Daily Ausaf:
2025-06-15@06:40:47 GMT

ہر کمال کو زوال ہے

اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
جب اللہ رب العزت نے اقتدار میاں نواز شریف کے نصیب میں لکھا تو وہ بھی بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں انہیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب ان کی کرسی مضبوط ہوگئی ہے اور اسے کوئی ہلا نہیں سکتا تو انہوں نے بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کوشش کی تو ان کے ہاتھ بھی جل گئے اور حکمرانی کا تخت ان کے نیچے سے سرک گیا۔ اس کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کو اقتدار نصیب ہوا جب تک وہ قانون اور آئین کی پاسداری کرتی رہیں حکومت کرتی رہیں لیکن جیسے ہی انہیں یہ گمان ہوا کہ ان کی کرسی اور ان کا اقتدار مضبوط ہوگیا ہے اور جب انہوں نے خود کو قانون سے ماورا جانا تب ان کا تختہ بھی الٹ دیا گیا۔ ایک بار پھر سے میاں نواز شریف کی لاٹری لگ گئی اور اقتدار انہیں نصیب ہوا پر انہوں نے اس سارے عرصے میں اپنی بے تختی اور بے توقیری قیدی سے کچھ بھی سبق حاصل نہیں کیا تھا۔ اب ان میں اپنے سر پرست ضیاء الحق کی خود سری اور خود مختاری کی خوبو خوب بس چکی تھی۔ انہوں نے اب زیادہ کھل کر اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہی خود کو ماورائے قانون سمجھ لیا تھا اور جو جی میں آیا، جیسا چاہا کرنا شروع کردیا تھا۔ قانون کو تو ہر حکمران اپنے ’’گھر کی لونڈی‘‘ سمجھتا رہا ہے کیونکہ وہ خود قانون ساز ادارے کا رکن ہونے کے باعث سمجھتا ہے کہ قانون کا کیا ہے یہ تو ہم نے خود ہی بنایا ہے پھر اس سے جیسا چاہے کھیلیں ہمیں روکنے والا کون ہوگا اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس قانون کا اطلاق صرف عوام پر ہوتا ہے۔ حکمرانوں، سیاست دانوں، قانون سازوں اور اشرافیہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا البتہ حکمرانوں اور ان کی رسی پکڑ کر چلانے والوں کی منشا پر حکومت مخالفین پر جیسا چاہے ویسا استعمال ہوتا نظر آتا ہے۔
دوسری بار بھی میاں نواز شریف کو قانون سے کھیلنے اور خود کو ماورائے قانون سمجھنے کی سزا ملی تھی۔ اب کے انہیں کڑی سزا جلا وطنی کی صورت میں بھی جھیلنی پڑی اور ساتھ ہی بد نامی کا داغ بھی سہنا پڑا اور ان کی حماقت یا کم فہمی یا خود کو قانون و آئین سے ماورا سمجھنے کی خوب سزا ملی اور اس کے نتیجے میں ایک بار پھر حکومت پر فوج قابض ہوگی تھی جس کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف اپنی دونوں بغلوں میں دو کتے کے پلے دبائے نمودار ہوئے تھے۔ ان کا پورا دور حکومت ان ہی لوگوں کے عیش کا دور رہا تھا۔ جنہوں نے ان سے ان کے کتے کے پلوں کی طرح وفا داری نبھائی اور پھر جب انہوں نے بھی خود کو قانون سے ماورا جانا اور خود ہی قانون بن گئے تب جو انہوں نے کیا وہی درست مانا جانے لگا تھا۔ قانون ساز ادارے تو ادارے خود قانون اور عدل کرنے والے اداروں کو وہ اپنی انگلیوں پر نچاتے نظر آنے لگے تھے لیکن کب تک پھر ان کے کمال کو بھی زوال نے جکڑ لیا اور ان کے مشیروں کی حماقت انگیز مشوروں پر اور خود کو قانون سے ماورا سمجھنے پر قانون سے براہ راست ٹکر لیتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان پر اپنا مکروہ ہاتھ ڈالا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ صاحب اقتدار و اختیار ہوتے ہوئے اللہ رب العزت نے کس طرح انہیں بے بس و مجبور کردیا تھا۔ اقتدار چھوڑنے پر ان کے چہرے پر جو سیاہی ملی گئی اور جو بدنامی و بے عزتی انہیں نصیب ہوئی تھی وہ کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی تھی۔ موجودہ حکمرانوں نے پہلے پی ڈی ایم کے تحت سولہ ماہ اقتدار پر حکمرانی کی اور اب تقریباً ایک سال اور چندہ ماہ کی مدت بھی جیسے تیسے گزاری ہے لیکن اس مدت اقتدار نے انہیں بھی اس غلط فہمی میں مبتلا کر رکھا ہے کہ ان کی کرسی اور ان کا اقتدار مضبوط تر ہے۔ انہیں کوئی کسی طرح ہٹا نہیں سکتا۔ قانون کی کیا اہمیت ہے۔ قانون ساز ادارہ تو ہمارا اپنا ہے جب چاہیں جو چاہیں قانون بنایا جاسکتا ہے۔ حکمران وقت کے حواریوں مشیروں نے ان کے دائیں بائیں موجود خوشامدیوں کے ساتھ ساتھ ان کو لانے والوں نے بھی ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دی ہیں اور انہیں سب اچھا ہے، سب قابو میں ہیں کی نوید در نوید سنا رہے ہیں۔
یہاں ہمیں ایک قصہ یاد آرہا ہے ’’جب ایک اندھے حافظ جی کو ان کے ایک معتقد نے رات کو کھانے پر بلایا تو وہ اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لے گئے کھانا کھا کر جب واپس لوٹنے لگے تو راستے میں ایک گہری کھائی آئی اور جب حافظ جی اس کھائی کے قریب پہنچے تو شاگرد نے انہیں اطلاع دی ’’حافظ جی کھائی‘‘ حافظ جی جو بے چارے نا بینا تھے بولے ’’ہاں بیٹا خوب کھائی‘‘ لڑکا بار بار کہتا رہا لیکن حافظ جی شاگرد سے یہی کہتے رہے کہ خوب کھائی اور یہی کہتے ہوئے وہ کھائی میں گر گئے۔ ایسا ہی معلوم ہورہا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے کمال کے زوال کا وقت شروع ہو رہا ہے۔ ان کی بلندی پستی میں بدلنے والی ہے، یہ بھی وہی حماقت اور نادانی کر رہے ہیں جو ان کے پیش رو حکمران کرچکے ہیں۔ قانون سے آنکھ مچولی کھیلتے کھیلتے اب یہ قانون گھر کی لونڈی سمجھنے لگے ہیں۔ عدالت عظمیٰ سے اپنے من مانے احکام کی تعمیل کرائی جا رہی ہے۔ اپنے حمایتی منصف کو نوازا جارہے اور ان کی مخالفت کرنے والوں کی سرتابی کی جارہی ہے ان کے لیے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں، ان کو جائز کام بھی نہیں کرنے دیا جارہا اور اگر کوئی منہ زوری کرتا نظر آرہا ہے تو حکمرانوں نے اس حکم سے سرتابی کرتے ہوئے ان کی ہی چھٹی کردی۔ اس کے ساتھ ہی موجودہ حکمرانوں نے ہر قسم کی آزادی رائے کے حق سے عوام کے ساتھ ساتھ ابلاغ عامہ، نشر و اشاعت اور سماجی و معاشرتی ابلاغ کو اپنے قابو میں رکھنے کے لیے ایک سیاہ قانون ’’پیکا‘‘ کے نام سے نفاذ کردیا ہے جس کے تحت حکمران اور ان کے حمایتی یا ان کے سرپرست بھرپور فائدہ اٹھاتے نظر آرہے ہیں اور اب ہر طرف اس ’’پیکا‘‘ کے تحت آزادی کے ساتھ بولنے والی ’’چپ کی بکل مار‘‘ کر بیٹھے نظر آرہے ہیں کیونکہ سب کو اپنی ’’عزت پیاری ہوتی ہے‘‘ اور ہر قسم کی ناگہانی مصیبت و صحبت سے بچ رہے ہیں۔
دیکھتے ہیں ابھی اور کیا کیا کچھ دیکھنے کو ملے گا ان ہاتھ پیر بندھے حکمرانوں سے۔ ہم تو بس دعائے خیر ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ رب العزت اپنا خاص فضل و کرم فرمائیں اور ملک و قوم پر خیر فرمائیں، ملک و قوم کی حفاظت فرمائیں آمین۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ملک و قوم کو یہ ’’آسمان مزید کیا کیا رنگ دکھاتا ہے۔‘‘

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: خود کو قانون کو قانون سے انہوں نے سے ماورا رہے ہیں کے ساتھ اور خود حافظ جی رہا ہے اور ان

پڑھیں:

سچن نا کوہلی! شبمن ‘پرنس’۔۔۔ بھارتی اپنے کپتان پر آگ بگولہ

دورہ انگلینڈ کے آغاز سے چند روز قبل ہی بھارتی ٹیم کے نو منتخب کپتان شبمن گل کے بیٹ اسٹیکر پر نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔

بھارت کے نئے ٹیسٹ کپتان شبمن گل نے دورہ انگلینڈ سے قبل اپنے بیٹ پر “پرنس” کا اسٹیکر لگوا کر سوشل میڈیا پر نئی بحث چھیڑ دی ہے، جس پر بھارتی مداحوں نے اپنے ہی کپتان کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ معروف کمپنی کی جانب سے بنائے گئے بیٹ پر “پرنس” لکھا ہوا ہے، کرکٹر کے مداح انہیں اسی نام سے پکارتے ہیں۔

بھارتی کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں جیسے سچن ٹنڈولکر اور ویرات کوہلی کے بیٹس پر صرف “Genius” لکھا جاتا تھا جبکہ انہیں دنیا بھر میں ناقابل فراموش اننگز کے باعث گاڈ اور کنگ کے القاب سے یاد رکھا جاتا ہے۔

بھارتیوں نے اپنے کپتان پر تنقید کے نشتر چلاتے ہوئے کہا کہ شبمن گل خود پسندی کا شکار ہوچکے ہیں، انکے کوئی ایسے کارنامے نہیں، جس پر انہیں پرنس کا لقب مل سکے۔

صارفین کے تبصرے:

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں 68 فیصد بیماریاں آلودہ پانی کی وجہ سے ہیں، مصطفیٰ کمال
  • ایرانی فوج کے نئے چیف آف سٹاف جنرل عبد الرحیم موسوی کون ہیں؟
  • سچن نا کوہلی! شبمن 'پرنس'۔۔۔ بھارتی اپنے کپتان پر آگ بگولہ
  • سچن نا کوہلی! شبمن ‘پرنس’۔۔۔ بھارتی اپنے کپتان پر آگ بگولہ
  • بھارت میں بڑھتے حادثات نے مودی کے 11 سالہ دورِ اقتدار کا پول کھول دیا
  • پاکستان کو 2025ء کے پروگرام میں منتخب کیا گیا ہے، مصطفی کمال
  • عمران خان کا کرشمہ یا شعور کا زوال؟
  • جھوٹ بولنے پر نوبل انعام دیا جائے تو پہلے دعویدار نریندر مودی ہونگے، سنجے راؤت
  • باعثِ فخر ہے کہ پاکستان کو 2025 کے اس پروگرام میں منتخب کیا گیا ہے مصطفی کمال
  • پاکستان میں اگلے سال بچوں کے کینسر کی مفت ادویات کی فراہمی کے لیے منتخب کیا جانا ایک اہم سنگِ میل ہے،وفاقی وزیر سید مصطفیٰ کمال