ماضی کی مقبول ترین ہیروئن ممتاز نے ایک انٹرویو میں اپنے ساتھی اداکاروں کے بارے میں دلچسپ انکشافات کیے اور کئی رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔

بالی ووڈ کے لیجنڈری اداکار دلیپ کمار اور خوبصورت حسینہ مادھو بالا کے درمیان محبت کے چرچے برسوں سے زبان زد عام رہے ہیں۔

ماضی میں مدھوبالا کی بہن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر بی آر چوپڑا کے خلاف دائر کردہ مقدمہ نہ ہوتا تو شاید دلیپ کمار اور مادھوبالا کی شادی ہو جاتی۔

تاہم اداکارہ ممتاز نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ مدھو بالا نے اس حوالے سے انھیں خود ایسی بات بتائی تھی جو کم ہی لوگوں کو معلوم ہے۔

سینئر اداکارہ ممتاز نے کہا کہ دلیپ کمار نے مدھوبالا سے رشتہ اس لیے ختم کیا کیونکہ وہ دل کی بیماری کی وجہ سے کسی بچے کو جنم نہیں دے سکتی تھیں۔

اداکارہ ممتاز نے مزید کہا کہ مدھو بالا اگر ماں بننے کی کوشش کرتیں تو ان کی جان جا سکتی تھی اور یہ بات دلیپ کمار کو بھی معلوم تھی۔ اس لیے مدھو بالا کے ساتھ رشتہ توڑ دیا تھا۔

دلیپ کمار اور مدھوبالا کی جوڑی نے "مغلِ اعظم" جیسی شہرۂ آفاق فلم میں ایک ساتھ کام کیا تھا، اور ان کی کیمسٹری آج بھی یادگار مانی جاتی ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اداکارہ ممتاز نے دلیپ کمار

پڑھیں:

بے زبانوں کی اذیت: پاکستان میں جانور بے یارو مددگار کیوں ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 جون 2025ء) بنیادی نگہداشت کی کمی اور عوامی آگاہی کے فقدان نے اس بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ ایسے حالات میں 'شیرو‘ جیسے جانور خاموشی سے اذیت اُٹھاتے ہوئے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

شیرو: تماشے سے تنہائی تک کا سفر

عمر رسیدہ، بینائی اور دانتوں سے محروم ہمالیائی بھورا ریچھ 'شیرو‘ نے اپنی زندگی کے قیمتی سال مختلف سرکسوں اور چڑیا گھروں میں گزارے، جہاں سہولیات کا فقدان اور مالکان کی مبینہ بدسلوکی اس کی موجودہ حالت کی عکاسی کرتی ہے۔

سرکس سے آزادی پانے کے بعد شیرو کو لاہور کے چڑیا گھر منتقل کیا گیا، جہاں سے جنوری 2024 ء میں چڑیا گھر کی تعمیرِ نو کے دوران اسے جلو جنگلیحیات افزائش فارم بھیج دیا گیا۔

(جاری ہے)

نامناسب حالات اور سخت موسم کی وجہ سے شیرو کی صحت خراب ہوگئی، جس کی بگڑتی ہوئی حالت کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے کے بعد حکام نے اسے فوری طور پر مری منتقل کیا۔

مری یا اسلام آباد، فیصلہ ابھی باقی

'شیرو'کے مقدمے میں درخواست گزار التَمش سعید نے ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں ایک درخواست دائر کی،جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ شیرو کو مری سے اسلام آباد منتقل کیا جائے تاکہ اس کی مناسب دیکھ بھال کی جا سکے۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا کہ بھورا ریچھ ایک تنگ اور کنکریٹ سے بنے احاطے میں تنہا ہے، جو اس کے حساس وجود اور بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ ایسی مخلوقات اس طرز کی رہائش کی حق دار ہیں جو ان کی جسمانی اور ذہنی ضروریات کو پورا کرسکے۔ عدالت نے اس پر حکام کو حکم دیا کہ شیرو کو اسلام آباد منتقل کیا جائے، تاہم محکمہ جنگلات کی جانب سے تاحال اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

اسسٹنٹ چیف وائلڈ لائف رینجرز مری، محمد ابرار کے مطابق، شیرو کو بانسرا گلی پارک میں چار کمروں پر مشتمل ایک الگ تھلگ عارضی پناہ گاہ میں منتقل کیا گیا ہے تاکہ اسے پرسکون ماحول فراہم کیا جا سکے۔ محمد ابرار کا یہ بھی کہنا تھا کہ مری میں جانوروں کے لیے مستقل مسکن موجود نہیں، لیکن اس حوالے سے بات چیت جاری ہے تاکہ مستقبل میں ان کے لیے باقاعدہ مستقل مسکن قائم کیا جا سکے۔

شیرو کے اگلے ٹھکانے کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ جانوروں سے متعلق موجودہ قوانین کتنے مؤثر ہیں؟

جانوروں کے حقوق کے وکیل التمش سعید کے مطابق، پاکستان میں جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین تو موجود ہیں، مگر ان پر مؤثر عملدرآمد میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔ پنجاب حکومت نے حال ہی میں پنجاب وائلڈ لائف (تحفظ اور انتظام) ایکٹ 1974 ء میں ترمیم کرتے ہوئے نئی شقیں شامل کی ہیں جو جانوروں پر ظلم کی ۔

ان ترامیم کے تحت جنگلی جانوروں کو مناسب خوراک، دیکھ بھال اور پناہ فراہم نہ کرنا ظلم تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم ملک میں جانوروں سے متعلق قانون کے ماہرین کی کمی، چاہے وہ سرکاری ہو یا نجی شعبہ، ان قوانین کے مؤثر نفاذ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ کمی قانون کی درست تشریح اور جانوروں کے مفادات کے تحفظ کو بھی متاثر کرتی ہے۔

وکیل التمش سعید کے مطابق، اصل مسئلہ جانوروں کے تحفظ سے متعلق قوانین کی مؤثر اور جانوروں کے مفاد میں تشریح نہ ہونا ہے۔

زیادہ تر بدسلوکی کے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اور نہ ہی اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے، جس سے جانوروں کو انصاف نہیں ملتا۔ راولپنڈی ایوب پارک میں کالے ریچھ کی بے چینی

راولپنڈی کے ایوب نیشنل پارک میں سیاح گلفام احمد نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ چڑیا گھر میں موجود کالا ریچھ بے حد بےچین نظر آ رہا تھا۔

وہ کبھی اندر جاتا، کبھی باہر آتا، کبھی پانی میں چھلانگ لگاتا اور فوراً ہی باہر نکل آتا تھا۔ وہ بار بار پانی کے نلکے کی طرف جاتا مگر پانی نہیں پیتا تھا۔ اس اضطراب سے واضح تھا کہ وہ گرمی سے سخت پریشان ہے اور اسے اپنی جسمانی ساخت کے مطابق مخصوص ماحول کی ضرورت ہے،جو یہاں دستیاب نہیں۔ ماہرین کے مطابق جانوروں کی خوراک، صحت اور دیگر ضروریات کو خاص طور پر شدید موسم میں روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کرنا ضروری ہے۔

پاکستان کے چڑیا گھروں کی کہانی

ماہرین کا کہنا ہے کہ شیرو کی کہانی پاکستان کے ہر چڑیا گھر اور جنگلی حیات کے نظام میں موجود سنگین خامیوں کو اجاگر کرتی ہے۔مناسب دیکھ بھال کا فقدان، کمزور قوانین، اور عمر رسیدہ یا زخمی جانوروں کے لیے ریسکیو سینٹرز کا نہ ہونا اور شیرو کی کہانی اس کی واضح مثال ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ عدالت نے ابتدائی حکم میں شیرو کو چکوال منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی، تاہم وہاں سے معلوم ہوا کہ چکوال میں جانوروں کے لیے مناسب انتظامات موجود نہیں اور نہ ہی وہاں کا درجہ حرارت ریچھ کے لیے موزوں ہے۔

اسی بنیاد پر ریچھ کو اسلام آباد کے وائلڈ لائف ریسکیو سینٹر منتقل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ عوامی دباؤ کا کیا کردار ہے؟

سعید کے مطابق، عوامی دباؤ جانوروں کے تحفظ کی کوششوں میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نہ صرف معاشرتی شعور اجاگر کرتا ہے بلکہ قانونی کارروائی کے لیے بھی راہ ہموار کرتا ہے۔ جانوروں پر ہونے والے ظلم کے متعدد واقعات آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہو جاتے ہیں، جو جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کو فوری قانونی کارروائی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہی عوامی دباؤ ریچھ کو بالکاسر ریچھ پناہ گاہ اور اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کی سہولت میں منتقل کرنے کے عدالتی فیصلے میں بھی کارگر ثابت ہوا۔

متعلقہ مضامین

  • دبئی کی بلند و بالا عمارت میں آتشزدگی‘ تحقیقات جاری
  • کم عمری کی شادی کے خلاف بل اور علماء کے ماتھے کے بل
  • بے زبانوں کی اذیت: پاکستان میں جانور بے یارو مددگار کیوں ہیں؟
  • دبئی کی بلند و بالا رہائشی عمارت میں آتشزدگی
  • ایران اسرائیل جنگ بتائے گی پاکستان کیوں زندہ باد
  • اداکارہ ہانیہ عامر کو حج کے دوران پوسٹ کی گئی تصاویر پر شدید تنقید کا سامنا
  • وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارت کے عوام سے دلی ہمدردی اور افسوس کا اظہار کرتا ہوں
  • ایئر انڈیا طیارہ حادثہ میں زندہ بچ جانیوالے مسافر کے اہم انکشافات
  • کسی کو حق نہیں وہ آپکی عمر یا جسامت پر تبصرہ کرے، ثمینہ پیرزادہ
  • سب کو معلوم ہوگیا ہوگا شوہر کے فراڈ کیس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں: اداکارہ نادیہ حسین