Express News:
2025-06-15@10:05:26 GMT

کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ۔۔۔۔۔!

اشاعت کی تاریخ: 1st, May 2025 GMT

پاکستان، جہاں تاریخ میں محنت کشوں نے کبھی اچھے دن دیکھے ہی نہیں ان پر بھی یہاں کا حکم ران طبقہ آئے دن نئے سے نئے حملے کرتا جا رہا ہے۔ 8گھنٹے کے اوقات کار پاکستان میں خواب بنتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر نجی شعبے میں تو محنت کشوں کے لئے کام کے اوقات کار مخصوص ہی نہیں ہیں، ایک تو بارہ بارہ، سولہ سولہ گھنٹے کام کروایا جاتا اور اوورٹائم بھی نہیں دیا جاتا۔

نجی شعبے میں نہ تو روزگار کی کوئی ضمانت دی جاتی ہے بلکہ روزگار سے قبل مزدوروں سے اسٹامپ پیپر پر لکھوایا جاتا ہے کہ مالک جب چاہے نوکری سے برخاست کر سکتا ہے اور آپ اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کریں گے، بہ صورت دیگر انہیں روزگار نہیں دیا جاتا۔ مزدوروں سے متعلق موجود قوانین کی دھجیاں سرعام بکھیری جاتی ہیں لیکن ان فیکٹری مالکان یا سرمایہ داروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ ریاستی ادارے ان سرمایہ داروں کی لونڈی بن چکے ہیں۔

عام محنت کشوں کو کسی قسم کا سماجی تحفظ یا ای او بی آئی کی سہولت تک نہیں دی جاتی۔ ٹھیکے داری کے تحت جن غیرموزوں حالات میں محنت کشوں سے کام لیا جاتا ہے، ان میں محنت کشوں کے لیے کوئی سیفٹی نہیں ہوتی، اور کسی بھی حادثے کی صورت میں سرمایہ دار پر کوئی ذمہ داری عاید نہیں کی جاتی۔ اس کی واضح مثالیں بلدیہ ٹاؤن میں علی انٹرپرائز میں لگنے والی آگ اور گڈانی سانحے میں ہونے والی ہلاکتوں اور اسی طرح کے دیگر ان گنت واقعات کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

سرمایہ داروں کے بے لگام ظلم اور استحصال کے باعث فیکٹریوں میں بوائلر پھٹنے اور دیگر حادثات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس میں مرنے والے اور زخمی ہونے والے محنت کشوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود آج تک کسی سرمایہ دار کو ان جرائم پر سزا نہیں دی گئی۔

علی انٹر پرائز اور گڈانی میں مالکان یا ٹھیکے داروں کے پاس محنت کشوں کا کوئی ریکارڈ تک موجود نہیں تھا، جس کی وجہ سے ان واقعات میں ان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کی درست تعداد کا اندازہ تک نہیں لگایا جا سکتا۔ بہت سے ہلاک ہونے والے محنت کشوں کی تو لاشیں تک پگھل گئی تھیں اور دوردراز کے پس ماندہ ترین علاقوں میں رہنے والے ان کے عزیز و اقارب تک خبر بھی شاید نہیں پہنچی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مملکت خداداد میں سرمایہ داروں کے لیے یہ مزدور کوئلے اور لکڑی کی طرح خام مال بن چکے ہیں۔

مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے قوانین ہونے کے باوجود فیکٹری مالکان ان قوانین کو ماننے سے سرعام انکار کرتے ہیں۔ ان لاغر قوانین کا اطلاق کروانے کے لیے ایک ریاستی ادارہ ’’محکمہ محنت‘‘ بھی موجود ہے یہ ’’محکمۂ تحفظ سرمایہ دار‘‘ بن چکا ہے۔ کسی فیکٹری میں یونین کا مسئلہ ہو، مزدوروں کی اجرتوں کی بندش ہو، جبری برطرفیاں ہوں یا کوئی بھی دیگر معاملہ، یہ ادارہ ان مسائل کا شکار محنت کشوں کو ڈرانے دھمکانے اور کسی اقدام سے گریز کروانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے اور اگر محنت کشوں کا ردعمل شدید ہو تو یہ ادارہ سرمایہ داروں کی دلالی کرتے ہوئے محنت کشوں کو چپ اور ٹھنڈا کرنے میں سرمایہ داروں کو معاونت فراہم کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ ادارہ محنت کشوں کے سامنے بالکل ننگا ہو چکا ہے۔ اس ادارے کے ملازمین ان تمام خدمات کا خاطر خواہ ’’معاوضہ‘‘ بھی وصول کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ مزدوروں کی یونین رجسٹر کروانے سے لے کر معمولی ترین کام کے لیے بھی رشوت لے کر اپنا منہ کالا کرتے ہیں۔

آج کا سرمایہ دارانہ نظام ہے جس کی بنیاد ہی منافع اور شرح منافع ہے۔ اور اس منافع کے حصول کی ہوس میں یہ سرمایہ دار اور حکمران طبقہ محنت کشوں کا خون تک نچوڑ رہا ہے۔ جوں جوں پاکستان کا معاشی بحران بڑھے گا، حکمران طبقے کی پالیسیاں بھی مزید وحشت ناک ہوتی جائیں گی۔ ایسے میں پورے پاکستان کے محنت کشوں کی جڑت وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔

یوم مئی کا پیغام ہے کہ یہ بربادی محنت کش طبقے کا مقدر نہیں ہے۔ اس نظام کے جبر سے نجات اس کے خلاف لڑائی اور بغاوت سے ہی ممکن ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ محنت کشوں نے تمام حاصلات لڑکر ہی جیتی ہیں، مصلحت اور دعاؤں سے خیرات ملتی ہے حق نہیں۔ آج اس خیرات کی گنجائش بھی اس نظام میں نہیں ہے۔ حق چھیننا پڑتا ہے، وحشت اور اذیت کے اس سماج میں زندہ رہنے کے لیے لڑنا پڑتا ہے۔

اس کرہ ارض پر انسانوں کی تمام ضروریات کے تمام وسائل موجود ہیں، مسئلہ ان کی ملکیت کا ہے، یہ وسائل ہمارے ہیں مگر ان پر قبضہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سامراجی اداروں کا ہے۔

ہمیں ان سے یہ سب کچھ واپس چھیننا ہے، ہم نسل انسان کے مستقبل کو بچانے کی جنگ لڑرہے ہیں، ہمیں مل کر لڑنا ہے اور جیتنا بھی ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف خواب نہیں ہے بلکہ عملی طور پر عین ممکن ہے۔ تمام تر وحشت اور جبر کے باوجود حکمران آج جتنے کمزور اور بے بس ہیں، اتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ تاریخ کا فریضہ ہے کہ طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر سرمایہ داری کا طوق گلے سے اتار کر ایک غیرمتعصب سماجی انقلاب برپا کیا جائے تاکہ استحصال سے پاک سماج کی طرف سفر شروع کیا جاسکے۔ یہی یوم مئی اور شکاگو کے مزدوروں کا پیغام ہے۔

تُو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈُوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

دنیا ہے تری منتظر اے روزِ مکافات

۔۔۔

سفارشات

اقوام متحدہ کے کاروبار اور انسانی حقوق کے راہ نما اصولوں، مالکان اور ان کمپنیوں (جو مال خریدتی ہیں) کی بھی ذمے داری ہے کہ فیکٹریوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکیں اور ایسی خلاف ورزیاں ہونے کی صورت میں ان کی اصلاح کریں۔ تمام کاروباری اداروں کو اپنے حجم اور اس بات کے کہ وہ کہاں واقع ہیں کے قطع نظر انسانی حقوق کے مخالف کسی کارروائی میں نہ تو شریک ہونا چاہیے نہ ہی اس میں معاون ہونا چاہیے اور ایسی خلاف ورزیاں وقو ع پذیر ہونے کی صورت میں ان کی تلافی کرنی چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کو روکیں اور ان کے اثر کو کم کریں خاص طور پر جب ان کا تعلق ان کے کام کرنے۔ پیداوار یا کاروباری تعلقات کے ساتھ ہو، چاہے وہ اس میں کسی طور پر معاون بھی نہ رہے ہوں۔

بہت سی ملکی اور بین الاقوامی کمپنیاں جو پاکستان میں کاروباری سر گرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہی ہیں۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو متعلقہ لیبر قوانین پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ بین الاقوامی معیار کے مطابق ہوں۔ پاکستان انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2012 اور صوبائی قوانین بین الاقوامی لیبر تنظیم (آئی ایل او) بہ شمول کنونشن نمبر 87 برائے آزادی انجمن سازی۔ کنونشن نمبر 98 حقوق برائے اجتماعی سودا کاری و تنظیم جن کی پاکستان نے توثیق کی ہوئی ہے کہ معیار پر پورے نہیں اترتے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ مزدوروں کی شکایات بابت بدسلوکی ، مارپیٹ، دھمکیاں، ہتک آمیز رویوں کے بارے میں موثر اور غیرجانب دار تفتیش کروائے اور ذمہ داران کے خلاف مقدمات چلائے۔

پاکستان کی صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ لیبر انسپکٹروں کی تعداد میں اضافہ کرے ان کی تربیت کو بہتر بنائے اور آزاد اور معتبر معائنہ کے نظام کو قائم کرے اور اپنے وسائل کے مطابق موثر معائنوں کی تعداد میں اضافہ کرے۔

ملکی اور بین الاقوامی کمپنیاں جو پاکستان میں مال تیار کرواتی ہیں کو بھی چاہیے کہ وہ مال فراہم کرنے والی فیکٹریوں کی فہرست کو عام لوگوں کے علم میں لائے۔ اس سلسلے میں انہیں چاہیے کہ وہ اکٹھے ہو کے قدم اٹھائیں اور مزدوروں کی شکایات کے ازالہ کے لیے اقدامات اٹھائیں اور ایک ایسا نظام مرتب کریں جس میں مزدوروں کو انجمن سازی کی آزادی ہو۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی سرمایہ داروں کی صورت میں سرمایہ دار مزدوروں کی کے خلاف حقوق کے کے لیے رہا ہے اور اس

پڑھیں:

ایران اسرائیل جنگ بتائے گی پاکستان کیوں زندہ باد

اسرائیل کا ایران پر حملہ غیر متوقع نہیں تھا۔ اسرائیل کی اعلانیہ پالیسی تھی کہ جب بھی ایران ایک خاص حد سے آگے اپنا نیوکلیئر پروگرام لے جائے گا تب اسرائیل اس پر اسٹرائک کرے گا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس نے جب یہ رپورٹ کیا کہ ایرانی پروگرام ریڈ لائین سے آگے چلا گیا ہے تو اس کے بعد حملہ ہونا دنوں کی بات تھی۔ حملے کے نتیجے میں اسرائیلی مسلح افواج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری اور ایرانی پاسدران انقلاب سربراہ میجر جنرل حسین سلامی سمیت 6 جوہری سائنسدان بھی نشانہ بنے ہیں۔

درجنوں اسرائیلی طیاروں نے اس حملے میں حصہ لیا۔ یہ شام اور عراق کے راستے ایران پر حملہ آور ہوئے۔ دنیا نے اس حملے کی مذمت شروع کردی ہے۔ امریکا نے کہا ہے کہ ہم اسرائیل کے اس حملے میں شامل نہیں ہیں۔ اگر ایران نے جوابی کارروائی کی تو ہم اس حملے کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کریں گے۔ اسرائیل کا میزائل ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم میزائل حملوں کو روکنے کے لیے خاصا موثر ہے۔

یہاں رک کر ہمیں دیکھنا اور سوچنا چاہیے کہ ایران پر حملوں کی نوبت آئی کیسے۔ 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملوں کا نتیجہ یہ نکلا کے حماس کی ساری ٹاپ قیادت ماری گئی۔ لبنان میں حزب اللہ کی قیادت بھی نشانہ بنی۔ شام میں ایران کی حمایتی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے ساتھ ایران کے پاکستان پر اسٹرائک اور پاکستانی جواب کو بھی جوڑ کر دیکھ لیں۔ ایران جو اپنی پراکسیوں کے ذریعے سب کو آگے لگائے پھر رہا تھا۔ اس کے باوجود ایران مخالف بلکہ دشمن بھی اس کے خلاف براہراست لڑائی سے گریز کر رہے تھے۔

پاکستان ایران کے خلاف کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنے گا، یہ ہماری طے شدہ پالیسی ہے۔ ہم برادر مسلمان ملکوں کے آپسی تنازعات سے دُور رہتے ہیں تو اس کے بعد سوال بنتا ہے کہ اگر ایسی بات ہے تو افغانستان میں کیوں کود جاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت ہم ادھر کھڑے ہوتے ہیں جدھر دنیا کھڑی ہوتی ہے۔

اگر مرشد کے الفاظ سے مدد لی جائے تو اسرائیلی پاکستان کو پاکستانیوں سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ ہم سے کبھی کوئی ڈائریکٹ ان ڈائریکٹ پنگا نہیں لیں گے۔ انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ جتھے رولا ہوسی اوتھے ڈھولا ہوسی۔ جہاں مامتا وہاں ڈالڈا جدھر کوئی پنگا ہوگا ادھر ہمارا کچھ چنگا ہی ہوگا۔ اگر آپ کو پنگا اور چنگا والی بات سمجھ نہیں آئی تو سرینڈر مودی جی کو دھیان میں لائیں اور دل میں ہی پوچھیں کہ مہاراج ہنڑ آرام اے؟

امریکی فوج کی 250 سالہ تقریبات 14 جون کو ہونی ہیں۔ اسی دن ڈونلڈ ٹرمپ کی سالگرہ بھی ہے۔ ان تقریبات میں صرف ایک مہمان خصوصی بلائے گئے ہیں، بھلا کون؟ فیلڈ مارشل عاصم منیر۔ پاکستان نے انڈیا کو جو چپیڑیں کرائی ہیں اس سے پہلے ہی ٹرمپ ہماری بلائیں لے رہا ہے۔ ہر ہفتے کشمیر پر ثالثی کرانا اور پاک بھارت جنگ بندی کا کریڈٹ لینا نہیں بھولتا۔

یہ جو کام شروع ہوگیا ہے، اس میں قطار وہاں لگے گی جہاں ہم کھڑے ہوں گے۔ ہمارا جواب یہی ہوگا کہ ہم مصروف ہیں، لڑائیوں جنگوں سے پک چکے ہیں۔ پاکستان میں موجود شدت پسندوں دہشتگردوں کا شافی علاج کرنے پر یکسو ہیں۔ حکومت ترقیاتی کاموں پر کٹ لگا کر 20 فیصد دفاعی بجٹ بڑھا چکی ہے۔ اب دہشتگردی اور رنگ برنگ مسلح گروپوں کا علاج ہوگا۔

ازبکستان سے ریلوے ٹریک خرلاچی کرم ایجنسی سے پاکستان آنا ہے۔ ریکوڈک سے ریلوے ٹریک کراچی گوادر جانا ہے۔ ہمارے پاس ٹائم ہی نہیں ہے کہ کسی اور طرف دیکھیں۔ پاکستان 4 دہائیوں سے مسلسل جنگ کا عملی تجربہ رکھنے اور اس کے نتائج بھگتنے والا ملک ہے۔ اب ہماری بس ہے اور مودی کی بھی ہم نے بس کرا دی ہے۔ جس کا جنگ کو جتنا دل کرتا کرلے اپنا شوق پورا کرے۔

سر جی نے جب پاکستان ہمیشہ زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا تو آپ کیا سمجھے تھے؟ اس کا مطلب تھا اب ہم کسی لڑائی کا حصہ نہیں بنیں گے، ترقی پر فوکس کریں گے پڑھ لکھ کر بڑا انسان (ملک) بنیں گے، خوشیوں میں اپنا حصہ بڑھائیں گے۔ آپ کچھ اور سمجھے تھے تو غلط سمجھے تھے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایف سی کا ریکوڈک منصوبے کے لیے 400 ملین ڈالر کی مالی معاونت کا اعلان
  • ملالہ یوسفزئی کا وفاقی تعلیمی بجٹ میں 44 فیصد کمی پر اظہار تشویش 
  • پاکستان خطے میں امن کا خواہاں ہے، جنگ مسائل کا حل نہیں، بلاول بھٹو
  • مسلم دنیا پر مربوط جارحیت
  • اسرائیلی حملہ اور دو ریاستی حل
  • کراچی: گڑھے میں گرنے والا محنت کش دم گھٹ کر جاں بحق
  • ⁠⁠⁠⁠⁠⁠⁠جب چینی مارکیٹ کی بات آتی ہے، تو غیر ملکی سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ “انہیں اس بس میں سوار ہونا ہے”
  • ایران اسرائیل جنگ بتائے گی پاکستان کیوں زندہ باد
  • ایران ، اسرائیل کشیدگی: ایشیائی اسٹاک مارکیٹس میں مندی، سونے کی قیمت میں اضافہ
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے نیا سنگ میل عبور کیا، انڈیکس 126000 پوائنٹس عبور کرگیا