گڑ گاؤں میں بنگالی نژاد مسلم مزدوروں کے خلاف ظلم و ستم جاری ہے، اے پی سی آر
اشاعت کی تاریخ: 28th, July 2025 GMT
ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس کی ٹیم کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران گڑگاؤں میں 200 سے زائد افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست ہریانہ کے شہر گڑ گاؤں میں ایک سنگین انسانی بحران نے جنم لے لیا ہے، جہاں حالیہ دنوں میں ہزاروں کی تعداد میں بنگالی نژاد مسلم مزدور اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ان مزدوروں کے خلاف مبینہ طور پر ہریانہ پولیس کی طرف سے غیر قانونی گرفتاری، تحویل میں بدسلوکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشانہ بنانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، جس کے بعد ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی ٹیم نے موقع واردات پر پہنچ کر حالات کا جائزہ لیا۔ ٹیم کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران گڑگاؤں میں 200 سے زائد افراد کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا ہے۔ زیادہ تر افراد کا تعلق مغربی بنگال سے ہے اور یہ لوگ دہائیوں سے تعمیرات، گھریلو کام، فیکٹریوں، صفائی، ری سائیکلنگ اور ڈرائیوری جیسے شعبوں میں کام کرکے شہر کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ تاہم حالیہ کارروائیوں میں انہیں "غیر قانونی بنگلہ دیشی پناہ گزین" قرار دے کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، حالانکہ ان کے پاس ووٹر آئی ڈی، آدھار کارڈ، راشن کارڈ جیسے قانونی دستاویزات موجود ہیں۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ کریک ڈاؤن سیاسی ایجنڈے کے تحت ایک محنت کش اقلیت کو بے دخل کرنے کی منظم کوشش ہے۔ ایک متاثرہ مزدور نے اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسے اور 12 دیگر افراد کو شکرپور گاؤں سے بغیر کسی وجہ یا وارنٹ کے اٹھا لیا گیا۔ انہیں مختلف پولیس چوکیوں میں گھمایا گیا اور آخرکار سیکٹر 31 کے ایک کمیونٹی ہال میں رکھا گیا، جو بظاہر ایک خفیہ حراستی مرکز کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ اے پی سی آر کے مطابق متاثرہ شخص کا کہنا ہے کہ ہم سے فون لے لئے گئے، کسی کو گھر والوں سے بات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ ہمیں بتایا تک نہیں گیا کہ ہمیں کیوں اٹھایا گیا۔ بس مسلمان ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ حراست کے دوران انہیں باسی اور ناقابلِ خوردنی کھانا دیا گیا اور اگر کسی نے سوال کیا یا مدد مانگی، تو اسے مارا پیٹا گیا۔ ایک پولیس اہلکار نے یہاں تک کہہ دیا "تم لوگ روزہ نہیں رکھتے، تمہیں کھانے کی کیا فکر ہے"۔
سماجی تنظیم ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی فیکٹ فائنڈنگ ٹیم، جس میں ندیم خان، لئیق احمد خان اور وکیل ایم حذیفہ شامل تھے، نے درجنوں متاثرین کی گواہی ریکارڈ کی ہے۔ ان کے مطابق یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں بلکہ ایک وسیع اور منظم مہم ہے جو مخصوص لسانی و مذہبی گروہ کو نشانہ بنا رہی ہے۔ ندیم خان نے کہا کہ یہ قانون نافذ کرنا نہیں بلکہ کھلی فرقہ وارانہ پروفائلنگ ہے، لوگ جو دہائیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، انہیں اجنبی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ حذیفہ کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جنہوں نے اس شہر کی تعمیر میں حصہ لیا، آج اسی شہر میں اجنبیوں کی طرح سلوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایسوسی ایشن فارپروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) نے اس معاملے میں فوری عدالتی تحقیقات، لاپتہ افراد کی بازیابی، ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی، متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ اور وزارت داخلہ کی پالیسیوں کی شفاف وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ آف سول رائٹس ایسوسی ایشن اے پی سی آر
پڑھیں:
سی ایم پی وِنگ ایل ڈی اے کی جانب سے غیر قانونی سوسائٹیز کیخلاف آپریشن
سٹی42: سی ایم پی وِنگ ایل ڈی اے کا غیر قانونی سوسائٹیز کے خلاف جامع آپریشن جاری، صوئے آصل روڈ پر اس آپریشن کے دوران مختلف غیر قانونی سکیموں کو مسمار کردیا گیا۔
اس کارروائی میں نگرانی ڈائریکٹر میٹروپولیٹن پلاننگ وَن محمد نفیس نے کی۔ پوش ہاؤسنگ سکیم، اربن فارمز ہاؤسنگ سکیم، اور ہیون فارمز ہاؤسنگ سکیم شامل تھیں جن کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نےڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ کو معطل کر دیا
اس کے علاوہ الصفہ ہومز، گلبرگ پارک ہاؤسنگ سکیم، حماد گارڈن اور ایگل ہومز میں بھی غیر قانونی تعمیرات کو ختم کیا گیا۔ مزید برآں، آریئن فلائی اوور کے قریب غیر قانونی لینڈ سب ڈویژن کی بھی نشاندہی کر کے اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔ اذان پارک، مرزا اسٹیٹ لینڈ سب ڈویژن، رائل سٹی اور رانا گارڈن میں بھی غیر قانونی زمین کی تقسیم پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔
ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ غیر قانونی سکیموں کے خلاف یہ ڈیمولیشن آپریشنز مسلسل جاری رہیں گے تاکہ لاہور میں منصوبہ بندی اور زمین کے غیر قانونی استعمال کو روکا جا سکے اور شہریوں کو قانونی اور محفوظ رہائش فراہم کی جا سکے۔ ان آپریشنز کا مقصد شہر کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے والی غیر قانونی سرگرمیوں کو ختم کرنا ہے۔
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ