سندھ میں کم از کم ماہانہ اُجرت 40 ہزار روپے مقرر، نوٹیفکیشن جاری
اشاعت کی تاریخ: 30th, July 2025 GMT
کراچی:
سندھ حکومت نے صوبے بھر کے تمام صنعتی و تجارتی اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے کم از کم ماہانہ اُجرت 40 ہزار روپے مقرر کرنے کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جو یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل ہوگا۔
وزیر محنت سندھ شاہد تھہیم کا کہنا ہے کہ نیم ہنر مند افراد کی ماہانہ اُجرت 41,380 روپے، ہنر مندوں کی اُجرت 49,628 روپے اور اعلیٰ ہنر مند کی اُجرت 51,745 روپے مقرر کی ہے۔
یہ اُجرت تمام رجسٹرڈ و غیر رجسٹرڈ صنعتی و تجارتی اداروں پر یکساں لاگو ہوگی جب کہ مرد و خواتین مزدوروں کو برابری کی بنیاد پر اُجرت دی جائے گی۔ ایسے تمام ادارے جہاں مزدوروں کو فی گھنٹہ اُجرت دی جاتی ہے انہیں کم از کم 192 روپے فی گھنٹہ ادائیگی یقینی بنانا ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت مزدور دوست پالیسیوں پر گامزن ہے اور مزدوروں کی فلاح و بہبود، مناسب اُجرت اور بہتر ماحول کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں۔ کم از کم اُجرت میں اضافے کا مقصد مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنا اور مزدور طبقے کو باعزت زندگی فراہم کرنا ہے۔
محکمہ محنت صنعتکاروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور لیبر قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرایا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
گڑ گاؤں میں بنگالی نژاد مسلم مزدوروں کے خلاف ظلم و ستم جاری ہے، اے پی سی آر
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی ٹیم کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران گڑگاؤں میں 200 سے زائد افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر گڑ گاؤں میں ایک سنگین انسانی بحران نے جنم لے لیا ہے، جہاں حالیہ دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں بنگالی نژاد مسلم مزدور اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان مزدوروں کے خلاف مبینہ طور پر ہریانہ پولیس کی طرف سے غیر قانونی گرفتاری، تحویل میں بدسلوکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشانہ بنانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جس کے بعد ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی ٹیم نے موقع واردات پر پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران گڑگاؤں میں 200 سے زائد افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔ زیادہ تر افراد کا تعلق مغربی بنگال سے ہے اور یہ لوگ دہائیوں سے تعمیرات، گھریلو کام، فیکٹریوں، صفائی، ری سائیکلنگ اور ڈرائیوری جیسے شعبوں میں کام کرکے شہر کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم حالیہ کارروائیوں میں انہیں "غیر قانونی بنگلہ دیشی پناہ گزین" قرار دے کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ ان کے پاس ووٹر آئی ڈی، آدھار کارڈ، راشن کارڈ جیسے قانونی دستاویزات موجود ہیں۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ کریک ڈاؤن سیاسی ایجنڈے کے تحت ایک محنت کش اقلیت کو بے دخل کرنے کی منظم کوشش ہے۔ ایک متاثرہ مزدور نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسے اور 12 دیگر افراد کو شکرپور گاؤں سے بغیر کسی وجہ یا وارنٹ کے اٹھا لیا گیا۔ انہیں مختلف پولیس چوکیوں میں گھمایا گیا اور آخرکار سیکٹر 31 کے ایک کمیونٹی ہال میں رکھا گیا، جو بظاہر ایک خفیہ حراستی مرکز کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اے پی سی آر کے مطابق متاثرہ شخص کا کہنا ہے کہ ہم سے فون لے لئے گئے، کسی کو گھر والوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ ہمیں بتایا تک نہیں گیا کہ ہمیں کیوں اٹھایا گیا۔ بس مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ حراست کے دوران انہیں باسی اور ناقابلِ خوردنی کھانا دیا گیا اور اگر کسی نے سوال کیا یا مدد مانگی، تو اسے مارا پیٹا گیا۔ ایک پولیس اہلکار نے یہاں تک کہہ دیا "تم لوگ روزہ نہیں رکھتے، تمہیں کھانے کی کیا فکر ہے"۔
سماجی تنظیم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم، جس میں ندیم خان، لئیق احمد خان اور وکیل ایم حذیفہ شامل تھے، نے درجنوں متاثرین کی گواہی ریکارڈ کی ہے۔ ان کے مطابق یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ ایک وسیع اور منظم مہم ہے جو مخصوص لسانی و مذہبی گروہ کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ندیم خان نے کہا کہ یہ قانون نافذ کرنا نہیں بلکہ کھلی فرقہ وارانہ پروفائلنگ ہے، لوگ جو دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، انہیں اجنبی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ حذیفہ کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جنہوں نے اس شہر کی تعمیر میں حصہ لیا، آج اسی شہر میں اجنبیوں کی طرح سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن فارپروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) نے اس معاملے میں فوری عدالتی تحقیقات، لاپتہ افراد کی بازیابی، ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی، متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ اور وزارت داخلہ کی پالیسیوں کی شفاف وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔