری طور پر کسی مفاہمانہ راستے پر ڈالنا چاہئے تاکہ وہ مخالفت جو ہزاروں مقدمات ، ہزاروں گرفتاریاں اور جبرِ مسلسل کے باوجود ختم نہیں کی جاسکی ، اُسے ایک مفاہمانہ راستے سے ختم کیا جا سکے۔ اس کے بغیر دوسری طرف بھی یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کو اس لیے نظرانداز کیا جا رہا ہے کیونکہ اُنہیں سیاسی طور پر پوری طرح کنارے پر دھکیلنے والی قوت کے لیے اُن کے دلوں میں کوئی ہمدردی کی جوت نہیں جاگ رہی۔ بہرحال یہ نہایت ضروری ہے کہ پاکستان اپنے ازلی دشمن کے خطرے کے باعث اندرونی طور پر اپنی صفوں کو منظم اور یکسو بنائے۔
یاد رکھیں کہ بھارت کا جنگی جنون کسی بھی فوجی کارروائی کے خطرے کو مکمل بیدار کر چکا ہے۔یہ کوئی انوکھی فضا نہیں ہے گزشتہ پچیس برسوں میں دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان پانچ بڑے بحران پیدا ہو چکے ہیں اور ایک کے بعد ایک بحران میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات مزید پیچیدگیوں اور کارروائیوں کے خطرات مزید تیزیوں کے ساتھ نمودار ہوتے رہے ہیں۔
2001میں انڈین پارلیمنٹ اور 2008میں ممبئی حملے نے دونوں ممالک کو جنگ کے قریب پہنچا دیا تھا۔ جبکہ2016میں اڑی حملے اور 2019میں پلوامہ حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے اندر ‘سرجیکل سٹرائیک’ کی مذموم روش اختیار کی تھی۔ بھارت موجودہ عالمی فضا میں اسرائیل کی روش پر چلتے ہوئے اپنے تئیں‘‘سزا’’ دینے میں خود کو غیر جوابدہ سمجھ سکتا ہے۔ مگر پاکستان ظاہر ہے کہ فلسطین نہیں ہے۔ اس لیے دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان خطرات کی یہ سطح زیادہ سنگین ہو جاتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف لاپروا نریندر مودی ہے جو اپنے ملک میں مسلسل جنگی جنون کو ہوا دے کر خود انتہا پسند ہندوؤں کو اندرون ملک مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں پر اُکسا رہا ہے تو دوسری طرف بھارت ایک انتہا پسند ریاست کے طور پر جارحیت کے امکان کو دنیا کے سامنے فروغ دے رہا ہے۔ جیسا کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ نشاندہی کرتی ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں کی جنگوں، لڑائیوں اور بحرانوں کی تاریخ میں موجودہ عالمی فضا ماحول کو زیادہ خطرناک بنا رہی ہے۔ ایک طرف امریکا ہے جس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیاکو تجارتی بلیک میلنگ سے کھڈیر رہے ہیں اور پاکستان بھارت تنازع پر کہہ رہے ہیں کہ ‘‘یہ برسوں پرانے مسئلے ہیں دونوں ممالک آپس میں حل کر لیں گے’’۔
امریکا کے علاوہ بھارت نے آج تک کسی اور کا دباؤ قبول نہیں کیا۔ اور دنیا عالمی مسائل کے حل میں عالمی اداروں کی کم ہوتی اثر پزیری کامشاہدہ اپنی آنکھوں سے فلسطین میں کر رہی ہے۔ ایسے میں اکا دکا آوازیں ایران اور سعودی عرب کی سنائی دی ہے ۔ جس کا اثر دونوں ہی ممالک پر کچھ زیادہ اس وقت نہیں پڑے گا۔یوں غیر روایتی سائبر لڑائیوں سے لے کر سرجیکل اسٹرائیک اور محدود جنگ کے خدشات دونوں ممالک میں بہت تیزی سے پیدا ہو رہے ہیں۔ یہ خدشات 2019ء سے زیادہ بھیانک رخ بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ اگرجہ 2019ء کا بحران تیسرے فریق کی مدد حل ہوا تھا۔مگر ابھی تک یہ واضح نہیں کہ پاکستان بھارت کا موجودہ بحران کیا کروٹ لے گا اور اس میں تیسرا فریق کون ہوگا؟
عالمی سطح پر بدلتے منظرنامے اور جنگوں کے لیے فروغ پزیر فضاء میں یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ پاکستان فوری طور پر دنیا کو موجود بحران کی حساسیت کی طرف متوجہ کرے جہاں دو ایٹمی ممالک کے اندر پچیس برسوں کے پانچ بڑے بحرانوں کی تاریخ میں محدود جنگ کے خطرات سمیت نامتباسب کارروائیوں کے سائے مسلسل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔اور یوں 1.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پہلگام واقعے کے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی سفارت کاروں میں پاکستان پاکستان کی پاکستان پر بریفنگ میں کہ پاکستان نے پاکستان پاکستان کو بعد بھارت جنگی جنون کے باوجود بھارت کو کہ بھارت کے مطابق بھارت نے ثبوت پیش بھارت کے ا رہا ہے رہے ہیں حملے کے کے لیے کے بعد ہیں کہ
پڑھیں:
حکومت عالمی فضا کو بھارت کے خلاف موثر استعمال کرے!
مقبوضہ کشمیر کے سیاحی علاقے پہلگام میں ۲۲ ؍ اپریل کے واقعے کی آڑ لے کر بھارت نے پاکستان کے خلاف جو یکطرفہ فضا بنانے کی تہ در تہ سازشیں کی تھیں، وہ بُری طرح ناکام ہو رہی ہیں۔ بھارت کسی بھی سطح پر اس کارروائی کے حوالے سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہورہا ۔ جس کا اندازا عالمی سطح پر ردِ عمل سے ہوتا ہے۔ گزشتہ روز پاکستان کو ایک بڑی کامیابی اس طرح ملی کہ سلامتی کونسل میں بھارت پاکستان کے خلاف اپنی مرضی کی ‘‘مذمت’’ حاصل کرنے میں ناکام ہوا۔ خبروں کے مطابق ‘‘اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں پیش آنے والے واقعے کی مذمت کی تاہم بھارت کی پاکستان کے خلاف خواہش پوری نہ ہو سکی۔
پلوامہ حملے کے بعد جاری بیان کی طرح اس بار سخت زبان استعمال کرنے کی بھارتی خواہش پوری نہیں ہوسکی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی سفارتکاری کام کر گئی اور بھارت ہاتھ ملتا رہ گیا۔سلامتی کونسل کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ہوئے واقعے پر اظہارِ مذمت کی گئی تاہم پلوامہ حملے کے بعد جاری بیان کی طرح سخت زبان استعمال نہیں کی گئی۔سلامتی کونسل کے بیان میں بھارت کی جگہ صرف تمام متعلقہ حکام کے الفاظ استعمال کیے گئے ۔سلامتی کونسل میں بیان امریکا نے تجویز کیا تھا،مگریہ متفقہ بیان کے طور پر منظور نہیں ہو سکا، پاکستان نے اپنی سفارتی کوششوں سے متنازع الفاظ شامل نہیں ہونے دیے ۔پاکستان نے لفظ جموں و کشمیر بھی بیان میں شامل کرایا، بھارت چاہتا تھاجموں و کشمیر کے بجائے لفظ پہلگام شامل ہو، تاکہ یہ تاثر ہو کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت ہڑپ کر چکا ہے ۔پہلگام لفظ شامل کرنے میں ناکامی کے ساتھ بھارت فوری اظہار مذمت بھی نہیں کرا سکا، پہلگام میں حملہ 22؍اپریل کو ہوا تھا، مذمتی بیان 4دن بعد 26؍اپریل کو جاری ہوا۔ یو این اہلکار کا کہنا تھا اقوام متحدہ خطے کی صورتِ حال پر انتہائی تشویش کے ساتھ نظر رکھے ہوئے ہے ، بھارت اور پاکستان صورتِ حال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں’’۔
اگر چہ اس قسم کی سلامتی کونسل کی مشقوں کو اب بہت سے ممالک عملاً پرِکاہ اہمیت نہیں دیتے ، مگر علامتی طور پر ا س کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے قراردادیں تاریخ کا رزق بن چکی ہیں۔ حالیہ دنوں میں فلسطین میں جاری مسلمانوں کی نسل کشی پر اقوام متحدہ کی کوئی بھی کوشش موثر ثابت نہیں ہوسکی۔ اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے ملازمین اسرائیل بے رحمی سے نشانہ بنا رہا ہے تاکہ وہ کسی بھی سطح کی ‘‘مدد’’ مظلوم فلسطینیوں کی نہ کر سکیں۔ مگر اقوام متحدہ کی مذمتیں، قراردادیں اور اپیلیں اپنا کوئی جادو جگا نہیں سکیں۔ تاہم پاکستان اور بھارت کے باب میں کچھ پہلو مختلف بھی ہیں۔ جس میں اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل کی سطح پر بھارت کی کوئی بھی ناکامی ایک مخصوص قسم کی فضا پیدا کرتی ہے۔ بھارت ایک طویل عرصے سے عالمی سطح پر اپنے کردار کو منوانے کے جنون میں مبتلاہو چکا ہے۔ بھارت اور اسرائیل میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ جس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسرائیل اور بھارت دونوں ہی اپنے اپنے خطے میں چودھراہٹ چاہتے ہیں جس میں ہر ملک اُن کے پاؤں کے نیچے ہو۔ چنانچہ بھارت علاقائی سطح پر اپنی مکمل بالادستی کے ساتھ عالمی سطح پر خود کو اُبھارنا بھی چاہتا ہے۔ بھارت ایک بڑی منڈی ، بڑی آبادی کے باعث ترقی یافتہ مسلم ممالک کو بھی پاکستان کے ساتھ روایتی تعلق سے نکال کر اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ یواے ای میں ایک بڑے بُت خانے کی تعمیر سے لے کر سعودی عرب سے معاشی تعلقات کی پائیداری تک مودی سرکار ایک بڑے کردار کی جستجو میں ہے۔ مگر حالیہ دنوں میں کینیڈا کے ساتھ تعلقات کی سرد مہری اور بھارت کے ریاستی سطح پر قتل وغارت گری میں ملوث ہونے کے ثابت شدہ حقائق کے بعد بھارت سے‘‘ احتیاط’’ کی ایک روش مغربی ممالک میں بھی دکھائی دیتی ہے۔اس تناظر میں سلامتی کونسل کے بیان میں لازمی احتیاط کے جو تقاضے ملحوظ خاطر رکھے گئے ہیں، وہ اسی عالمی فضا میں بھارت کے سمٹتے سایوں کی عکاسی کر رہے ہیں۔
درحقیقت بھارت کے مکروہ کردار کودنیا اب سمجھ رہی ہے، چنانچہ بھارت میں مختلف واقعات کو کینیڈا میں سکھ رہنماؤں کو قتل کرنے کی سازشوں میں سرکاری طور پر بھارت کے ملوث ہونے کے باعث سمجھنے میں آسانی پیدا ہوئی ہے اوربھارت میں دہشت گردی کے مختلف واقعات کو ‘‘فالس فلیگ آپریشن’’کے طور پر سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی میڈیا نے پہلگام واقعے کو‘‘ فالس فلیگ آپریشن ’’ کے اسی خدشے کے پیش نظر زیادہ اہمیت نہیں دی۔ بھارت کے اندر مختلف دہشت گردی کے واقعات جس طرح ایک قطار میں رفتہ رفتہ بھارتی ریاست کی ‘‘اندرونی کارستانیوں’’کے طور پر سامنے آتے رہے ہیں۔ اس کے باعث ماضی کی بہ نسبت بین الاقوامی میڈیا نے پہلگام واقعہ کو کوئی کوریج نہیں کی، یورپی، امریکی اور دیگر ممالک کے میڈیا نے اسے محض ایک‘‘ خبر’’ کے طور پر لیااور اس کی سنسنی خیزی کو بھارت کے حق میں فضا پیدا کرنے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی بے اعتنائی نے بھارتی شہریوں اور ابلاغی نمائندوں کو ہیجان میں مبتلا کر دیا، برکھا دت کے مطابق بین الاقوامی میڈیا کی جانب سے پہلگام واقعہ کی نامناسب کوریج پر وہ صدمے سے دوچار ہیں۔ ماضی کے واقعات جن کا الزام پاکستان پر لگایا گیا کے شواہد اب تک سامنے نہیں آئے ، دنیا بھارت کے اس مکروہ اور فریبی چہرے کو پہچان چکی ہے ۔سال 2000 میں چٹی سنگھ پورہ قتل عام کے بعد ابتدا میں لشکرِ طیبہ پر الزام لگایا گیا، بعد میں بھارتی آرمی کے جنرل کے ایس گل نے اپنی فوج کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔افضل گورو کی پھانسی کے بعد بھارتی عدالت نے اعتراف کیا کہ ثبوت ناکافی تھے ، 2001 میں پارلیمنٹ پر حملہ کر کے بھارت نے پاکستان پر الزام دھر کر 800 فوجیوں کو قربان کروا دیا، پارلیمنٹ پر اس حملے کی بھی تاحال کوئی رپورٹ سامنے نہیں آسکی۔2007میں سمجھوتہ ایکسپریس حملے میں بھارت نے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر الزام لگایا، یہ بات سامنے آئی کہ سمجھوتہ ایکسپریس حملے کا اصل مجرم آر ایس ایس اور ابھینو بھارت کا نکلا، شواہد سے ثابت ہوا کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں میں بھارتی فوجی افسران اور انتہاپسند تنظیمیں ملوث تھیں۔2017میں پٹھان کوٹ حملے کے بعد بھارتی وزیر دفاع کا جھوٹ بے نقاب ہو گیا، سابق این آئی اے افسر ستیش ورما نے انکشاف کیا کہ پٹھان کوٹ حملے کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔مودی سرکارکی یہ سازشی سیاست آہستہ آہستہ دنیا پر آشکار ہور رہی ہے۔ چنانچہ پہلگام کے مشکوک واقعے پر بھارت عالمی ذرائع ابلاغ سے لے کر عالمی اداروں تک کہیں پر بھی اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہورہا۔
دلچسپ طور پر بھارت کو موجودہ عالمی فضااس لیے بھی سازگار نہیں ہے کہ پہلے ہی دنیا مختلف قسم کی جنگوں میں الجھی ہوئی ہے۔ امریکی کردار ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں اپنی کینچلی تبدیل کر رہا ہے۔ روس یوکرین جنگ امریکا کو بیزار کر رہی ہے۔ جس کے باعث یورپ پہلے ہی سراسیمہ ہے۔ امریکا نے یوکرین جنگ سے جس طرح ہاتھ کھینچا ہے اُس نے یورپی ممالک کو نئے قسم کے خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ برطانیہ میں غور وفکر کے نئے دور شروع ہو چکے ہیں۔ اسی دوران اسرائیل کی فلسطین میں نسل کشی کی مہم بھی عالمی اداروں کو بے وقار کرنے کا باعث بنی ہے۔ امریکا کے اندر بھی عوامی سطح سے لے کر مختلف اداروں کی شکل میں امریکی کردار پہلے سے زیادہ نفرت آمیز طور پر زیربحث ہے۔ اس سب نے مجموعی طور پر ایک ایسی فضا بنادی ہے کہ بھارت کے لیے اس میں کوئی رعایتی منطقہ باقی نہیں رہا۔ چنانچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پہلگام کے مسئلے پر ایک سوال کے جواب میں یہ کہا گیا کہ وہاں پندرہ سو سال یہ لڑائی ہو رہی ہے ۔ا گر اس کو ٹرمپ کی تاریخ سے نابلد ہونے کے ایک مہم کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ مگر دراصل یہ احمقانہ بیان بھی اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ امریکا اور امریکی صدر بھی پہلگام واقعے کو ان معنوں میں لے رہے ہیں کہ یہاں تنازعات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ گویا یہ پہلو بھی بھارت کو یکطرفہ طور پر پاکستان کے خلاف کردار میں آزاد چھوڑنے میں معاون نہیں ہورہا۔ اور اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ دنیا یہ سمجھ چکی ہے کہ بھارتی ایجنسیاں کس طرح خود دہشت گردی کر کے الزام پاکستان پر دھر تی رہتی ہے۔
ہمارے نزدیک یہ سنہری موقع ہے کہ بھارت کے خلاف دنیا کو ثبوتوں کے ساتھ یہ باور کرایا جائے کہ وہ کس طرح دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلا کر اس کا پروپیگنڈا بھی کر رہا ہے۔ اس موقع پر بھارتی فالس فلیگ آپریشن کی پوری تاریخ کو شہادتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو ماضی کے ایسے تمام واقعات یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ جب بھارت نے پاکستان پر الزامات لگائے اور بعد میں یہ بھارت کی‘‘ اندرونی کارستانیوں’’ کے طور پر بے نقاب ہوئے۔ عالمی سطح پر اس سازگار فضاء کو استعمال کرنے کے لیے پاکستان کو عوامی اعتبار کی حامل سیاسی اعتبار سے ایک مضبوط اور پائیدار حکومت کی ضرورت ہے۔ جسے شہری شعور اور تمدنی وفور سے چلایا جاسکے۔ اور پاکستان کے اندر ایک ایسے مستقل اور منظم فہم کے ساتھ بروئے کار آیا جاسکے جس میں ہاتھ ، ہاتھ کا کام اور دماغ ،دماغ کا کام کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔